عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے بکری کی دست کا گوشت چھری سے کاٹا، اور اس میں سے کھایا، پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہیں کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مغیرہ بن شعبہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 5 (208)، والأذان 43 (675)، والجہاد 92 (2923)، والأطعمة 20 (5408)، و 26 (5422)، و 58 (5462)، صحیح مسلم/الحیض 24 (355)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 66 (490)، (تحفة الأشراف: 1070)، و مسند احمد (4/139، 179) و (5/288) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھایا جا سکتا ہے، طبرانی اور ابوداؤد میں ہے کہ چھری سے گوشت کاٹ کر مت کھاؤ کیونکہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، لیکن یہ روایتیں ضعیف ہیں، ان سے استدلال درست نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آگ سے پکی چیز کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کھا کر وضو نہیں کیا۔
(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا محمد بن فضيل، عن ابي حيان التيمي، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، قال: " اتي النبي صلى الله عليه وسلم بلحم فرفع إليه الذراع وكانت تعجبه فنهس منها "، قال: وفي الباب: عن ابن مسعود، وعائشة، وعبد الله بن جعفر، وابي عبيدة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو حيان اسمه يحيى بن سعيد بن حيان، وابو زرعة بن عمرو بن جرير اسمه هرم.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَيَّانَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ، وَأَبُو زَرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ هَرِمٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور آپ کو دست پیش کی گئی، آپ کو دست بہت پسند تھی، چنانچہ آپ نے اسے دانت سے نوچ کر کھایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، عبداللہ بن جعفر اور ابوعبیدہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ابوحیان کا نام یحییٰ بن سعید بن حیان ہے اور ابوزرعہ بن عمرو بن جریر کا نام ہرم ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت زیادہ پسند نہیں تھا، لیکن آپ کو یہ کبھی کبھی ملتا تھا، اس لیے آپ اسے کھانے میں جلدی کرتے تھے کیونکہ وہ دوسرے گوشت کے مقابلہ میں جلدی گلتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16194) (منکر) (سند میں عبدالوہاب بن یحییٰ لین الحدیث راوی ہیں، اور متن صحیح روایات کے خلاف ہے)»
قال الشيخ الألباني: منكر مختصر الشمائل (144)
قال الشيخ زبير على زئي: (1838) إسناده ضعيف عبدالوھاب بن يحيي: في سماعه من جده نظر، انظر تھذيب التھزيب (402/6 طبع دار الفكر)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا مبارك بن سعيد هو اخو سفيان بن سعيد الثوري، عن سفيان، عن ابي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " نعم الإدام الخل "، قال: وفي الباب عن عائشة، وام هانئ.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سرکہ کیا ہی بہترین سالن ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ اور ام ہانی سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عبدالله بن عبدالرحمن، اخبرنا يحيى بن حسان، عن سليمان بن بلال بهذا الإسناد نحوه، إلا انه قال: نعم الإدام (او الادم) الخل.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: نِعْمَ الإِدَامُ (أَوْ الأُدْمُ) الْخَلُّ.
اس سند سے بھی عائشہ رضی الله عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، مگر اس میں ہے «نعم الإدام أو الأدم الخل» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- ہم اسے ہشام بن عروہ کی سند سے صرف سلیمان بن بلال کی روایت سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي حمزة الثمالي، عن الشعبي، عن ام هانئ بنت ابي طالب، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " هل عندكم شيء؟ "، فقلت: لا إلا كسر يابسة وخل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " قربيه فما اقفر بيت من ادم فيه خل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه لا نعرفه من حديث ام هانئ إلا من هذا الوجه وابو حمزة الثمالي اسمه ثابت بن ابي صفية، وام هانئ ماتت بعد علي بن ابي طالب بزمان وسالت محمدا عن هذا الحديث قال: لا اعرف للشعبي سماعا من ام هانئ فقلت: ابو حمزة كيف هو عندك فقال احمد بن حنبل: تكلم فيه وهو عندي مقارب الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ "، فَقُلْتُ: لَا إِلَّا كِسَرٌ يَابِسَةٌ وَخَلٌّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَرِّبِيهِ فَمَا أَقْفَرَ بَيْتٌ مِنْ أُدْمٍ فِيهِ خَلٌّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أُمِّ هَانِئٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ اسْمُهُ ثَابِتُ بْنُ أَبِي صَفِيَّةَ، وَأُمُّ هَانِئٍ مَاتَتْ بَعْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ بِزَمَانٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: لَا أَعْرِفُ لِلشَّعْبِيِّ سَمَاعًا مِنْ أُمِّ هَانِئٍ فَقُلْتُ: أَبُو حَمْزَةَ كَيْفَ هُوَ عِنْدَكَ فَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: تَكَلَّمَ فِيهِ وَهُوَ عِنْدِي مُقَارِبُ الْحَدِيثِ.
ام ہانی بنت ابوطالب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تمہارے پاس (کھانے کے لیے) کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: نہیں، صرف روٹی کے چند خشک ٹکڑے اور سرکہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لاؤ، وہ گھر سالن کا محتاج نہیں ہے جس میں سرکہ ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف ام ہانی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ام ہانی کی وفات علی بن ابی طالب کے کچھ دنوں بعد ہوئی، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: شعبی کا سماع ام ہانی سے میں نہیں جانتا ہوں، ۴- میں نے پھر پوچھا: آپ کی نظر میں ابوحمزہ ثابت بن ابی صفیہ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: احمد بن حنبل کا ان کے بارے میں کلام ہے اور میرے نزدیک وہ مقارب الحدیث ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18002) (حسن) (سند میں ابو حمزہ، ثابت بن ابی صفیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن مسند احمد (3/353) میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، الصحیحة: 2220)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (2220)
قال الشيخ زبير على زئي: (1841) إسناده ضعيف أبوحمزة الثمالي ثابت بن أبى صفية ضعيف رافضي (تقدم: 46۔45) وللحديث شاھد ضعيف عند الحاكم (54/4 ح 6875) فيه سعدان بن الوليد مجھول الحال: لم أجد من وثقه، و روى أحمد(353/3 ح 14807) عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ((نعم الإدام الخل، ما أقفر بيت فى خل .)) وسنده حسن وانظر صحيح مسلم (2052)
(مرفوع) حدثنا عبدة بن عبد الله الخزاعي، حدثنا معاوية بن هشام، عن سفيان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان ياكل البطيخ بالرطب "، قال: وفي الباب عن انس، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب ورواه بعضهم عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسل ولم يذكر فيه، عن عائشة وقد روى يزيد بن رومان، عن عروة، عن عائشة هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ وَقَدْ رَوَى يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کھجور کے ساتھ تربوز کھاتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض لوگوں نے اسے «عن هشام بن عروة عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے، اس میں عائشہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یزید بن رومان نے اس حدیث کو عروہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔