(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن عاصم الاحول، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صام من كل شهر ثلاثة ايام فذلك صيام الدهر ". فانزل الله عز وجل تصديق ذلك في كتابه: من جاء بالحسنة فله عشر امثالها سورة الانعام آية 160 اليوم بعشرة ايام. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى شعبة هذا الحديث، عن ابي شمر، وابي التياح، عن ابي عثمان، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَامَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ ". فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ: مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا سورة الأنعام آية 160 الْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّامٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي شِمْرٍ، وَأَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے تو یہی صیام الدھر ہے“، اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ارشاد باری ہے: «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها»(الأنعام: ۱۶۰)”جس نے ایک نیکی کی تو اسے (کم سے کم) اس کا دس گنا اجر ملے گا“ گویا ایک دن (کم سے کم) دس دن کے برابر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث بطریق: «أبي شمر وأبي التياح عن أبي عثمان عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن يزيد الرشك، قال: سمعت معاذة، قالت: قلت لعائشة: " اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم ثلاثة ايام من كل شهر؟ قالت: نعم، قلت: من ايه كان يصوم، قالت: كان لا يبالي من ايه صام ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: ويزيد الرشك هو يزيد الضبعي وهو يزيد بن القاسم وهو القسام، والرشك هو القسام بلغة اهل البصرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، قَال: سَمِعْتُ مُعَاذَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: مِنْ أَيِّهِ كَانَ يَصُومُ، قَالَتْ: كَانَ لَا يُبَالِي مِنْ أَيِّهِ صَامَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَيَزِيدُ الرِّشْكُ هُوَ يَزِيدُ الضُّبَعِيُّ وَهُوَ يَزِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ وَهُوَ الْقَسَّامُ، وَالرِّشْكُ هُوَ الْقَسَّامُ بِلُغَةِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ.
معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ تین روزے رکھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں رکھتے تھے، میں نے کہا: کون سی تاریخوں میں رکھتے تھے؟ کہا: آپ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ کون سی تاریخ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یزید الرشک یزید ضبعی ہی ہیں، یہی یزید بن قاسم بھی ہیں اور یہی قسّام ہیں، رشک کے معنی اہل بصرہ کی لغت میں قسّام کے ہیں۔
(قدسي) حدثنا حدثنا عمران بن موسى القزاز، حدثنا عبد الوارث بن سعيد، حدثنا علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن ربكم يقول: " كل حسنة بعشر امثالها إلى سبع مائة ضعف، والصوم لي وانا اجزي به، الصوم جنة من النار، ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك، وإن جهل على احدكم جاهل وهو صائم فليقل: إني صائم ". وفي الباب عن معاذ بن جبل، وسهل بن سعد، وكعب بن عجرة، وسلامة بن قيصر، وبشير ابن الخصاصية واسم بشير زحم بن معبد، والخصاصية هي امه. قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حديث حسن غريب من هذا الوجه.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ رَبَّكُمْ يَقُولُ: " كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَإِنْ جَهِلَ عَلَى أَحَدِكُمْ جَاهِلٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ ". وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَسَلَامَةَ بْنِ قَيْصَرٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ وَاسْمُ بَشِيرٍ زَحْمُ بْنُ مَعْبَدٍ، وَالْخَصَاصِيَةُ هِيَ أُمُّهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب فرماتا ہے: ہر نیکی کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ اور روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ جہنم کے لیے ڈھال ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے، اور اگر تم میں سے کوئی جاہل کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئے اور وہ روزے سے ہو تو اسے کہہ دینا چاہیئے کہ میں روزے سے ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں معاذ بن جبل، سہل بن سعد، کعب بن عجرہ، سلامہ بن قیصر اور بشیر بن خصاصیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بشیر کا نام زحم بن معبد ہے اور خصاصیہ ان کی ماں ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ اعمال سبھی اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں اور وہی ان کا بدلہ دیتا ہے پھر ”روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا“ کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ روزہ میں ریا کاری کا عمل دخل نہیں ہے جبکہ دوسرے اعمال میں ریا کاری ہو سکتی ہے کیونکہ دوسرے اعمال کا انحصار حرکات پر ہے جبکہ روزے کا انحصار صرف نیت پر ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ دوسرے اعمال کا ثواب لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ اس سے سات سو گنا تک ہو سکتا ہے لیکن روزہ کا ثواب صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کا ثواب دے گا دوسروں کے علم میں نہیں ہے اسی لیے فرمایا: «الصوم لي و أنا أجزي به» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 57 - 58)، صحيح أبي داود (2046)، الإرواء (918)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، عن هشام بن سعد، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن في الجنة لبابا يدعى الريان، يدعى له الصائمون فمن كان من الصائمين دخله ومن دخله لم يظما ابدا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَبَابا يُدْعَى الرَّيَّانَ، يُدْعَى لَهُ الصَّائِمُونَ فَمَنْ كَانَ مِنَ الصَّائِمِينَ دَخَلَهُ وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزہ رکھنے والوں ۱؎ کو اس کی طرف بلایا جائے گا، تو جو روزہ رکھنے والوں میں سے ہو گا اس میں داخل ہو جائے گا اور جو اس میں داخل ہو گیا، وہ کبھی پیاسا نہیں ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 1 (1640)، (تحفة الأشراف: 4771) (صحیح) (مَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا) کا جملہ ثابت نہیں ہے، تراجع الالبانی 351) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 4 (1896)، وبدء الخلق (3257)، صحیح مسلم/الصیام 30 (1152)، مسند احمد (5/333، 335)، من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: روزہ رکھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرض روزوں کے ساتھ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے ہوں، ورنہ رمضان کے فرض روزے تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہیں، اس خصوصی فضیلت کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو فرض کے ساتھ بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام کرتے ہوں۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کرتے وقت ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہو گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن عبدة، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن غيلان بن جرير، عن عبد الله بن معبد، عن ابي قتادة، قال: قيل: يا رسول الله كيف بمن صام الدهر؟ قال: " لا صام ولا افطر او لم يصم ولم يفطر ". وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وعبد الله بن الشخير، وعمران بن حصين، وابي موسى. قال ابو عيسى: حديث ابي قتادة حديث حسن، وقد كره قوم من اهل العلم صيام الدهر واجازه قوم آخرون، وقالوا: إنما يكون صيام الدهر إذا لم يفطر يوم الفطر ويوم الاضحى وايام التشريق، فمن افطر هذه الايام فقد خرج من حد الكراهية ولا يكون قد صام الدهر كله، هكذا روي عن مالك بن انس، وهو قول الشافعي، وقال احمد، وإسحاق نحوا من هذا، وقالا: لا يجب ان يفطر اياما غير هذه الخمسة الايام التي نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها، يوم الفطر ويوم الاضحى وايام التشريق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَنْ صَامَ الدَّهْرَ؟ قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صِيَامَ الدَّهْرِ وَأَجَازَهُ قَوْمٌ آخَرُونَ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يَكُونُ صِيَامُ الدَّهْرِ إِذَا لَمْ يُفْطِرْ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى وَأَيَّامَ التَّشْرِيقِ، فَمَنْ أَفْطَرَ هَذِهِ الْأَيَّامَ فَقَدْ خَرَجَ مِنْ حَدِّ الْكَرَاهِيَةِ وَلَا يَكُونُ قَدْ صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق نَحْوًا مِنْ هَذَا، وَقَالَا: لَا يَجِبُ أَنْ يُفْطِرَ أَيَّامًا غَيْرَ هَذِهِ الْخَمْسَةِ الْأَيَّامِ الَّتِي نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْأَضْحَى وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی صوم الدھر (پورے سال روزے) رکھے تو کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن شخیر، عمران بن حصین اور ابوموسیٰ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے صوم الدھر کو مکروہ کہا ہے اور بعض دوسرے لوگوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صیام الدھر تو اس وقت ہو گا جب عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا نہ چھوڑے، جس نے ان دنوں میں روزہ ترک کر دیا، وہ کراہت کی حد سے نکل گیا، اور وہ پورے سال روزہ رکھنے والا نہیں ہوا مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی طرح کہتے ہیں، ان دونوں کا کہنا ہے کہ ان پانچ دنوں یوم الفطر، یوم الاضحی اور ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، بقیہ دنوں میں افطار کرنا واجب نہیں ہے۔
وضاحت: ۱؎ راوی کو شک ہے کہ «لا صام ولا أفطر» کہا یا «لم يصم ولم يفطر» کہا (دونوں کے معنی ایک ہیں) ظاہر یہی ہے کہ یہ خبر ہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی، اور افطار نہیں کیا کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہا کچھ کھایا پیا نہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بد دعا ہے، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس فعل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن عبد الله بن شقيق، قال: سالت عائشة عن صيام النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: " كان يصوم حتى نقول: قد صام، ويفطر حتى نقول: قد افطر " قالت: " وما صام رسول الله شهرا كاملا إلا رمضان ". وفي الباب عن انس، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَفْطَرَ " قَالَتْ: " وَمَا صَامَ رَسُولُ اللَّهِ شَهْرًا كَامِلًا إِلَّا رَمَضَانَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے خوب روزے رکھے، پھر آپ روزے رکھنا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے بہت دنوں سے روزہ نہیں رکھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے روزے نہیں رکھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 34 (1156)، سنن النسائی/الصیام 70 (2351)، (تحفة الأشراف: 16202)، وانظر ما تقدم عند المؤلف برقم: 737 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ یہ تھی تاکہ کوئی اس کے وجوب کا گمان نہ کرے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس بن مالك، انه سئل عن صوم النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " كان يصوم من الشهر حتى نرى انه لا يريد ان يفطر منه، ويفطر حتى نرى انه لا يريد ان يصوم منه شيئا، وكنت لا تشاء ان تراه من الليل مصليا إلا رايته مصليا ولا نائما إلا رايته نائما ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَ يَصُومُ مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى نَرَى أَنَّهُ لَا يُرِيدُ أَنْ يُفْطِرَ مِنْهُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَرَى أَنَّهُ لَا يُرِيدُ أَنْ يَصُومَ مِنْهُ شَيْئًا، وَكُنْتَ لَا تَشَاءُ أَنْ تَرَاهُ مِنَ اللَّيْلِ مُصَلِّيًا إِلَّا رَأَيْتَهُ مُصَلِّيًا وَلَا نَائِمًا إِلَّا رَأَيْتَهُ نَائِمًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: آپ کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے: اب آپ کا ارادہ روزے بند کرنے کا نہیں ہے، اور کبھی بغیر روزے کے رہتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپ کوئی روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ اور آپ کو رات کے جس حصہ میں بھی تم نماز پڑھنا دیکھنا چاہتے نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جس حصہ میں سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے دیکھ لیتے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن مسعر، وسفيان، عن حبيب بن ابي ثابت، عن ابي العباس، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " افضل الصوم صوم اخي داود، كان يصوم يوما ويفطر يوما ولا يفر إذا لاقى ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو العباس هو الشاعر المكي الاعمى واسمه السائب بن فروخ، قال بعض اهل العلم: افضل الصيام ان تصوم يوما وتفطر يوما، ويقال: هذا هو اشد الصيام.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الصَّوْمِ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعَبَّاسِ هُوَ الشَّاعِرُ الْمَكِّيُّ الْأَعْمَى وَاسْمُهُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَفْضَلُ الصِّيَامِ أَنْ تَصُومَ يَوْمًا وَتُفْطِرَ يَوْمًا، وَيُقَالُ: هَذَا هُوَ أَشَدُّ الصِّيَامِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے افضل روزہ میرے بھائی داود علیہ السلام کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے، اور جب (دشمن سے) مڈبھیڑ ہوتی تو میدان چھوڑ کر بھاگتے نہیں تھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ سب سے افضل روزہ یہ ہے کہ تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن بغیر روزہ کے رہو، کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے سخت روزہ ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف، قال: شهدت عمر بن الخطاب في يوم النحر، بدا بالصلاة قبل الخطبة، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم " ينهى عن صوم هذين اليومين اما يوم الفطر ففطركم من صومكم وعيد للمسلمين، واما يوم الاضحى فكلوا من لحوم نسككم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف اسمه سعد ويقال له مولى عبد الرحمن بن ازهر ايضا، وعبد الرحمن بن ازهر هو ابن عم عبد الرحمن بن عوف.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي يَوْمِ النَّحْرِ، بَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَنْهَى عَنْ صَوْمِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ وَعِيدٌ لِلْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا يَوْمُ الْأَضْحَى فَكُلُوا مِنْ لُحُومِ نُسُكِكُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ اسْمُهُ سَعْدٌ وَيُقَالُ لَهُ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ أَيْضًا، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَزْهَرَ هُوَ ابْنُ عَمِّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو، اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے کی نذر مان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی قضاء اس پر لازم آئے گی اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہو جائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا، ان کی قضاء کرے گا۔