ابوکبشہ انماری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی آستینیں کشادہ تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث منکر ہے، ۲- عبداللہ بن بسر بصرہ کے رہنے والے ہیں، محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، یحییٰ بن سعید وغیرہ نے انہیں ضعیف کہا ہے، ۳- «بطح» چوڑی اور کشادہ چیز کو کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12144) (ضعیف) (اس کے راوی عبد اللہ بن بسر مکی ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4333 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (1782) إسناده ضعيف أبوسعيد عبدالله بن بسر: ضعيف (تق:3230) وقال الھيثمي: وضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 405/9)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن مسلم بن نذير، عن حذيفة قال: " اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بعضلة ساقي او ساقه، فقال: " هذا موضع الإزار "، فإن ابيت فاسفل، فإن ابيت فلا حق للإزار في الكعبين "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح رواه الثوري وشعبة، عن ابي إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ نَذِيرٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: " أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَضَلَةِ سَاقِي أَوْ سَاقِهِ، فَقَالَ: " هَذَا مَوْضِعُ الْإِزَارِ "، فَإِنْ أَبَيْتَ فَأَسْفَلَ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَلَا حَقَّ لِلْإِزَارِ فِي الْكَعْبَيْنِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یا میری پنڈلی کا گوشت پکڑا اور فرمایا: ”یہ تہبند کی جگہ ہے، اگر اس پر راضی نہ ہو تو تھوڑا اور نیچا کر لو، پھر اگر اور نیچا کرنا چاہو تو تہ بند ٹخنوں سے نیچا نہیں کر سکتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ثوری اور شعبہ نے بھی اس کو ابواسحاق سبیعی سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/اللباس 7 (3572)، (تحفة الأشراف: 3383) و مسند احمد (5/382، 396، 398، 400، 401) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی تہ بند باندھنے کی اصل جگہ آدھی پنڈلی تک اگر اس سے نیچا رکھنا ہے تو ٹخنوں سے کچھ اوپر تک رکھنے کی گنجائش ہے، اس سے نیچا رکھنا منع ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا محمد بن ربيعة، عن ابي الحسن العسقلاني، عن ابي جعفر بن محمد بن ركانة، عن ابيه، ان ركانة صارع النبي صلى الله عليه وسلم فصرعه النبي صلى الله عليه وسلم قال ركانة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب وإسناده ليس بالقائم ولا نعرف ابا الحسن العسقلاني، ولا ابن ركانة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْعَسْقَلَانِيِّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَرَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رُكَانَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ فَرْقَ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلَانِسِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَائِمِ وَلَا نَعْرِفُ أَبَا الْحَسَنِ الْعَسْقَلَانِيَّ، وَلَا ابْنَ رُكَانَةَ.
محمد بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی لڑی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پچھاڑ دیا، رکانہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: ”ہمارے اور مشرکوں کے درمیان فرق ٹوپیوں پر عمامہ باندھنے کا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند قائم (صحیح) نہیں ہے، ۳- ہم ابوالحسن عسقلانی اور ابن رکانہ کو نہیں جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ اللباس 24 (4078)، (تحفة الأشراف: 3614) (ضعیف) (اس کے راوی ابو جعفر بن محمد مجہول ہیں نیز محمد بن علی یزید بن رکانہ اور ان کے پردادا رکانہ یا محمد بن یزید بن رکانہ ان کے دادا کے درمیان انقطاع ہے، اس بابت سخت اختلاف ہے دیکھئے: تہذیب الکمال)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4340)، الإرواء (1503) // ضعيف الجامع الصغير (3959)، ضعيف أبي داود (882 / 4078) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1784) إسناده ضعيف / د 4078
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد، حدثنا زيد بن حباب، وابو تميلة يحيى بن واضح، عن عبد الله بن مسلم، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم وعليه خاتم من حديد فقال: " ما لي ارى عليك حلية اهل النار "، ثم جاءه وعليه خاتم من صفر، فقال: " ما لي اجد منك ريح الاصنام "، ثم اتاه وعليه خاتم من ذهب، فقال: " مالي ارى عليك حلية اهل الجنة "، قال: من اي شيء اتخذه، قال: " من ورق ولا تتمه مثقالا " قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وفي الباب، عن عبد الله بن عمرو، وعبد الله بن مسلم يكنى ابا طيبة وهو مروزي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، وَأَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَ: " مَا لِي أَرَى عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَهْلِ النَّارِ "، ثُمَّ جَاءَهُ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ صُفْرٍ، فَقَالَ: " مَا لِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ "، ثُمَّ أَتَاهُ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: " مَالِي أَرَى عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَهْلِ الْجَنَّةِ "، قَالَ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ أَتَّخِذُهُ، قَالَ: " مِنْ وَرِقٍ وَلَا تُتِمَّهُ مِثْقَالًا " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمٍ يُكْنَى أَبَا طَيْبَةَ وَهُوَ مَرْوَزِيٌّ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہو؟“ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کر آیا، آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبو آ رہی ہے؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنتیوں کا زیور پہنے ہو؟ اس نے پوچھا: میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ نے فرمایا: ”چاندی کی اور (وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اور وہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخاتم 4 (4223)، سنن النسائی/الزینة 46 (5198)، (تحفة الأشراف: 1982)، و مسند احمد (5/359) (ضعیف) (اس کے راوی عبداللہ بن مسلم ابو طیبہ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اکثر وہم ہو جایا کرتا تھا)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4396)، آداب الزفاف (128)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن ابن ابي موسى، قال: سمعت عليا يقول: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القسي والميثرة الحمرائ وان البس خاتمي في هذه وفي هذه واشار إلى السبابة والوسطى.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُوسَى، قَال: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: نَهَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْقَسِّيِّ وَالْمِيثَرَةِ الْحَمْرَائِ وَأَنْ أَلْبَسَ خَاتَمِي فِي هَذِهِ وَفِي هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قسي»(ایک ریشمی کپڑا) سرخ (رنگ کا ریشمی) زین پوش اور اس انگلی اور اس انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور انہوں نے شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 16 (2087)، والذکر 18 (2725)، سنن ابی داود/ الخاتم 4 (4225)، سنن النسائی/الزینة 52 (5213)، 79 (5288)، و 121 (5378)، سنن ابن ماجہ/اللباس 43 (3648)، (تحفة الأشراف: 10318)، و مسند احمد (1/88، 134، 138) (صحیح) ہذہ أو ہذہ کے لفظ سے صحیح ہے، اور دونوں سیاق کا معنی ایک ہی ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح - بلفظ " فى هذه أو هذه " شك عاصم - الضعيفة (5499)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن انس قال: كان احب الثياب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبسها الحبرة. قال ابو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا الْحِبَرَةُ. قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ کپڑا جسے آپ پہنتے تھے وہ دھاری دار یمنی چادر تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 18 (5812)، صحیح مسلم/اللباس 5 (2079)، سنن النسائی/الزینة 94 (5317)، والمؤلف في الشمائل 8 (تحفة الأشراف: 1353)، و مسند احمد (3/134، 184، 251، 291) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل المحمدية (51)