(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا إبراهيم بن إسماعيل بن ابي حبيبة، عن داود بن حصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم من الحمى ومن الاوجاع كلها ان يقول: " بسم الله الكبير، اعوذ بالله العظيم من شر كل عرق نعار، ومن شر حر النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث إبراهيم بن إسماعيل بن ابي حبيبة، وإبراهيم يضعف في الحديث، ويروى: عرق يعار.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْحُمَّى وَمِنَ الْأَوْجَاعِ كُلِّهَا أَنْ يَقُولَ: " بِسْمِ اللَّهِ الْكَبِيرِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ مِنْ شَرِّ كُلِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ، وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، وَإِبْرَاهِيمُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى: عِرْقٌ يَعَّارٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو بخار اور ہر قسم کے درد میں یہ دعا پڑھنا سکھاتے تھے، «بسم الله الكبير أعوذ بالله العظيم من شر كل عرق نعار ومن شر حر النار»”میں بڑے اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور عظمت والے اللہ کے واسطے سے ہر بھڑکتی رگ اور آگ کی گرمی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف ابراہیم بن اسماعیل بن ابوحبیبہ کی روایت سے جانتے ہیں اور ابراہیم بن اسماعیل ضعیف الحدیث سمجھے جاتے ہیں، ۳- بعض احادیث میں «عرق نعار» کے بجائے «عرق يعار» بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 37 (3526) (تحفة الأشراف: 6076) (ضعیف) (سند میں ابراہیم بن اسماعیل ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1554) // ضعيف الجامع الصغير (4587) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2075) إسناده ضعيف / جه 3526 إبراھيم بن إسماعيل: ضعيف (تقدم:1462)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يحيى بن إسحاق، حدثنا يحيى بن ايوب، عن محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن عروة، عن عائشة، عن ابنة وهب وهي جدامة، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اردت ان انهى عن الغيال، فإذا فارس والروم يفعلون ولا يقتلون اولادهم "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن اسماء بنت يزيد، وهذا حديث حسن صحيح، وقد رواه مالك، عن ابي الاسود، عن عروة، عن عائشة، عن جدامة بنت وهب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال مالك: والغيال ان يطا الرجل امراته وهي ترضع.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ ابْنَةِ وَهْبٍ وَهِيَ جُدَامَةُ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَرَدْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الْغِيَالِ، فَإِذَا فَارِسُ وَالرُّومُ يَفْعَلُونَ وَلَا يَقْتُلُونَ أَوْلَادَهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ جُدَامَةَ بِنْتِ وَهْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَالِكٌ: وَالْغِيَالُ أَنْ يَطَأَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ تُرْضِعُ.
جدامہ بنت وہب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میں نے ارادہ کیا کہ ایام رضاعت میں صحبت کرنے سے لوگوں کو منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ فارس اور روم کے لوگ ایسا کرتے ہیں، اور ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک نے یہ حدیث «عن أبي الأسود عن عروة عن عائشة عن جدامة بنت وهب عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- اس باب میں اسماء بنت یزید سے بھی روایت ہے، ۴- مالک کہتے ہیں: «غيلہ» یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 34 (1442)، سنن ابی داود/ الطب 16 (3882)، سنن النسائی/النکاح 54 (3326)، سنن ابن ماجہ/النکاح 6 (2011) (تحفة الأشراف: 15786)، وط/الرضاع 3 (16)، و مسند احمد (6/361، 434)، وسنن الدارمی/النکاح 33 (2263) (صحیح)»
جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایام رضاعت میں جماع کرنے سے لوگوں کو منع کروں، پھر مجھے یاد آیا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے“۔ مالک کہتے ہیں: «غيلہ» یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے۔ عیسیٰ بن احمد کہتے ہیں: ہم سے اسحاق بن عیسیٰ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے مالک نے ابوالاسود کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن ابي عبد الله، عن زيد بن ارقم، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " ينعت الزيت والورس من ذات الجنب "، قال قتادة: ويلده من الجانب الذي يشتكيه، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عبد الله اسمه ميمون هو شيخ بصري.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَنْعَتُ الزَّيْتَ وَالْوَرْسَ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ "، قَالَ قَتَادَةُ: وَيَلُدُّهُ مِنَ الْجَانِبِ الَّذِي يَشْتَكِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ اسْمُهُ مَيْمُونٌ هُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذات الجنب ۱؎ کی بیماری میں زیتون کا تیل اور ورس ۲؎ تشخیص کرتے تھے، قتادہ کہتے ہیں: اس کو منہ میں ڈالا جائے گا، اور منہ کی اس جانب سے ڈالا جائے گا جس جانب مرض ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوعبداللہ کا نام میمون ہے، وہ ایک بصریٰ شیخ ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 17 (3467) (تحفة الأشراف: 3684) (سند میں میمون ابوعبد اللہ ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: پسلی کا ورم جو اکثر مہلک ہوتا ہے۔ ۲؎: ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3467) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (761)، وفيه زيادة: القسط //
قال الشيخ زبير على زئي: (2078) إسناده ضعيف / جه 3467 ميمون أبو عبدالله: ضعيف (تق:7051)
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ذات الجنب کا علاج قسط بحری (عود ہندی) اور زیتون کے تیل سے کریں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- ہم اسے صرف میمون کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں، ۳- میمون سے کئی لوگوں نے یہ حدیث روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف انظر ما قبله (2078)
قال الشيخ زبير على زئي: (2079) إسناده ضعيف / انظر الحديث السابق:2078
عثمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے میرے پاس تشریف لائے، اس وقت مجھے ایسا درد تھا کہ لگتا تھا وہ مار ڈالے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے داہنے ہاتھ سے سات مرتبہ درد کی جگہ چھوؤ اور یہ دعا پڑھو «أعوذ بعزة الله وقدرته وسلطانه من شر ما أجد»”میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت اور طاقت کے وسیلے سے اس تکلیف کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے لاحق ہے“۔ میں نے ویسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف دور کر دی، چنانچہ میں ہمیشہ اپنے گھر والوں کو اور دوسروں کو یہ دعا پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 34 (2202)، سنن ابی داود/ الطب 19 (3891)، سنن ابن ماجہ/الطب 36 (3522) (تحفة الأشراف: 9774)، وط/العین 4 (9)، و مسند احمد (4/21، 217) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن بكر، حدثنا عبد الحميد بن جعفر، حدثني عتبة بن عبد الله، عن اسماء بنت عميس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سالها: " بم تستمشين؟ " قالت: بالشبرم، قال: " حار جار " قالت: ثم استمشيت بالسنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لو ان شيئا كان فيه شفاء من الموت لكان في السنا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، يعني: دواء المشي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهَا: " بِمَ تَسْتَمْشِينَ؟ " قَالَتْ: بِالشُّبْرُمِ، قَالَ: " حَارٌّ جَارٌّ " قَالَتْ: ثُمَّ اسْتَمْشَيْتُ بِالسَّنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ شَيْئًا كَانَ فِيهِ شِفَاءٌ مِنَ الْمَوْتِ لَكَانَ فِي السَّنَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، يَعْنِي: دَوَاءَ الْمَشِيِّ.
اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”اسہال کے لیے تم کیا لیتی ہو؟“ میں نے کہا: «شبرم»۱؎، آپ نے فرمایا: ”وہ گرم اور بہانے والا ہے“۔ اسماء کہتی ہیں: پھر میں نے «سنا»۲؎ کا مسہل لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی چیز میں موت سے شفاء ہوتی تو «سنا» میں ہوتی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس سے (یعنی «سنا» سے) مراد دست آور دواء ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 12 (3461) (تحفة الأشراف: 15759) (ضعیف) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے ”زرعة بن عبداللہ، زرعة بن عبدالرحمن“، ”عتبة بن عبداللہ، عبید اللہ“ بہر حال یہ آدمی مجہول ہے)»
وضاحت: ۱؎: گرم اور سخت قسم کا چنے کے برابر ایک طرح کا دانہ ہوتا ہے۔
۲؎: ایک دست لانے والی دوا کا نام ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4537) // هذا وهم في أصل الشيخ ناصر. وإنما هو رقم مشكاة المصابيح والشيخ ناصر لم يحل على المشكاة. وأما رقم " ضعيف سنن ابن ماجة " فهو (760 - 3461) ومن منا لا يسهو - وانظر " ضعيف الجامع الصغير (4807) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2081) إسناده ضعيف في سماع عتبة من أسماء رضي الله عنھا نظر وانظر ضعيف سنن ابن ماجه (3461)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن اخي استطلق بطنه، فقال: اسقه عسلا، فسقاه، ثم جاء، فقال: يا رسول الله، قد سقيته عسلا فلم يزده إلا استطلاقا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اسقه عسلا "، فسقاه ثم جاءه، فقال: يا رسول الله، قد سقيته عسلا فلم يزده إلا استطلاقا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صدق الله وكذب بطن اخيك، اسقه عسلا، فسقاه عسلا فبرا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَخِي اسْتَطْلَقَ بَطْنُهُ، فَقَالَ: اسْقِهِ عَسَلًا، فَسَقَاهُ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ سَقَيْتُهُ عَسَلًا فَلَمْ يَزِدْهُ إِلَّا اسْتِطْلَاقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْقِهِ عَسَلًا "، فَسَقَاهُ ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ سَقَيْتُهُ عَسَلًا فَلَمْ يَزِدْهُ إِلَّا اسْتِطْلَاقًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ اللَّهُ وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ، اسْقِهِ عَسَلًا، فَسَقَاهُ عَسَلًا فَبَرَأَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: میرے بھائی کو دست آ رہا ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ“، چنانچہ اس نے اسے پلایا، پھر آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے شہد پلایا لیکن اس سے دست میں اور اضافہ ہو گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے شہد پلاؤ“، اس نے اسے شہد پلایا، پھر آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے شہد پلایا لیکن اس سے دست میں اور اضافہ ہو گیا ہے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ (اپنے قول میں) سچا ہے، اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، اس کو شہد پلاؤ“، چنانچہ اس نے شہد پلایا تو (اس بار) اچھا ہو گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 4 (5684)، و 24 (5716)، صحیح مسلم/السلام 31 (2217)، (تحفة الأشراف: 4251)، و مسند احمد (3/19) (صحیح)»