(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن عبدة الضبي، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن غيلان بن جرير، عن عبد الله بن معبد، عن ابي قتادة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " صيام يوم عاشوراء إني احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله ". وفي الباب عن علي، ومحمد بن صيفي، وسلمة بن الاكوع، وهند بن اسماء، وابن عباس، والربيع بنت معوذ ابن عفراء، وعبد الرحمن بن سلمة الخزاعي، عن عمه وعبد الله بن الزبير ذكروا، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " انه حث على صيام يوم عاشوراء ". قال ابو عيسى: لا نعلم في شيء من الروايات، انه قال: " صيام يوم عاشوراء كفارة سنة " إلا في حديث ابي قتادة، وبحديث ابي قتادة يقول احمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَهِنْدِ بْنِ أَسْمَاءَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ عَمِّهِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ذَكَرُوا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ حَثَّ عَلَى صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: لَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنَ الرِّوَايَاتِ، أَنَّهُ قَالَ: " صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ كَفَّارَةُ سَنَةٍ " إِلَّا فِي حَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ، وَبِحَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء ۱؎ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی، محمد بن صیفی، سلمہ بن الاکوع، ہند بن اسماء، ابن عباس، ربیع بنت معوذ بن عفراء، عبدالرحمٰن بن سلمہ خزاعی، جنہوں نے اپنے چچا سے روایت کی ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کے روزہ رکھنے پر ابھارا، ۲- ابوقتادہ رضی الله عنہ کی حدیث کے علاوہ ہم نہیں جانتے کہ کسی اور روایت میں آپ نے یہ فرمایا ہو کہ عاشوراء کے دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ احمد اور اسحاق کا قول بھی ابوقتادہ کی حدیث کے مطابق ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر رقم: 749 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ”ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں“، چنانچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ ”اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا“ تاکہ یہود کی مخالفت بھی ہو جائے، بلکہ ایک روایت میں آپ نے اس کا حکم دیا ہے کہ ”تم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو“۔
(مرفوع) حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، حدثنا عبدة بن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كان عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما قدم المدينة صامه، وامر الناس بصيامه فلما افترض رمضان كان رمضان هو الفريضة وترك عاشوراء، فمن شاء صامه ومن شاء تركه ". وفي الباب عن ابن مسعود، وقيس بن سعد، وجابر بن سمرة، وابن عمر، ومعاوية. قال ابو عيسى: والعمل عند اهل العلم على حديث عائشة، وهو حديث صحيح لا يرون صيام يوم عاشوراء واجبا إلا من رغب في صيامه لما ذكر فيه من الفضل.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةُ وَتَرَكَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا يَرَوْنَ صِيَامَ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ رَغِبَ فِي صِيَامِهِ لِمَا ذُكِرَ فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے ۱؎، ۲- اس باب میں ابن مسعود، قیس بن سعد، جابر بن سمرہ، ابن عمر اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث پر ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے، یہ لوگ یوم عاشوراء کے روزے کو واجب نہیں سمجھتے، الا یہ کہ جو اس کی اس فضیلت کی وجہ سے جو ذکر کی گئی اس کی رغبت رکھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (التحفہ: 17088) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 69 (2002)، وصحیح مسلم/الصیام 19 (1125)، و سنن ابی داود/ الصیام 64 (2442)، وط/الصیام 11 (33)، وسنن الدارمی/الصوم 46 (1803) من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: فائدہ ا؎: مولف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، وابو كريب، قالا: حدثنا وكيع، عن حاجب بن عمر، عن الحكم بن الاعرج، قال: " انتهيت إلى ابن عباس، وهو متوسد رداءه في زمزم، فقلت: اخبرني عن يوم عاشوراء اي يوم هو اصومه، قال: " إذا رايت هلال المحرم فاعدد ثم اصبح من التاسع صائما "، قال: فقلت: اهكذا كان يصومه محمد صلى الله عليه وسلم؟ قال: " نعم ".(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: " انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَيُّ يَوْمٍ هُوَ أَصُومُهُ، قَالَ: " إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ ثُمَّ أَصْبِحْ مِنَ التَّاسِعِ صَائِمًا "، قَالَ: فَقُلْتُ: أَهَكَذَا كَانَ يَصُومُهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " نَعَمْ ".
حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس پہنچا، وہ زمزم پر اپنی چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے، میں نے پوچھا: مجھے یوم عاشوراء کے بارے میں بتائیے کہ وہ کون سا دن ہے جس میں میں روزہ رکھوں؟ انہوں نے کہا: جب تم محرم کا چاند دیکھو تو دن گنو، اور نویں تاریخ کو روزہ رکھ کر صبح کرو۔ میں نے پوچھا: کیا اسی طرح سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟ کہا: ہاں (اسی طرح رکھتے تھے)۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوارث، عن يونس، عن الحسن، عن ابن عباس قال: " امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصوم عاشوراء يوم العاشر ". قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في يوم عاشوراء، فقال بعضهم: يوم التاسع، وقال بعضهم: يوم العاشر، وروي عن ابن عباس، انه قال: صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود، وبهذا الحديث يقول الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: " أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَوْمِ عَاشُورَاءَ يَوْمُ الْعَاشِرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَوْمُ التَّاسِعِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يَوْمُ الْعَاشِرِ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْيَهُودَ، وَبِهَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا عاشوراء کے دن کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں: عاشوراء نواں دن ہے اور بعض کہتے ہیں: دسواں دن ۱؎ ابن عباس سے مروی ہے کہ نویں اور دسویں دن کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: " ما رايت النبي صلى الله عليه وسلم صائما في العشر قط ". قال ابو عيسى: هكذا روى غير واحد عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، وروى الثوري وغيره هذا الحديث، عن منصور، عن إبراهيم، ان النبي صلى الله عليه وسلم " لم ير صائما في العشر ". وروى ابو الاحوص، عن منصور، عن إبراهيم، عن عائشة ولم يذكر فيه عن الاسود، وقد اختلفوا على منصور في هذا الحديث، ورواية الاعمش اصح واوصل إسنادا، قال: وسمعت محمد بن ابان، يقول: سمعت وكيعا، يقول: الاعمش احفظ لإسناد إبراهيم من منصور.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ قَطُّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَرَوَى الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَمْ يُرَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ ". وَرَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ الْأَسْوَدِ، وَقَدِ اخْتَلَفُوا عَلَى مَنْصُورٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرِوَايَةُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ وَأَوْصَلُ إِسْنَادًا، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: الْأَعْمَشُ أَحْفَظُ لِإِسْنَادِ إِبْرَاهِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزے رکھتے کبھی نہیں دیکھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح کئی دوسرے لوگوں نے بھی بطریق «الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة» روایت کی ہے، ۲- اور ثوری وغیرہ نے یہ حدیث بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی» یوں روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا گیا، ۳- اور ابوالا ٔحوص نے بطریق «منصور عن ابراہیم النخعی عن عائشہ» روایت کی اس میں انہوں نے اسود کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ۴- اور لوگوں نے اس حدیث میں منصور پر اختلاف کیا ہے۔ اور اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے اور سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ متصل ہے، ۵- اعمش ابراہیم نخعی کی سند کے منصور سے زیادہ یاد رکھنے والے۔
وضاحت: ۱؎: بظاہر اس حدیث سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، ان دنوں میں روزہ رکھنا مستحب ہے، خاص کر یوم عرفہ کے روزہ کی بڑی فضیلت وارد ہے، ویسے بھی ان دنوں کے نیک اعمال اللہ کو بہت پسند ہیں اس لیے اس حدیث کی تاویل کی جاتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دنوں روزہ نہ رکھنا ممکن ہے بیماری یا سفر وغیرہ کسی عارض کی وجہ سے رہا ہو، نیز عائشہ رضی الله عنہا کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ فی الواقع روزہ نہ رکھتے رہے ہوں۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن مسلم هو البطين وهو ابن ابي عمران، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من ايام العمل الصالح فيهن احب إلى الله من هذه الايام العشر " فقالوا: يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء ". وفي الباب عن ابن عمر، وابي هريرة، وعبد الله بن عمرو، وجابر. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ هُوَ الْبَطِينُ وَهُوَ ابْنُ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ " فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلا پھر کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن نافع البصري، حدثنا مسعود بن واصل، عن نهاس بن قهم، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما من ايام احب إلى الله ان يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة، يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة، وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث مسعود بن واصل، عن النهاس، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث فلم يعرفه من غير هذا الوجه مثل هذا. وقال: قد روي عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا شيء من هذا، وقد تكلم يحيى بن سعيد في نهاس بن قهم من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَسْعُودِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنْ النَّهَّاسِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ مِثْلَ هَذَا. وقَالَ: قَدْ رُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا شَيْءٌ مِنْ هَذَا، وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فِي نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف مسعود بن واصل کی حدیث سے اس طریق کے علاوہ جانتے ہیں اور مسعود نے نہّاس سے روایت کی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے کسی اور طریق سے نہیں جان سکے، ۴- اس میں سے کچھ جسے قتادہ نے بسند «قتادة عن سعيد بن المسيب عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلا روایت کی ہے، ۴- یحییٰ بن سعید نے نہاس بن قہم پر ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام39 (1728) (تحفة الأشراف: 13098) (ضعیف) (سند میں نہاس بن قہم ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1728) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (377) مع بعض الاختلاف في الألفاظ، وانظر:، المشكاة (1471)، ضعيف الجامع الصغير (5161) //
قال الشيخ زبير على زئي: (758) إسناده ضعيف /جه 1728 نھاس: ضعيف (تقدم: 476)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، حدثنا سعد بن سعيد، عن عمر بن ثابت، عن ابي ايوب، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر ". وفي الباب عن جابر، وابي هريرة، وثوبان. قال ابو عيسى: حديث ابي ايوب حديث حسن صحيح، وقد استحب قوم صيام ستة ايام من شوال بهذا الحديث، قال ابن المبارك: هو حسن هو مثل صيام ثلاثة ايام من كل شهر، قال ابن المبارك: ويروى في بعض الحديث ويلحق هذا الصيام برمضان، واختار ابن المبارك ان تكون ستة ايام في اول الشهر، وقد روي عن ابن المبارك، انه قال: إن صام ستة ايام من شوال متفرقا فهو جائز، قال: وقد روى عبد العزيز بن محمد، عن صفوان بن سليم، وسعد بن سعيد هذا الحديث، عن عمر بن ثابت، عن ابي ايوب، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا. وروى شعبة، عن ورقاء بن عمر، عن سعد بن سعيد هذا الحديث، وسعد بن سعيد هو اخو يحيى بن سعيد الانصاري، وقد تكلم بعض اهل الحديث في سعد بن سعيد من قبل حفظه. حدثنا هناد، قال: اخبرنا الحسين بن علي الجعفي، عن إسرائيل ابي موسى، عن الحسن البصري، قال: كان إذا ذكر عنده صيام ستة ايام من شوال، فيقول: والله لقد رضي الله بصيام هذا الشهر عن السنة كلها.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ ". وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَثَوْبَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ صِيَامَ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: هُوَ حَسَنٌ هُوَ مِثْلُ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ وَيُلْحَقُ هَذَا الصِّيَامُ بِرَمَضَانَ، وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْ تَكُونَ سِتَّةَ أَيَّامٍ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: إِنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ مُتَفَرِّقًا فَهُوَ جَائِزٌ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، وَسَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا. وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ وَرْقَاءَ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ أَبِي مُوسَى، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، قَالَ: كَانَ إِذَا ذُكِرَ عِنْدَهُ صِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ، فَيَقُولُ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ بِصِيَامِ هَذَا الشَّهْرِ عَنِ السَّنَةِ كُلِّهَا.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوایوب رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبدالعزیز بن محمد نے اس حدیث کو بطریق: «صفوان بن سليم بن سعيد عن عمر بن ثابت عن أبي أيوب عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ۳- شعبہ نے یہ حدیث بطریق: «ورقاء بن عمر عن سعد بن سعيد» روایت کی ہے، سعد بن سعید، یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، ۴- بعض محدثین نے سعد بن سعید پر حافظے کے اعتبار سے کلام کیا ہے۔ ۵- حسن بصری سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے، ۶- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۷- ایک جماعت نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ۸- ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں، ۹- ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ۱۰- اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ۱۱- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔
وضاحت: ۱؎: ”ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے“ کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہو گا، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن سماك بن حرب، عن ابي الربيع، عن ابي هريرة، قال: " عهد إلي النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثة: ان لا انام إلا على وتر، وصوم ثلاثة ايام من كل شهر، وان اصلي الضحى ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةً: أَنْ لَا أَنَامَ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ، وَصَوْمَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَأَنْ أُصَلِّيَ الضُّحَى ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تین باتوں کا عہد لیا: ۱- میں وتر پڑھے بغیر نہ سووں، ۲- ہر ماہ تین دن کے روزے رکھوں، ۳- اور چاشت کی نماز (صلاۃ الضحیٰ) پڑھا کروں۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن الاعمش، قال: سمعت يحيى بن بسام يحدث، عن موسى بن طلحة، قال: سمعت ابا ذر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابا ذر إذا صمت من الشهر ثلاثة ايام، فصم ثلاث عشرة واربع عشرة وخمس عشرة ". وفي الباب عن ابي قتادة، وعبد الله بن عمرو، وقرة بن إياس المزني، وعبد الله بن مسعود، وابي عقرب، وابن عباس، وعائشة، وقتادة بن ملحان، وعثمان بن ابي العاص، وجرير. قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حديث حسن، وقد روي في بعض الحديث ان من صام ثلاثة ايام من كل شهر كان كمن صام الدهر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ بَسَامٍ يُحَدِّثُ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا صُمْتَ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَصُمْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي عَقْرَبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَقَتَادَةَ بْنِ مِلْحَانَ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَجَرِيرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ أَنَّ مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ كَانَ كَمَنْ صَامَ الدَّهْرَ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! جب تم ہر ماہ کے تین دن کے روزے رکھو تو تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوقتادہ، عبداللہ بن عمرو، قرہ بن ایاس مزنی، عبداللہ بن مسعود، ابوعقرب، ابن عباس، عائشہ، قتادہ بن ملحان، عثمان بن ابی العاص اور جریر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض احادیث میں یہ بھی ہے کہ ”جس نے ہر ماہ تین دن کے روزے رکھے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے صوم الدھر رکھا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصیام 84 (2425)، (تحفة الأشراف: 11988) (حسن صحیح) وأخرجہ: سنن النسائی/الصیام (المصدر المذکور (برقم: 2424-2431)، مسند احمد (5/15، 52، 177) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (947)، (، المشكاة / التحقيق الثاني 2057)