(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا عيسى بن ميمون الانصاري، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب حسن في هذا الباب، وعيسى بن ميمون الانصاري يضعف في الحديث، وعيسى بن ميمون الذي يروي عن ابن ابي نجيح التفسير هو ثقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ فِي هَذَا الْبَابِ، وَعِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَعِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ الَّذِي يَرْوِي عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ التَّفْسِيرَ هُوَ ثِقَةٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس پر دف بجاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث غریب حسن ہے، ۲- عیسیٰ بن میمون انصاری حدیث میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں، ۳- عیسیٰ بن میمون جو ابن ابی نجیح سے تفسیر روایت کرتے ہیں، ثقہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 17547) (ضعیف) (سند میں عیسیٰ بن میمون ضعیف ہیں مگر اعلان والا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا الإعلان، ابن ماجة (1895) // ضعيف ابن ماجة (416)، صحيح ابن ماجة (1537)، الإرواء (1993)، آداب الزفاف الصفحة (111) الطبعة المزيدة والمهذبة، طبع المكتب الإسلامي، ضعيف الجامع الصغير (966) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1089) إسناده ضعيف /جه 1895 عيسى بن ميمون: ضعيف (تق:5335) بل: متروك الحديث (التحرير 145/3) وطريق ابن ماجه فيه متروك
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة البصري، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا خالد بن ذكوان، عن الربيع بنت معوذ، قالت: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل علي غداة بني بي، فجلس على فراشي كمجلسك مني، وجويريات لنا يضربن بدفوفهن ويندبن من قتل من آبائي يوم بدر، إلى ان قالت إحداهن: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اسكتي عن هذه وقولي الذي كنت تقولين قبلها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَيَّ غَدَاةَ بُنِيَ بِي، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ لَنَا يَضْرِبْنَ بِدُفُوفِهِنَّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ، إِلَى أَنْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْكُتِي عَنْ هَذِهِ وَقُولِي الَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ قَبْلَهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ربیع بنت معوذ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جس رات میری شادی اس کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ آپ میرے بستر پر ایسے ہی بیٹھے، جیسے تم (خالد بن ذکوان) میرے پاس بیٹھے ہو۔ اور چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجا رہی تھیں اور جو ہمارے باپ دادا میں سے جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کا مرثیہ گا رہی تھیں، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: ہمارے درمیان ایک نبی ہے جو ان چیزوں کو جانتا ہے جو کل ہوں گی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”یہ نہ کہہ۔ وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رفا الإنسان إذا تزوج، قال: " بارك الله لك وبارك عليك وجمع بينكما في الخير ". قال: وفي الباب، عن عقيل بن ابي طالب. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَّأَ الْإِنْسَانَ إِذَا تَزَوَّجَ، قَالَ: " بَارَكَ اللَّهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي الْخَيْرِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شادی کرنے پر جب کسی کو مبارک باد دیتے تو فرماتے: «بارك الله لك وبارك عليك وجمع بينكما في الخير»”اللہ تجھے برکت عطا کرے، اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر پر جمع کرے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن منصور، عن سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " لو ان احدكم إذا اتى اهله، قال: بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا، فإن قضى الله بينهما ولدا لم يضره الشيطان ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنْ قَضَى اللَّهُ بَيْنَهُمَا وَلَدًا لَمْ يَضُرَّهُ الشَّيْطَانُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے یعنی اس سے صحبت کرنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے: «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا»”اللہ کے نام سے، اے اللہ! تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عطا کرے یعنی ہماری اولاد کو“، تو اگر اللہ نے ان کے درمیان اولاد دینے کا فیصلہ کیا ہو گا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن امية، عن عبد الله بن عروة، عن عروة، عن عائشة، قالت: " تزوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم في شوال، وبنى بي في شوال ". وكانت عائشة تستحب ان يبنى بنسائها في شوال. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من حديث الثوري، عن إسماعيل بن امية.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ ". وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ يُبْنَى بِنِسَائِهَا فِي شَوَّالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں مجھ سے شادی کی اور شوال ہی میں میرے ساتھ آپ نے شب زفاف منائی، عائشہ رضی الله عنہا اپنے خاندان کی عورتوں کی رخصتی شوال میں کی جانے کو مستحب سمجھتی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ہم صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ثوری اسماعیل بن امیہ سے روایت کرتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى على عبد الرحمن بن عوف اثر صفرة، فقال: " ما هذا؟ " فقال: إني تزوجت امراة على وزن نواة من ذهب، فقال: " بارك الله لك، اولم ولو بشاة ". قال: وفي الباب، عن ابن مسعود، وعائشة، وجابر، وزهير بن عثمان. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وقال احمد بن حنبل: وزن نواة من ذهب: وزن ثلاثة دراهم وثلث، وقال إسحاق: هو وزن خمسة دراهم وثلث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: " مَا هَذَا؟ " فَقَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: " بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَزُهَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ: وَزْنُ ثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ، وقَالَ إِسْحَاق: هُوَ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، جابر اور زہیر بن عثمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- احمد بن حنبل کہتے ہیں: گٹھلی بھر سونے کا وزن تین درہم اور تہائی درہم وزن کے برابر ہوتا ہے، ۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: پانچ درہم اور تہائی درہم کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔
وضاحت: ۱؎: «أولم ولو بشأة» میں «لو» تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم از کم ایک بکری ذبح کرو، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستو اور کھجور پر اکتفا کیا، اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی مالی حالت کے پیش نظر ایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپ نے ان سے «أولم ولو بشأة» فرمایا۔
۲؎: شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں، یہ «ولم»(واؤ کے فتحہ اور لام کے سکون کے ساتھ) سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھا اور جمع ہونے کے ہیں، چونکہ میاں بیوی اکٹھا ہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں، ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعد ہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اور بعض نے اسے واجب کہا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا الحميدي، عن سفيان نحو هذا، وقد روى غير واحد هذا الحديث، عن ابن عيينة، عن الزهري، عن انس ولم يذكروا فيه عن وائل، عن ابنه. قال ابو عيسى: وكان سفيان بن عيينة يدلس في هذا الحديث، فربما لم يذكر فيه عن وائل، عن ابنه وربما ذكره.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ نَحْوَ هَذَا، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِهِ وَرُبَّمَا ذَكَرَهُ.
اس سند سے بھی سفیان سے اسی طرح مروی ہے، اور کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس» روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اس میں وائل بن داود اور ان کے بیٹے کے واسطوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔ کبھی انہوں نے اس میں «وائل بن داود عن ابنہ» کا ذکر نہیں کیا ہے اور کبھی اس کا ذکر کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن موسى البصري، حدثنا زياد بن عبد الله، حدثنا عطاء بن السائب، عن ابي عبد الرحمن، عن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " طعام اول يوم حق، وطعام يوم الثاني سنة، وطعام يوم الثالث سمعة، ومن سمع سمع الله به ". قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود لا نعرفه مرفوعا، إلا من حديث زياد بن عبد الله، وزياد بن عبد الله كثير الغرائب والمناكير، قال: وسمعت محمد بن إسماعيل يذكر، عن محمد بن عقبة، قال: قال وكيع: زياد بن عبد الله مع شرفه يكذب في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَعَامُ أَوَّلِ يَوْمٍ حَقٌّ، وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّانِي سُنَّةٌ، وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّالِثِ سُمْعَةٌ، وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَزِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَالْمَنَاكِيرِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَذْكُرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: قَالَ وَكِيعٌ: زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَعَ شَرَفِهِ يَكْذِبُ فِي الْحَدِيثِ.
ابن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے روز کا کھانا حق ہے، دوسرے روز کا کھانا سنت ہے۔ اور تیسرے روز کا کھانا تو محض دکھاوا اور نمائش ہے اور جو ریاکاری کرے گا اللہ اسے اس کی ریاکاری کی سزا دے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث کو ہم صرف زیاد بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ اور زیاد بن عبداللہ بہت زیادہ غریب اور منکر احادیث بیان کرتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا کہ وہ محمد بن عقبہ سے نقل کر رہے تھے کہ وکیع کہتے ہیں: زیاد بن عبداللہ اس بات سے بہت بلند ہیں کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ الؤلف (تحفة الأشراف: 9329) (ضعیف) (اس کے راوی زیاد بن عبداللہ بکائی میں ضعف ہے، مؤلف نے اس کی صراحت کر سنن الدارمی/ ہے، لیکن آخری ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں جن میں سے بعض صحیحین میں ہیں)»
وضاحت: ۱؎: ترمذی کے نسخوں میں یہاں پر عبارت یوں ہے: «مع شرفه يكذب» جس کا مطلب یہ ہے کہ وکیع نے ان پر سخت جرح کی ہے، اور ان کی شرافت کے اعتراف کے ساتھ ان کے بارے میں یہ صراحت کر دی ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولتے ہیں، اور یہ بالکل غلط اور وکیع کے قول کے برعکس ہے، التاریخ الکبیر للبخاری ۳/الترجمۃ ۱۲۱۸ اور تہذیب الکمال میں عبارت یوں ہے: «هو أشرف من أن يكذب» نیز حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کہ وکیع سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے زیاد کی تکذیب کی ہے، ان کی عبارت یہ ہے: «صدوق ثبت في المغازي و في حديثه عن غير ابن إسحاق لين، ولم يثبت أن وكيعا كذبه، وله في البخاري موضع واحد متابعة» یعنی زیاد بن عبداللہ عامری بکائی کوفی فن مغازی و سیر میں صدوق اور ثقہ ہیں، اور محمد بن اسحاق صاحب المغازی کے سوا دوسرے رواۃ سے ان کی حدیث میں کمزوری ہے، وکیع سے ان کی تکذیب ثابت نہیں ہے، اور صحیح بخاری میں ان کا ذکر متابعت میں ایک بار آیا ہے۔ (الفریوائی)
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ دو دن تک تو درست ہے اور تیسرے دن اس کا اہتمام کرنا دکھاوا اور نمائش کا ذریعہ ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تیسرے دن کی ممانعت اس صورت میں ہے جب کھانے والے وہی لوگ ہوں لیکن اگر ہر روز نئے لوگ مدعو ہوں، تو کوئی حرج نہیں، امام بخاری جیسے محدثین کرام تو سات دن تک ولیمہ کے قائل ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1915) // ضعيف الجامع الصغير (3616) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1097) إسناده ضعيف عطاء بن السائب:اختلط(تقدم: 184) وللحديث شواھد ضعيفة عند أبى داود (3745) وغيره
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف، حدثنا بشر بن المفضل، عن إسماعيل بن امية، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ائتوا الدعوة إذا دعيتم ". قال: وفي الباب، عن علي، وابي هريرة، والبراء، وانس، وابي ايوب. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ائْتُوا الدَّعْوَةَ إِذَا دُعِيتُمْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں دعوت دی جائے تو تم دعوت میں آؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوہریرہ، براء، انس اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔