سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
21. باب مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ
21. باب: محرم کون کون سے جانور مار سکتا ہے؟
Chapter: What Has Been Related About What Creatures The Muhrim May Kill
حدیث نمبر: 837
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خمس فواسق يقتلن في الحرم، الفارة والعقرب والغراب والحديا والكلب العقور ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وابن عمر، وابي هريرة، وابي سعيد، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسُ فَوَاسِقَ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ، الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْغُرَابُ وَالْحُدَيَّا وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ موذی جانور ہیں جو حرم میں یا حالت احرام میں بھی مارے جا سکتے ہیں: چوہیا، بچھو، کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 16 (3314)، صحیح مسلم/الحج 9 (1198)، سنن النسائی/الحج 118 (2893)، (تحفة الأشراف: 16629) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 7 (1829)، سنن النسائی/الحج 83 (2832)، و113 (2884)، و114 (2885)، و116 (2890)، و117 (2891)، سنن ابن ماجہ/الحج 91 (3087) مسند احمد (6/87، 97، 122، 203، 259، 261) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎ کاٹ کھانے والے کتے سے مراد وہ تمام درندے ہیں جو لوگوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیتے ہوں مثلاً شیر چیتا بھیڑیا وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3087)
حدیث نمبر: 838
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يزيد بن ابي زياد، عن ابن ابي نعم، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يقتل المحرم: السبع العادي والكلب العقور والفارة والعقرب والحداة والغراب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن والعمل على هذا عند اهل العلم، قالوا: المحرم يقتل السبع العادي، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، وقال الشافعي: كل سبع عدا على الناس او على دوابهم فللمحرم قتله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ: السَّبُعَ الْعَادِيَ وَالْكَلْبَ الْعَقُورَ وَالْفَأْرَةَ وَالْعَقْرَبَ وَالْحِدَأَةَ وَالْغُرَابَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: الْمُحْرِمُ يَقْتُلُ السَّبُعَ الْعَادِيَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: كُلُّ سَبُعٍ عَدَا عَلَى النَّاسِ أَوْ عَلَى دَوَابِّهِمْ فَلِلْمُحْرِمِ قَتْلُهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محرم سرکش درندے، کاٹ کھانے والے کتے، چوہا، بچھو، چیل اور کوے مار سکتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں: محرم ظلم ڈھانے والے درندوں کو مار سکتا ہے، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: محرم ہر اس درندے کو جو لوگوں کو یا جانوروں کو ایذاء پہنچائے، مار سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 40 (1848)، سنن ابن ماجہ/المناسک 91 (3089)، (تحفة الأشراف: 4133)، مسند احمد (3/3) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3089) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (660)، الإرواء (4 / 226)، المشكاة (2702)، ضعيف الجامع الصغير (6433) //

قال الشيخ زبير على زئي: (838) إسناده ضعيف /د 1848، جه 3089
22. باب مَا جَاءَ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ
22. باب: محرم کے پچھنا لگوانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Cupping For Muhrim
حدیث نمبر: 839
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن طاوس، وعطاء، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " احتجم وهو محرم ". قال: وفي الباب عن انس، وعبد الله ابن بحينة، وجابر. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، وقد رخص قوم من اهل العلم في الحجامة للمحرم، قالوا: لا يحلق شعرا، وقال مالك: لا يحتجم المحرم إلا من ضرورة، وقال سفيان الثوري، والشافعي: لا باس ان يحتجم المحرم ولا ينزع شعرا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، وَعَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ، قَالُوا: لَا يَحْلِقُ شَعْرًا، وقَالَ مَالِكٌ: لَا يَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ، وقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَجِمَ الْمُحْرِمُ وَلَا يَنْزِعُ شَعَرًا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس ۲؎، عبداللہ بن بحینہ ۳؎ اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بال نہیں منڈائے گا،
۴- مالک کہتے ہیں کہ محرم پچھنا نہیں لگوا سکتا، الا یہ کہ ضروری ہو،
۵- سفیان ثوری اور شافعی کہتے ہیں: محرم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بال نہیں اتار سکتا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 11 (1835)، والصوم 32 (1938)، والطب 12 (5695)، و15 (5700)، صحیح مسلم/الحج 11 (1203)، سنن ابی داود/ المناسک 36 (1835)، سنن النسائی/الحج 92 (2848)، مسند احمد (1/221، 292، 372)، (تحفة الأشراف: 5737، 5939)، وأخرجہ کل من: سنن ابن ماجہ/المناسک 87 (3081)، مسند احمد (1/215، 222، 236، 248، 249، 283، 286، 315، 346، 351، 372)، سنن الدارمی/ الحج 20 (1860) من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق (صحیح)»

وضاحت:
۱؎ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے، البتہ اگر بچھنا لگوانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ دینا ضروری ہو گا، یہ فدیہ ایک بکری ذبح کرنا ہے، یا تین دن کے روزے رکھنا، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
۲؎: انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں کی پشت پر تکلیف کی وجہ سے پچھنا لگوایا۔
۳؎: عبداللہ ابن بحینہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں لحی جمل میں اپنے سرکے وسط میں پچھنا لگوایا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1682)
23. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ تَزْوِيجِ الْمُحْرِمِ
23. باب: حالت احرام میں محرم کی شادی کرانے کی حرمت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked For the Muhrim To Marry
حدیث نمبر: 840
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل ابن علية، حدثنا ايوب، عن نافع، عن نبيه بن وهب، قال: اراد ابن معمر ان ينكح ابنه، فبعثني إلى ابان بن عثمان وهو امير الموسم بمكة، فاتيته، فقلت: إن اخاك يريد ان ينكح ابنه فاحب ان يشهدك ذلك، قال: لا اراه إلا اعرابيا جافيا، إن المحرم لا ينكح ولا ينكح او كما قال: ثم حدث عن عثمان مثله يرفعه، وفي الباب عن ابي رافع، وميمونة. قال ابو عيسى: حديث عثمان حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم عمر بن الخطاب، وعلي بن ابي طالب، وابن عمر، وهو قول بعض فقهاء التابعين، وبه يقول مالك، والشافعي، واحمد، وإسحاق لا يرون ان يتزوج المحرم، قالوا: فإن نكح فنكاحه باطل.(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَرَادَ ابْنُ مَعْمَرٍ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ، فَبَعَثَنِي إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ بِمَكَّةَ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَخَاكَ يُرِيدُ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ فَأَحَبَّ أَنْ يُشْهِدَكَ ذَلِكَ، قَالَ: لَا أُرَاهُ إِلَّا أَعْرَابِيًّا جَافِيًا، إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْكِحُ وَلَا يُنْكَحُ أَوْ كَمَا قَالَ: ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ مِثْلَهُ يَرْفَعُهُ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ، وَمَيْمُونَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنُ عُمَرَ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق لَا يَرَوْنَ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمُحْرِمُ، قَالُوا: فَإِنْ نَكَحَ فَنِكَاحُهُ بَاطِلٌ.
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی چاہی، تو انہوں نے مجھے ابان بن عثمان کے پاس بھیجا، وہ مکہ میں امیر حج تھے۔ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا: آپ کے بھائی اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو انہوں نے کہا: میں انہیں ایک گنوار اعرابی سمجھتا ہوں، محرم نہ خود نکاح کر سکتا اور نہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے - «أو كما قال» - پھر انہوں نے (اپنے والد) عثمان رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہوئے اسی کے مثل بیان کیا، وہ اسے مرفوع روایت کر رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عثمان رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابورافع اور میمونہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض صحابہ کرام جن میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب اور ابن عمر رضی الله عنہم بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے، اور یہی بعض تابعین فقہاء کا بھی قول ہے اور مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ لوگ محرم کے لیے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر محرم نے نکاح کر لیا تو اس کا نکاح باطل ہو گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 5 (1409)، سنن ابی داود/ الحج 39 (1841)، سنن النسائی/الحج 91 (2845)، والنکاح 38 (3275)، سنن ابن ماجہ/النکاح 45 (1966)، (تحفة الأشراف: 9776)، موطا امام مالک/الحج 22 (70)، مسند احمد (1/57، 64، 69، 73)، سنن الدارمی/المناسک 21 (1864) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: شرعی ضابطہ یہی ہے کہ محرم حالت احرام میں نہ تو خود اپنا نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1966)
حدیث نمبر: 841
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، اخبرنا حماد بن زيد، عن مطر الوراق، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن سليمان بن يسار، عن ابي رافع، قال: " تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم ميمونة وهو حلال، وبنى بها وهو حلال، وكنت انا الرسول فيما بينهما ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن ولا نعلم احدا اسنده غير حماد بن زيد، عن مطر الوراق، عن ربيعة، وروى مالك بن انس، عن ربيعة، عن سليمان بن يسار، ان النبي صلى الله عليه وسلم " تزوج ميمونة، وهو حلال " رواه مالك مرسلا، قال: ورواه ايضا سليمان بن بلال، عن ربيعة مرسلا. قال ابو عيسى: وروي عن يزيد بن الاصم، عن ميمونة، قالت: " تزوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو حلال ". ويزيد بن الاصم هو ابن اخت ميمونة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: " تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ، وَبَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ، وَكُنْتُ أَنَا الرَّسُولَ فِيمَا بَيْنَهُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ رَبِيعَةَ، وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ، وَهُوَ حَلَالٌ " رَوَاهُ مَالِكٌ مُرْسَلًا، قَالَ: وَرَوَاهُ أَيْضًا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ مُرْسَلًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِي عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: " تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ حَلَالٌ ". وَيَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ هُوَ ابْنُ أُخْتِ مَيْمُونَةَ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے نکاح کیا اور آپ حلال تھے پھر ان کے خلوت میں گئے تب بھی آپ حلال تھے، اور میں ہی آپ دونوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اور ہم حماد بن زید کے علاوہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے مطر وراق کے واسطے سے ربیعہ سے مسنداً روایت کیا ہو،
۳- اور مالک بن انس نے ربیعہ سے، اور ربیعہ نے سلیمان بن یسار سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔ اسے مالک نے مرسلا روایت کیا ہے، اور سلیمان بن ہلال نے بھی اسے ربیعہ سے مرسلا روایت کیا ہے،
۴- یزید بن اصم ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی اور آپ حلال تھے یعنی محرم نہیں تھے۔ یزید بن اصم میمونہ کے بھانجے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن الدارمی/المناسک 21 (1866) (تحفة الأشراف: 12017)، و مسند احمد (6/392-393) (ضعیف) (اس کا آخری ٹکڑا میں ”أنا الرسول بينهما“ میں دونوں کے درمیان قاصد تھا)، ضعیف ہے کیونکہ اس سے قوی روایت میں ہے کہ ”عباس رضی الله عنہ“ نے یہ شادی کرائی تھی، اس کے راوی ”مطرالوراق“ حافظے کے ضعیف ہیں، اس روایت کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کا پہلا ٹکڑا حدیث رقم: 845کے طریق سے صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن الشطر الأول منه صحيح من الطريق الآتية (887)، الإرواء (1849)
24. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
24. باب: محرم کے لیے شادی کی رخصت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Permission For That
حدیث نمبر: 842
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة البصري، حدثنا سفيان بن حبيب، عن هشام بن حسان، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " تزوج ميمونة وهو محرم ". قال: وفي الباب عن عائشة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وبه يقول سفيان الثوري، واهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6230) (صحیح) (یہ روایت سنداً صحیح ہے، لیکن ابن عباس رضی الله عنہما سے اس واقعہ کے نقل کرنے میں وہم ہو گیا تھا، اس لیے یہ شاذ کے حکم میں ہے، اور صحیح یہ ہے کہ میمونہ رضی الله عنہا کی شادی حلال ہونے کے بعد ہوئی جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 12 (1837)، والمغازي 43 (4258)، والنکاح 30 (5114)، صحیح مسلم/النکاح 5 (1410)، سنن ابی داود/ الحج 39 (1844)، سنن النسائی/الحج 90 (2840- 2844)، والنکاح 37 (3273)، سنن ابن ماجہ/النکاح 45 (1965)، مسند احمد (1/22، 24، 26)، سنن الدارمی/المناسک 21 (1863)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: شاذ، ابن ماجة (1965) // ضعيف ابن ماجة (426)، الإرواء (1037) //
حدیث نمبر: 843
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " تزوج ميمونة وهو محرم ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 5990) (صحیح) (سندا صحیح ہے، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم)»

وضاحت:
۱؎: سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ابن عباس کو اس سلسلہ میں وہم ہوا ہے کیونکہ ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو ہم دونوں حلال تھے، اسی طرح ان کے وکیل ابورافع کا بیان بھی جیسا کہ گزرا یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے، اس سلسلہ میں صاحب معاملہ کا بیان زیادہ معتبر ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: شاذ انظر ما قبله (842)
حدیث نمبر: 844
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا داود بن عبد الرحمن العطار، عن عمرو بن دينار، قال: سمعت ابا الشعثاء يحدث، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " تزوج ميمونة وهو محرم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو الشعثاء اسمه جابر بن زيد، واختلفوا في تزويج النبي صلى الله عليه وسلم ميمونة، لان النبي صلى الله عليه وسلم تزوجها في طريق مكة، فقال بعضهم: تزوجها حلالا وظهر امر تزويجها، وهو محرم، ثم بنى بها وهو حلال بسرف في طريق مكة، وماتت ميمونة بسرف حيث بنى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ودفنت بسرف.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الشَّعْثَاءِ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ، وَاخْتَلَفُوا فِي تَزْوِيجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: تَزَوَّجَهَا حَلَالًا وَظَهَرَ أَمْرُ تَزْوِيجِهَا، وَهُوَ مُحْرِمٌ، ثُمَّ بَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ بِسَرِفَ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، وَمَاتَتْ مَيْمُونَةُ بِسَرِفَ حَيْثُ بَنَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدُفِنَتْ بِسَرِفَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی تو آپ محرم تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میمونہ سے شادی کرنے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کے راستے میں ان سے شادی کی تھی، بعض لوگوں نے کہا: آپ نے جب ان سے شادی کی تو آپ حلال تھے البتہ آپ کے ان سے شادی کرنے کی بات ظاہر ہوئی تو آپ محرم تھے، اور آپ نے مکے کے راستے میں مقام سرف میں ان کے ساتھ خلوت میں گئے تو بھی آپ حلال تھے۔ میمونہ کا انتقال بھی سرف میں ہوا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خلوت کی تھی اور وہ مقام سرف میں ہی دفن کی گئیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 842 (تحفة الأشراف: 5376) (صحیح) (سندا صحیح ہے، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم)»

قال الشيخ الألباني: **
حدیث نمبر: 845
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا ابي، قال: سمعت ابا فزارة يحدث، عن يزيد بن الاصم، عن ميمونة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " تزوجها وهو حلال، وبنى بها حلالا، وماتت بسرف، ودفناها في الظلة التي بنى بها فيها ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وروى غير واحد هذا الحديث، عن يزيد بن الاصم مرسلا، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " تزوج ميمونة وهو حلال ".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ أَبَا فَزَارَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَهَا وَهُوَ حَلَالٌ، وَبَنَى بِهَا حَلَالًا، وَمَاتَتْ بِسَرِفَ، وَدَفَنَّاهَا فِي الظُّلَّةِ الَّتِي بَنَى بِهَا فِيهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ مُرْسَلًا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ ".
ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی اور آپ حلال تھے اور ان سے خلوت کی تو بھی آپ حلال تھے۔ اور انہوں نے سرف ہی میں انتقال کیا، ہم نے انہیں اسی سایہ دار مقام میں دفن کیا جہاں آپ نے ان سے خلوت کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث یزید بن اصم سے مرسلاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 5 (1411)، سنن ابی داود/ الحج 39 (1843)، سنن ابن ماجہ/النکاح 45 (1964)، (تحفة الأشراف: 18082)، مسند احمد (333، 335)، دي 21 (1865) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1964)
25. باب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ
25. باب: محرم شکار کا گوشت کھائے اس کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Muhrim Eating Hunted Animals
حدیث نمبر: 846
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن عمرو بن ابي عمرو، عن المطلب، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " صيد البر لكم حلال وانتم حرم ما لم تصيدوه او يصد لكم ". قال: وفي الباب عن ابي قتادة، وطلحة. قال ابو عيسى: حديث جابر حديث مفسر، والمطلب لا نعرف له سماعا من جابر، والعمل على هذا عند اهل العلم لا يرون باكل الصيد للمحرم باسا إذا لم يصطده او لم يصطد من اجله، قال الشافعي: هذا احسن حديث روي في هذا الباب وافسر، والعمل على هذا، وهو قول احمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلَالٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَطَلْحَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ، وَالْمُطَّلِبُ لَا نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنْ جَابِرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِأَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ بَأْسًا إِذَا لَمْ يَصْطَدْهُ أَوْ لَمْ يُصْطَدْ مِنْ أَجْلِهِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: هَذَا أَحْسَنُ حَدِيثٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَاب وَأَفْسَرُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خود نہ کیا ہو، نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوقتادہ اور طلحہ رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۲- جابر کی حدیث مفسَّر ہے،
۳- اور ہم مُطّلب کا جابر سے سماع نہیں جانتے،
۴- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ محرم کے لیے شکار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جب اس نے خود اس کا شکار نہ کیا ہو، نہ ہی وہ اس کے لیے کیا گیا ہو،
۵- شافعی کہتے ہیں: یہ اس باب میں مروی سب سے اچھی اور قیاس کے سب سے زیادہ موافق حدیث ہے، اور اسی پر عمل ہے۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 41 (1851)، سنن النسائی/الحج 81 (2830)، (تحفة الأشراف: 3098)، مسند احمد (3/362) (ضعیف) (سند میں عمروبن ابی عمرو ضعیف ہیں، لیکن اگلی روایت سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2700 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (3524)، ضعيف أبي داود (401 / 1851) //

قال الشيخ زبير على زئي: (846) إسناده ضعيف / د 1851، ن 2830

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.