سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Book on Marriage
39. باب مَا جَاءَ فِي الْعَزْلِ
39. باب: عزل کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Azl
حدیث نمبر: 1136
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن يحيى بن ابي كثير، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن جابر، قال: قلنا: يا رسول الله إنا كنا نعزل فزعمت اليهود انها الموءودة الصغرى، فقال:" كذبت اليهود إن الله إذا اراد ان يخلقه فلم يمنعه". قال: وفي الباب، عن عمر، والبراء، وابي هريرة، وابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا نَعْزِلُ فَزَعَمَتْ الْيَهُودُ أَنَّهَا الْمَوْءُودَةُ الصُّغْرَى، فَقَالَ:" كَذَبَتْ الْيَهُودُ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَهُ فَلَمْ يَمْنَعْهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ عزل ۱؎ کرتے تھے، تو یہودیوں نے کہا: قبر میں زندہ دفن کرنے کی یہ ایک چھوٹی صورت ہے۔ آپ نے فرمایا: یہودیوں نے جھوٹ کہا۔ اللہ جب اسے پیدا کرنا چاہے گا تو اسے کوئی روک نہیں سکے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں عمر، براء اور ابوہریرہ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عشرة النساء (في الکبری) (تحفة الأشراف: 2587) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎ عزل یہ ہے کہ جماع کے وقت انزال قریب ہو تو آدمی اپنا عضو تناسل شرمگاہ سے باہر نکال کر منی باہر نکال دے تاکہ عورت حاملہ نہ ہو۔
۲؎: اس حدیث میں صرف اس بات کا بیان ہے کہ یہودیوں کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ عزل کے باوجود جس نفس کی اس مرد و عورت سے تخلیق اللہ کو مقصود ہوتی ہے اس کی تخلیق ہو ہی جاتی ہے، جیسا کہ ایک صحابی نے لونڈی سے عزل کیا اس کے باوجود حمل ٹھہر گیا۔ اس لیے یہ «مودودۃ صغریٰ» نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الآداب (52)، صحيح أبي داود (1887)

قال الشيخ زبير على زئي: (1136) إسناده ضعيف / ن فى الكبري 9078
يحيي بن أبى كثير مدلس وعنعن (د 293) وحديث النسائي (الكبري:9091) يغني عنه
حدیث نمبر: 1137
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا قتيبة، وابن ابي عمر، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال:" كنا نعزل والقرآن ينزل". قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح، وقد روي عنه من غير وجه، وقد رخص قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم في العزل، وقال مالك بن انس: تستامر الحرة في العزل ولا تستامر الامة.(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْعَزْلِ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: تُسْتَأْمَرُ الْحُرَّةُ فِي الْعَزْلِ وَلَا تُسْتَأْمَرُ الْأَمَةُ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اتر رہا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث اور بھی کئی طرق سے ان سے مروی ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کی اجازت دی ہے۔ مالک بن انس کا قول ہے کہ آزاد عورت سے عزل کی اجازت لی جائے گی اور لونڈی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 96 (5208، 5209)، صحیح مسلم/النکاح 22 (1440)، سنن ابن ماجہ/النکاح 30 (1927)، (تحفة الأشراف: 2468) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/النکاح 96 (5207)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: یعنی اگر عزل منع ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کی ممانعت نازل کر دیتا، البتہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل درست نہیں ہے، جیسا کہ امام مالک نے کہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1927)
40. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْعَزْلِ
40. باب: عزل کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Azl Being Disliked
حدیث نمبر: 1138
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، وقتيبة، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن قزعة، عن ابي سعيد، قال: ذكر العزل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لم يفعل ذلك احدكم". قال ابو عيسى: زاد ابن ابي عمر في حديثه ولم يقل:" لا يفعل ذاك احدكم"، قالا في حديثهما: فإنها ليست نفس مخلوقة إلا الله خالقها. قال: وفي الباب، عن جابر. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن ابي سعيد، وقد كره العزل قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: ذُكِرَ الْعَزْلُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لِمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: زَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِهِ وَلَمْ يَقُلْ:" لَا يَفْعَلْ ذَاكَ أَحَدُكُمْ"، قَالَا فِي حَدِيثِهِمَا: فَإِنَّهَا لَيْسَتْ نَفْسٌ مَخْلُوقَةٌ إِلَّا اللَّهُ خَالِقُهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَدْ كَرِهَ الْعَزْلَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟۔ ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے: اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے، اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ جس جان کو بھی اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ اس کے علاوہ اور بھی طرق سے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے،
۳- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کو مکروہ قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 18 (تعلیقا عقب الحدیث رقم: 7409)، صحیح مسلم/النکاح 22 (1438)، سنن ابی داود/ النکاح 49 (2170) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 109 (2229)، و العتق 13 (2542)، والمغازي 32 (4138)، والنکاح 96 (5210)، والقدر 6 (6603)، والتوحید 18 (7409)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، موطا امام مالک/الطلاق 34 (95)، مسند احمد (3/22، 26، 47، 49، 51، 53، 59، 86)، سنن الدارمی/النکاح 36 (2269) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔»

وضاحت:
۱؎: عزل کے جواز اور عدم جواز کی بابت حتمی بات یہ ہے کہ یہ ہے تو جائز مگر نامناسب کام ہے، خصوصا جب عزل کے باوجود کبھی نطفہ رحم کے اندر چلا ہی جاتا ہے، اور حمل ٹھہر جاتا ہے۔ تو کیوں خواہ مخواہ یہ عمل کیا جائے۔ «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: صحيح الآداب (54 - 55)، صحيح أبي داود (1886)
41. باب مَا جَاءَ فِي الْقِسْمَةِ لِلْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ
41. باب: کنواری اور غیر کنواری بیوی کے درمیان باری تقسیم کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Dividing Time For The Virgin And The Matron
حدیث نمبر: 1139
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف، حدثنا بشر بن المفضل، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن انس بن مالك، قال: لو شئت ان اقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكنه قال:" السنة إذا تزوج الرجل البكر على امراته اقام عندها سبعا، وإذا تزوج الثيب على امراته اقام عندها ثلاثا". قال: وفي الباب، عن ام سلمة. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وقد رفعه محمد بن إسحاق، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن انس ولم يرفعه بعضهم، قال: والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، قالوا: إذا تزوج الرجل امراة بكرا على امراته اقام عندها سبعا، ثم قسم بينهما بعد بالعدل، وإذا تزوج الثيب على امراته اقام عندها ثلاثا، وهو قول: مالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال بعض اهل العلم من التابعين: إذا تزوج البكر على امراته اقام عندها ثلاثا، وإذا تزوج الثيب اقام عندها ليلتين، والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّهُ قَالَ:" السُّنَّةُ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِكْرَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَفَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَرْفَعْهُ بَعْضُهُمْ، قَالَ: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً بِكْرًا عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا، ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَهُمَا بَعْدُ بِالْعَدْلِ، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ: إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ عَلَى امْرَأَتِهِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثًا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَهَا لَيْلَتَيْنِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو کہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا: سنت ۱؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے، اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے محمد بن اسحاق نے مرفوع کیا ہے، انہوں نے بسند «ایوب عن ابی قلابہ عن انس» روایت کی ہے اور بعض نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،
۳- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور کنواری سے شادی کرے، تو اس کے پاس سات رات ٹھہرے، پھر اس کے بعد ان کے درمیان باری تقسیم کرے، اور پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے جب کسی غیر کنواری (بیوہ یا مطلقہ) سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات ٹھہرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۵- تابعین میں سے بعض اہل علم نے کہا کہ جب کوئی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو وہ اس کے پاس تین رات ٹھہرے اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں دو رات ٹھہرے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 100 (5213)، و101 (5214)، صحیح مسلم/الرضاع 12 (1461) سنن ابی داود/ النکاح 35 (2124)، سنن ابن ماجہ/النکاح 26 (1916)، سنن الدارمی/النکاح 27 (2255)، (تحفة الأشراف: 944) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحابی کا سنت یہ ہے کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے، تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1916)
42. باب مَا جَاءَ فِي التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الضَّرَائِرِ
42. باب: سوکنوں کے درمیان باری کی تقسیم میں برابری کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Equality Between Co-Wives
حدیث نمبر: 1140
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا بشر بن السري، حدثنا حماد بن سلمة، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عبد الله بن يزيد، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم بين نسائه فيعدل، ويقول:" اللهم هذه قسمتي فيما املك فلا تلمني فيما تملك ولا املك". قال ابو عيسى: حديث عائشة هكذا رواه غير واحد، عن حماد بن سلمة، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عبد الله بن يزيد، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان يقسم". ورواه حماد بن زيد، وغير واحد، عن ايوب، عن ابي قلابة مرسلا، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان يقسم"، وهذا اصح من حديث حماد بن سلمة، ومعنى قوله: لا تلمني فيما تملك، ولا املك إنما يعني به الحب، والمودة كذا فسره بعض اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ، وَيَقُولُ:" اللَّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَقْسِمُ". وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ مُرْسَلًا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَقْسِمُ"، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: لَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا أَمْلِكُ إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ الْحُبَّ، وَالْمَوَدَّةَ كَذَا فَسَّرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتا ہوں، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بسند «حماد بن سلمة عن أيوب عن أبي قلابة عن عبد الله بن يزيد عن عائشة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرتے تھے جب کہ اسے حماد بن زید اور دوسرے کئی ثقات نے بسند «أيوب عن أبي قلابة» روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرتے تھے اور یہ حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور جس کی قدرت تو رکھتا ہے میں نہیں رکھتا سے مراد محبت و مؤدّۃ ہے، اسی طرح بعض اہل علم نے اس کی تفسیر کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 39 (2134)، سنن النسائی/عشرة النساء 2 (3953)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1971)، (تحفة الأشراف: 1629)، سنن الدارمی/النکاح 25 (2253) (ضعیف) (حماد بن زید اور دیگر زیادہ ثقہ رواة نے اس کو ایوب سے ”عن أبي قلابة عن النبي ﷺ“ مرسلاً بیان کیا ہے، لیکن حدیث کا پہلا جزء اللهم هذا قسمي فيما أملك حسن ہے، تراجع الالبانی 346)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1971)
حدیث نمبر: 1141
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا همام، عن قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا كان عند الرجل امراتان، فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط". قال ابو عيسى: وإنما اسند هذا الحديث همام بن يحيى، عن قتادة، ورواه هشام الدستوائي، عن قتادة، قال: كان يقال، ولا نعرف هذا الحديث مرفوعا، إلا من حديث همام وهمام ثقة حافظ.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ، فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ سَاقِطٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا أَسْنَدَ هَذَا الْحَدِيثَ هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ وهمام ثقة حافظ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے مسنداً ۱؎ روایت کیا ہے،
۲- اور اسے ہشام دستوائی نے بھی قتادہ سے روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ ایسا کہا جاتا تھا …
۳- ہم اس حدیث کو صرف ہمام ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور ہمام ثقہ حافظ ہیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 39 (2133)، سنن النسائی/عشرة النساء 2 (3952)، سنن ابن ماجہ/النکاح 47 (1969) (تحفة الأشراف: 12213)، مسند احمد (2/347، 371)، سنن الدارمی/النکاح 24 (2252) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے قول سے، نہ کہ عام مقولہ کے طور پر، جیسے کہا جاتا تھا جیسا کہ ہشام دستوائی کی روایت میں ہے۔
۲؎: اس لیے ان کی روایت مقبول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1969)

قال الشيخ زبير على زئي: (1141) إسناده ضعيف / د 2133، ن3394، جه 1969
43. باب مَا جَاءَ فِي الزَّوْجَيْنِ الْمُشْرِكَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا
43. باب: اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟
Chapter: What Has Been Related About A Married Couple Who Are Idolaters, Then One Of Them Accepted Islam
حدیث نمبر: 1142
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، وهناد، قالا: حدثنا ابو معاوية، عن الحجاج، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته زينب على ابي العاصي بن الربيع، بمهر جديد ونكاح جديد". قال ابو عيسى: هذا حديث في إسناده، مقال: والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم، ان المراة إذا اسلمت قبل زوجها، ثم اسلم زوجها، وهي في العدة، ان زوجها احق بها ما كانت في العدة، وهو قول: مالك بن انس، والاوزاعي، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ، بِمَهْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ، مَقَالٌ: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَسْلَمَتْ قَبْلَ زَوْجِهَا، ثُمَّ أَسْلَمَ زَوْجُهَا، وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ، أَنَّ زَوْجَهَا أَحَقُّ بِهَا مَا كَانَتْ فِي الْعِدَّةِ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹا دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند میں کچھ کلام ہے اور دوسری حدیث میں بھی کلام ہے،
۲- اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ عورت جب شوہر سے پہلے اسلام قبول کر لے، پھر اس کا شوہر عدت کے دوران اسلام لے آئے تو اس کا شوہر ہی اس کا زیادہ حقدار ہے جب وہ عدت میں ہو۔ یہی مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2010)، (تحفة الأشراف: 8672)، مسند احمد (2/207) (ضعیف) (اس کے راوی ”حجاج بن ارطاة“ ایک تو ضعیف ہیں، دوسرے سند میں ان کے اور ”عمروبن شعیب“ کے درمیان انقطاع ہے، اس کے بالمقابل اگلی حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث ابن عباس کی حدیث کے جو آگے آ رہی ہے مخالف ہے اس میں ہے کہ پہلے ہی نکاح پر آپ نے انہیں لوٹا دیا نیا نکاح نہیں پڑھایا اور یہی صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2010) // ضعيف ابن ماجة برقم (436)، الإرواء (1992) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1142) إسناده ضعيف /جه 2010
حجاج بن أرطاة ضعيف (تقدم:527)
حدیث نمبر: 1143
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" رد النبي صلى الله عليه وسلم ابنته زينب على ابي العاصي بن الربيع، بعد ست سنين بالنكاح الاول ولم يحدث نكاحا". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس بإسناده باس ولكن لا نعرف وجه هذا الحديث، ولعله قد جاء هذا من قبل داود بن حصين، من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" رَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ، بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ وَجْهَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَعَلَّهُ قَدْ جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 24 (2240)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2009)، (تحفة الأشراف: 6073) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دو سال بعد انہیں واپس کیا، اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد، حافظ ابن حجر نے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مراد زینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کا واقعہ ہے، اور دو اور تین سے مراد آیت کریمہ «لاهن حل لهم» کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جو دو سال اور چند مہینوں پر مشتمل۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2009)

قال الشيخ زبير على زئي: (1143) إسناده ضعيف / د 2240، جه 2009
حدیث نمبر: 1144
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا إسرائيل، عن سماك بن حرب، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان رجلا جاء مسلما على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ثم جاءت امراته مسلمة، فقال: يا رسول الله، إنها كانت اسلمت معي فردها علي، " فردها عليه "، هذا حديث صحيح، سمعت عبد بن حميد، يقول: سمعت يزيد بن هارون يذكر، عن محمد بن إسحاق هذا الحديث، وحديث الحجاج، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " رد ابنته زينب على ابي العاصي بمهر جديد، ونكاح جديد "، قال يزيد بن هارون، حديث ابن عباس، اجود إسنادا والعمل على حديث، عمرو بن شعيب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّهَا عَلَيَّ، " فَرَدَّهَا عَلَيْهِ "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ يَذْكُرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ الْحَجَّاجِ، عنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عنْ أَبِيهِ، عنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بِمَهْرٍ جَدِيدٍ، وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ "، قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ، عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہو کر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔ تو آپ اسے مجھے واپس دے دیجئیے۔ تو آپ نے اسے اسی کو واپس دے دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- حجاج نے یہ حدیث بطریق «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کے ہاں نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹایا،
۳- یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے لیکن عمل «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» کی حدیث پر ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 23 (2238)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2008)، (تحفة الأشراف: 6106) (ضعیف) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب ہے، الإرواء 1918، ضعیف سنن ابی داود، ط۔غراس رقم 387، سنن ترمذی مطبوعہ مکتبة المعارف میں پہلی سند بروایت یوسف بن عیسیٰ پر صحیح لکھا ہے، اور دوسری سند سمعت عبد بن حميد پر ضعیف لکھا ہے)۔»

وضاحت:
۱؎ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئے تو وہ اس کے نکاح میں باقی رہے گی، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1918)، ضعيف أبي داود (387) // عندنا برقم (490 / 2238) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1144) إسناده ضعيف / د 2238، جه 2008
44. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فَيَمُوتُ عَنْهَا قَبْلَ أَنْ يَفْرِضَ لَهَا
44. باب: آدمی شادی کرے اور مہر مقرر کرنے سے پہلے مر جائے تو کیا حکم ہے؟
Chapter: What Has Been Related About a Man Who Died Before Stipulating The Dowry For Her
حدیث نمبر: 1145
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا زيد بن الحباب، حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن ابن مسعود، انه سئل عن رجل تزوج امراة ولم يفرض لها صداقا، ولم يدخل بها حتى مات، فقال ابن مسعود: لها مثل صداق نسائها لا وكس ولا شطط وعليها العدة ولها الميراث، فقام معقل بن سنان الاشجعي، فقال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بروع بنت واشق امراة منا مثل الذي قضيت "، ففرح بها ابن مسعود، قال: وفي الباب، عن الجراح، حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا يزيد بن هارون، وعبد الرزاق كلاهما، عن سفيان، عن منصور نحوه. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن صحيح، وقد روي عنه من غير وجه والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وبه يقول الثوري، واحمد، وإسحاق، وقال: بعض اهل العلم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم علي بن ابي طالب، وزيد بن ثابت، وابن عباس، وابن عمر، إذا تزوج الرجل المراة ولم يدخل بها، ولم يفرض لها صداقا حتى مات، قالوا: لها الميراث ولا صداق لها، وعليها العدة، وهو قول: الشافعي، قال: لو ثبت حديث بروع بنت واشق، لكانت الحجة فيما روي، عن النبي صلى الله عليه وسلم وروي، عن الشافعي، انه رجع، بمصر، بعد عن هذا القول، وقال بحديث بروع بنت واشق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا حَتَّى مَاتَ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: لَهَا مِثْلُ صَدَاقِ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ وَلَهَا الْمِيرَاثُ، فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الْأَشْجَعِيُّ، فَقَالَ: " قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ امْرَأَةٍ مِنَّا مِثْلَ الَّذِي قَضَيْتَ "، فَفَرِحَ بِهَا ابْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ كلاهما، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وقَالَ: بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَابْنُ عُمَرَ، إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا حَتَّى مَاتَ، قَالُوا: لَهَا الْمِيرَاثُ وَلَا صَدَاقَ لَهَا، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، قَالَ: لَوْ ثَبَتَ حَدِيثُ بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ، لَكَانَتِ الْحُجَّةُ فِيمَا رُوِيَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُوِي، عَنْ الشَّافِعِيِّ، أَنَّهُ رَجَعَ، بِمِصْرَ، بَعْدُ عَنْ هَذَا الْقَوْلِ، وَقَالَ بِحَدِيثِ بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے شادی کی لیکن اس نے نہ اس کا مہر مقرر کیا اور نہ اس سے صحبت کی یہاں تک کہ وہ مر گیا، تو ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: اس عورت کے لیے اپنے خاندان کی عورتوں کے جیسا مہر ہو گا۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ اسے عدت بھی گزارنی ہو گی اور میراث میں بھی اس کا حق ہو گا۔ تو معقل بن سنان اشجعی نے کھڑے ہو کر کہا: بروع بنت واشق جو ہمارے قبیلے کی عورت تھی، کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا جیسا آپ نے کیا ہے۔ تو اس سے ابن مسعود رضی الله عنہ خوش ہوئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں جراح سے بھی روایت ہے۔
۳- یزید بن ہارون اور عبدالرزاق نے بسند «سفيان عن منصور» سے اسی طرح روایت کی ہے،
۴- ابن مسعود رضی الله عنہ سے یہ اور بھی طرق سے مروی ہے،
۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے ۲؎ یہی ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۶- اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ کہتے ہیں: جن میں علی بن ابی طالب، زید بن ثابت، ابن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم بھی شامل ہیں کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی عورت سے شادی کرے، اور اس نے اس سے ابھی دخول نہ کیا ہو اور نہ ہی اس کا مہر مقرر کیا ہو اور وہ مر جائے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس عورت کو میراث میں حق ملے گا، لیکن کوئی مہر نہیں ہو گا ۳؎ اور اسے عدت گزارنی ہو گی۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں: اگر بروع بنت واشق کی حدیث صحیح ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہونے کی وجہ سے حجت ہو گی۔ اور شافعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بعد میں مصر میں اس قول سے رجوع کر لیا اور بروع بنت واشق کی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 32 (2115)، سنن النسائی/النکاح 68 (3356، 3359)، والطلاق 57 (3554)، سنن ابن ماجہ/النکاح 18 (1891)، سنن الدارمی/النکاح 47 (2292)، (تحفة الأشراف: 11461) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/النکاح 68 (3360)، و مسند احمد (1/447)، من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کا شوہر عقد کے بعد مہر کے مقرر کرنے سے پہلے مر جائے تو وہ پورے مہر کی مستحق ہو گی اگرچہ دخول اور خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔
۲؎: اور یہی قول صحیح اور راجح ہے۔
۳؎: ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مہر عوض ہے تو جب شوہر عورت اور اس کے صیغے پر قابض نہ ہوا تو مہر لازم نہیں ہو گا جیسے بیع خریدار کے حوالہ نہ ہو تو اس پر ثمن لازم نہیں ہوتا، اور حدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ حدیث میں اضطراب ہے کبھی یہ معقل بن سنان سے مروی ہے اور کبھی معقل بن یسار سے اور کبھی بغیر نام کی تعیین کے قبیلہ اشجع کے ایک شخص سے، کبھی اشجع کے کچھ لوگوں سے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اضطراب قادح نہیں ہے کیونکہ یہ شک و تردد دو صحابیوں کے درمیان ہے اس کی وجہ سے حدیث میں طعن نہیں ہو سکتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1891)

Previous    3    4    5    6    7    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.