(مرفوع) حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، اخبرنا حميد، وثابت، وقتادة، عن انس، ان ناسا من عرينة قدموا المدينة فاجتووها فبعثهم النبي صلى الله عليه وسلم في إبل الصدقة، وقال: " اشربوا من ابوالها والبانها "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن انس رواه ابو قلابة، عن انس، ورواه سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، وَثَابِتٌ، وَقَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْهَا فَبَعَثَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ، وَقَالَ: " اشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَنَسٍ رَوَاهُ أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، وَرَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقہ کے اونٹوں میں بھیجا اور فرمایا: ”اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی انس سے آئی ہے، ابوقلابہ نے اسے انس سے روایت کی ہے اور سعید بن ابی عروبہ نے بھی اسے قتادہ کے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا قيس بن الربيع، قال: ح وحدثنا قتيبة، حدثنا عبد الكريم الجرجاني، قيس بن الربيع المعنى واحد، عن ابي هاشم يعني الرماني، عن زاذان، عن سلمان، قال: " قرات في التوراة ان بركة الطعام الوضوء بعده "، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بما قرات في التوراة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بركة الطعام الوضوء قبله والوضوء بعده "، قال: وفي الباب عن انس، وابي هريرة، قال ابو عيسى: لا نعرف هذا الحديث إلا من حديث قيس بن الربيع، وقيس بن الربيع يضعف في الحديث، وابو هاشم الرماني اسمه يحيى بن دينار.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ الْجُرْجَانِيُّ، قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ الْمَعْنَى واحد، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ يَعْنِي الرُّمَّانِيَّ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: " قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ بَرَكَةَ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ بَعْدَهُ "، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ للنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: لَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ، وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَأَبُو هَاشِمٍ الرُّمَّانِيُّ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ دِينَارٍ.
سلمان فارسی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ”کھانے کی برکت کھانے کے بعد وضو کرنے میں ہے“، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے بیان کیا اور جو کچھ تورات میں پڑھا تھا اسے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانے کی برکت کھانے سے پہلے اور اس کے بعد وضو کرنے میں ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف قیس بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور قیس بن ربیع حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ۳- اس باب میں انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأطعمة 12 (3761)، (تحفة الأشراف: 4489) (ضعیف) (سند میں قیس بن ربیع ضعیف راوی ہںأ)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (168)، مختصر الشمائل (159) //، ضعيف أبي داود (804 / 3761)، ضعيف الجامع الصغير (2331) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1846) إسناده ضعيف / د 3761
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن ابن ابي مليكة، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من الخلاء فقرب إليه طعام، فقالوا: الا ناتيك بوضوء، قال: " إنما امرت بالوضوء إذا قمت إلى الصلاة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح وقد رواه عمرو بن دينار، عن سعيد بن الحويرث، عن ابن عباس، وقال علي بن المديني، قال يحيى بن سعيد، كان سفيان الثوري يكره غسل اليد قبل الطعام وكان يكره ان يوضع الرغيف تحت القصعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالُوا: أَلَا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ، قَالَ: " إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَكْرَهُ غَسْلَ الْيَدِ قَبْلَ الطَّعَامِ وَكَانَ يَكْرَهُ أَنْ يُوضَعَ الرَّغِيفُ تَحْتَ الْقَصْعَةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ سے تشریف لائے، تو آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، صحابہ نے عرض کیا: کیا آپ کے لیے وضو کا پانی لائیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے نماز کے لیے جاتے وقت وضو کا حکم دیا گیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے عمرو بن دینار نے سعید بن حویرث کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے، ۳- علی بن مدینی کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید نے کہا: سفیان ثوری کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا مکروہ سمجھتے تھے، وہ پیالہ کے نیچے چپاتی رکھنا بھی مکروہ سمجھتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا العلاء بن الفضل بن عبد الملك بن ابي سوية ابو الهذيل، حدثنا عبيد الله بن عكراش، عن ابيه عكراش بن ذؤيب قال: بعثني بنو مرة بن عبيد بصدقات اموالهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقدمت عليه المدينة فوجدته جالسا بين المهاجرين والانصار قال: ثم اخذ بيدي فانطلق بي إلى بيت ام سلمة فقال: " هل من طعام؟ 0 " فاتينا بجفنة كثيرة الثريد والوذر واقبلنا ناكل منها فخبطت بيدي من نواحيها واكل رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين يديه فقبض بيده اليسرى على يدي اليمنى، ثم قال: " يا عكراش كل من موضع واحد فإنه طعام واحد "، ثم اتينا بطبق فيه الوان الرطب او من الوان الرطب عبيد الله شك قال: فجعلت آكل من بين يدي وجالت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطبق، وقال: " يا عكراش كل من حيث شئت فإنه غير لون واحد "، ثم اتينا بماء فغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه ومسح ببلل كفيه وجهه وذراعيه وراسه، وقال: " يا عكراش هذا الوضوء مما غيرت النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث العلاء بن الفضل وقد تفرد العلاء بهذا الحديث ولا نعرف لعكراش، عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سَوِيَّةَ أَبُو الْهُذَيْلِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِكْرَاشٍ، عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ: بَعَثَنِي بَنُو مُرَّةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِصَدَقَاتِ أَمْوَالِهِمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقَ بِي إِلَى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَ: " هَلْ مِنْ طَعَامٍ؟ 0 " فَأُتِينَا بِجَفْنَةٍ كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَذْرِ وَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا فَخَبَطْتُ بِيَدِي مِنْ نَوَاحِيهَا وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ فَقَبَضَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى يَدِي الْيُمْنَى، ثُمَّ قَالَ: " يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ "، ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانُ الرُّطَبِ أَوْ مِنْ أَلْوَانِ الرُّطَبِ عُبَيْدُ اللَّهِ شَكَّ قَالَ: فَجَعَلْتُ آكُلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ، وَقَالَ: " يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ "، ثُمَّ أُتِينَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَمَسَحَ بِبَلَلِ كَفَّيْهِ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ، وَقَالَ: " يَا عِكْرَاشُ هَذَا الْوُضُوءُ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ بْنِ الْفَضْلِ وَقَدْ تَفَرَّدَ الْعَلَاءُ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَا نَعْرِفُ لِعِكْرَاشٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ.
عکراش بن ذؤیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنو مرہ بن عبید نے اپنی زکاۃ کا مال دے کر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، میں آپ کے پاس مدینہ آیا تو آپ کو مہاجرین اور انصار کے بیچ بیٹھا پایا، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر لے گئے اور پوچھا: ”کھانے کے لیے کچھ ہے؟“ چنانچہ ایک پیالہ لایا گیا جس میں زیادہ ثرید (شوربا میں ترکی ہوئی روٹی) اور بوٹیاں تھیں، ہم اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے، میں پیالہ کے کناروں پر اپنا ہاتھ مارنے لگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے سے کھانے لگے، پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ”عکراش! ایک جگہ سے کھاؤ اس لیے کہ یہ ایک ہی قسم کا کھانا ہے“، پھر ہمارے پاس ایک طبق لایا گیا جس میں مختلف قسم کی کھجوریں تھیں، میں اپنے سامنے سے کھانے لگا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ طبق میں گھومنے لگا، آپ نے فرمایا: ”عکراش! جہاں سے چاہو کھاؤ، اس لیے کہ یہ ایک قسم کا نہیں ہے“، پھر ہمارے پاس پانی لایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور ہتھیلیوں کی تری سے چہرے، بازو اور سر پر مسح کیا اور فرمایا: ”عکراش! یہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کا وضو ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف علاء بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں، علاء اس حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہیں، ۳- ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عکراش کی صرف اسی حدیث کو جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 11 (3240)، (تحفة الأشراف: 1006) (ضعیف) (سند میں العلاء بن فضل ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3274) // ضعيف سنن ابن ماجة (706) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1848) إسناده ضعيف / جه 3274 العلاء بن الفضل: ضعيف (تق:5252) وابن عكراش، قال البخاري:لا يثبت حديثه (تق:4321)
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن ابي طالوت قال: " دخلت على انس بن مالك وهو ياكل القرع وهو يقول يا لك شجرة ما احبك إلي لحب رسول الله صلى الله عليه وسلم إياك "، قال: وفي الباب عن حكيم بن جابر، عن ابيه، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي طَالُوتَ قَالَ: " دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَهُوَ يَأْكُلُ الْقَرْعَ وَهُوَ يَقُولُ يَا لَكِ شَجَرَةً مَا أَحَبَّكِ إِلَيَّ لِحُبِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاكِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حَكِيمِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو طالوت کہتے ہیں کہ میں انس بن مالک کے پاس گیا، وہ کدو کھا رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: اے بیل! کس قدر تو مجھے پسند ہے! کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھے پسند کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- اس باب میں حکیم بن جابر سے بھی روایت ہے جسے حکیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن ميمون المكي، حدثنا سفيان بن عيينة، حدثني مالك بن انس، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتتبع في الصحفة يعني الدباء فلا ازال احبه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن انس وروي انه راى الدباء بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له: ما هذا؟ قال: " هذا الدباء نكثر به طعامنا ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ فِي الصَّحْفَةِ يَعْنِي الدُّبَّاءَ فَلَا أَزَالُ أُحِبُّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ وَرُوِيَ أَنَّهُ رَأَى الدُّبَّاءَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: " هَذَا الدُّبَّاءُ نُكَثِّرُ بِهِ طَعَامَنَا ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ رکابی میں ڈھونڈ رہے تھے یعنی کدو، اس وقت سے میں اسے ہمیشہ پسند کرتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ۳- روایت کی گئی ہے کہ انس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کدو دیکھا تو آپ سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کدو ہے ہم اس سے اپنے کھانے کی مقدار بڑھاتے ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كلوا الزيت وادهنوا به فإنه من شجرة مباركة "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث عبد الرزاق، عن معمر وكان عبد الرزاق يضطرب في رواية هذا الحديث فربما ذكر فيه، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم وربما رواه على الشك، فقال: احسبه عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم وربما قال، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ وَكَانَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ يَضْطَرِبُ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ فَرُبَّمَا ذَكَرَ فِيهِ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُبَّمَا رَوَاهُ عَلَى الشَّكِّ، فَقَالَ: أَحْسَبُهُ عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُبَّمَا قَالَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے (جسم پر) لگاؤ، اس لیے کہ وہ مبارک درخت ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ معمر سے روایت کرتے ہیں، ۲- عبدالرزاق اس حدیث کی روایت کرنے میں مضطرب ہیں، کبھی وہ اسے مرفوع روایت کرتے ہیں اور کبھی شک کے ساتھ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں اسے عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور کبھی کہتے ہیں: زید بن اسلم سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل طریقہ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ درخت شام کی سر زمین میں کثرت سے پایا جاتا ہے، اور شام وہ علاقہ ہے جس کے متعلق رب العالمین کا ارشاد ہے کہ ہم نے اس سر زمین کو ساری دنیا کے لیے بابرکت بنایا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس سر زمین میں ستر سے زیادہ نبی اور رسول پیدا ہوئے انہیں میں ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں، چوں کہ یہ درخت ایک بابرکت سر زمین میں اگتا ہے، اس لیے بابرکت ہے، اس لحاظ سے اس کا پھل اور تیل بھی برکت سے خالی نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد الزبيري، وابو نعيم، قالا: حدثنا سفيان، عن عبد الله بن عيسى، عن رجل يقال له: عطاء من اهل الشام، عن ابي اسيد قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " كلوا الزيت وادهنوا به فإنه من شجرة مباركة "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه إنما نعرفه من حديث سفيان، عن عبد الله بن عيسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ: عَطَاءٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنْ أَبِي أَسِيدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى.
ابواسید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے (جسم پر) لگاؤ اس لیے کہ وہ مبارک درخت ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف سفیان ثوری کی روایت سے عبداللہ بن عیسیٰ کے واسطہ سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ)، (تحفة الأشراف: 11860)، و مسند احمد (3/497)، (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی عطا من اہل الشام لین الحدیث ہیں)»
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن ابيه، عن ابي هريرة يخبرهم ذاك عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا كفى احدكم خادمه طعامه حره ودخانه، فلياخذ بيده، فليقعده معه فإن ابى، فلياخذ لقمة فليطعمها إياه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو خالد والد إسماعيل اسمه سعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يُخْبِرُهُمْ ذَاكَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا كَفَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ طَعَامَهُ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ، فَلْيَأْخُذْ بِيَدِهِ، فَلْيُقْعِدْهُ مَعَهُ فَإِنْ أَبَى، فَلْيَأْخُذْ لُقْمَةً فَلْيُطْعِمْهَا إِيَّاهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو خَالِدٍ وَالِدُ إِسْمَاعِيل اسْمُهُ سَعْدٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم تمہارے کھانے کی گرمی اور دھواں برداشت کرے، تو (مالک کو چاہیئے کہ کھاتے وقت) اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لے، اگر وہ انکار کرے تو ایک لقمہ لے کر ہی اسے کھلا دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة (289و 3290)، (تحفة الأشراف: 12935)، و مسند احمد (2/473)، (وراجع: صحیح البخاری/العتق 18 (2557)، والأطعمة 55 (5460)، و مسند احمد (2/283، 409، 430) (صحیح)»