(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن سعيد بن مسروق، عن عباية بن رفاعة، عن ابيه، عن جده رافع بن خديج، قال: " كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فتقدم سرعان الناس، فتعجلوا من الغنائم، فاطبخوا، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في اخرى الناس، فمر بالقدور، فامر بها، فاكفئت، ثم قسم بينهم، فعدل بعيرا بعشر شياه "، قال ابو عيسى: وروى سفيان الثوري، عن ابيه، عن عباية، عن جده رافع بن خديج ولم يذكر فيه عن ابيه، حدثنا بذلك محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، عن سفيان وهذا اصح، وعباية بن رفاعة سمع من جده رافع بن خديج، قال: وفي الباب، عن ثعلبة بن الحكم، وانس، وعبد الرحمن بن سمرة، وزيد بن خالد، وجابر.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَتَقَدَّمَ سَرْعَانُ النَّاسِ، فَتَعَجَّلُوا مِنَ الْغَنَائِمِ، فَاطَّبَخُوا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُخْرَى النَّاسِ، فَمَرَّ بِالْقُدُورِ، فَأَمَرَ بِهَا، فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَهُمْ، فَعَدَلَ بَعِيرًا بِعَشْرِ شِيَاهٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبَايَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ وَهَذَا أَصَحُّ، وَعَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ سَمِعَ مِنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَجَابِرٍ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، جلد باز لوگ آگے بڑھے اور غنیمت سے (کھانے پکانے کی چیزیں) جلدی لیا اور (تقسیم سے پہلے اسے) پکانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پیچھے آنے والے لوگوں کے ساتھ تھے، آپ ہانڈیوں کے قریب سے گزرے تو آپ نے حکم دیا اور وہ الٹ دی گئیں، پھر آپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا، آپ نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سفیان ثوری نے یہ حدیث بطریق: «عن أبيه سعيد، عن عباية، عن جده رافع بن خديج» روایت کی ہے، اس سند میں عبایہ نے اپنے باپ کے واسطے کا نہیں ذکر کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم سے اس حدیث کو محمود بن غیلان نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے وکیع نے بیان کیا، اور وکیع سفیان سے روایت کرتے ہیں۔ یہ روایت زیادہ صحیح ہے، عبایہ بن رفاعہ کا سماع ان کے دادا رافع بن خدیج سے ثابت ہے، ۲- اس باب میں ثعلبہ بن حکم، انس، ابوریحانہ، ابوالدرداء، عبدالرحمٰن بن سمرہ، زید بن خالد، جابر، ابوہریرہ اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1491 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تقسیم سے قبل یہ جلد باز لوگ اس مشترکہ مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور بکریوں کو ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لوٹے ہوئے مال کو حرام قرار دیا اور چولہے پر چڑھی ہانڈیوں کے الٹ دینے کا حکم دیا۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ثابت، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من انتهب فليس منا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، من حديث انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ انْتَهَبَ فَلَيْسَ مِنَّا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوٹ پاٹ مچائے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی معصوم کے مال کو اس کی اجازت و رضا مندی کے بغیر ڈاکہ زنی کر کے لینا حرام ہے، اور اگر کوئی یہ کام حلال سمجھ کر کر رہا ہے تو وہ کافر ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2947 / التخريج الثانى)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا تبدءوا اليهود والنصارى بالسلام، وإذا لقيتم احدهم في الطريق، فاضطروهم إلى اضيقه "، قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وانس، وابي بصرة الغفاري صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ومعنى هذا الحديث: " لا تبدءوا اليهود والنصارى "، قال بعض اهل العلم: إنما معنى: الكراهية، لانه يكون تعظيما لهم، وإنما امر المسلمون بتذليلهم، وكذلك إذا لقي احدهم في الطريق فلا يترك الطريق عليه، لان فيه تعظيما لهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلَامِ، وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ، فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: " لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى "، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّمَا مَعْنَى: الْكَرَاهِيَةِ، لِأَنَّهُ يَكُونُ تَعْظِيمًا لَهُمْ، وَإِنَّمَا أُمِرَ الْمُسْلِمُونَ بِتَذْلِيلِهِمْ، وَكَذَلِكَ إِذَا لَقِيَ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَلَا يَتْرُكِ الطَّرِيقَ عَلَيْهِ، لِأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهُمْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور ان میں سے جب کسی سے تمہارا آمنا سامنا ہو جائے تو اسے تنگ راستے کی جانب جانے پر مجبور کر دو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، انس رضی الله عنہم اور ابو بصرہ غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تم خود ان سے سلام نہ کرو (بلکہ ان کے سلام کرنے پر صرف جواب دو)، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ اس لیے ناپسند ہے کہ پہلے سلام کرنے سے ان کی تعظیم ہو گی جب کہ مسلمانوں کو انہیں تذلیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح راستے میں آمنا سامنا ہو جانے پر ان کے لیے راستہ نہ چھوڑے کیونکہ اس سے بھی ان کی تعظیم ہو گی (جو صحیح نہیں ہے)۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کی رو سے مسلمان کا یہود و نصاریٰ اور مجوس وغیرہ کو پہلے سلام کہنا حرام ہے، جمہور کی یہی رائے ہے۔ راستے میں آمنا سامنا ہونے پر انہیں تنگ راستے کی جانب مجبور کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ چھوٹے لوگ ہیں۔ اور یہ غیر اسلامی حکومتوں میں ممکن نہیں اس لیے بقول ائمہ شر وفتنہ سے بچنے کے لیے جو محتاط طریقہ ہو اسے اپنانا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (704)، الإرواء (1271)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اليهود إذا سلم عليكم احدهم فإنما يقول: السام عليكم، فقل: عليك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدُهُمْ فَإِنَّمَا يَقُولُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَقُلْ: عَلَيْكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود میں سے کوئی جب تم لوگوں کو سلام کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: «السام عليک»(یعنی تم پر موت ہو)، اس لیے تم جواب میں صرف «عليک» کہو (یعنی تم پر موت ہو)“۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، عن جرير بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية إلى خثعم، فاعتصم ناس بالسجود، فاسرع فيهم القتل، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فامر لهم بنصف العقل وقال: " انا بريء من كل مسلم يقيم بين اظهر المشركين "، قالوا: يا رسول الله، ولم؟ قال: " لا ترايا ناراهما "،(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ، فَاعْتَصَمَ نَاسٌ بِالسُّجُودِ، فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ: " أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِمَ؟ قَالَ: " لَا تَرَايَا نَارَاهُمَا "،
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے) کچھ لوگوں نے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے“، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آخر کیوں؟ آپ نے فرمایا: ”(مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیئے کہ) وہ دونوں ایک دوسرے (کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 105 (2645)، سنن النسائی/القسامة 26 (4784)، (تحفة الأشراف: 3227) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، دیکھئے: الارواء: رقم 1207)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب مسلمان کفار کے درمیان مقیم ہوں اور مجاہدین کے ہاتھوں ان کا قتل ہو جائے تو مجاہدین پر اس کا کوئی گناہ نہیں، اور ”دونوں ایک دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکیں“ کا مطلب یہ ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق مشرکین کے گھروں اور علاقوں سے ہجرت کرنا ضروری ہے کیونکہ اسلام اور کفر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آدھی دیت کا حکم اس لیے دیا کیونکہ باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بطور سزا ساقط ہو گئی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون الأمر بنصف العقل، الإرواء (1207)، صحيح أبي داود (2377)
قال الشيخ زبير على زئي: (1604) إسناده ضعيف / د 2645
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، مثل حديث ابي معاوية ولم يذكر فيه عن جرير وهذا اصح، وفي الباب، عن سمرة، قال ابو عيسى: واكثر اصحاب إسماعيل، عن قيس بن ابي حازم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية، ولم يذكروا فيه عن جرير، ورواه حماد بن سلمة، عن الحجاج بن ارطاة، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس، عن جرير، مثل حديث ابي معاوية، قال: وسمعت محمدا يقول: الصحيح حديث قيس، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسل، وروى سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تساكنوا المشركين، ولا تجامعوهم، فمن ساكنهم او جامعهم، فهو مثلهم ".(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ جَرِيرٍ وَهَذَا أَصَحُّ، وَفِي الْبَاب، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ جَرِيرٍ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرٍ، مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ قَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ، وَرَوَى سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تُسَاكِنُوا الْمُشْرِكِينَ، وَلَا تُجَامِعُوهُمْ، فَمَنْ سَاكَنَهُمْ أَوْ جَامَعَهُمْ، فَهُوَ مِثْلُهُمْ ".
عبدہ نے یہ حدیث بطریق: «إسمعيل بن أبي خالد عن قيس ابن أبي عن النبي صلى الله عليه وسلم»(مرسلاً) ابومعاویہ کے مثل حدیث روایت کی ہے، اس میں انہوں (عبدہ) نے جریر کے واسطے کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ روایت زیادہ صحیح ہے، ۲- اسماعیل بن ابی خالد کے اکثر شاگرد اسماعیل کے واسطہ سے قیس بن ابی حازم سے (مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ روانہ کیا، ان لوگوں نے اس میں جریر کے واسطے کا ذکر نہیں کیا، اور حماد بن سلمہ نے بطریق: «الحجاج بن أرطاة عن إسمعيل بن أبي خالد عن قيس عن جرير»(مرفوعاً) ابومعاویہ کے مثل اس کی روایت کی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: صحیح یہ ہے کہ قیس کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل ہے، نیز سمرہ بن جندب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: ”مشرکوں کے ساتھ نہ رہو اور نہ ان کی ہم نشینی اختیار کرو، جو ان کے ساتھ رہے گا یا ان کی ہم نشینی اختیار کرے گا وہ بھی انہیں میں سے مانا جائے گا، ۳- اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے۔
عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں زندہ رہا تو ان شاءاللہ جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال باہر کر دوں گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جزیرہ عرب وہ حصہ ہے جسے بحر ہند، بحر احمر، بحر شام و دجلہ اور فرات نے احاطہٰ کر رکھا ہے، یا طول کے لحاظ سے عدن ابین کے درمیان سے لے کر اطراف شام تک کا علاقہ اور عرض کے اعتبار سے جدہ سے لے کر آبادی عراق کے اطراف تک کا علاقہ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ جزیرہ عرب سے کافروں اور یہود و نصاری کو باہر نکال دیں، آپ کی زندگی میں اس پر پوری طرح عمل نہ کیا جا سکا، لیکن عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کو کہ عرب میں دو دین نہ رہیں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے جلا وطن کر دیا۔
عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میں جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو ضرور نکالوں گا اور اس میں صرف مسلمان کو باقی رکھوں گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1134)، صحيح أبي داود
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابو الوليد، حدثنا حماد بن سلمة، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: جاءت فاطمة إلى ابي بكر، فقالت: من يرثك؟ قال: اهلي وولدي قالت: فما لي لا ارث ابي؟ فقال ابو بكر سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا نورث، ولكني اعول من كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوله، وانفق على من كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق عليه "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عمر، وطلحة، والزبير، وعبد الرحمن بن عوف، وسعد، وعائشة، وحديث ابي هريرة حديث حسن غريب من هذا الوجه، إنما اسنده حماد بن سلمة، وعبد الوهاب بن عطاء، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: لا اعلم احدا رواه عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، إلا حماد بن سلمة، وروى عبد الوهاب بن عطاء، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، نحو رواية حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: مَنْ يَرِثُكَ؟ قَالَ: أَهْلِي وَوَلَدِي قَالَتْ: فَمَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا نُورَثُ، وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُهُ، وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَطَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، إِنَّمَا أَسْنَدَهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، إِلَّا حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، وَرَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، نَحْوَ رِوَايَةِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہو گا؟ انہوں نے کہا: میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا“(پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اسے حماد بن سلمہ اور عبدالوہاب بن عطاء نے مسنداً روایت کیا ہے یہ دونوں اور محمد بن عمر سے اور محمد ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں کہا: میں حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا ہوں جس نے اس حدیث کو محمد بن عمرو سے محمد نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے (مرفوعاً) روایت کی ہو۔ (ترمذی کہتے ہیں: ہاں) عبدالوہاب بن عطاء نے بھی محمد بن عمرو سے اور محمد نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے حماد بن سلمہ کی روایت کی طرح روایت کی ہے، ۳- اس باب میں عمر، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف، سعد اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔