(مرفوع) حدثنا قتيبة , واحمد بن منيع , وابو عمار , وغير واحد , قالوا: حدثنا سفيان بن عيينة , عن الزهري، عن سعيد بن المسيب , ان عمر كان يقول: الدية على العاقلة , ولا ترث المراة من دية زوجها شيئا , حتى اخبره الضحاك بن سفيان الكلابي , " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إليه ان ورث امراة اشيم الضبابي من دية زوجها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , وَأَبُو عَمَّارٍ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , أَنَّ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ: الدِّيَةُ عَلَى الْعَاقِلَةِ , وَلَا تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا شَيْئًا , حَتَّى أَخْبَرَهُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الْكِلَابِيُّ , " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ وَرِّثْ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی الله عنہ کہتے تھے: دیت کی ادائیگی عاقلہ ۱؎ پر ہے، اور بیوی اپنے شوہر کی دیت سے میراث میں کچھ نہیں پائے گی، یہاں تک کہ ان کو ضحاک بن سفیان کلابی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک فرمان لکھا تھا: ”اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے میراث دو“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الفرائض 18 (2927)، سنن ابن ماجہ/الدیات 12 (2642)، (تحفة الأشراف: 4973)، و مسند احمد (3/452) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سعید بن المسیب کے عمر رضی الله عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، ملاحظہ ہو صحیح ابی داود رقم: 2599)»
وضاحت: ۱؎: دیت کے باب میں «عقل»، «عقول» اور «عاقلہ» کا ذکر اکثر آتا ہے اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے: عقل دیت کا ہم معنی ہے، اس کی اصل یہ ہے کہ قاتل جب کسی کو قتل کرتا تو دیت کی ادائیگی کے لیے اونٹوں کو جمع کرتا، پھر انہیں مقتول کے اولیاء کے گھر کے سامنے رسیوں میں باندھ دیتا، اسی لیے دیت کا نام «عقل» پڑ گیا، اس کی جمع «عقول» آتی ہے، اور «عاقلہ» باپ کی جہت سے قاتل کے وہ قریبی لوگ ہیں جو قتل خطا کی صورت میں دیت کی ادائیگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
۲؎: سنن ابوداؤد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ پھر عمر رضی الله عنہ نے اپنے اس قول ”بیوی شوہر کی دیت سے میراث نہیں پائے گی“ سے رجوع کر لیا۔
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم , انبانا عيسى بن يونس , عن شعبة , عن قتادة , قال: سمعت زرارة بن اوفى يحدث , عن عمران بن حصين , ان رجلا عض يد رجل , فنزع يده , فوقعت ثنيتاه , فاختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " يعض احدكم اخاه , كما يعض الفحل , لا دية لك " , فانزل الله: والجروح قصاص سورة المائدة آية 45. قال: وفي الباب: عن يعلى بن امية , وسلمة بن امية وهما اخوان , قال ابو عيسى: حديث عمران بن حصين حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ , أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , قَال: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى يُحَدِّثُ , عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ , فَنَزَعَ يَدَهُ , فَوَقَعَتْ ثَنِيَّتَاهُ , فَاخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ , كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ , لَا دِيَةَ لَكَ " , فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ سورة المائدة آية 45. قَالَ: وَفِي الْبَاب: عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ , وَسَلَمَةَ بْنِ أُمَيَّةَ وَهُمَا أَخَوَانِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ کھایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو دانت کاٹنے والے کے دونوں اگلے دانت ٹوٹ گئے، وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا معاملہ لے گئے تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اونٹ کے کاٹنے کی طرح کاٹ کھاتا ہے، تمہارے لیے کوئی دیت نہیں، پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی: «والجروح قصاص»۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمران بن حصین رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲ - اس باب میں یعلیٰ بن امیہ اور سلمہ بن امیہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں اور یہ دونوں بھائی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدیات 18 (6892)، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) 4 (1673)، سنن النسائی/القسامة 18 (4762-4766)، سنن ابن ماجہ/الدیات 20 (2657)، (تحفة الأشراف: 10823)، و مسند احمد (4/427، 430، 435) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ (المائدہ: ۴۵)، لہٰذا جن میں قصاص لینا ممکن ہے ان میں قصاص لیا جائے گا اور جن میں ممکن نہیں ان میں قاضی اپنے اجتہاد سے کام لے گا۔
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت ۱؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدۃ قشیری کی حدیث جسے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، حسن ہے، ۳- اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ نے بہز بن حکیم سے یہ حدیث اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کی ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اس تہمت اور الزام کے کئی سبب ہو سکتے ہیں: اس نے جھوٹی گواہی دی ہو گی، یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعویٰ پیش کیا ہو گا، یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہو گا، پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید و بند کرنا ایک شرعی امر ہے۔
۲؎: پوری حدیث کے لیے دیکھئیے سنن ابی داود حوالہ مذکور۔
(مرفوع) حدثنا سلمة بن شبيب , وحاتم بن سياه المروزي , وغير واحد , قالوا: حدثنا عبد الرزاق , عن معمر , عن الزهري، عن طلحة بن عبد الله بن عوف , عن عبد الرحمن بن عمرو بن سهل , عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " " من قتل دون ماله فهو شهيد , ومن سرق من الارض شبرا طوقه يوم القيامة من سبع ارضين " " , وزاد حاتم بن سياه المروزي , في هذا الحديث قال معمر: بلغني عن الزهري , ولم اسمع منه , زاد في هذا الحديث: " " من قتل دون ماله فهو شهيد , " "، وهكذا روى شعيب بن ابي حمزة هذا الحديث , عن الزهري , عن طلحة بن عبد الله , عن عبد الرحمن بن عمرو بن سهل , عن سعيد بن زيد , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وروى سفيان بن عيينة , عن الزهري , عن طلحة بن عبد الله , عن سعيد بن زيد , عن النبي صلى الله عليه وسلم , ولم يذكر فيه سفيان , عن عبد الرحمن بن عمرو بن سهل , وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ , وَحَاتِمُ بْنُ سِيَاهٍ الْمَرْوَزِيُّ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " " مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ , وَمَنْ سَرَقَ مِنَ الْأَرْضِ شِبْرًا طُوِّقَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ " " , وَزَادَ حَاتِمُ بْنُ سِيَاهٍ الْمَرْوَزِيُّ , فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ مَعْمَرٌ: بَلَغَنِي عَنْ الزُّهْرِيِّ , وَلَمْ أَسْمَعْ مِنْهُ , زَادَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: " " مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ , " "، وَهَكَذَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ سُفْيَانُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ , وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سعید بن زید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے ۱؎ اور جس نے ایک بالشت بھی زمین چرائی قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث میں حاتم بن سیاہ مروزی نے اضافہ کیا ہے، معمر کہتے ہیں: زہری سے مجھے حدیث پہنچی ہے، لیکن میں نے ان سے نہیں سنا کہ انہوں نے اس حدیث یعنی «من قتل دون ماله فهو شهيد»”جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے“ میں کچھ اضافہ کیا ہو، اسی طرح شعیب بن ابوحمزہ نے یہ حدیث بطریق: «الزهري عن طلحة بن عبد الله عن عبدالرحمٰن بن عمرو بن سهل عن سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، نیز سفیان بن عیینہ نے بطریق: «الزهري عن طلحة بن عبد الله عن سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اس میں سفیان نے عبدالرحمٰن بن عمرو بن سہل کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 32 (4772)، سنن النسائی/المحاربة 22 (4095)، سنن ابن ماجہ/الحدود 21 (2580)، (تحفة الأشراف: 4461)، و مسند احمد (1/187، 188، 189، 190) ویأتي برقم: 1421 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اپنی جان، مال، اہل و عیال اور عزت و ناموس کی حفاظت اور دفاع ایک شرعی امر ہے، ایسا کرتے ہوئے اگر کسی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تو اسے شہادت کا درجہ نصیب ہو گا، لیکن یہ شہید میدان جہاد کے شہید کے مثل نہیں ہے، اسے غسل دیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے کفن بھی دیا جائے گا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا عبد العزيز بن المطلب , عن عبد الله بن الحسن , عن إبراهيم بن محمد بن طلحة , عن عبد الله بن عمرو , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من قتل دون ماله فهو شهيد ". قال: وفي الباب , عن علي , وسعيد بن زيد , وابي هريرة , وابن عمر , وابن عباس , وجابر , قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن عمرو حديث حسن , وقد روي عنه من غير وجه , وقد رخص بعض اهل العلم للرجل ان يقاتل عن نفسه وماله , وقال ابن المبارك: يقاتل عن ماله ولو درهمين.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ , وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَجَابِرٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلرَّجُلِ أَنْ يُقَاتِلَ عَنْ نَفْسِهِ وَمَالِهِ , وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: يُقَاتِلُ عَنْ مَالِهِ وَلَوْ دِرْهَمَيْنِ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، یہ دوسری سندوں سے بھی ان سے مروی ہے ۲- بعض اہل علم نے آدمی کو اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے دفاع کی اجازت دی ہے، ۳- اس باب میں علی، سعید بن زید، ابوہریرہ، ابن عمر، ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: آدمی اپنے مال کی حفاظت کے لیے دفاع کرے خواہ اس کا مال دو درہم ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی کسی دوسرے شخص کا ناحق مال لینا چاہتا ہے تو یہ دیکھے بغیر کہ مال کم ہے یا زیادہ مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے اس کا دفاع کرے، دفاع کرتے وقت غاصب اگر مارا جائے تو دفاع کرنے والے پر قصاص اور دیت میں سے کچھ بھی نہیں ہے اور اگر دفاع کرنے والا مارا جائے تو وہ شہید ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (41)، الإرواء (1528)
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کا مال ناحق چھینا جائے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے دفاع کرتا ہوا مارا جائے تو وہ شہید ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد , قال: اخبرني يعقوب بن إبراهيم بن سعد , حدثنا ابي , عن ابيه , عن ابي عبيدة بن محمد بن عمار بن ياسر، عن طلحة بن عبد الله بن عوف , عن سعيد بن زيد , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من قتل دون ماله فهو شهيد , ومن قتل دون دينه فهو شهيد , ومن قتل دون دمه فهو شهيد , ومن قتل دون اهله فهو شهيد ". قال: هذا حديث حسن صحيح , وهكذا روى غير واحد , عن إبراهيم بن سعد نحو هذا , ويعقوب هو: ابن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف الزهري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ , وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ , وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ , وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ هَذَا , وَيَعْقُوبُ هُوَ: ابْنُ إبرَاهِيمَ بنِ سَعْدِ بنِ إبرَاهِيمَ بنِ عَبدِ الرحمنِ بنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ.
سعید بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابراہیم بن سعد سے کئی راویوں نے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة , حدثنا الليث بن سعد , عن يحيى بن سعيد , عن بشير بن يسار , عن سهل بن ابي حثمة , قال يحيى: وحسبت عن رافع بن خديج , انهما قالا: خرج عبد الله بن سهل بن زيد , ومحيصة بن مسعود بن زيد , حتى إذا كانا بخيبر تفرقا في بعض ما هناك , ثم إن محيصة وجد عبد الله بن سهل قتيلا قد قتل فدفنه , ثم اقبل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هو وحويصة بن مسعود , وعبد الرحمن بن سهل , وكان اصغر القوم ذهب عبد الرحمن ليتكلم قبل صاحبيه , قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كبر للكبر " , فصمت وتكلم صاحباه , ثم تكلم معهما , فذكروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مقتل عبد الله بن سهل , فقال لهم: " اتحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم , او قاتلكم " , قالوا: وكيف نحلف ولم نشهد , قال: " فتبرئكم يهود بخمسين يمينا " قالوا: وكيف نقبل ايمان قوم كفار , فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطى عقله. حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا يحيى بن سعيد , عن بشير بن يسار , عن سهل بن ابي حثمة , ورافع بن خديج , نحو هذا الحديث بمعناه , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم في القسامة , وقد راى بعض فقهاء المدينة القود بالقسامة , وقال بعض اهل العلم من اهل الكوفة وغيرهم: إن القسامة لا توجب القود , وإنما توجب الدية.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , قَالَ يَحْيَى: وَحَسِبْتُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , أَنَّهُمَا قَالَا: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ , وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ , حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَاكَ , ثُمَّ إِنَّ مُحَيِّصَةَ وَجَدَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا قَدْ قُتِلَ فَدَفَنَهُ , ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ , وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ ذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ , قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَبِّرْ لِلْكُبْرِ " , فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ , ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا , فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ , فَقَالَ لَهُمْ: " أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ , أَوْ قَاتِلَكُمْ " , قَالُوا: وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ , قَالَ: " فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا " قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ , فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى عَقْلَهُ. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْقَسَامَةِ , وَقَدْ رَأَى بَعْضُ فُقَهَاءِ الْمَدِينَةِ الْقَوَدَ بِالْقَسَامَةِ , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّ الْقَسَامَةَ لَا تُوجِبُ الْقَوَدَ , وَإِنَّمَا تُوجِبُ الدِّيَةَ.
سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہو گئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”بڑے کا لحاظ کرو، لہٰذا وہ خاموش ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھیوں نے گفتگو کی، پھر وہ بھی ان دونوں کے ساتھ شریک گفتگو ہو گئے، ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ بیان کیا، آپ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤ گے (کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے) تاکہ تم اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہو جاؤ (یا کہا) قاتل کے خون کے مستحق ہو جاؤ؟“ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم قسم کیسے کھائیں جب کہ ہم حاضر نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا: ”تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری ہو جائیں گے“، ان لوگوں نے کہا: ہم کافر قوم کی قسم کیسے قبول کر لیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ معاملہ دیکھا تو ان کی دیت ۱؎ خود ادا کر دی۔ اس سند سے بھی سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج سے اسی طرح اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- قسامہ کے سلسلہ میں بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، ۳- مدینہ کے بعض فقہاء قسامہ ۲؎ کی بنا پر قصاص درست سمجھتے ہیں، ۴- کوفہ کے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں: قسامہ کی بنا پر قصاص واجب نہیں، صرف دیت واجب ہے۔
۲؎: «قسامہ»: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کا علم کسی کو نہ ہو، پھر قاتل کے خلاف کوئی شہادت بھی موجود نہ ہو، تو بعض قرائن کی بنیاد پر مقتول کے اولیاء کسی متعین شخص کے خلاف دعویٰ پیش کریں کہ فلاں نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے، مثلاً مقتول اور مدعی علیہ کے مابین عداوت پائی جائے، یا مقتول مدعی علیہ کے گھر کے قریب ہو یا مقتول کا سامان کسی انسان کے پاس پایا جائے، یہ سب قرائن ہیں، تو مدعی، مدعی علیہ کے خلاف پچاس قسمیں کھا کر مقتول کے خون کا مستحق ہو جائے گا، یا اگر مدعی قسم کھانے سے گریز کریں تو مدعا علیہ قسم کھا کر خوں طبہا سے بری ہو جائے گا، دونوں کے قسم نہ کھانے کی صورت میں خوں بہا بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔