(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف البصري، حدثنا بشر بن المفضل، عن خالد الحذاء، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " شهرا عيد لا ينقصان رمضان وذو الحجة ". قال ابو عيسى: حديث ابي بكرة حديث حسن، وقد روي هذا الحديث عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، قال احمد: معنى هذا الحديث شهرا عيد لا ينقصان، يقول: لا ينقصان معا في سنة واحدة شهر رمضان وذو الحجة، إن نقص احدهما تم الآخر، وقال إسحاق: معناه لا ينقصان، يقول: وإن كان تسعا وعشرين فهو تمام غير نقصان، وعلى مذهب إسحاق يكون ينقص الشهران معا في سنة واحدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَكْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، قَالَ أَحْمَدُ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ وَذُو الْحِجَّةِ، إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الْآخَرُ، وقَالَ إِسْحَاق: مَعْنَاهُ لَا يَنْقُصَانِ، يَقُولُ: وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ، وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاق يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عید کے دونوں مہینے رمضان ۱؎ اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ۲۹ دن کے نہیں ہوتے)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس حدیث ”عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے“ کا مطلب یہ ہے کہ رمضان اور ذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندر کم نہیں ہوتے ۲؎ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہو گا یعنی ایک ۲۹ دن کا ہو گا تو دوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہو گا، ۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ۲۹ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبار سے کم نہ ہوں گے، اسحاق بن راہویہ کے مذہب کی رو سے دونوں مہینے ایک سال میں کم ہو سکتے ہیں یعنی دونوں ۲۹ دن کے ہو سکتے ہیں ۳؎۔
وضاحت: ۱؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ عید تو شوال میں ہوتی ہے پھر رمضان کو شہر عید کیسے کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب کی وجہ سے کہا گیا ہے چونکہ عید رمضان ہی کی وجہ سے متحقق ہوتی ہے لہٰذا اس کی طرف نسبت کر دی گئی ہے۔
۲؎: اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بعض اوقات دونوں انتیس (۲۹) کے ہوتے ہیں، تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عام طور سے دونوں کم نہیں ہوتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، حدثنا محمد بن ابي حرملة، اخبرني كريب، ان ام الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها واستهل علي هلال رمضان وانا بالشام، فراينا الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني ابن عباس ثم ذكر الهلال، فقال: متى رايتم الهلال؟ فقلت: رايناه ليلة الجمعة، فقال: اانت رايته ليلة الجمعة؟ فقلت: رآه الناس وصاموا وصام معاوية، قال: لكن رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما او نراه، فقلت: الا تكتفي برؤية معاوية وصيامه؟ قال: لا، هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم ان لكل اهل بلد رؤيتهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ.
کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی الله عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہ رضی الله عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: لیکن ہم نے اسے ہفتہ (سنیچر) کی رات کو دیکھا، تو ہم برابر روزے سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کر لیں، یا ہم ۲۹ کا چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم دیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خود چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتا ہے کہ «صوموا» اور «افطروا» کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنہوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمر بن علي المقدمي، حدثنا سعيد بن عامر، حدثنا شعبة، عن عبد العزيز بن صهيب، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من وجد تمرا فليفطر عليه ومن لا فليفطر على ماء، فإن الماء طهور ". قال: وفي الباب عن سلمان بن عامر. قال ابو عيسى: حديث انس لا نعلم احدا رواه عن شعبة مثل هذا غير سعيد بن عامر، وهو حديث غير محفوظ ولا نعلم له اصلا من حديث عبد العزيز بن صهيب، عن انس، وقد روى اصحاب شعبة هذا الحديث، عن شعبة، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو اصح من حديث سعيد بن عامر، وهكذا رووا عن شعبة، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين، عن سلمان ولم يذكر فيه شعبة عن الرباب، والصحيح ما رواه. وابن عيينة وغير واحد، سفيان الثوري، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، وابن عون، يقول: عن ام الرائح بنت صليع، عن سلمان بن عامر، والرباب هي ام الرائح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ وَمَنْ لَا فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ، فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَ هَذَا غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَلَا نَعْلَمُ لَهُ أَصْلًا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهَكَذَا رَوَوْا عَنْ شُعُبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ شُعْبَةُ عَنِ الرَّبَاب، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَاهُ. وَابْنُ عُيَيْنَةَ وغير واحد، سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحَوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنُ عَوْنٍ، يَقُولُ: عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَالرَّبَاب هي أم الرائح.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے کھجور میسر ہو، تو چاہیئے کہ وہ اسی سے روزہ کھولے، اور جسے کھجور میسر نہ ہو تو چاہیئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیز ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامر کے علاوہ کسی اور نے بھی شعبہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۱؎، ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیز کی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے، اور شعبہ کے شاگردوں نے یہ حدیث بطریق: «شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق: «شعبة عن عاصم عن حفصة بنت سيرين عن سلمان» روایت کی ہے اور اس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور صحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے، اور ابن عون کہتے ہیں: «عن أم الرائح بنت صليع عن سلمان بن عامر» اور رباب ہی دراصل ام الرائح ہیں ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف: 1026) (ضعیف) (سند میں سعید بن عامر حافظہ کے ضعیف ہیں اور ان سے اس کی سند میں وہم ہوا بھی ہے، دیکھئے الارواء رقم: 922)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ سعیدبن عامر «عن شعبة عن عبدالعزيز بن صهيب عن أنس» کے طریق سے اس کی روایت میں منفرد ہیں، شعبہ کے دوسرے تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے، ان لوگوں نے اسے «عن شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن سلمان بن عامر» کے طریق سے روایت کی ہے، اور عاصم الاحول کے تلامذہ مثلاً سفیان ثوری اور ابن عیینہ وغیرہم نے بھی اسے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔
۲؎: یعنی ابن عون نے اپنی روایت میں «عن الرباب» کہنے کے بجائے «عن ام الروائح بنت صلیع» کہا ہے، اور رباب ام الروائح کے علاوہ کوئی اور عورت نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1699) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (374) //
سلمان بن عامر ضبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہیئے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے (کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصوم 21 (2355)، سنن ابن ماجہ/الصیام 25 (1699)، (تحفة الأشراف: 4486)، مسند احمد (4/، 17، 19، 213، 215)، سنن الدارمی/الصوم 12 (1773)، وانظر أیضا ما تقدم برقم 658 (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے، مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر افطار میں کھجور میسر ہو تو کھجور ہی سے افطار کرے کیونکہ یہ مقوی معدہ، مقوی اعصاب اور جسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کا بہترین بدل ہے اور اگر کھجور میّسر نہ ہو سکے تو پھر پانی سے افطار بہتر ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کھجور سے افطار کیا کرتے تھے اگر تازہ کھجور نہیں ملتی تو خشک کھجور سے افطار کرتے اور اگر وہ بھی نہ ملتی تو چند گھونٹ پانی سے افطار کرتے تھے۔ ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجر و ثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اور چیز مثلاً نمک وغیرہ سے افطار کرنا بدعت ہے، جو ملاؤں نے ایجاد کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس بن مالك، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يفطر قبل ان يصلي على رطبات، فإن لم تكن رطبات فتميرات، فإن لم تكن تميرات حسا حسوات من ماء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب. قال ابو عيسى: وروي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يفطر في الشتاء على تمرات، وفي الصيف على الماء ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔
11. باب: روزہ کا دن وہی ہے جب سب روزہ رکھیں، عیدالفطر کا دن وہی ہے۔
Chapter: What Has Been Related About: (The Fast Is The Day The People Fast And) The Breaking Of The Fast IS The Day When the People Break The Fast, And The Sacrifice Is The Day The People Sacrifice
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے کہ صوم اور عید الفطر اجتماعیت اور سواد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیئے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12997) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الصوم5 (2324) وسنن ابن ماجہ/الصیام9 (1660) من غیر ہذا الطریق (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے اور سارے کے سارے لوگ غور و خوض کرنے کے بعد ایک فیصلہ کر لیں تو اسی کے حساب سے رمضان اور عید میں کیا جائے۔
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات آ جائے، اور دن چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو تم نے افطار کر لیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن ابی اوفی اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: ”تم نے افطار کر لیا“ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم شرعاً روزہ کھولنے والے ہو گئے خواہ تم نے کچھ کھایا پیا نہ ہو کیونکہ سورج ڈوبتے ہی روزہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا اس میں روزہ کے وقت کا تعین کر دیا گیا ہے کہ وہ صبح صادق سے سورج ڈوبنے تک ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2036)، الإرواء (916)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن ابي حازم ح. قال: واخبرنا ابو مصعب قراءة، عن مالك، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وابن عباس، وعائشة، وانس بن مالك. قال ابو عيسى: حديث سهل بن سعد حديث حسن صحيح، وهو الذي اختاره اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم استحبوا تعجيل الفطر، وبه يقول الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ح. قَالَ: وأَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ اسْتَحَبُّوا تَعْجِيلَ الْفِطْرِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ برابر خیر میں رہیں گے ۱؎ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سہل بن سعد رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، عائشہ اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور یہی قول ہے جسے صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم نے اختیار کیا ہے، ان لوگوں نے افطار میں جلدی کرنے کو مستحب جانا ہے اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 45 (1957)، (تحفة الأشراف: 4746)، موطا امام مالک/الصیام 3 (6)، مسند احمد (5/337، 339) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الصیام 9 (1098)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 24 (1697)، مسند احمد (5/331، 334، 336)، وسنن الدارمی/الصوم 11 (1741) من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: «خیر» سے مراد دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
۲؎: افطار میں جلدی کریں گے، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے روزہ کھول لیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے میں تاخیر نہیں کریں گے جیسا کہ آج کل احتیاط کے نام پر کیا جاتا ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15235)، وانظر: مسند احمد (2/238، 329) (ضعیف) (سند میں قرة بن عبدالرحمن کی بہت سے منکر روایات ہیں، نیز ولید بن مسلم مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)۔»
وضاحت: ۱؎: اس محبت کی وجہ شاید سنت کی متابعت، بدعت سے دور رہنے اور اہل کتاب کی مخالفت ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1989)، التعليق الرغيب (2 / 95)، التعليقات الجياد // ضعيف الجامع الصغير (4041) //
قال الشيخ زبير على زئي: (700، 701) إسناده ضعيف الزھري عنعن (تقدم:440)