سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
33. باب مَا جَاءَ فِي الْهِجْرَةِ
33. باب: ہجرت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1590
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا زياد بن عبد الله، حدثنا منصور بن المعتمر، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يوم فتح مكة لا هجرة بعد الفتح، ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا "، قال: وفي الباب، عن ابي سعيد، وعبد الله بن عمرو، وعبد الله بن حبشي، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه سفيان الثوري، عن منصور بن المعتمر، نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، نَحْوَ هَذَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل پڑو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سفیان ثوری نے بھی منصور بن معتمر سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ابوسعید، عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن حبشی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 10 (1834)، والجہاد 1 (2783)، و 27 (2825)، و 194 (3077)، والجزیة 22 (3189)، صحیح مسلم/الحج 82 (1353)، والإمارة 20 (1353/85)، سنن ابی داود/ المناسک 90 (2018)، (إشارة) والجہاد 2 (2480)، سنن النسائی/البیعة 15 (4175)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 9 (2773)، (تحفة الأشراف: 5748)، و مسند احمد (1/226، 226، 316، 355)، وسنن الدارمی/السیر 69 (2554) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیونکہ مکہ اب دارالسلام بن گیا ہے، البتہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت تاقیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر و بھلائی سے لوگ محروم ہو گئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2773)
34. باب مَا جَاءَ فِي بَيْعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
34. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیعت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1591
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد الاموي، حدثنا عيسى بن يونس، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله، في قوله تعالى: لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة سورة الفتح آية 18، قال جابر" بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على ان لا نفر، ولم نبايعه على الموت "، قال: وفي الباب، عن سلمة بن الاكوع، وابن عمر، وعبادة، وجرير بن عبد الله، قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث عن عيسى بن يونس، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، قال: قال جابر بن عبد الله: ولم يذكر فيه ابو سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ سورة الفتح آية 18، قَالَ جَابِرٌ" بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَنْ لَا نَفِرَّ، وَلَمْ نُبَايِعْهُ عَلَى الْمَوْتِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعُبَادَةَ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ أَبُو سَلَمَةَ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے آیت کریمہ: «لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة» اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے۔ (الفتح: ۱۸) کے بارے میں روایت ہے، جابر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرار نہ ہونے کی بیعت کی تھی، ہم نے آپ سے موت کے اوپر بیعت نہیں کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث بسند «عيسى بن يونس عن الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير عن جابر بن عبد الله» مروی ہے، اس میں یحییٰ بن ابی کثیر اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کے درمیان ابوسلمہ کے واسطے کا ذکر نہیں ہے،
۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع، ابن عمر، عبادہ اور جریر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 18 (1856)، سنن النسائی/البیعة 7 (4163)، (تحفة الأشراف: 3163)، و مسند احمد (3/355، 381، 396)، وسنن الدارمی/السیر 18 (2498) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: (1591) إسناده ضعيف
يحيي بن أبى كثير عنعن (د 293) و أحاديث مسلم (1856) وأحمد (292/3) تغني عنه
حدیث نمبر: 1592
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن ابي عبيد، قال: قلت لسلمة بن الاكوع: " على اي شيء بايعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية؟ قال: على الموت "، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ: " عَلَى أَيِّ شَيْءٍ بَايَعْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ؟ قَالَ: عَلَى الْمَوْتِ "، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے پوچھا: حدیبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 110 (2960)، والمغازي 35 (4169)، والأحکام 43 (7206)، و 44 (7208)، صحیح مسلم/الإمارة 18 (1860)، سنن النسائی/البیعة 8 (4164)، (تحفة الأشراف: 4536)، و مسند احمد (4/47، 51، 54) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث کا بھی مفہوم یہ ہے کہ ہم نے میدان سے نہ بھاگنے کی بیعت کی تھی، بھلے ہم اپنی جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھو بیٹھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1593
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: كنا نبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، فيقول لنا: " فيما استطعتم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح كلاهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا نُبَايِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَيَقُولُ لَنَا: " فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كِلَاهُمَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (یعنی آپ کے حکم سننے اور آپ کی اطاعت کرنے) پر بیعت کرتے تھے، پھر آپ ہم سے فرماتے: جتنا تم سے ہو سکے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- حدیث جابر اور حدیث سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہما دونوں حدیثوں کا معنی صحیح ہے، (ان میں تعارض نہیں ہے) بعض صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت کی تھی، ان لوگوں نے کہا تھا: ہم آپ کے سامنے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ قتل کر دیئے جائیں، اور دوسرے لوگوں نے آپ سے بیعت کرتے ہوئے کہا تھا: ہم نہیں بھاگیں گے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأحکام 43 (7202)، صحیح مسلم/الإمارة 22 (1867)، سنن النسائی/البیعة 24 (4192)، (تحفة الأشراف: 7127)، وط/البیعة 1 (1)، و مسند احمد (2/62، 81، 101، 139) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2606)
حدیث نمبر: 1594
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: " لم نبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الموت، إنما بايعناه على ان لا نفر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ومعنى كلا الحديثين صحيح: قد بايعه قوم من اصحابه على الموت، وإنما قالوا: لا نزال بين يديك حتى نقتل، وبايعه آخرون، فقالوا: لا نفر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " لَمْ نُبَايِعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَوْتِ، إِنَّمَا بَايَعْنَاهُ عَلَى أَنْ لَا نَفِرَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ: قَدْ بَايَعَهُ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِهِ عَلَى الْمَوْتِ، وَإِنَّمَا قَالُوا: لَا نَزَالُ بَيْنَ يَدَيْكَ حَتَّى نُقْتَلَ، وَبَايَعَهُ آخَرُونَ، فَقَالُوا: لَا نَفِرُّ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت نہیں کی تھی، ہم نے تو آپ سے بیعت کی تھی کہ نہیں بھاگیں گے (چاہے اس کا انجام کبھی موت ہی کیوں نہ ہو جائے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1591، (تحفة الأشراف: 2763) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
35. باب مَا جَاءَ فِي نَكْثِ الْبَيْعَةِ
35. باب: بیعت توڑنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1595
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عمار، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم: رجل بايع إماما، فإن اعطاه وفى له، وإن لم يعطه لم يف له "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وعلى ذلك الامر بلا اختلاف.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا، فَإِنْ أَعْطَاهُ وَفَى لَهُ، وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ لَمْ يَفِ لَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلَى ذَلِكَ الْأَمْرُ بِلَا اخْتِلَافٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق) دیا تو اس نے بیعت پوری کی اور اگر نہیں دیا تو بیعت پوری نہیں کی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بلا اختلاف اسی کے موافق حکم ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المساقاة 10 (2369)، والشہادات 22 (2672)، والأحکام 48 (7212)، صحیح مسلم/الإیمان 46 (173)، سنن ابی داود/ البیوع 62 (3474)، سنن النسائی/البیوع 6 (4474)، سنن ابن ماجہ/التجارات 30 (2207)، والجہاد 42 (2870)، (تحفة الأشراف: 12472)، و مسند احمد (2/253) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: باقی دو آدمی جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہیں: ایک وہ آدمی جس کے پاس لمبے چوڑے صحراء میں اس کی ضرورتوں سے زائد پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے، دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے، پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کر لیا حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2207)
36. باب مَا جَاءَ فِي بَيْعَةِ الْعَبْدِ
36. باب: غلام کی بیعت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1596
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابي الزبير، عن جابر، انه قال: جاء عبد فبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الهجرة، ولا يشعر النبي صلى الله عليه وسلم انه عبد، فجاء سيده، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " بعنيه، فاشتراه بعبدين اسودين، ولم يبايع احدا بعد حتى يساله: اعبد هو؟ "، قال: وفي الباب، عن ابن عباس، قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن غريب صحيح، لا نعرفه إلا من حديث ابي الزبير.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ، فَجَاءَ سَيِّدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِعْنِيهِ، فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، وَلَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّى يَسْأَلَهُ: أَعَبْدٌ هُوَ؟ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے، اتنے میں اس کا مالک آ گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اسے بیچ دو، پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خرید لیا، اس کے بعد آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- ہم اس کو صرف ابوالزبیر کی روایت سے جانتے ہیں،
۳- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تقدم في البیوع برقم 1591 (تحفة الأشراف: 2763) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز ہے، اس شرط کے ساتھ کہ یہ خرید و فروخت بصورت نقد ہو، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیعت کے لیے آئے ہوئے شخص سے اس کی غلامی و آزادی سے متعلق پوچھ لینا ضروری ہے، کیونکہ غلام ہونے کی صورت میں اس سے بیعت لینی صحیح نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
37. باب مَا جَاءَ فِي بَيْعَةِ النِّسَاءِ
37. باب: عورتوں کی بیعت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1597
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن المنكدر، سمع اميمة بنت رقيقة، تقول: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في نسوة، فقال لنا: " فيما استطعتن واطقتن "، قلت: الله ورسوله ارحم بنا منا بانفسنا، قلت: يا رسول الله، بايعنا، قال سفيان: تعني: صافحنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما قولي لمائة امراة كقولي لامراة واحدة "، قال: وفي الباب، عن عائشة، وعبد الله بن عمر، واسماء بنت يزيد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن المنكدر، وروى سفيان الثوري، ومالك بن انس، وغير واحد هذا الحديث، عن محمد بن المنكدر، نحوه، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: لا اعرف لاميمة بنت رقيقة غير هذا الحديث، واميمة امراة اخرى لها حديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ أُمَيْمَةَ بِنْتَ رُقَيْقَةَ، تَقُولُ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَنَا: " فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ "، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا مِنَّا بِأَنْفُسِنَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْنَا، قَالَ سُفْيَانُ: تَعْنِي: صَافِحْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، نَحْوَهُ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: لَا أَعْرِفُ لِأُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَأُمَيْمَةُ امْرَأَةٌ أُخْرَى لَهَا حَدِيثٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
امیمہ بنت رقیقہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کئی عورتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، آپ نے ہم سے فرمایا: اطاعت اس میں لازم ہے جو تم سے ہو سکے اور جس کی تمہیں طاقت ہو، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہم پر خود ہم سے زیادہ مہربان ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے بیعت لیجئے (سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: ان کا مطلب تھا مصافحہ کیجئے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سو عورتوں کے لیے میرا قول میرے اس قول جیسا ہے جو ایک عورت کے لیے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف محمد بن منکدر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، سفیان ثوری، مالک بن انس اور کئی لوگوں نے محمد بن منکدر سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں امیمہ بنت رقیقہ کی اس کے علاوہ دوسری کوئی حدیث نہیں جانتا ہوں،
۳- امیمہ نام کی ایک دوسری عورت بھی ہیں جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث آئی ہے۔
۴- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن عمر اور اسماء بنت یزید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیعة 18 (4186)، و 24 (4195)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 43 (2874)، (تحفة الأشراف: 15781)، وط/البیعة 1 (2)، و مسند احمد (6/357) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: زبان ہی سے بیعت لینا عورتوں کے لیے کافی ہے مصافحہ کی ضرورت نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2874)
38. باب مَا جَاءَ فِي عِدَّةِ أَصْحَابِ أَهْلِ بَدْرٍ
38. باب: اہل بدر کی تعداد کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1598
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا واصل بن عبد الاعلى الكوفي، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: " كنا نتحدث: ان اصحاب بدر يوم بدر، كعدة اصحاب طالوت، ثلاث مائة وثلاثة عشر رجلا "، قال: وفي الباب، عن ابن عباس، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه الثوري، وغيره، عن ابي إسحاق.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: " كُنَّا نَتَحَدَّثُ: أَنَّ أَصْحَابَ بَدْرٍ يَوْمَ بَدْرٍ، كَعِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ، ثَلَاثُ مِائَةٍ وَثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ غزوہ بدر کے دن بدری لوگ تعداد میں طالوت کے ساتھیوں کے برابر تین سو تیرہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ثوری اور دوسرے لوگوں نے بھی ابواسحاق سبیعی سے اس کی روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 6 (3957، 3959)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 25 (2828)، (تحفة الأشراف: 1908) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
39. باب مَا جَاءَ فِي الْخُمُسِ
39. باب: مال غنیمت میں اللہ و رسول کے حصے خمس نکالنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1599
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عباد بن عباد المهلبي، عن ابي جمرة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لوفد عبد القيس: " آمركم ان تؤدوا خمس ما غنمتم "، قال: وفي الحديث قصة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِوَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ: " آمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ "، قَالَ: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس سے فرمایا: میں تم لوگوں کو حکم دیتا ہوں کہ مال غنیمت سے خمس (یعنی پانچواں حصہ) ادا کرو،
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 40 (53)، والعلم 25 (87)، والمواقیت 2 (523)، والزکاة 1 (1398)، والمناقب 5 (3510)، والمغازي 69 (4369)، والأدب 98 (6176)، وخبر الواحد 5 (7266)، والتوحید 56 (7556)، صحیح مسلم/الإیمان 6 (17)، والأشربة 6 (1995)، سنن ابی داود/ الأشربة 7 (3692)، والسنة 15 (4677)، سنن النسائی/الإیمان 25، (5034)، والأشربہة (5564)، و 48 (5708)، (تحفة الأشراف: 6524)، و مسند احمد 1/128، 274، 291، 304، 334، 340، 352، 361)، سنن الدارمی/الأشربة 14 (27157)، ویأتي عندع المؤلف في الإیمان برقم 2611 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: تفصیل کے لیے دیکھئیے صحیح بخاری وصحیح مسلم کتاب الایمان۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر البخاري (40)، الإيمان لأبي عبيد (59 / 1)

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.