اس سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں ابن عمر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي جعفر، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد على ولده"، قال ابو عيسى: وقد روى الحجاج الصواف هذا الحديث، عن يحيى بن ابي كثير، نحو حديث هشام وابو جعفر الذي روى عن ابي هريرة يقال له: ابو جعفر المؤذن، ولا نعرف اسمه، وقد روى عنه يحيى بن ابي كثير غير حديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ: دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ"، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، نَحْوَ حَدِيثِ هِشَامٍ وَأَبُو جَعْفَرٍ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يُقَالُ لَهُ: أَبُو جَعْفَرٍ الْمُؤَذِّنُ، وَلَا نَعْرِفُ اسْمَهُ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ غَيْرَ حَدِيثٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں ان میں کوئی شک نہیں ہے: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور بیٹے کے اوپر باپ کی بد دعا۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حجاج صواف نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے، ابو جعفر جنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے انہیں ابو جعفر مؤذن کہا جاتا ہے، ہم ان کا نام نہیں جانتے ہیں، ۲- ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 36 (1536)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 11 (3862)، ویأتي عند المؤلف في الدعوات 48 (3448) (تحفة الأشراف: 11873)، و مسند احمد (2/258، 478، 523) (حسن)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن موسى، اخبرنا جرير، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يجزي ولد والدا إلا ان يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح لا نعرفه إلا من حديث سهيل بن ابي صالح، وقد روى سفيان الثوري، وغير واحد عن سهيل بن ابي صالح هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدًا إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے (یعنی باپ کو) غلام پائے اور خرید کر آزاد کر دے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ہم اسے صرف سہیل بن ابی صالح کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- سفیان ثوری اور کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث سہیل بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العتق 6 (1510)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 11 (3659) (تحفة الأشراف: 12595)، و مسند احمد (2/230، 263، 276، 445) (صحیح)»
(قدسي) حدثنا حدثنا ابن ابي عمر، وسعيد بن عبد الرحمن المخزومي، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن ابي سلمة، قال: اشتكى ابو الرداد الليثي، فعاده عبد الرحمن بن عوف، فقال: خيرهم واوصلهم ما علمت ابا محمد، فقال عبد الرحمن: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله:" انا الله، وانا الرحمن، خلقت الرحم، وشققت لها من اسمي، فمن وصلها وصلته، ومن قطعها بتته"، وفي الباب عن ابي سعيد، وابن ابي اوفى، وعامر بن ربيعة، وابي هريرة، وجبير بن مطعم، قال ابو عيسى: حديث سفيان، عن الزهري حديث صحيح، وروى معمر هذا الحديث عن الزهري، عن ابي سلمة، عن رداد الليثي، عن عبد الرحمن بن عوف، ومعمر كذا يقول: قال محمد، وحديث معمر خطا.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: اشْتَكَى أَبُو الرَّدَّادِ اللَّيْثِيُّ، فَعَادَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَقَالَ: خَيْرُهُمْ وَأَوْصَلُهُمْ مَا عَلِمْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ:" أَنَا اللَّهُ، وَأَنَا الرَّحْمَنُ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَشَقَقْتُ لَهَا مِنَ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ"، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ رَدَّادٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَمَعْمَرٍ كَذَا يَقُولُ: قَالَ مُحَمَّدٌ، وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ خَطَأٌ.
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوالرداد لیثی بیمار ہو گئے، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ ان کی عیادت کو گئے، ابوالرداء نے کہا: میرے علم کے مطابق ابو محمد (عبدالرحمٰن بن عوف) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے «رحم»(یعنی رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے (مشتق کر کے) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن ابی اوفی، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ اور جبیر بن مطعم رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲- زہری سے مروی سفیان کی حدیث صحیح ہے، معمر نے زہری سے یہ حدیث «عن أبي سلمة عن رداد الليثي عن عبدالرحمٰن بن عوف و معمر» کی سند سے روایت کی ہے، معمر نے (سند بیان کرتے ہوئے) ایسا ہی کہا ہے، محمد (بخاری) کہتے ہیں: معمر کی حدیث میں خطا ہے، (دونوں سندوں میں فرق واضح ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 46 (1694) (تحفة الأشراف: 9728)، و مسند احمد (1/191، 194) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ باپ کے احسان کا بدلہ اس لیے ہے کہ غلامی کی زندگی سے کسی کو آزاد کرانا اس سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں ہے، جس کے ذریعہ کوئی کسی دوسرے پر احسان کرے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا بشير ابو إسماعيل، وفطر بن خليفة، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا انقطعت رحمه وصلها"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن سلمان، وعائشة، وعبد الله بن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا بَشِيرٌ أَبُو إِسْمَاعِيل، وَفِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ سَلْمَانَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے ۱؎، بلکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو رشتہ ناتا توڑنے پر بھی صلہ رحمی کرے۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سلمان، عائشہ اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: سند میں ابوالرداد ہے، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے ”رداد“ آیا ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ”رداد“ کو بعض لوگوں نے ”ابوالرداد“ کہا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے، (تقریب التہذیب)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (404)، صحيح أبي داود (1489)
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشتہ ناتا توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔“ ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان نے کہا: «قاطع» سے مراد «قاطع رحم»(یعنی رشتہ ناتا توڑنے والا) ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن إبراهيم بن ميسرة، قال: سمعت ابن ابي سويد، يقول: سمعت عمر بن عبد العزيز، يقول: زعمت المراة الصالحة خولة بنت حكيم، قالت: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وهو محتضن احد ابني ابنته، وهو يقول:" إنكم لتبخلون، وتجبنون، وتجهلون، وإنكم لمن ريحان الله"، قال: وفي الباب عن ابن عمر، والاشعث بن قيس، قال ابو عيسى: حديث ابن عيينة، عن إبراهيم بن ميسرة لا نعرفه إلا من حديثه، ولا نعرف لعمر بن عبد العزيز سماعا من خولة.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي سُوَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَقُولُ: زَعَمَتِ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ، قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ مُحْتَضِنٌ أَحَدَ ابْنَيِ ابْنَتِهِ، وَهُوَ يَقُولُ:" إِنَّكُمْ لَتُبَخِّلُونَ، وَتُجَبِّنُونَ، وَتُجَهِّلُونَ، وَإِنَّكُمْ لَمِنْ رَيْحَانِ اللَّهِ"، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَلَا نَعْرِفُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ سَمَاعًا مِنْ خَوْلَةَ.
خولہ بنت حکیم رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گود میں اپنی بیٹی (فاطمہ) کے دو لڑکوں (حسن، حسین) میں سے کسی کو لیے ہوئے باہر نکلے اور آپ (اس لڑکے کی طرف متوجہ ہو کر) فرما رہے تھے: ”تم لوگ بخیل بنا دیتے ہو، تم لوگ بزدل بنا دیتے ہو، اور تم لوگ جاہل بنا دیتے ہو، یقیناً تم لوگ اللہ کے عطا کئے ہوئے پھولوں میں سے ہو۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابراہیم بن میسرہ سے مروی ابن عیینہ کی حدیث کو ہم صرف انہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ہم نہیں جانتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کا سماع خولہ سے ثابت ہے، ۳- اس باب میں ابن عمر اور اشعث بن قیس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15828)، و مسند احمد (6/409) (ضعیف) (سند میں ابن ابی سوید مجہول راوی ہیں، اور سند میں انقطاع بھی ہے، اس لیے کہ عمر بن عبدالعزیز کا سماع خولہ سے معروف نہیں ہے، اس لیے وإنكم لمن ريحان الله کا فقرہ ضعیف ہے، لیکن پہلا فقرہ شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: تخریج کتاب الزہد لوکیع بن الجراح بتحقیق، عبدالرحمن الفریوائی، حدیث نمبر 178، والضعیفة 3214، والصحیحة 4764)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3214) // ضعيف الجامع الصغير (2041) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1910) إسناده ضعيف محمد أبى سويد: مجھول (تق: 5944)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، وسعيد بن عبد الرحمن، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: ابصر الاقرع بن حابس النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقبل الحسن قال ابن ابي عمر: الحسين او الحسن، فقال: إن لي من الولد عشرة، ما قبلت احدا منهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه من لا يرحم لا يرحم"، قال: وفي الباب عن انس، وعائشة، قال ابو عيسى: وابو سلمة بن عبد الرحمن اسمه عبد الله بن عبد الرحمن بن عوف، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَبْصَرَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُقَبِّلُ الْحَسَنَ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: الْحُسَيْنَ أَوْ الْحَسَنَ، فَقَالَ: إِنَّ لِي مِنَ الْوَلَدِ عَشَرَةً، مَا قَبَّلْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ"، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا بوسہ لے رہے تھے، اقرع نے کہا: میرے دس لڑکے ہیں، میں نے ان میں سے کسی کا بھی بوسہ نہیں لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ہے“۱؎۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن سعيد بن عبد الرحمن، عن ابي سعيد الخدري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يكون لاحدكم ثلاث بنات، او ثلاث اخوات فيحسن إليهن إلا دخل الجنة"، قال: وفي الباب عن عائشة، وعقبة بن عامر، وانس، وجابر، وابن عباس، قال ابو عيسى: وابو سعيد الخدري اسمه سعد بن مالك بن سنان، وسعد بن ابي وقاص هو سعد بن مالك بن وهيب، وقد زادوا في هذا الإسناد رجلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَكُونُ لِأَحَدِكُمْ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ فَيُحْسِنُ إِلَيْهِنَّ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ هُوَ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ وُهَيْبٍ، وَقَدْ زَادُوا فِي هَذَا الْإِسْنَادِ رَجُلًا.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہو گا۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو سعید خدری کا نام سعد بن مالک بن سنان ہے، اور سعد بن ابی وقاص کا نام سعد بن مالک بن وہیب ہے، ۲- اس حدیث کی دوسری سند میں راویوں نے (سعید بن عبدالرحمٰن اور ابوسعید کے درمیان) ایک اور راوی (ایوب بن بشیر) کا اضافہ کیا ہے، ۳- اس باب میں عائشہ، عقبہ بن عامر، انس، جابر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 130 (5147) (تحفة الأشراف: 4041)، و یأتي برقم 1916 (صحیح) (اس کے راوی سعید بن عبدالرحمن الأعشی مقبول راوی ہیں، اور اس باب میں وارد احادیث کی بنا پر یہ صحیح ہے، جس کی طرف امام ترمذی نے اشارہ کر دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 1973، و الادب المفرد باب من أعلى جاريتين أو واحدة والباب الذي بعده، وتراجع الالبانی 409، والسراج المنیر 2/1049)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف انظر ما قبله (1911) // ضعيف الجامع الصغير (6369) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1912) إسناده ضعيف السند منقطع والحديث الآتي (الأصل: 1916) يغني عنه
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 10 (1418)، والأدب 18 (5995)، صحیح مسلم/البر والصلة 46 (2629)، کلاہما مع ذکر القصة المشھورة في رقم 1915، و مسند احمد (6/33، 88، 166، 243)، ویأتي عند المؤلف برقم 1915 (صحیح)»