سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
حدیث نمبر: 2247
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الاعلى، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم ابن صائد في بعض طرق المدينة فاحتبسه، وهو غلام يهودي وله ذؤابة ومعه ابو بكر وعمر، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتشهد اني رسول الله؟ فقال: اتشهد انت اني رسول الله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: آمنت بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، قال له النبي صلى الله عليه وسلم: ما ترى؟ قال: ارى عرشا فوق الماء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ترى عرش إبليس فوق البحر، قال: فما ترى؟ قال: ارى صادقا وكاذبين، او صادقين وكاذبا، قال النبي صلى الله عليه وسلم: لبس عليه فدعاه "، قال: وفي الباب عن عمر، وحسين بن علي، وابن عمر، وابي ذر، وابن مسعود، وجابر، وحفصة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَاحْتَبَسَهُ، وَهُوَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ وَلَهُ ذُؤَابَةٌ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى؟ قَالَ: أَرَى عَرْشًا فَوْقَ الْمَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ فَوْقَ الْبَحْرِ، قَالَ: فَمَا تَرَى؟ قَالَ: أَرَى صَادِقًا وَكَاذِبِينَ، أَوْ صَادِقِينَ وَكَاذِبًا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لُبِسَ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَحَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صائد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملے، آپ نے اسے پکڑ لیا، وہ ایک یہودی لڑکا تھا، اس کے سر پر ایک چوٹی تھی، اس وقت آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟، اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کیا دیکھتے ہو؟ ۱؎ اس نے کہا: پانی کے اوپر ایک عرش دیکھتا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سمندر کے اوپر ابلیس کا عرش دیکھتے ہو، آپ نے فرمایا: اور بھی کچھ دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: ایک سچا اور دو جھوٹے یا دو جھوٹے اور ایک سچے کو دیکھتا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عمر، حسین بن علی، ابن عمر، ابوذر، ابن مسعود، جابر اور حفصہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 19 (2925/87) (تحفة الأشراف: 4329) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے، اور جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، اس میں سے کیا دیکھتے ہو؟۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2248
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يمكث ابو الدجال وامه ثلاثين عاما لا يولد لهما ولد، ثم يولد لهما غلام اعور اضر شيء واقله منفعة، تنام عيناه ولا ينام قلبه "، ثم نعت لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ابويه، فقال: " ابوه طوال ضرب اللحم كان انفه منقار، وامه فرضاخية طويلة اليدين "، فقال ابو بكرة: فسمعنا بمولود في اليهود بالمدينة، فذهبت انا والزبير بن العوام حتى دخلنا على ابويه، فإذا نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهما، فقلنا: هل لكما ولد؟ فقالا: مكثنا ثلاثين عاما لا يولد لنا ولد ثم ولد لنا غلام اعور اضر شيء واقله منفعة، تنام عيناه ولا ينام قلبه، قال: فخرجنا من عندهما، فإذا هو منجدل في الشمس في قطيفة له وله همهمة فكشف عن راسه، فقال: ما قلتما؟ قلنا: وهل سمعت ما قلنا؟ قال: نعم، تنام عيناي ولا ينام قلبي، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَمْكُثُ أَبُو الدَّجَّالِ وَأُمُّهُ ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَهُمَا وَلَدٌ، ثُمَّ يُولَدُ لَهُمَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً، تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ "، ثُمَّ نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ، فَقَالَ: " أَبُوهُ طِوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ كَأَنَّ أَنْفَهُ مِنْقَارٌ، وَأُمُّهُ فِرْضَاخِيَّةٌ طَوِيلَةُ الْيَدَيْنِ "، فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ: فَسَمِعْنَا بِمَوْلُودٍ فِي الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ، فَذَهَبْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبَوَيْهِ، فَإِذَا نَعْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمَا، فَقُلْنَا: هَلْ لَكُمَا وَلَدٌ؟ فَقَالَا: مَكَثْنَا ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَنَا وَلَدٌ ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً، تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ، قَالَ: فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمَا، فَإِذَا هُوَ مُنْجَدِلٌ فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ وَلَهُ هَمْهَمَةٌ فَكَشَّفَ عَنْ رَأْسِهِ، فَقَالَ: مَا قُلْتُمَا؟ قُلْنَا: وَهَلْ سَمِعْتَ مَا قُلْنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے باپ اور ماں تیس سال تک اس حال میں رہیں گے کہ ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدا نہیں ہو گا، پھر ایک کانا لڑکا پیدا ہو گا جس میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہو گا، اس کی آنکھیں سوئیں گی مگر دل نہیں سوئے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس کا باپ دراز قد اور دبلا ہو گا اور اس کی ناک چونچ کی طرح ہو گی، اس کی ماں بھاری بھر کم اور لمبے ہاتھ والی ہو گی، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے مدینہ کے اندر یہود میں ایک ایسے ہی لڑکے کے بارے میں سنا، چنانچہ میں اور زبیر بن عوام چلے یہاں تک کہ اس کے والدین کے پاس گئے تو وہ ویسے ہی تھے، جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا، ہم نے پوچھا: کیا تمہارا کوئی لڑکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں تیس سال تک کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا، پھر ہم سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے، اس کی آنکھیں سوتی ہیں مگر اس کا دل نہیں سوتا، ہم ان کے پاس سے نکلے تو وہ لڑکا دھوپ میں ایک موٹی چادر پر لیٹا تھا اور کچھ گنگنا رہا تھا، پھر اس نے اپنے سر سے کپڑے ہٹایا اور پوچھا: تم دونوں نے کیا کہا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو کہا ہے کیا تم نے اسے سن لیا؟ اس نے کہا: ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں، مگر دل نہیں سوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11688) (ضعیف) (سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5503 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6445) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2248) إسناده ضعيف
علي بن زيد: ضعيف (تقدم:589)
حدیث نمبر: 2249
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بابن صياد في نفر من اصحابه فيهم عمر بن الخطاب، وهو يلعب مع الغلمان عند اطم بني مغالة وهو غلام، فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال: " اتشهد اني رسول الله؟ " فنظر إليه ابن صياد، قال: اشهد انك رسول الاميين، ثم قال ابن صياد للنبي صلى الله عليه وسلم: اتشهد انت اني رسول الله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " آمنت بالله وبرسله "، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: " ما ياتيك؟ " قال ابن صياد: ياتيني صادق وكاذب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " خلط عليك الامر "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني خبات لك خبيئا وخبا له يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10 "، فقال ابن صياد: هو الدخ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اخسا فلن تعدو قدرك "، قال عمر: يا رسول الله، ائذن لي فاضرب عنقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن يك حقا فلن تسلط عليه، وإن لا يكنه فلا خير لك في قتله "، قال عبد الرزاق: يعني الدجال، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ " فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ "، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَأْتِيكَ؟ " قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 "، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَا يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ "، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: يَعْنِي الدَّجَّالَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہا تھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہو سکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیز آتی ہے؟ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اور ایک جھوٹا آتا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر تیرا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اور آپ نے آیت: «يوم تأتي السماء بدخان مبين» ۱؎ چھپا لی، ابن صیاد نے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) «دخ» ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھٹکار ہو تجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں اس کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آ سکتے اور اگر وہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: «حقا» سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 79 (1354)، والجھاد 178 (3055)، والأدب 97 (6618)، صحیح مسلم/الفتن 19 (2930)، سنن ابی داود/ الملاحم 16 (4329) (تحفة الأشراف: 6932)، و مسند احمد (2/148) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
۲؎: بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبر دی گئی ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان دجاجلہ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہو چکا ہے، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھا کر ابن صیاد کو دجال کہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اسے دجال کہا گیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: **
64. باب مِنْهُ
64. باب: یہ پیشین گوئی کہ سو سال کے بعد آج کا کوئی آدمی زندہ نہ بچے گا۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2250
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما على الارض نفس منفوسة، يعني اليوم تاتي عليها مائة سنة "، قال: وفي الباب عن ابن عمر، وابي سعيد، وبريدة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا عَلَى الْأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ، يَعْنِي الْيَوْمَ تَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَبُرَيْدَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج روئے زمین پر جو بھی زندہ ہے سو سال بعد نہیں رہے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابو سعید خدری اور بریدہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر صحیح مسلم/فضائل الصحابة 53 (2538) (تحفة الأشراف: 2331)، و مسند احمد (3/305، 314، 322، 345، 385) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ایک قرن ختم ہو جائے گا اور دوسرا قرن شروع ہو جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2251
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، وابي بكر بن سليمان وهو ابن ابي حثمة، ان عبد الله بن عمر، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة صلاة العشاء في آخر حياته، فلما سلم قام، فقال: " ارايتكم ليلتكم هذه على راس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الارض احد "، قال ابن عمر: فوهل الناس في مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك فيما يتحدثونه من هذه الاحاديث عن مائة سنة، وإنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الارض احد " يريد بذلك ان ينخرم ذلك القرن، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وأبي بَكْرِ بنِ سُلَيمْانَ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ: " أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ "، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَهَلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَهُ مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ " يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، جب آپ سلام پھیر چکے تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تم نے اپنی اس رات کو دیکھا اس وقت جتنے بھی آدمی اس روئے زمین پر ہیں سو سال گزر جانے کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہ سن کر لوگ مغالطے میں پڑ گئے کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کرتے ہیں کہ سو سال کے بعد قیامت آ جائے گی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جو آج باقی ہیں ان میں سے کوئی روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا، یعنی اس نسل اور قرن کے لوگ ختم ہو جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 41 (116)، والمواقیت الصلاة 20 (601)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 53 (2537)، سنن ابی داود/ الملاحم 18 (4348) (تحفة الأشراف: 6934) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
65. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ سَبِّ الرِّيَاحِ
65. باب: ہوا کو گالی دینا منع ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2252
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم بن حبيب بن الشهيد البصري، حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا الاعمش، عن حبيب بن ابي ثابت، عن ذر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى، عن ابيه، عن ابي بن كعب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تسبوا الريح، فإذا رايتم ما تكرهون، فقولوا: اللهم إنا نسالك من خير هذه الريح وخير ما فيها وخير ما امرت به، ونعوذ بك من شر هذه الريح وشر ما فيها وشر ما امرت به "، قال: وفي الباب عن عائشة، وابي هريرة، وعثمان بن ابي العاصي، وانس، وابن عباس، وجابر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسُبُّوا الرِّيحَ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مَا تَكْرَهُونَ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِي، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہوا کو گالی مت دو، اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو یہ دعا پڑھو «اللهم إنا نسألك من خير هذه الريح وخير ما فيها وخير ما أمرت به ونعوذ بك من شر هذه الريح وشر ما فيها وشر ما أمرت به» یعنی اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہوا کی بہتری مانگتے ہیں اور وہ بہتری جو اس میں ہے اور وہ بہتری جس کی یہ مامور ہے، اور تیری پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کی شر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کی یہ مامور ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، عثمان، انس، ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 271 (933، 936) (تحفة الأشراف: 56)، و مسند احمد (5/123) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1518)، الصحيحة (2756)، الروض النضير (1107)، الكلم الطيب (رقم // 154 // عن عائشة)

قال الشيخ زبير على زئي: (2252) إسناده ضعيف
سليمان الأعمش و حبيب بن أبى ثابت عنعنا (تقدما:169،241) وللحديث شاهد ضعيف (تقدم: 1978) وروي النسائي (الكبري:10776، عمل اليوم والليلة: 939) عن شعبة عن حبيب قال: سمعت ذراً عن ابن عبدالرحمن بن أبزي عن أبيه: ”أن الريح هاجت على عهد أبى نحوه“ (موقوف) وسنده صحيح
66. باب مِنْهُ
66. باب: جساسہ کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2253
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا ابي، عن قتادة، عن الشعبي، عن فاطمة بنت قيس، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم صعد المنبر فضحك، فقال: إن تميما الداري حدثني بحديث ففرحت، فاحببت ان احدثكم، حدثني ان " ناسا من اهل فلسطين ركبوا سفينة في البحر فجالت بهم، حتى قذفتهم في جزيرة من جزائر البحر، فإذا هم بدابة لباسة ناشرة شعرها، فقالوا: ما انت؟ قالت: انا الجساسة، قالوا: فاخبرينا، قالت: لا اخبركم ولا استخبركم، ولكن ائتوا اقصى القرية فإن ثم من يخبركم ويستخبركم، فاتينا اقصى القرية فإذا رجل موثق بسلسلة، فقال: اخبروني عن عين زغر، قلنا: ملاى تدفق، قال: اخبروني عن البحيرة، قلنا: ملاى تدفق، قال: اخبروني عن نخل بيسان الذي بين الاردن وفلسطين هل اطعم؟ قلنا: نعم، قال: اخبروني عن النبي هل بعث؟ قلنا: نعم، قال: اخبروني كيف الناس إليه؟ قلنا: سراع، قال: فنزى نزوة حتى كاد، قلنا: فما انت؟ قال: إنه الدجال، وإنه يدخل الامصار كلها إلا طيبة، وطيبة: المدينة "، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح غريب، من حديث قتادة، عن الشعبي، وقد رواه غير واحد، عن الشعبي، عن فاطمة بنت قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَضَحِكَ، فَقَالَ: إِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيّ حَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ فَفَرِحْتُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ، حَدَّثَنِي أَنَّ " نَاسًا مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا سَفِينَةً فِي الْبَحْرِ فَجَالَتْ بِهِمْ، حَتَّى قَذَفَتْهُمْ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَإِذَا هُمْ بِدَابَّةٍ لَبَّاسَةٍ نَاشِرَةٍ شَعْرَهَا، فَقَالُوا: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا: فَأَخْبِرِينَا، قَالَتْ: لَا أُخْبِرُكُمْ وَلَا أَسْتَخْبِرُكُمْ، وَلَكِنْ ائْتُوا أَقْصَى الْقَرْيَةِ فَإِنَّ ثَمَّ مَنْ يُخْبِرُكُمْ وَيَسْتَخْبِرُكُمْ، فَأَتَيْنَا أَقْصَى الْقَرْيَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُوثَقٌ بِسِلْسِلَةٍ، فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ، قُلْنَا: مَلْأَى تَدْفُقُ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنِ الْبُحَيْرَةِ، قُلْنَا: مَلْأَى تَدْفُقُ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ الَّذِي بَيْنَ الْأُرْدُنِّ وَفِلَسْطِينَ هَلْ أَطْعَمَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنِ النَّبِيِّ هَلْ بُعِثَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَخْبِرُونِي كَيْفَ النَّاسُ إِلَيْهِ؟ قُلْنَا: سِرَاعٌ، قَالَ: فَنَزَّى نَزْوَةً حَتَّى كَادَ، قُلْنَا: فَمَا أَنْتَ؟ قَالَ: إِنَّهُ الدَّجَّالُ، وَإِنَّهُ يَدْخُلُ الْأَمْصَارَ كُلَّهَا إِلَّا طَيْبَةَ، وَطَيْبَةُ: الْمَدِينَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، ہنسے پھر فرمایا: تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بےحد خوش ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم سے بھی بیان کروں، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوئے، وہ کشتی (طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتیٰ کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا، اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیز کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، ان لوگوں نے پوچھا: تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ (جاسوسی کرنے والی) ہوں، ان لوگوں نے کہا: ہمیں (اپنے بارے میں) بتاؤ، اس نے کہا: نہ میں تم لوگوں کو کچھ بتاؤں گی اور نہ ہی تم لوگوں سے کچھ پوچھوں گی، البتہ تم لوگ بستی کے آخر میں جاؤ وہاں ایک آدمی ہے، جو تم کو بتائے گا اور تم سے پوچھے گا، چنانچہ ہم لوگ بستی کے آخر میں آئے تو وہاں ایک آدمی زنجیر میں بندھا ہوا تھا اس نے کہا: مجھے زغر (ملک شام کی ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: بھرا ہوا ہے اور چھلک رہا ہے، اس نے کہا: مجھے بیسان کی کھجوروں کے بارے میں بتاؤ جو اردن اور فلسطین کے درمیان ہے، کیا اس میں پھل آیا؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: مجھے نبی (آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں بتاؤ کیا وہ مبعوث ہوئے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: بتاؤ لوگ ان کی طرف کیسے جاتے ہیں؟ ہم نے کہا: تیزی سے، اس نے زور سے چھلانگ لگائی حتیٰ کہ آزاد ہونے کے قریب ہو گیا، ہم نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ وہ دجال ہے اور طیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہو گا، طیبہ سے مراد مدینہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث شعبہ کے واسطہ سے قتادہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اسے کئی لوگوں نے شعبی کے واسطہ سے فاطمہ بنت قیس سے روایت کیا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 24 (2942)، سنن ابی داود/ الملاحم 15 (4326)، سنن ابن ماجہ/الفتن 33 (4074) (تحفة الأشراف: 18024)، و مسند احمد (6/374، 418) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث جساسہ کی تفصیل کے لیے صحیح مسلم میں کتاب الفتن کا مطالعہ کریں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح قصة نزول عيسى عليه السلام
67. باب مِنْهُ
67. باب: آدمی کو اپنے سے کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہئے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2254
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن الحسن، عن جندب، عن حذيفة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا ينبغي للمؤمن ان يذل نفسه "، قالوا: وكيف يذل نفسه؟ قال: " يتعرض من البلاء لما لا يطيق "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جُنْدَبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ "، قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ: " يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس کو ذلیل کرے، صحابہ نے عرض کیا: اپنے نفس کو کیسے ذلیل کرے گا؟ آپ نے فرمایا: اپنے آپ کو ایسی مصیبت سے دو چار کرے جسے جھیلنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 21 (4016) (تحفة الأشراف: 3305)، و مسند احمد (5/405) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4016)

قال الشيخ زبير على زئي: (2254) إسناده ضعيف / جه 4016
علي بن زيد جدعان: ضعيف (تقدم: 589) وللحديث شاهد ضعيف عند الطبراني فى الكبير (408/12،409 ح 13507)
68. باب مِنْهُ
68. باب: ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2255
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حاتم المكتب، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، حدثنا حميد الطويل، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " انصر اخاك ظالما او مظلوما "، قلنا: يا رسول الله، نصرته مظلوما، فكيف انصره ظالما؟ قال: " تكفه عن الظلم فذاك نصرك إياه "، قال: وفي الباب عن عائشة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَصَرْتُهُ مَظْلُومًا، فَكَيْفَ أَنْصُرُهُ ظَالِمًا؟ قَالَ: " تَكُفُّهُ عَنِ الظُّلْمِ فَذَاكَ نَصْرُكَ إِيَّاهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ نے فرمایا: اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المظالم 4 (2443، 2444)، والإکراہ 7 (6952)، (تحفة الأشراف: 751)، و مسند احمد (3/99، 201، 224) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2449)، الروض النضير (32)
69. باب مِنْهُ
69. باب: فتنوں میں پڑنے والی چیزوں کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2256
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي موسى، عن وهب بن منبه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من سكن البادية جفا، ومن اتبع الصيد غفل، ومن اتى ابواب السلطان افتتن " قال: وفي الباب عن ابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، من حديث ابن عباس لا نعرفه إلا من حديث الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتِنَ " قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبَي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بادیہ (صحراء و بیابان) کی سکونت اختیار کی وہ سخت طبیعت والا ہو گیا، جس نے شکار کا پیچھا کیا وہ غافل ہو گیا اور جو بادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنوں کا شکار ہو گیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصید 4 (2859)، سنن النسائی/الصید 24 (4314) (تحفة الأشراف: 6539)، و مسند احمد (1/357) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ صحراء و بیابان کی سکونت اختیار کرنے والا اگر جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوتا ہے اور علماء کی مجالس سے دور رہتا ہے تو ایسا شخص تمدن و تہذیب سے دور، سخت طبیعت والا ہو گا، اسی طرح جو لہو و لعب کی غرض سے شکار کا عادی ہوا وہ غفلت میں مبتلا ہو جائے گا، البتہ جو رزق کی خاطر شکار کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ عمل اس کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ بعض صحابہ کرام نے بھی یہ عمل اپنا یا ہے، بادشاہوں کے دربار میں حاضری دینے والا اگر مداہنت سے کام لیتا ہے تو فتنہ میں پڑ جائے گا، البتہ جو بادشاہوں کے پاس رہ کر انہیں نصیحت کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے تو یہ اس کے لیے افضل جہاد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3701 / التحقيق الثانى)، صحيح أبي داود (2547)

Previous    7    8    9    10    11    12    13    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.