جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 29 (2116)، (تحفة الأشراف: 2816)، و مسند احمد (3/318، 378) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چہرہ جسم کے اعضاء میں سب سے افضل و اشرف ہے، چہرہ پر مارنے سے بعض حواس ناکام ہو سکتے ہیں، ساتھ ہی چہرہ کے عیب دار ہونے کا بھی خطرہ ہے، اسی لیے مارنے کے ساتھ اس پر کسی طرح کا داغ لگانا بھی ناپسند سمجھا گیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2185)، صحيح أبي داود (2310)
(مرفوع) حدثنا محمد بن الوزير الواسطي، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن سفيان، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " عرضت على رسول الله صلى الله عليه وسلم في جيش وانا ابن اربع عشرة فلم يقبلني، ثم عرضت عليه من قابل في جيش وانا ابن خمس عشرة فقبلني "، قال نافع: فحدثت بهذا الحديث عمر بن عبد العزيز، فقال: " هذا حد ما بين الصغير والكبير، ثم كتب ان يفرض لمن بلغ الخمس عشرة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَلَمْ يَقْبَلْنِي، ثُمَّ عُرِضْتُ عَلَيْهِ مِنْ قَابِلٍ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَقَبِلَنِي "، قَالَ نَافِعٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَقَالَ: " هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، ثُمَّ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ لِمَنْ بَلَغَ الْخَمْسَ عَشْرَةَ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کر لیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہو جائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1361 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہو جائے تو وہ بلوغت کی حد کو پہنچ جاتا ہے، اسی طرح سے زیر ناف بال نکل آنا اور احتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے، اور لڑکی کو حیض آ جائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عبيد الله، نحوه بمعناه إلا انه قال: قال عمر بن عبد العزيز: " هذا حد ما بين الذرية والمقاتلة "، ولم يذكر انه كتب " ان يفرض "، قال ابو عيسى: حديث إسحاق بن يوسف، حديث حسن صحيح غريب من حديث سفيان الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: " هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الذُّرِّيَّةِ وَالْمُقَاتِلَةِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَّهُ كَتَبَ " أَنْ يُفْرَضَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ إِسْحَاق بْنِ يُوسُفَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.
اس سند سے عمر سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث مروی ہے اور اس میں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: یہ چھوٹے اور لڑنے والے کے درمیان حد ہے، انہوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے مال غنیمت میں سے حصہ متعین کرنے کا فرمان جاری کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسحاق بن یوسف کی حدیث جو سفیان ثوری کی روایت سے آئی ہے، وہ حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 7903) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2543)
32. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُسْتَشْهَدُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ
32. باب: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے پر قرض ہو تو کیا حکم ہے؟
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، انه سمعه يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قام فيهم فذكر لهم: ان الجهاد في سبيل الله، والإيمان بالله، افضل الاعمال، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، ارايت إن قتلت في سبيل الله، يكفر عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم، إن قتلت في سبيل الله وانت صابر محتسب مقبل غير مدبر "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف قلت؟ "، قال: ارايت إن قتلت في سبيل الله، ايكفر عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم، وانت صابر محتسب مقبل غير مدبر، إلا الدين، فإن جبريل قال لي ذلك "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن انس، ومحمد بن جحش، وابي هريرة، وهذا حديث حسن صحيح، وروى بعضهم هذا الحديث عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وروى يحيى بن سعيد الانصاري، وغير واحد هذا، عن سعيد المقبري، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهذا اصح من حديث سعيد المقبري، عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَامَ فِيهِمْ فَذَكَرَ لَهُمْ: أَنَّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْإِيمَانَ بِاللَّهِ، أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، إِنْ قُتِلْتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ قُلْتَ؟ "، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَيُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ، إِلَّا الدَّيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لِي ذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کر ان سے بیان کیا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہے“۱؎، (یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں، تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اگر تم اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو، آگے بڑھنے والے ہو، پیچھے مڑنے والے نہ ہو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کیسے کہا ہے؟“ عرض کیا: آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اگر تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو اور آگے بڑھنے والے ہو پیچھے مڑنے والے نہ ہو، سوائے قرض کے ۲؎، یہ مجھ سے جبرائیل نے (ابھی) کہا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بسند «سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، یحییٰ بن سعید انصاری اور کئی لوگوں نے اس کو بسند «سعيد المقبري عن عبد الله ابن أبي قتادة عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت کی ہے، یہ روایت سعید مقبری کی روایت سے جو بواسطہ ابوہریرہ آئی ہے، زیادہ صحیح ہے، ۴- اس باب میں انس، محمد بن جحش اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: افضل اعمال کے سلسلہ میں مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل بتایا گیا ہے، اس کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں، ان احادیث میں «أفضل الأعمال» سے پہلے «من» پوشیدہ مانا جائے، مفہوم یہ ہو گا کہ یہ اعمال افضل ہیں، یا ان کا تذکرہ احوال واوقات اور جگہوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مخاطب کی روسے مختلف اعمال کی افضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا ازهر بن مروان البصري، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، عن ايوب، عن حميد بن هلال، عن ابي الدهماء، عن هشام بن عامر، قال: شكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الجراحات يوم احد فقال: " احفروا، واوسعوا، واحسنوا، وادفنوا الاثنين والثلاثة في قبر واحد، وقدموا اكثرهم قرآنا "، فمات ابي، فقدم بين يدي رجلين، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن خباب، وجابر، وانس، وهذا حديث حسن صحيح، وروى سفيان الثوري، وغيره هذا الحديث، عن ايوب، عن حميد بن هلال، عن هشام بن عامر، وابو الدهماء اسمه: قرفة بن بهيس او بيهس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي الدَّهْمَاءِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: شُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِرَاحَاتُ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ: " احْفِرُوا، وَأَوْسِعُوا، وَأَحْسِنُوا، وَادْفِنُوا الِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، وَقَدِّمُوا أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا "، فَمَاتَ أَبِي، فَقُدِّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلَيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ خَبَّابٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبُو الدَّهْمَاءِ اسْمُهُ: قِرْفَةُ بْنُ بُهَيْسٍ أَوْ بَيْهَسٍ.
ہشام بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زخموں کی شکایت کی گئی ۱؎، آپ نے فرمایا: ”قبر کھودو اور اسے کشادہ اور اچھی بناؤ، ایک قبر میں دو یا تین آدمیوں کو دفن کرو، اور جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے (قبلہ کی طرف) آگے کرو“، ہشام بن عامر کہتے ہیں: میرے والد بھی وفات پائے تھے، چنانچہ ان کو ان کے دو ساتھیوں پر مقدم (یعنی قبلہ کی طرف آگے) کیا گیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سفیان ثوری اور دوسرے لوگوں نے اس حدیث کو بسند «أيوب عن حميد بن هلال عن هشام بن عامر» روایت کیا ہے، ۳- اس باب میں خباب، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 1 7 (3215)، سنن النسائی/الجنائز 86 (2012)، و 90 (2017)، و 91 (2020)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 41 (1560)، (تحفة الأشراف: 11731)، و مسند احمد (4/19، 20) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی صحابہ کرام نے یہ شکایت کی، اللہ کے رسول ہم زخموں سے چور ہیں، اس لائق نہیں ہیں کہ شہداء کی الگ الگ قبریں تیار کر سکیں، ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، کیونکہ الگ الگ قبر کھودنے میں دشواری ہو رہی ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، قال: لما كان يوم بدر، وجيء بالاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما تقولون في هؤلاء الاسارى؟ "، فذكر قصة في هذا الحديث طويلة، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عمر، وابي ايوب، وانس، وابي هريرة، وهذا حديث حسن، وابو عبيدة لم يسمع من ابيه، ويروى عن ابي هريرة، قال: ما رايت احدا اكثر مشورة لاصحابه من رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، وَجِيءَ بِالْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟ "، فَذَكَرَ قِصَّةً فِي هَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو“، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ہے، ۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتا ہو ۲؎، ۴- اس حدیث میں عمر، ابوایوب، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (3084)، (تحفة الأشراف: 9628) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا، ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں، انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سر قلم کرے، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سوکھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلا دیا جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کی باتیں سن کر خاموش رہے، اندر گئے پھر باہر آ کر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کر دیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کر دیتا ہے“، ابوبکر رضی الله عنہ کی مثال ابراہیم و عیسیٰ سے دی، عمر رضی الله عنہ کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ کی موسیٰ علیہ السلام سے، پھر آپ نے ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا، دوسرے دن جب عمر رضی الله عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی الله عنہ کو روتا دیکھ کر عرض کیا، اللہ کے رسول! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں بھی شامل ہو جاتا، یا روہانسی صورت بنا لیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہو گیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض»(الأنفال: ۶۷)۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہو گی، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (5 / 47 - 48)، وسيأتي (5080 // 598 / 3293 // بزيادة في المتن)
قال الشيخ زبير على زئي: (1714) إسناده ضعيف / يأتي:3084 أبوعبيدة لم يسمع من أبيه كما تقدم (1061) والأعمش عنعن (تقدم: 169)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن ابن ابي ليلى، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس " ان المشركين ارادوا ان يشتروا جسد رجل من المشركين، فابى النبي صلى الله عليه وسلم ان يبيعهم إياه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث الحكم، ورواه الحجاج بن ارطاة ايضا عن الحكم، وقال احمد بن الحسن: سمعت احمد بن حنبل، يقول: ابن ابي ليلى لا يحتج بحديثه، وقال محمد بن إسماعيل: ابن ابي ليلى صدوق ولكن لا نعرف صحيح حديثه من سقيمه ولا اروي عنه شيئا، وابن ابي ليلى صدوق فقيه، وربما يهم في الإسناد، حدثنا نصر بن علي، قال: حدثنا عبد الله بن داود، عن سفيان الثوري، قال: فقهاؤنا ابن ابي ليلى عبد الله بن شبرمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّ الْمُشْرِكِينَ أَرَادُوا أَنْ يَشْتَرُوا جَسَدَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَبَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَهُمْ إِيَّاهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَكَمِ، وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ أَيْضًا عَنْ الْحَكَمِ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: سَمِعْتُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، يَقولُ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: ابْنُ أَبِي لَيْلَى صَدُوقٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ صَحِيحَ حَدِيثِهِ مِنْ سَقِيمِهِ وَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى صَدُوقٌ فَقِيهٌ، وَرُبَّمَا يَهِمُ فِي الْإِسْنَادِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: فُقَهَاؤُنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شُبْرُمَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مشرک کی لاش کو خریدنا چاہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے انکار کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف حکم کی روایت سے جانتے ہیں، اس کو حجاج بن ارطاۃ نے بھی حکم سے روایت کیا ہے، ۳- احمد بن حنبل کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ کی حدیث قابل حجت نہیں ہے، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں لیکن ہم کو ان کی صحیح حدیثیں ان کی ضعیف حدیثوں سے پہچان نہیں پاتے، میں ان سے کچھ نہیں روایت کرتا ہوں، ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں فقیہ ہیں، لیکن بسا اوقات ان سے سندوں میں وہم ہو جاتا ہے، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: ہمارے فقہاء ابن ابی لیلیٰ اور عبداللہ بن شبرمہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 6475) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (1715) إسناده ضعيف محمد ابن أبى ليلي:ضعيف (تقدم: 194)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابن عمر، قال: " بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية، فحاص الناس حيصة، فقدمنا المدينة، فاختبينا بها وقلنا: هلكنا، ثم اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا: يا رسول الله، نحن الفرارون "، قال: " بل انتم العكارون وانا فئتكم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن لا نعرفه إلا من حديث يزيد بن ابي زياد، ومعنى قوله: فحاص الناس حيصة، يعني: انهم فروا من القتال، ومعنى قوله: " بل انتم العكارون "، والعكار: الذي يفر إلى إمامه لينصره، ليس يريد الفرار من الزحف.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَاخْتَبَيْنَا بِهَا وَقُلْنَا: هَلَكْنَا، ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحْنُ الْفَرَّارُونَ "، قَالَ: " بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ وَأَنَا فِئَتُكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، يَعْنِي: أَنَّهُمْ فَرُّوا مِنَ الْقِتَالِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ "، وَالْعَكَّارُ: الَّذِي يَفِرُّ إِلَى إِمَامِهِ لِيَنْصُرَهُ، لَيْسَ يُرِيدُ الْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا، (پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے، مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اور ہم نے کہا: ہلاک ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم بھگوڑے ہیں، آپ نے فرمایا: ”بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف یزید بن ابی زیاد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- «فحاص الناس حيصة» کا معنی یہ ہے کہ لوگ لڑائی سے فرار ہو گئے، ۳- اور «بل أنتم العكارون» اس کو کہتے ہیں: جو فرار ہو کر اپنے امام (کمانڈر) کے پاس آ جائے تاکہ وہ اس کی مدد کرے نہ کہ لڑائی سے فرار ہونے کا ارادہ رکھتا ہو۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن الاسود بن قيس، قال: سمعت نبيحا العنزي يحدث، عن جابر، قال: لما كان يوم احد، جاءت عمتي بابي لتدفنه في مقابرنا، فنادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ردوا القتلى إلى مضاجعهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ونبيح ثقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، قَال: سَمِعْتُ نُبَيْحًا الْعَنَزِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي لِتَدْفِنَهُ فِي مَقَابِرِنَا، فَنَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رُدُّوا الْقَتْلَى إِلَى مَضَاجِعِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَنُبَيْحٌ ثِقَةٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن میری پھوپھی میرے باپ کو لے کر آئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک منادی نے پکارا: مقتولوں کو ان کی قتل گاہوں میں لوٹا دو (دفن کرو)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور نبیح ثقہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 42 (3165)، سنن النسائی/الجنائز 83 (2006)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 28 (1516)، (تحفة الأشراف: 3117)، سنن الدارمی/المقدمة 7 (46) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کے راوی نبیح عنزی لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یہ حکم شہداء کے لیے خاص ہے، حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ شہداء موت و حیات اور بعث و حشر میں بھی ایک ساتھ رہیں، عام میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اشد ضرورت کے تحت منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شرط یہ ہے کہ نعش کی بےحرمتی نہ ہو اور آب و ہوا کے اثر سے اس میں کوئی تغیر نہ ہو، سعید ابن ابی وقاص کو صحابہ کی موجودگی میں مدینہ منتقل کیا گیا تھا، کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس آئے تو لوگ آپ کے استقبال کے لیے ثنیۃ الوداع تک نکلے: میں بھی لوگوں کے ساتھ نکلا حالانکہ میں کم عمر تھا۔