سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل جہاد
The Book on Virtues of Jihad
حدیث نمبر: 1638
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، عن ابيه، عن قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن معدان بن ابي طلحة، عن ابي نجيح السلمي رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من رمى بسهم في سبيل الله، فهو له عدل محرر "، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وابو نجيح هو عمرو بن عبسة السلمي، وعبد الله بن الازرق هو عبد الله بن زيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي نَجِيحٍ السُّلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ لَهُ عَدْلُ مُحَرَّرٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو نَجِيحٍ هُوَ عَمْرُو بْنُ عَبْسَةَ السُّلَمِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَزْرَقِ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ.
ابونجیح عمرو بن عبسہ سلمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیر مارا، وہ (ثواب میں) ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- ابونجیح کا نام عمرو بن عبسہ سلمی ہے،
۳- عبداللہ بن ازرق سے مراد عبداللہ بن زید ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العتق 14 (3965)، سنن النسائی/الجہاد 26 (3145)، (تحفة الأشراف: 10768)، و مسند احمد (4/13، 386) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2812)
12. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْحَرْسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
12. باب: جہاد میں پہرہ دینے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1639
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا بشر بن عمر، حدثنا شعيب بن رزيق ابو شيبة، حدثنا عطاء الخراساني، عن عطاء بن ابي رباح، عن ابن عباس، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " عينان لا تمسهما النار: عين بكت من خشية الله، وعين باتت تحرس في سبيل الله "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عثمان، وابي ريحانة، وحديث ابن عباس حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث شعيب بن رزيق.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ رُزَيْقٍ أَبُو شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُثْمَانَ، وَأَبِي رَيْحَانَةَ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شُعَيْبِ بْنِ رُزَيْقٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شعیب بن رزیق ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں عثمان اور ابوریحانہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5935) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3829)، التعليق الرغيب (2 / 153)
13. باب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ الشُّهَدَاءِ
13. باب: شہداء کے اجر و ثواب کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1640
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن طلحة اليربوعي الكوفي، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن حميد، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " القتل في سبيل الله يكفر كل خطيئة "، فقال جبريل: إلا الدين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إلا الدين "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن كعب بن عجرة، وجابر، وابي هريرة، وابي قتادة، وهذا حديث غريب، لا نعرفه من حديث ابي بكر، إلا من حديث هذا الشيخ، قال: وسالت محمد بن إسماعيل عن هذا الحديث فلم يعرفه، وقال: ارى انه اراد حديث حميد، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " ليس احد من اهل الجنة يسره ان يرجع إلى الدنيا إلا الشهيد ".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ طَلْحَةَ الْيَرْبُوعِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ "، فَقَالَ جِبْرِيلُ: إِلَّا الدَّيْنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الدَّيْنَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، وقَالَ: أَرَى أَنَّهُ أَرَادَ حَدِيثَ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا إِلَّا الشَّهِيدُ ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: سوائے قرض کے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: سوائے قرض کے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اس حدیث کو ابی بکر کی روایت سے صرف اسی شیخ (یعنی یحییٰ بن طلحہ) کے واسطے سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا: میرا خیال ہے یحییٰ بن طلحہ نے حمید کی حدیث بیان کرنا چاہی جس کو انہوں نے انس سے، انس رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: شہید کے علاوہ کوئی ایسا جنتی نہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹنا چاہے،
۳- اس باب میں کعب بن عجرہ، جابر، ابوہریرہ اور ابوقتادہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 818) (صحیح) (عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث (عند مسلم) سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں کلام ہے جس کی صراحت مؤلف نے کر سنن الدارمی/ ہے)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1196)، غاية المرام (351)، تخريج مشكلة الفقر (67)
حدیث نمبر: 1641
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن الزهري، عن ابن كعب بن مالك، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن ارواح الشهداء في طير خضر تعلق من ثمر الجنة او شجر الجنة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَعْلُقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ أَوْ شَجَرِ الْجَنَّةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہداء کی روحیں (جنت میں) سبز پرندوں کی شکل میں ہیں، جو جنت کے پھلوں یا درختوں سے کھاتی چرتی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 117 (2075)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 4 ((1449)، والزہد 32 (4271)، (تحفة الأشراف: 11148)، وط/الجنائز 16 (49)، و مسند احمد (3/455، 456، 460) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4271)
حدیث نمبر: 1642
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا علي بن المبارك، عن يحيى بن ابي كثير، عن عامر العقيلي، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " عرض علي اول ثلاثة يدخلون الجنة: شهيد، وعفيف متعفف، وعبد احسن عبادة الله ونصح لمواليه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَامِرٍ الْعُقَيْلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عُرِضَ عَلَيَّ أَوَّلُ ثَلَاثَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: شَهِيدٌ، وَعَفِيفٌ مُتَعَفِّفٌ، وَعَبْدٌ أَحْسَنَ عِبَادَةَ اللَّهِ وَنَصَحَ لِمَوَالِيهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اوپر ان تین اشخاص کو پیش کیا گیا جو جنت میں سب سے پہلے جائیں گے: ایک شہید، دوسرا حرام سے دور رہنے والا اور نامناسب امور سے بچنے والا، تیسرا وہ غلام جو اچھی طرح اللہ کی عبادت بجا لائے اور اپنے مالکان کے لیے خیر چاہے یا ان کے حقوق بجا لائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي) وانظر: مسند احمد (2/425) (ضعیف) (سند میں عامر العقیلی مجہول ہیں اور ان کے والد عقبہ العقیلی مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کے وقت، اور یہاں کوئی متابع نہیں ہے، نیز یحیی بن ابی کثیر مدلس اور ارسال کرنے والے راوی ہیں، اور یہاں پر ان کی روایت عنعنہ سے ہے، اور ان سے روایت کرنے والے علی بن المبارک الہنائی کی یحیی بن ابی کثیر سے دو کتابیں تھیں ایک کتاب کا انہیں سماع حاصل تھا، اور دوسری روایت مرسل اور کوفی رواة جب علی بن المبارک سے روایت کرتے ہیں تو ان میں بعض ضعف ہوتا ہے، اور یہاں پر علی بن المبارک کے شاگرد عثمان بن عمر بصری راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 268)، // ضعيف الجامع الصغير (3702)، المشكاة (3832) //
حدیث نمبر: 1643
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " ما من عبد يموت له عند الله خير يحب ان يرجع إلى الدنيا وان له الدنيا وما فيها إلا الشهيد، لما يرى من فضل الشهادة، فإنه يحب ان يرجع إلى الدنيا فيقتل مرة اخرى "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال ابن ابي عمر: قال سفيان بن عيينة: كان عمرو بن دينار اسن من الزهري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَمُوتُ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا وَأَنَّ لَهُ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا إِلَّا الشَّهِيدُ، لِمَا يَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ، فَإِنَّهُ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَسَنَّ مِنْ الزُّهْرِيِّ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرنے والا کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کے لیے اللہ کے پاس ثواب ہو اور وہ دنیا کی طرف دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس کی خاطر لوٹنا چاہتا ہو۔ سوائے شہید کے، اس لیے کہ وہ شہادت کا مقام و مرتبہ دیکھ چکا ہے، چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور دوبارہ شہید ہو (کر آئے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 6 (2795)، و 21 (2817)، صحیح مسلم/الإمارة 29 (1877)، (تحفة الأشراف: 588)، و مسند احمد (3/103، 136، 153، 173، 251، 276، 278، 284، 289) ویأتي برقم 1661 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
14. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ
14. باب: اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہیدوں کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1644
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عطاء بن دينار، عن ابي يزيد الخولاني، انه سمع فضالة بن عبيد، يقول: سمعت عمر بن الخطاب، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الشهداء اربعة: رجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو فصدق الله حتى قتل، فذلك الذي يرفع الناس إليه اعينهم يوم القيامة هكذا "، ورفع راسه حتى وقعت قلنسوته، قال: فما ادري اقلنسوة عمر اراد ام قلنسوة النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ورجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو فكانما ضرب جلده بشوك طلح من الجبن اتاه سهم غرب فقتله، فهو في الدرجة الثانية، ورجل مؤمن خلط عملا صالحا وآخر سيئا لقي العدو فصدق الله حتى قتل، فذلك في الدرجة الثالثة، ورجل مؤمن اسرف على نفسه لقي العدو فصدق الله حتى قتل، فذلك في الدرجة الرابعة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث عطاء بن دينار، قال: سمعت محمدا، يقول: قد روى سعيد بن ابي ايوب هذا الحديث، عن عطاء بن دينار، وقال: عن اشياخ من خولان ولم يذكر فيه عن ابي يزيد، وقال عطاء بن دينار: ليس به باس.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَعْيُنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَكَذَا "، وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي أَقَلَنْسُوَةَ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا ضُرِبَ جِلْدُهُ بِشَوْكِ طَلْحٍ مِنَ الْجُبْنِ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ، فَهُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: قَدْ رَوَى سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، وَقَالَ: عَنْ أَشْيَاخٍ مِنْ خَوْلَانَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي يَزِيدَ، وقَالَ عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: شہید چار طرح کے ہیں: پہلا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن سے مقابلہ اور اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہی وہ شخص ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ اس طرح آنکھیں اٹھا کر دیکھیں گے اور (راوی فضالہ بن عبید نے اس کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کہا) اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ٹوپی (سر سے) گر گئی، راوی ابویزید خولانی کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم فضالہ نے عمر رضی الله عنہ کی ٹوپی مراد لی یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی، آپ نے فرمایا: دوسرا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن کا مقابلہ اس طرح کرے تو ان بزدلی کی وجہ سے اس کی جلد (کھال) «طلح» (ایک بڑا خاردار درخت) کے کاٹے سے زخمی ہو گئی ہو، پیچھے سے (ایک انجان) تیر آ کر اسے لگے اور مار ڈالے، یہ دوسرے درجہ میں ہے، تیسرا وہ مومن جو نیک عمل کے ساتھ برا عمل بھی کرے، جب دشمن سے مقابلہ کرے تو اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے (یعنی بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہ تیسرے درجہ میں ہے، چوتھا وہ مومن شخص جو اپنے نفس پر ظلم کرے (یعنی کثرت گناہ کی وجہ سے، اور بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہ چوتھے درجہ میں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عطاء بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: یہ حدیث سعید بن ابی ایوب نے عطاء بن دینار سے روایت کی ہے اور انہوں نے خولان کے مشائخ سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابویزید کا ذکر نہیں کیا، اور عطاء بن دینار نے کہا: (کہ اس حدیث میں) کچھ حرج نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10623) (ضعیف) (سند میں ”ابویزید الخولانی“ مجہول ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (3858 / التحقيق الثاني)، الضعيفة (2004) // ضعيف الجامع الصغير (3446) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1644) إسناده ضعيف
أبويزيد الخولاني لم يوثقه غير الترمذي فيما أعلم وقال فى التقريب: ”مجھول“ (8449)
15. باب مَا جَاءَ فِي غَزْوِ الْبَحْرِ
15. باب: سمندر میں جہاد کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1645
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، انه سمعه يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل على ام حرام بنت ملحان فتطعمه، وكانت ام حرام تحت عبادة بن الصامت، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فاطعمته، وجلست تفلي راسه، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم استيقظ وهو يضحك، قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال: " ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله، يركبون ثبج هذا البحر ملوك على الاسرة او مثل الملوك على الاسرة "، قلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم، فدعا لها، ثم وضع راسه فنام، ثم استيقظ وهو يضحك، قالت: فقلت: ما يضحكك يا رسول الله، قال: " ناس من امتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله "، نحو ما قال في الاول، قالت: فقلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم، قال: " انت من الاولين "، قال: فركبت ام حرام البحر في زمان معاوية بن ابي سفيان، فصرعت عن دابتها حين خرجت من البحر فهلكت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وام حرام بنت ملحان هي اخت ام سليم وهي خالة انس بن مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، وَجَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكٌ عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، نَحْوَ مَا قَالَ فِي الْأَوَّلِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: " أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ "، قَالَ: فَرَكِبَتْ أُمُّ حَرَامٍ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ هِيَ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ وَهِيَ خَالَةُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان کے گھر جب بھی جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتیں، ام حرام رضی الله عنہا عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کے عقد میں تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں، آپ سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، ام حرام رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے؟ آپ نے (جواب میں) فرمایا: میرے سامنے میری امت کے کچھ مجاہدین پیش کئے گئے، وہ اس سمندر کے سینہ پر سوار تھے، تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے «ملوك على الأسرة» کہا، یا «مثل الملوك على الأسرة» میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے، چنانچہ آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی، آپ پھر اپنا سر رکھ کر سو گئے، پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے؟ فرمایا: میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے پیش کئے گئے، آپ نے اسی طرح فرمایا جیسے اس سے پہلے فرمایا تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ مجھے ان لوگوں میں کر دے، آپ نے فرمایا: تم (سمندر میں) پہلے (جہاد کرنے) والے لوگوں میں سے ہو۔ انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما کے زمانہ میں ام حرام رضی الله عنہا سمندری سفر پر (ایک جہاد میں) نکلیں تو وہ سمندر سے نکلتے وقت اپنی سواری سے گر گئیں اور ہلاک ہو گئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ام حرام بنت ملحان، ام سلیم کی بہن اور انس بن مالک کی خالہ ہیں، (اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ننہال میں سے قریبی رشتہ دار تھیں)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 3 (2788)، و 8 (2799)، و 63 (2877)، و 75 (2894)، والاستئذان 41 (66282)، والتعبیر12 (7001)، صحیح مسلم/الإمارة 49 (2912)، سنن ابی داود/ الجہاد 10 (2490)، سنن النسائی/الجہاد 40 (3173)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 10 (2776)، (تحفة الأشراف: 199) و موطا امام مالک/الجہاد 18 (39)، و مسند احمد (3/264)، و انظر أیضا: 6/361، 423، 435) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2776)
16. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُقَاتِلُ رِيَاءً وَلِلدُّنْيَا
16. باب: ریا و نمود اور دنیا طلبی کے لیے جہاد کرنے والے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1646
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن شقيق بن سلمة، عن ابي موسى، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يقاتل شجاعة، ويقاتل حمية، ويقاتل رياء، فاي ذلك في سبيل الله؟ قال: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عمر، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيُقَاتِلُ رِيَاءً، فَأَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ایک آدمی اظہار شجاعت (بہادری) کے لیے لڑتا ہے، دوسرا حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے، تیسرا ریاکاری کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے جہاد کرے، وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 45 (123)، والجہاد 15 (2810)، والخمس 10 (3126)، والتوحید 28 (4728)، صحیح مسلم/الإمارة 42 (1904)، سنن ابی داود/ الجہاد 26 (2517)، سنن النسائی/الجہاد 31 (3138)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 13 (2783)، (تحفة الأشراف: 8999)، و مسند احمد (4/392، 397، 402، 405، 417) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2783)
حدیث نمبر: 1647
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن إبراهيم، عن علقمة بن وقاص الليثي، عن عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما الاعمال بالنية، وإنما لامرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله، فهجرته إلى الله وإلى رسوله، ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها او امراة يتزوجها، فهجرته إلى ما هاجر إليه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن مالك بن انس، وسفيان الثوري، وغير واحد من الائمة هذا، عن يحيى بن سعيد، ولا نعرفه إلا من حديث يحيى بن سعيد الانصاري، قال: قال عبد الرحمن بن مهدي: ينبغي ان نضع هذا الحديث في كل باب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ هَذَا، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: يَنْبَغِي أَنْ نَضَعَ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كُلِّ بَابٍ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی اسی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے مانی جائے گی اور جس نے حصول دنیا یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کی ہو گی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- مالک بن انس، سفیان ثوری اور کئی ائمہ حدیث نے اسے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سعید انصاری ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۳- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: ہمیں اس حدیث کو ہر باب میں رکھنا چاہیئے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الوحي 1 (1)، والإیمان 41 (45)، والعتق 6 (2529)، ومناقب الأنصار 45 (3898)، والنکاح 5 (5070)، والنذور 23 (6689)، والحیل 1 (6953)، صحیح مسلم/الإمارة 45 (907)، سنن ابی داود/ الطلاق 11 (2201)، سنن النسائی/الطہارة 60 (75)، والطلاق 24 (3467)، والأیمان والنذور 18 (3825)، سنن ابن ماجہ/الزہد 21 (4227)، (تحفة الأشراف: 10612)، و مسند احمد (1/25، 43) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4227)

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.