سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
72. باب مَا جَاءَ فِي الْمُخَابَرَةِ وَالْمُعَاوَمَةِ
72. باب: مخابرہ اور معاومہ کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1313
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، حدثنا ايوب، عن ابي الزبير، عن جابر، " ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المحاقلة، والمزابنة، والمخابرة، والمعاومة، ورخص في العرايا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَالْمُعَاوَمَةِ، وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ، مزابنہ ۱؎، مخابرہ ۲؎ اور معاومہ ۳؎ سے منع فرمایا، اور آپ نے عرایا ۴؎ کی اجازت دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 16 (1536/85)، سنن ابی داود/ البیوع 34 (3404)، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة 45 (3910)، والبیوع 74 (4637)، سنن ابن ماجہ/التجارات 54 (2266)، (تحفة الأشراف: 2666)، و مسند احمد (3/313، 356، 360، 364، 391، 392) وانظر ما تقدم برقم 1290، وما عند صحیح البخاری/البیوع 83 (2381) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: محاقلہ اور مزابنہ کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم (۱۲۲۴)۔
۲؎: مخابرہ کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم (۱۲۹۰)۔
۳؎: عرایا کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حاشیہ حدیث رقم (۱۳۰۰)۔
۴؎: «بیع سنین» کو بیع معاومہ بھی کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کو کئی سالوں کے لیے بیچ دے، یہ بیع جائز نہیں ہے کیونکہ یہ معدوم کی بیع کی قبیل سے ہے، اس میں دھوکہ ہے، ممکن ہے کہ درخت میں پھل ہی نہ آئے، یا آئے مگر جتنی قیمت دی ہے اس سے زیادہ پھل آئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
73. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْعِيرِ
73. باب: چیزوں کی قیمت مقرر کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1314
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا الحجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن قتادة، وثابت، وحميد، عن انس، قال: غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، سعر لنا، فقال: " إن الله هو المسعر القابض الباسط الرزاق، وإني لارجو ان القى ربي، وليس احد منكم، يطلبني بمظلمة في دم، ولا مال ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَثَابِتٌ، وَحُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي، وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ، يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ، وَلَا مَالٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (غلہ وغیرہ کا) نرخ بڑھ گیا، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے نرخ مقرر کر دیجئیے، آپ نے فرمایا: نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا اور کھولنے والا اور بہت روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جان و مال کے سلسلے میں کسی ظلم (کے بدلے) کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 51 (3451)، سنن ابن ماجہ/التجارات 27 (2200)، (تحفة الأشراف: 318 و 614 و 1158)، و مسند احمد (3/286) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2200)
74. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْغِشِّ فِي الْبُيُوعِ
74. باب: بیع میں دھوکہ دینے کی حرمت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1315
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فادخل يده فيها، فنالت اصابعه بللا، فقال: " يا صاحب الطعام ما هذا "، قال: اصابته السماء يا رسول الله، قال: " افلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس "، ثم قال: " من غش فليس منا ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، وابي الحمراء، وابن عباس، وبريدة، وابي بردة بن نيار، وحذيفة بن اليمان. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، كرهوا الغش وقالوا: الغش حرام.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ: " يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ مَا هَذَا "، قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ "، ثُمَّ قَالَ: " مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَأَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَرِهُوا الْغِشَّ وَقَالُوا: الْغِشُّ حَرَامٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا: غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر آپ نے فرمایا: جو دھوکہ دے ۱؎، ہم میں سے نہیں ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲ - اس باب میں ابن عمر، ابوحمراء، ابن عباس، بریدہ، ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 43 (102)، سنن ابی داود/ البیوع 52 (3452)، سنن ابن ماجہ/التجارات 36 (2224)، (تحفة الأشراف: 13979)، و مسند احمد (2/242) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎ بیع میں دھوکہ دہی کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً سودے میں کوئی عیب ہو اسے ظاہر نہ کرنا، اچھے مال میں ردی اور گھٹیا مال کی ملاوٹ کر دینا، سودے میں کسی اور چیز کی ملاوٹ کر دینا تاکہ اس کا وزن زیادہ ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔
۲؎: ہم میں سے نہیں، کا مطلب ہے مسلمانوں کے طریقے پر نہیں، اس کا یہ فعل مسلمان کے فعل کے منافی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2224)
75. باب مَا جَاءَ فِي اسْتِقْرَاضِ الْبَعِيرِ أَوِ الشَّىْءِ مِنَ الْحَيَوَانِ أَوِ السِّنِّ
75. باب: اونٹ یا کوئی اور جانور قرض لینے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1316
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن علي بن صالح، عن سلمة بن كهيل، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: استقرض رسول الله صلى الله عليه وسلم سنا، فاعطاه سنا خيرا من سنه، وقال: " خياركم احاسنكم قضاء ". قال: وفي الباب، عن ابي رافع. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وقد رواه شعبة، وسفيان، عن سلمة، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، لم يروا باستقراض السن باسا من الإبل، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وكره بعضهم ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: اسْتَقْرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنًّا، فَأَعْطَاهُ سِنًّا خَيْرًا مِنْ سِنِّهِ، وَقَالَ: " خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ قَضَاءً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وُسُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَمْ يَرَوْا بِاسْتِقْرَاضِ السِّنِّ بَأْسًا مِنَ الْإِبِلِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا اور آپ نے اسے اس سے بہتر اونٹ دیا اور فرمایا: تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے شعبہ اور سفیان نے بھی سلمہ سے روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں ابورافع رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کسی بھی عمر کا اونٹ قرض لینے کو مکروہ نہیں سمجھتے ہیں،
۵- اور بعض لوگوں نے اسے مکروہ جانا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوکالة 5 (2305)، و6 (2306)، والاستقراض 4 (2390)، و 6 (2392)، و 7 (2393)، والہبة 23 (2606)، و 25 (2609)، صحیح مسلم/المساقاة 22 (البیوع 43) (1601)، سنن النسائی/البیوع 64 (4622)، و103 (4697)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 16 (الأحکام 56)، (2322)، (مقتصراً علی قولہ المرفوع) (تحفة الأشراف: 14963)، و مسند احمد (2/374، 393، 416، 431)، 456، 476، 509) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1317
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان رجلا تقاضى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاغلظ له فهم به اصحابه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دعوه فإن لصاحب الحق مقالا "، ثم قال: " اشتروا له بعيرا، فاعطوه إياه، فطلبوه فلم يجدوا إلا سنا افضل من سنه "، فقال: " اشتروه، فاعطوه إياه، فإن خيركم احسنكم قضاء ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا "، ثُمَّ قَالَ: " اشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلَّا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ "، فَقَالَ: " اشْتَرُوهُ، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (قرض کا) تقاضہ کیا اور سختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کا قصد کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار کو کہنے کا حق ہے، پھر آپ نے فرمایا: اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایسا ہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، آپ نے فرمایا: اسی کو خرید کر دے دو، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1317M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل نحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
‏‏‏‏ مولف نے محمد بن بشار کی سند سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1316»

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
حدیث نمبر: 1318
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا مالك بن انس، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكرا، فجاءته إبل من الصدقة، قال ابو رافع: " فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقضي الرجل بكره "، فقلت: لا اجد في الإبل إلا جملا خيارا رباعيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطه إياه فإن خيار الناس احسنهم قضاء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكْرًا، فَجَاءَتْهُ إِبِلٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ أَبُو رَافِعٍ: " فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ "، فَقُلْتُ: لَا أَجِدُ فِي الْإِبِلِ إِلَّا جَمَلًا خِيَارًا رَبَاعِيًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْطِهِ إِيَّاهُ فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا، پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ ادا کر دوں، میں نے آپ سے عرض کیا: مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اور اونٹ نہیں مل رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: اسے اسی کو دے دو، کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 22 (البیوع 43) (1600)، سنن ابی داود/ البیوع 11 (3346)، سنن النسائی/البیوع 64 (4621)، سنن ابن ماجہ/التجارات 62 (2285)، (تحفة الأشراف: 12025)، وط/البیوع 43 (89)، و مسند احمد (6/390)، وسنن الدارمی/البیوع 31 (2507) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگر خود بخود اپنی رضا مندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الادا قرض سے مقدار میں زیادہ یا بہتر اور عمدہ ادا کرے تو یہ جائز ہے، اور اگر قرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کر لے تو یہ سود ہو گا جو بہر صورت حرام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2285)
حدیث نمبر: 1319
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا إسحاق بن سليمان الرازي، عن مغيرة بن مسلم، عن يونس، عن الحسن، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله يحب سمح البيع، سمح الشراء، سمح القضاء ". قال: وفي الباب، عن جابر. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وقد روى بعضهم هذا الحديث، عن يونس، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، سَمْحَ الشِّرَاءِ، سَمْحَ الْقَضَاءِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو بسند «عن يونس عن سعيد المقبري عن أبي هريرة» روایت کی ہے،
۳- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12246) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ حسن بصری کا سماع ابی ہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، انہوں نے تدلیساً ان سے یہ روایت کر سنن الدارمی/ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة: 8909)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (8909)

قال الشيخ زبير على زئي: (1319) إسناده ضعيف
يونس بن عبيد مدلس (طبقات المدلسين:2/64 وھو من الثالثة) وعنعن وللحديث لون آخر ضعيف عندالحاكم (56/2) والحديث الاتي (الأصل: 1320) يغني عنه
حدیث نمبر: 1320
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عباس الدوري، حدثنا عبد الوهاب بن عطاء، اخبرنا إسرائيل، عن زيد بن عطاء بن السائب، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال رسول لله صلى الله عليه وسلم: " غفر الله لرجل، كان قبلكم، كان سهلا إذا باع سهلا، إذا اشترى سهلا، إذا اقتضى ". قال: هذا حديث صحيح حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ للَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَفَرَ اللَّهُ لِرَجُلٍ، كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانَ سَهْلًا إِذَا بَاعَ سَهْلًا، إِذَا اشْتَرَى سَهْلًا، إِذَا اقْتَضَى ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو تم سے پہلے تھا بخش دیا، جو نرمی کرنے والا تھا جب بیچتا اور جب خریدتا اور جب قرض کا مطالبہ کرتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس طریق سے حسن، صحیح، غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3018) وہو عند صحیح البخاری/البیوع 16 (2076)، وق في التجارات 28 (2203)، بسیاق آخر و مسند احمد (3/340) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2203)
76. باب النَّهْىِ عَنِ الْبَيْعِ، فِي الْمَسْجِدِ
76. باب: مسجد میں خرید و فروخت کی ممانعت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1321
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا عارم، حدثنا عبد العزيز بن محمد، اخبرنا يزيد بن خصيفة، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا رايتم من يبيع، او يبتاع في المسجد، فقولوا: لا اربح الله تجارتك، وإذا رايتم من ينشد فيه ضالة، فقولوا: لا رد الله عليك ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن غريب، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، كرهوا البيع، والشراء في المسجد، وهو قول: احمد، وإسحاق، وقد رخص فيه بعض اهل العلم في البيع والشراء في المسجد.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَارِمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ، أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً، فَقُولُوا: لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَرِهُوا الْبَيْعَ، وَالشِّرَاءَ فِي الْمَسْجِدِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فِي الْمَسْجِدِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو: اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ مسجد میں خرید و فروخت ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۳- بعض اہل علم نے اس میں خرید و فروخت کی رخصت دی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 68 (176)، (تحفة الأشراف: 14591) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں، یعنی نہ بیچنا بہتر ہے، مگر یہ نری تاویل ہے، جب صحیح حدیث میں بالصراحت ممانعت موجود ہے تو پھر مساجد میں خرید و فروخت سے باز رہتے ہوئے بازار اور مساجد میں فرق کو قائم رکھنا چاہیئے، پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے احکام کی نافرمانیوں اور غلط تاویلوں کی وجہ سے تباہ ہو گئی تھیں۔ «اللهم أحفظنا بما تحفظ به عبادك الصالحين»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (733)، الإرواء (1495)

Previous    8    9    10    11    12    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.