(مرفوع) حدثنا يوسف بن حماد المعني البصري، حدثنا عثمان بن عبد الرحمن الجمحي، عن محمد بن زياد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " افشوا السلام واطعموا الطعام واضربوا الهام تورثوا الجنان "، قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وانس، وعبد الله بن سلام، وعبد الرحمن بن عائش، وشريح بن هانئ، عن ابيه، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث ابن زياد، عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَاضْرِبُوا الْهَامَ تُورَثُوا الْجِنَانَ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشَ، وَشُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلام کو عام کرو اور اسے پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور کافروں کا سر مارو (یعنی ان سے جہاد کرو) جنت کے وارث بن جاؤ گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے ابن زیاد کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر، انس، عبداللہ بن سلام، عبدالرحمٰن بن عائش اور شریح بن ہانی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، شریح بن ہانی نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14402) (ضعیف) (سند میں عثمان بن عبد الرحمن جمعی ضعیف راوی ہیں، لیکن ”افشوا السلام وأطعموا الطعام“ کا ٹکڑا دیگر صحابہ سے صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں مذکور یہ سارے کے سارے کام ایسے ہیں جنہیں عملی جامہ پہنانے والا اس جنت کا وارث ہو جائے گا جس کا وعدہ رب العالمین نے اپنے متقی بندوں سے کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (3 / 238) // 777 //، الضعيفة (1324) // ضعيف الجامع الصغير (995) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1854) إسناده ضعيف عثمان الجمحي ليس بالقوي (تق: 4495) ولبعض الحديث شواھد كثيرة جدًا
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعبدوا الرحمن واطعموا الطعام وافشوا السلام تدخلوا الجنة بسلام " قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَأَفْشُوا السَّلَامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ " قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحمن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو اور اسے پھیلاؤ، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب تم یہ سب کام اخلاص کے ساتھ انجام دیتے رہو گے یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہاری موت ہو تو تم جنت میں امن و امان کے ساتھ جاؤ گے، تمہیں کوئی خوف اور غم نہیں لاحق ہو گا۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا کھانا کھاؤ گر چہ ایک مٹھی ردی کھجور ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ رات کا کھانا چھوڑنا بڑھاپے کا سبب ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث منکر ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، عنبسہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں اور عبدالملک بن علاق مجہول ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (116) // ضعيف الجامع الصغير (2447) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1856) إسناده ضعيف جدًا محمد بن يعلي: ضعيف، و شيخه عنبسة بن عبدالرحمن: متروك، رماه أبو حاتم بالوضع (تق:6412،5206) وانظر ضعيف سنن ابن ماجه (3355)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الصباح الهاشمي، حدثنا عبد الاعلى، عن معمر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عمر بن ابي سلمة، انه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده طعام قال: " ادن يا بني وسم الله وكل بيمينك وكل مما يليك "، قال ابو عيسى: وقد روي عن هشام بن عروة، عن ابي وجزة السعدي، عن رجل من مزينة، عن عمر بن ابي سلمة وقد اختلف اصحاب هشام بن عروة في رواية هذا الحديث وابو وجزة السعدي اسمه يزيد بن عبيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ طَعَامٌ قَالَ: " ادْنُ يَا بُنَيَّ وَسَمِّ اللَّهَ وَكُلْ بِيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي وَجْزَةَ السَّعْدِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ وَأَبُو وَجْزَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ.
عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ کے پاس کھانا رکھا تھا، آپ نے فرمایا: ”بیٹے! قریب ہو جاؤ، بسم اللہ پڑھو اور اپنے داہنے ہاتھ سے جو تمہارے قریب ہے اسے کھاؤ“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ سے «عن أبي وجزة السعدي عن رجل من مزينة عن عمر ابن أبي سلمة» کی سند سے مروی ہے، اس حدیث کی روایت کرنے میں ہشام بن عروہ کے شاگردوں کا اختلاف ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 7 (3267)، (تحفة الأشراف: 10685)، (وراجع: صحیح البخاری/الأطعمة 2 (5376)، وصحیح مسلم/الأشربة والأطعمة 13 (2022)، و سنن ابی داود/ الأطعمة 20 (3777)، و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ 10 (32)، وسنن الدارمی/الأطعمة 1 (2062) (صحیح) (”ادْنُ“ کا لفظ صحیح نہیں ہے، تراجع الالبانی 350)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں: (۱) کھاتے وقت بسم اللہ پڑھنا چاہیئے، اس کا اہم فائدہ جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے، یہ ہے کہ ایسے کھانے میں شیطان شریک نہیں ہو سکتا، ساتھ ہی اس ذات کے لیے شکر یہ کا اظہار ہے جس نے کھانا جیسی نعمت ہمیں عطا کی، (۲) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آداب طعام میں سے ہے کہ اپنے سامنے اور قریب سے کھایا جائے، (۳) چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک رکھا جائے، (۴) اس مجلس سے متعلق جو بھی ادب کی باتیں ہوں بچوں کو ان سے واقف کرایا جائے، (۵) کھانا دائیں ہاتھ سے کھایا جائے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم لوگوں میں سے کوئی کھانا کھائے تو «بسم اللہ» پڑھ لے، اگر شروع میں بھول جائے تو یہ کہے «بسم الله في أوله وآخره» ۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأطعمة 16 (3767)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 103 (281)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 7 (3264)، والمؤلف في الشمائل25 (تحفة الأشراف: 17988)، و مسند احمد (6/143)، سنن الدارمی/الأطعمة 1 (2063) (صحیح)»
(مرفوع) وبهذا الإسناد عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم " ياكل طعاما في ستة من اصحابه فجاء اعرابي فاكله بلقمتين "، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما إنه لو سمى لكفاكم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح وام كلثوم هي بنت محمد بن ابي بكر الصديق رضي الله عنه.(مرفوع) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَأْكُلُ طَعَامًا فِي سِتَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَأَكَلَهُ بِلُقْمَتَيْنِ "، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهُ لَوْ سَمَّى لَكَفَاكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأُمُّ كُلْثُومٍ هِيَ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
اسی سند سے عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھ صحابہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے، اچانک ایک اعرابی آیا اور دو لقمہ میں پورا کھانا کھا لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے «بسم اللہ» پڑھ لی ہوتی تو یہ کھانا تم سب کے لیے کافی ہوتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (صحیح)»
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان بہت تاڑنے اور چاٹنے والا ہے، اس سے خود کو بچاؤ، جو شخص رات گزارے اور اس کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو، پھر اسے کوئی بلا پہنچے تو وہ صرف اپنے آپ کو برا بھلا کہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث «سهيل ابن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 13034) (موضوع) (سند میں یعقوب بن ولید مدنی کذاب راوی ہے، لیکن اس آخری ٹکڑا اگلی حدیث سے صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (5533)، الروض النضير (2 / 225) // ضعيف الجامع الصغير (1476) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1859) إسناده ضعيف جدًا (موضوع) يعقوب بن الوليد: كذاب (تقدم: 172) ولبعض الحديث شواھد صحيحة منھا الحديث الآتي (الأصل: 1860)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات گزارے اور اس کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو پھر اسے کوئی بلا پہنچے تو وہ صرف اپنے آپ کو برا بھلا کہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اعمش کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأطعمة 54 (3852)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 22 (3296)، (تحفة الأشراف: 12464)، و مسند احمد (2/344)، سنن الدارمی/الأطعمة 27 (2107) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کھانے کے بعد اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح دھو لو، کیونکہ نہ دھونے سے کھانے کی بو ہاتھوں میں باقی رہے گی، جو جن و شیاطین کو اپنی طرف مائل کرے گی، اور ایسی صورت میں ایسا شخص کسی مصیبت سے دوچار ہو سکتا ہے، اس لیے سوتے وقت اس کا خاص خیال رکھنا چاہیئے۔