سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Book on Marriage
19. باب مَا جَاءَ فِي إِكْرَاهِ الْيَتِيمَةِ عَلَى التَّزْوِيجِ
19. باب: یتیم لڑکی کو شادی کرنے پر مجبور کرنے کی ممانعت۔
Chapter: What Has Been Related About Coercing A Female Orphan To Marry
حدیث نمبر: 1109
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اليتيمة تستامر في نفسها، فإن صمتت فهو إذنها، وإن ابت فلا جواز عليها ". يعني: إذا ادركت فردت، قال: وفي الباب، عن ابي موسى، وابن عمر، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن، واختلف اهل العلم في تزويج اليتيمة، فراى بعض اهل العلم ان اليتيمة إذا زوجت فالنكاح موقوف حتى تبلغ، فإذا بلغت فلها الخيار في إجازة النكاح او فسخه، وهو قول: بعض التابعين وغيرهم، وقال بعضهم: لا يجوز نكاح اليتيمة حتى تبلغ، ولا يجوز الخيار في النكاح، وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي، وغيرهما من اهل العلم، وقال احمد، وإسحاق: إذا بلغت اليتيمة تسع سنين فزوجت فرضيت فالنكاح جائز، ولا خيار لها إذا ادركت، واحتجا بحديث عائشة " ان النبي صلى الله عليه وسلم بنى بها وهي بنت تسع سنين "، وقد قالت عائشة: إذا بلغت الجارية تسع سنين فهي امراة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا، وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا ". يَعْنِي: إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي مُوسَى، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْيَتِيمَةِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا زُوِّجَتْ فَالنِّكَاحُ مَوْقُوفٌ حَتَّى تَبْلُغَ، فَإِذَا بَلَغَتْ فَلَهَا الْخِيَارُ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ أَوْ فَسْخِهِ، وَهُوَ قَوْلُ: بَعْضِ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَجُوزُ نِكَاحُ الْيَتِيمَةِ حَتَّى تَبْلُغَ، وَلَا يَجُوزُ الْخِيَارُ فِي النِّكَاحِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: إِذَا بَلَغَتِ الْيَتِيمَةُ تِسْعَ سَنِينَ فَزُوِّجَتْ فَرَضِيَتْ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ، وَلَا خِيَارَ لَهَا إِذَا أَدْرَكَتْ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ عَائِشَةَ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ "، وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ: إِذَا بَلَغَتِ الْجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَهِيَ امْرَأَةٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یتیم لڑکی سے اس کی رضا مندی حاصل کی جائے گی، اگر وہ خاموش رہی تو یہی اس کی رضا مندی ہے، اور اگر اس نے انکار کیا تو اس پر (زبردستی کرنے کا) کوئی جواز نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابوموسیٰ، ابن عمر، اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- یتیم لڑکی کی شادی کے سلسلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے: یتیم لڑکی کی جب شادی کر دی جائے تو نکاح موقوف رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے۔ جب وہ بالغ ہو جائے گی، تو اسے نکاح کو باقی رکھنے یا اسے فسخ کر دینے کا اختیار ہو گا۔ یہی بعض تابعین اور دیگر علماء کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض کہتے ہیں: یتیم لڑکی کا نکاح جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے، درست نہیں اور نکاح میں «خیار» جائز نہیں، اور اہل علم میں سے سفیان ثوری، شافعی وغیرہم کا یہی قول ہے،
۵- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی نو سال کی ہو جائے اور اس کا نکاح کر دیا جائے، اور وہ اس پر راضی ہو تو نکاح درست ہے اور بالغ ہونے کے بعد اسے اختیار نہیں ہو گا۔ ان دونوں نے عائشہ کی اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے ساتھ شب زفاف منائی، تو وہ نو برس کی تھیں۔ اور عائشہ رضی الله عنہا کا قول ہے کہ لڑکی جب نو برس کی ہو جائے تو وہ عورت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15045) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ النکاح 24 (2093)، سنن النسائی/النکاح 36 (3270)، مسند احمد (2/259، 475) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: یعنی بالغ ہونے کے بعد انکار کرنے پر۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (1834)، صحيح أبي داود (1825)
20. باب مَا جَاءَ فِي الْوَلِيَّيْنِ يُزَوِّجَانِ
20. باب: کسی لڑکی کی اگر دو ولی (الگ الگ جگہ) شادی کر دیں تو کیا حکم ہے؟
Chapter: What Has Been Related About Two Wali Giving The Same Woman In Marriage
حدیث نمبر: 1110
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا غندر، حدثنا سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ايما امراة زوجها وليان فهي للاول منهما، ومن باع بيعا من رجلين فهو للاول منهما ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، والعمل على هذا عند اهل العلم لا نعلم بينهم في ذلك اختلافا، إذا زوج احد الوليين قبل الآخر فنكاح الاول جائز ونكاح الآخر مفسوخ، وإذا زوجا جميعا فنكاحهما جميعا مفسوخ، وهو قول: الثوري، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ فَهِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا، وَمَنْ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا، إِذَا زَوَّجَ أَحَدُ الْوَلِيَّيْنِ قَبْلَ الْآخَرِ فَنِكَاحُ الْأَوَّلِ جَائِزٌ وَنِكَاحُ الْآخَرِ مَفْسُوخٌ، وَإِذَا زَوَّجَا جَمِيعًا فَنِكَاحُهُمَا جَمِيعًا مَفْسُوخٌ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کر دیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہو گی، اور جو شخص کوئی چیز دو آدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ دو ولی میں سے ایک ولی جب دوسرے سے پہلے شادی کر دے تو پہلے کا نکاح جائز ہو گا، اور دوسرے کا نکاح فسخ قرار دیا جائے گا، اور جب دونوں نے ایک ساتھ نکاح (دو الگ الگ شخصوں سے) کیا ہو تو دونوں کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ یہی ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 22 (2088)، سنن النسائی/البیوع 96 (4686)، سنن ابن ماجہ/التجارات 21 (219)، (تحفة الأشراف: 4582)، مسند احمد (5/8، 11)، سنن الدارمی/النکاح 15 (2239) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز حسن کے سمرہ رضی الله عنہ سے حدیث عقیقہ کے علاوہ دیگر احادیث کے سماع میں اختلاف ہے، مگر دیگر نصوص سے مسئلہ ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1853)، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2224)، ضعيف أبي داود (449 / 2088) //
21. باب مَا جَاءَ فِي نِكَاحِ الْعَبْدِ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ
21. باب: مالک کی اجازت کے بغیر غلام کے نکاح کر لینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A Slave Marrying Without The Permission Of His Owner
حدیث نمبر: 1111
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا الوليد بن مسلم، عن زهير بن محمد، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ايما عبد تزوج بغير إذن سيده فهو عاهر ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر. قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن، وروى بعضهم هذا الحديث عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا يصح، والصحيح عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان نكاح العبد بغير إذن سيده لا يجوز، وهو قول: احمد، وإسحاق، وغيرهما بلا اختلاف.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ فَهُوَ عَاهِرٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَصِحُّ، وَالصَّحِيحُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ نِكَاحَ الْعَبْدِ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ لَا يَجُوزُ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَغَيْرِهِمَا بِلَا اخْتِلَافٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کر لے، وہ زانی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر کی حدیث حسن ہے،
۲- بعض نے اس حدیث کو بسند «عبد الله بن محمد بن عقيل عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور یہ صحیح نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل نے جابر سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کا نکاح کرنا جائز نہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 17 (2078)، (تحفة الأشراف: 2326)، مسند احمد (3/301، 377، 382)، سنن الدارمی/النکاح 40 (2279) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1959)

قال الشيخ زبير على زئي: (1111، 1112) إسناده ضعيف / د 2078
حدیث نمبر: 1112
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد الاموي، حدثنا ابي، حدثنا ابن جريج، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ايما عبد تزوج بغير إذن سيده فهو عاهر ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ فَهُوَ عَاهِرٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن انظر ما قبله (1111)

قال الشيخ زبير على زئي: (1111، 1112) إسناده ضعيف / د 2078
22. باب مَا جَاءَ فِي مُهُورِ النِّسَاءِ
22. باب: عورتوں کی مہر کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Women's Dowries
حدیث نمبر: 1113
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، وعبد الرحمن بن مهدي، ومحمد بن جعفر، قالوا: حدثنا شعبة، عن عاصم بن عبيد الله، قال: سمعت عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن ابيه، ان امراة من بني فزارة تزوجت على نعلين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ارضيت من نفسك ومالك بنعلين؟ " قالت: نعم. قال: " فاجازه ". قال: وفي الباب، عن عمر، وابي هريرة، وسهل بن سعد، وابي سعيد، وانس، وعائشة، وجابر، وابي حدرد الاسلمي. قال ابو عيسى: حديث عامر بن ربيعة حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في المهر، فقال بعض اهل العلم: المهر على ما تراضوا عليه، وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال مالك بن انس: لا يكون المهر اقل من ربع دينار، وقال بعض اهل الكوفة: لا يكون المهر اقل من عشرة دراهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ بَنِي فَزَارَةَ تَزَوَّجَتْ عَلَى نَعْلَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَضِيتِ مِنْ نَفْسِكِ وَمَالِكِ بِنَعْلَيْنِ؟ " قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: " فَأَجَازَهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَهْرِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْمَهْرُ عَلَى مَا تَرَاضَوْا عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَا يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ رُبْعِ دِينَارٍ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ: لَا يَكُونُ الْمَهْرُ أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتی مہر پر نکاح کر لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو اپنی جان و مال سے دو جوتی مہر پر راضی ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں راضی ہوں۔ وہ کہتے ہیں: تو آپ نے اس نکاح کو درست قرار دے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، ابوہریرہ، سہل بن سعد، ابو سعید خدری، انس، عائشہ، جابر اور ابوحدرد اسلمی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا مہر کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں: مہر اس قدر ہو کہ جس پر میاں بیوی راضی ہوں۔ یہ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،
۴- مالک بن انس کہتے ہیں: مہر ایک چوتھائی دینار سے کم نہیں ہونا چاہیئے،
۵- بعض اہل کوفہ کہتے ہیں: مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1888)، (تحفة الأشراف:؟؟)، مسند احمد (3/445) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1888) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (413)، الإرواء (1926) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1113) إسناده ضعيف /جه 1888
عاصم بن عبيدالله: ضعيف (تقدم:345)
23. باب مِنْهُ
23. باب: مہر سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: Something Else
حدیث نمبر: 1114
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا إسحاق بن عيسى، وعبد الله بن نافع الصائغ، قالا: اخبرنا مالك بن انس، عن ابي حازم بن دينار، عن سهل بن سعد الساعدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امراة، فقالت: إني وهبت نفسي لك، فقامت طويلا، فقال رجل: يا رسول الله فزوجنيها إن لم تكن لك بها حاجة، فقال: " هل عندك من شيء تصدقها؟ " فقال: ما عندي إلا إزاري هذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إزارك إن اعطيتها جلست، ولا إزار لك فالتمس شيئا "، قال: ما اجد، قال: " فالتمس ولو خاتما من حديد "، قال: فالتمس فلم يجد شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل معك من القرآن شيء؟ " قال: نعم، سورة كذا، وسورة كذا لسور سماها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " زوجتكها بما معك من القرآن ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب الشافعي إلى هذا الحديث، فقال: إن لم يكن له شيء يصدقها فتزوجها على سورة من القرآن، فالنكاح جائز ويعلمها سورة من القرآن، وقال بعض اهل العلم: النكاح جائز ويجعل لها صداق مثلها، وهو قول: اهل الكوفة، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، قَالَا: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ، فَقَامَتْ طَوِيلًا، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَزَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ تَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ، فَقَالَ: " هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تُصْدِقُهَا؟ " فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلَّا إِزَارِي هَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِزَارُكَ إِنْ أَعْطَيْتَهَا جَلَسْتَ، وَلَا إِزَارَ لَكَ فَالْتَمِسْ شَيْئًا "، قَالَ: مَا أَجِدُ، قَالَ: " فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ "، قَالَ: فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ؟ " قَالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ الشَّافِعِيُّ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْءٌ يُصْدِقُهَا فَتَزَوَّجَهَا عَلَى سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَيُعَلِّمُهَا سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: النِّكَاحُ جَائِزٌ وَيَجْعَلُ لَهَا صَدَاقَ مِثْلِهَا، وَهُوَ قَوْلُ: أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا۔ پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہ ہو تو اس سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز ہے؟، اس نے عرض کیا: میرے پاس میرے اس تہبند کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تو بغیر تہبند کے رہ جاؤ گے، تو تم کوئی اور چیز تلاش کرو، اس نے عرض کیا: میں کوئی چیز نہیں پا رہا ہوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا: تم تلاش کرو، بھلے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے تلاش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟، اس نے کہا: جی ہاں، فلاں، فلاں سورۃ یاد ہے اور اس نے چند سورتوں کے نام لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کر دی جو تمہیں یاد ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شافعی اسی حدیث کی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو اور وہ قرآن کی کسی سورۃ کو مہر بنا کر کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح درست ہے اور وہ اسے قرآن کی وہ سورۃ سکھائے گا،
۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: نکاح جائز ہو گا لیکن اسے مہر مثل ادا کرنا ہو گا۔ یہ اہل کوفہ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوکالة 9 (2310)، والنکاح 40 (5135)، والتوحید 21 (7417)، سنن ابی داود/ النکاح 31 (2111)، سنن النسائی/النکاح 69 (3361)، (تحفة الأشراف: 4742)، موطا امام مالک/النکاح 3 (8)، مسند احمد (5/336) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/فضائل القرآن 21 (5029)، والنکاح 14 (5087)، و32 (5121)، و35 (5126)، و37 (5132)، و44 (5141)، و50 (5149)، و51 (5150)، واللباس 49 (5871)، صحیح مسلم/النکاح 13 (1425)، سنن النسائی/النکاح 1 (3202)، و41 (3282)، و62 (3341)، سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1889)، سنن الدارمی/النکاح 19 (2247)، من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1889)
حدیث نمبر: 1114M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ايوب، عن ابن سيرين، عن ابي العجفاء السلمي، قال: قال عمر بن الخطاب: الا لا تغالوا صدقة النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا او تقوى عند الله، لكان اولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم، " ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا انكح شيئا من بناته على اكثر من ثنتي عشرة اوقية ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو العجفاء السلمي اسمه: هرم، والاوقية عند اهل العلم اربعون درهما، وثنتا عشرة اوقية اربع مائة وثمانون درهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَلَا لَا تُغَالُوا صَدُقَةَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " مَا عَلِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكَحَ شَيْئًا مِنْ نِسَائِهِ وَلَا أَنْكَحَ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِهِ عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ: هَرِمٌ، وَالْأُوقِيَّةُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، وَثِنْتَا عَشْرَةَ أُوقِيَّةً أَرْبَعُ مِائَةٍ وَثَمَانُونَ دِرْهَمًا.
ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: سنو! عورتوں کے مہر زیادہ نہ بڑھاؤ۔ اگر دنیا میں یہ کوئی عزت کی چیز ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ مستحق ہوتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے نکاح کیا ہو یا اپنی کسی بیٹی کا نکاح کیا ہو اور اس میں مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رہا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوالعجفاء سلمی کا نام ہرم ہے،
۳- اہل علم کے نزدیک ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس طرح بارہ اوقیہ کے چار سو اسی درہم ہوئے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 29 (2106)، سنن النسائی/النکاح 66 (3351)، سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1887) (تحفة الأشراف: 10655)، مسند احمد (1/41، 48)، سنن الدارمی/النکاح 18 (2246) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1889)
24. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَعْتِقُ الأَمَةَ ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا
24. باب: لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Emancipates A Slave Woman, Then Marries Her
حدیث نمبر: 1115
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، وعبد العزيز بن صهيب، عن انس بن مالك، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتق صفية وجعل عتقها صداقها ". قال: وفي الباب، عن صفية. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وكره بعض اهل العلم ان يجعل عتقها صداقها، حتى يجعل لها مهرا سوى العتق، والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، " أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ صَفِيَّةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُجْعَلَ عِتْقُهَا صَدَاقَهَا، حَتَّى يَجْعَلَ لَهَا مَهْرًا سِوَى الْعِتْقِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں صفیہ رضی الله عنہا سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،
۴- اور بعض اہل علم نے اس کی آزادی کو اس کا مہر قرار دینے کو مکروہ کہا ہے، یہاں تک کہ اس کا مہر آزادی کے علاوہ کسی اور چیز کو مقرر کیا جائے۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 14 (1365)، سنن ابی داود/ النکاح 6 (2054)، سنن النسائی/النکاح 64 (3344)، سنن الدارمی/النکاح 45 (2228)، (تحفة الأشراف: 1067 و 1429) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصلاة 12 (371)، و صلاة الخوف 6 (947)، والجہاد والمغازي 38 (4200)، والنکاح 13 (5086) و68 (5169)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) سنن ابن ماجہ/النکاح 42 (1957)، مسند احمد (3/99، 138، 165، 170، 181، 186، 203، 239، 242) من غیر ہذا الوجہ وبعضہم بتغیر یسیر في السیاق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1957)
25. باب مَا جَاءَ فِي الْفَضْلِ فِي ذَلِكَ
25. باب: لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Virtue Of That
حدیث نمبر: 1116
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا علي بن مسهر، عن الفضل بن يزيد، عن الشعبي، عن ابي بردة بن ابي موسى، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة يؤتون اجرهم مرتين: عبد ادى حق الله وحق مواليه فذاك يؤتى اجره مرتين، ورجل كانت عنده جارية وضيئة فادبها فاحسن ادبها ثم اعتقها ثم تزوجها يبتغي بذلك وجه الله فذلك يؤتى اجره مرتين، ورجل آمن بالكتاب الاول ثم جاء الكتاب الآخر فآمن به فذلك يؤتى اجره مرتين ". حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن صالح بن صالح وهو ابن حي، عن الشعبي، عن ابي بردة، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه بمعناه. قال ابو عيسى: حديث ابي موسى حديث حسن صحيح، وابو بردة بن ابي موسى اسمه: عامر بن عبد الله بن قيس، وروى شعبة، وسفيان الثوري هذا الحديث، عن صالح بن صالح بن حي، وصالح بن صالح بن حي هو: والد الحسن بن صالح بن حي.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ: عَبْدٌ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ فَذَاكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ جَارِيَةٌ وَضِيئَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا ثُمَّ تَزَوَّجَهَا يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ فَذَلِكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ، وَرَجُلٌ آمَنَ بِالْكِتَابِ الْأَوَّلِ ثُمَّ جَاءَ الْكِتَابُ الْآخَرُ فَآمَنَ بِهِ فَذَلِكَ يُؤْتَى أَجْرَهُ مَرَّتَيْنِ ". حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ وَهُوَ ابْنُ حَيٍّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى اسْمُهُ: عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ، وَصَالِحُ بْنُ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ هُوَ: وَالِدُ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ.
ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ہیں جنہیں دہرا اجر دیا جاتا ہے: ایک وہ بندہ جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا حق بھی، اسے دہرا اجر دیا جاتا ہے، اور دوسرا وہ شخص جس کی ملکیت میں کوئی خوبصورت لونڈی ہو، وہ اس کی تربیت کرے اور اچھی تربیت کرے پھر اسے آزاد کر دے، پھر اس سے نکاح کر لے اور یہ سب اللہ کی رضا کی طلب میں کرے، تو اسے دہرا اجر دیا جاتا ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو پہلے کتاب (تورات و انجیل) پر ایمان لایا ہو پھر جب دوسری کتاب (قرآن مجید) آئی تو اس پر بھی ایمان لایا تو اسے بھی دہرا اجر دیا جاتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 31 (97)، والجہاد 14 (3011)، و أحادیث الأنبیاء 47 (3446)، والنکاح 13 (13 (5083)، صحیح مسلم/الإیمان 70 (154)، سنن النسائی/النکاح 65 (3346)، سنن ابن ماجہ/النکاح 42 (1956)، (تحفة الأشراف: 9107)، مسند احمد (4/395، 414)، سنن الدارمی/النکاح 46 (2290) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1956)
26. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ يُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا هَلْ يَتَزَوَّجُ ابْنَتَهَا أَمْ لاَ‏
26. باب: جو کسی عورت سے شادی کرے پھر دخول سے پہلے ہی اسے طلاق دیدے تو کیا وہ اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے؟​
Chapter: What Has Been Related About A Person Who Marries A Woman, Then Divorces Her Before Having Intercourse With Her: Can He Marry Her Daughter Or Not?
حدیث نمبر: 1117
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ايما رجل نكح امراة، فدخل بها فلا يحل له نكاح ابنتها، وإن لم يكن دخل بها فلينكح ابنتها، وايما رجل نكح امراة فدخل بها او لم يدخل بها فلا يحل له نكاح امها ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا يصح من قبل إسناده، وإنما رواه ابن لهيعة، والمثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب، والمثنى بن الصباح، وابن لهيعة يضعفان في الحديث، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، قالوا: إذا تزوج الرجل امراة ثم طلقها قبل ان يدخل بها حل له ان ينكح ابنتها، وإذا تزوج الرجل الابنة فطلقها قبل ان يدخل بها لم يحل له نكاح امها، لقول الله تعالى: وامهات نسائكم سورة النساء آية 23 وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً، فَدَخَلَ بِهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ ابْنَتِهَا، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِهَا فَلْيَنْكِحْ ابْنَتَهَا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً فَدَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَلَا يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ أُمِّهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، وَإِنَّمَا رَوَاهُ ابْنُ لَهِيعَةَ، وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، وَابْنُ لَهِيعَةَ يضعفان في الحديث، والعمل على هذا عند أكثر أهل العلم، قَالُوا: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا حَلَّ لَهُ أَنْ يَنْكِحَ ابْنَتَهَا، وَإِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الِابْنَةَ فَطَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا لَمْ يَحِلَّ لَهُ نِكَاحُ أُمِّهَا، لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ سورة النساء آية 23 وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول کیا تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں ہے، اور اگر اس نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ہے تو وہ اس کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے، اور جس مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا تو اس نے اس سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، اسے صرف ابن لہیعہ اور مثنی بن صالح نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا ہے۔ اور مثنی بن صالح اور ابن لہیعہ حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں۔
۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی کی ماں سے شادی کر لے اور پھر اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے، اور جب آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح کرے اور اسے دخول سے پہلے طلاق دیدے تو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «وأمهات نسائكم» (النساء: ۲۳)، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8733) (ضعیف) (مؤلف نے وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1879) // ضعيف الجامع الصغير (2242) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1117) إسناده ضعيف
ابن لھيعة عنعن (تقدم: 10، 714) والمثني ضعيف (تقدم:641)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.