(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن يزيد بن خالد، قال: سمعت المنهال بن عمرو يحدث، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " ما من عبد مسلم يعود مريضا لم يحضر اجله فيقول سبع مرات: اسال الله العظيم، رب العرش العظيم ان يشفيك، إلا عوفي "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث المنهال بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خَالِدٍ، قَال: سَمِعْتُ الْمِنْهَالَ بْنَ عَمْرٍو يُحَدِّثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَعُودُ مَرِيضًا لَمْ يَحْضُرْ أَجَلُهُ فَيَقُولُ سَبْعَ مَرَّاتٍ: أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ، رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ، إِلَّا عُوفِيَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان بندہ کسی ایسے مریض کی عیادت کرے جس کی موت کا ابھی وقت نہ ہوا ہو اور سات بار یہ دعا پڑھے «أسأل الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك»”میں عظمت والے اللہ اور عظیم عرش کے مالک سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں اچھا کر دے“ تو ضرور اس کی شفاء ہو جاتی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف منہال بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 12 (3106) (تحفة الأشراف: 5628)، و مسند احمد (1/239) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1553)، الكلم الطيب (149)
(مرفوع) حدثنا احمد بن سعيد الاشقر الرباطي، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا مرزوق ابو عبد الله الشامي، حدثنا سعيد رجل من اهل الشام، اخبرنا ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا اصاب احدكم الحمى فإن الحمى قطعة من النار فليطفئها عنه بالماء فليستنقع نهرا جاريا ليستقبل جرية الماء، فيقول: بسم الله اللهم اشف عبدك وصدق رسولك، بعد صلاة الصبح قبل طلوع الشمس فليغتمس فيه ثلاث غمسات ثلاثة ايام، فإن لم يبرا في ثلاث فخمس، وإن لم يبرا في خمس فسبع، فإن لم يبرا في سبع، فتسع فإنها لا تكاد تجاوز تسعا بإذن الله "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشْقَرُ الرِّبَاطِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مَرْزُوقٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الشَّامِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، أَخْبَرَنَا ثَوْبَانُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمُ الْحُمَّى فَإِنَّ الْحُمَّى قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ فَلْيُطْفِئْهَا عَنْهُ بِالْمَاءِ فَلْيَسْتَنْقِعْ نَهْرًا جَارِيًا لِيَسْتَقْبِلَ جَرْيَةَ الْمَاءِ، فَيَقُولُ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ وَصَدِّقْ رَسُولَكَ، بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ فَلْيَغْتَمِسْ فِيهِ ثَلَاثَ غَمَسَاتٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ لَمْ يَبْرَأْ فِي ثَلَاثٍ فَخَمْسٌ، وَإِنْ لَمْ يَبْرَأْ فِي خَمْسٍ فَسَبْعٌ، فَإِنْ لَمْ يَبْرَأْ فِي سَبْعٍ، فَتِسْعٌ فَإِنَّهَا لَا تَكَادُ تُجَاوِزُ تِسْعًا بِإِذْنِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو بخار آئے اور بخار آگ کا ایک ٹکڑا ہے تو وہ اسے پانی سے بجھا دے، ایک بہتی نہر میں اترے اور پانی کے بہاؤ کی طرف اپنا رخ کرے پھر یہ دعا پڑھے: «بسم الله اللهم اشف عبدك وصدق رسولك»”اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے اللہ! اپنے بندے کو شفاء دے اور اپنے رسول کی اس بات کو سچا بنا“ وہ اس عمل کو فجر کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے کرے، وہ اس نہر میں تین دن تک تین غوطے لگائے، اگر تین دن میں اچھا نہ ہو تو پانچ دن تک، اگر پانچ دن میں اچھا نہ ہو تو سات دن تک اور اگر سات دن میں اچھا نہ ہو تو نو دن تک، اللہ کے حکم سے اس کا مرض نو دن سے آگے نہیں بڑھے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2087) (ضعیف) (سند میں ”سعید بن زرعہ حمصی“ مجہول الحال ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2339) // ضعيف الجامع الصغير (375) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2084) إسناده ضعيف سعيد بن زرعة: مستور (تق:2306)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي حازم، قال: سئل سهل بن سعد، وانا اسمع، باي شيء دووي جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: " ما بقي احد اعلم به مني، كان علي ياتي بالماء في ترسه، وفاطمة تغسل عنه الدم، واحرق له حصير، فحشا به جرحه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سُئِلَ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَأَنَا أَسْمَعُ، بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: " مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، كَانَ عَلِيٌّ يَأْتِي بِالْمَاءِ فِي تُرْسِهِ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ عَنْهُ الدَّمَ، وَأُحْرِقَ لَهُ حَصِيرٌ، فَحَشَا بِهِ جُرْحُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا کس چیز سے علاج کیا گیا؟ انہوں نے کہا: اس چیز کو مجھ سے زیادہ جاننے والا اب کوئی باقی نہیں ہے، علی رضی الله عنہ اپنی ڈھال میں پانی لا رہے تھے، جب کہ فاطمہ رضی الله عنہا آپ کے زخم سے خون دھو رہی تھیں اور میں آپ کے لیے ٹاٹ جلا رہا تھا، پھر اسی کی راکھ سے آپ کا زخم بھرا گیا۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مریض صحت یاب اور تندرست ہو جائے تو شفافیت اور رنگ میں اس کی مثال اس اولے کی طرح ہے جو آسمان سے گرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یذکرہ) (موضوع) (سند میں ولید بن محمد موقری متروک الحدیث ہے، اور اس کی ملاقات بھی زہری سے نہیں ہے)»
قال الشيخ زبير على زئي: (2086) إسناده ضعيف جدًا الوليد بن محمد: متروك (تق: 7453)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مریض کے پاس جاؤ تو موت کے سلسلے میں اس کا غم دور کرو ۱؎ یہ تقدیر تو نہیں بدلتا ہے لیکن مریض کا دل خوش کر دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 1 (1438) (تحفة الأشراف: 4292) (ضعیف جداً) (سند میں موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمي منکر الحدیث راوی ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے لیے درازی عمر اور صحت یابی کی دعا کرو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1438) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (303)، المشكاة (1572)، ضعيف الجامع الصغير (488)، الضعيفة (184) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2087) إسناده ضعيف /جه 1438 موسي بن محمد: منكر الحديث (تقدم: 1823)
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی عیادت کی جسے تپ دق کا مرض تھا، آپ نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے: یہ میری آگ ہے جسے میں اپنے گنہگار بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ یہ جہنم کی آگ میں سے اس کا حصہ بن جائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 18 (3470) (تحفة الأشراف: 15439/ولم ینسبہ للترمذي)، و مسند احمد (2/440) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ آخرت میں جہنم کی آگ سے محفوظ رہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی عیادت کے وقت یوں بھی فرماتے تھے: «لابأس طهور إن شاء الله» ۔