(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا إبراهيم بن ابي الوزير البصري ثقة، حدثنا محمد بن موسى، عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة، عن ابيه، عن جده، قال: صلى النبي صلى الله عليه وسلم في مسجد بني عبد الاشهل المغرب، فقام ناس يتنفلون، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " عليكم بهذه الصلاة في البيوت ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، من حديث كعب بن عجرة لا نعرفه إلا من هذا الوجه، والصحيح ما روي عن ابن عمر، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الركعتين بعد المغرب في بيته ". قال ابو عيسى: وقد روي عن حذيفة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى المغرب فما زال يصلي في المسجد حتى صلى العشاء الآخرة " ففي الحديث دلالة ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الركعتين بعد المغرب في المسجد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ الْبَصْرِيُّ ثِقَة، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ نَاسٌ يَتَنَفَّلُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الصَّلَاةِ فِي الْبُيُوتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي بَيْتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى الْمَغْرِبَ فَمَا زَالَ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ " فَفِي الْحَدِيثِ دِلَالَةٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي الْمَسْجِدِ.
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبدالاشہل کی مسجد میں مغرب پڑھی، کچھ لوگ نفل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اس نماز کو گھروں میں پڑھنے کو لازم پکڑو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث کعب بن عجرہ کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اور صحیح وہ ہے جو ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے، ۳- حذیفہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھی تو آپ برابر مسجد میں نماز ہی پڑھتے رہے جب تک کہ آپ نے عشاء نہیں پڑھ لی۔ اس حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کے بعد دو رکعت مسجد میں پڑھی ہے ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن الاغر بن الصباح، عن خليفة بن حصين، عن قيس بن عاصم انه اسلم، فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يغتسل بماء وسدر ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، والعمل عليه عند اهل العلم يستحبون للرجل إذا اسلم ان يغتسل ويغسل ثيابه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ أَنَّهُ أَسْلَمَ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَغْتَسِلَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ لِلرَّجُلِ إِذَا أَسْلَمَ أَنْ يَغْتَسِلَ وَيَغْسِلَ ثِيَابَهُ.
قیس بن عاصم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پانی اور بیری سے غسل کرنے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ آدمی جب اسلام قبول کرے تو غسل کرے اور اپنے کپڑے دھوئے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنوں کی آنکھوں اور انسان کی شرمگاہوں کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی پاخانہ جائے تو وہ بسم اللہ کہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اور اس کی سند قوی نہیں ہے، ۲- اس سلسلہ کی بہت سی چیزیں انس رضی الله عنہ کے واسطے سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 131 (355)، سنن النسائی/الطہارة 126 (188)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 9 (297)، (تحفة الأشراف: 11100)، مسند احمد (5/61) (صحیح) (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے تین راوی: ابواسحاق، حکم بن عبداللہ، اور محمد بن حمید رازی میں کلام ہے، دیکھیے الإروائ: 50)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (297)
قال الشيخ زبير على زئي: (606) إسناده ضعيف / جه 297 أبوإسحاق عنعن (تقدم: 107) وللحديث شواھد كلھا ضعيفة
عبداللہ بن بسر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میری امت کی پیشانی سجدے سے اور ہاتھ پاؤں وضو سے چمک رہے ہوں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن بسر رضی الله عنہ کی روایت سے یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن اشعث بن ابي الشعثاء، عن ابيه، عن مسروق، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يحب التيمن في طهوره إذا تطهر، وفي ترجله إذا ترجل وفي انتعاله إذا انتعل ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو الشعثاء اسمه سليم بن اسود المحاربي.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي طُهُورِهِ إِذَا تَطَهَّرَ، وَفِي تَرَجُّلِهِ إِذَا تَرَجَّلَ وَفِي انْتِعَالِهِ إِذَا انْتَعَلَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ سُلَيْمُ بْنُ أَسْوَدَ الْمُحَارِبِيُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو اپنی وضو میں اور جب کنگھی کرتے تو کنگھی کرنے میں اور جب جوتا پہنتے تو جوتا پہنے میں داہنے (سے شروع کرنے) کو پسند فرماتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن شريك، عن عبد الله بن عيسى، عن ابن جبر، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يجزئ في الوضوء رطلان من ماء ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك على هذا اللفظ، وروى شعبة، عن عبد الله بن عبد الله بن جبر، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يتوضا بالمكوك ويغتسل بخمسة مكاكي " وروي عن سفيان الثوري، عن عبد الله بن عيسى، عن عبد الله بن جبر، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يتوضا بالمد ويغتسل بالصاع " وهذا اصح من حديث شريك.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ ابْنِ جَبْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُجْزِئُ فِي الْوُضُوءِ رِطْلَانِ مِنْ مَاءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ، وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ بِالْمَكُّوكِ وَيَغْتَسِلُ بِخَمْسَةِ مَكَاكِيَّ " وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ " وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو میں دو رطل پانی کافی ہو گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ غریب ہے، ہم یہ حدیث صرف شریک ہی کی سند سے جانتے ہیں، ۲- شعبہ نے عبداللہ بن عبداللہ بن جبر سے اور انہوں نے انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکوک ۳؎ سے وضو، اور پانچ مکوک سے غسل کرتے تھے ۴؎، ۳- سفیان ثوری نے بسند «عبداللہ بن عیسیٰ عن عبداللہ بن جبر عن انس» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد ۵؎ سے وضو اور ایک صاع ۶؎ سے غسل کرتے تھے، ۴- یہ شریک کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہذا اللفظ (تحفة الأشراف: 963) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ان کی یہ روایت ثقات کی روایت کے خلاف بھی ہے شیخین کی سند میں ”شریک“ نہیں ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، جس کی تخریج حسب ذیل ہے: ابن جبر کے طریق سے مروی ہے: ”کان رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یتوضأ بمکوک ویغتسل بخمسة مکاکی“، أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 47 (201)، صحیح مسلم/الحیض 10 (325)، سنن ابی داود/ الطہارة 44 (95)، سنن النسائی/الطہارة 59 (73)، و144 (230)، والمیاہ 14 (346)، مسند احمد (3/259، 282، 290)، سنن الدارمی/الطہارة 22 (695)۔»
وضاحت: ۱؎: رطل بارہ اوقیہ کا ہوتا ہے اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا۔
۲؎: ”کافی ہو گا“ سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو رطل سے کم پانی وضو کے لیے کافی نہیں ہو گا، ام عمارہ بنت کعب کی حدیث اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا ارادہ کیا تو ایک برتن میں پانی لایا گیا جس میں دو تہائی مد کے بقدر پانی تھا۔
۳؎: تنّور کے وزن پر ہے، اس سے مراد مُد ہے اور ایک قول ہے کہ صاع مراد ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
۴؎: غسل کے پانی اور وضو کے پانی کے بارے میں وارد احادیث مختلف ہیں ان سب کو اختلاف احوال پر محمول کرنا چاہیئے۔
۵؎: ایک پیمانہ ہے جس میں ایک رطل اور ثلث رطل پانی آتا ہے۔
۶؎: صاع بھی ایک پیمانہ ہے جس میں چار مد پانی آتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (270)
قال الشيخ زبير على زئي: (609) إسناده ضعيف شريك مدلس وعنعن . (تقدم: 112) وحديث شعبه رواه مسلم (325) وھو يغني عنه
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن ابي حرب بن ابي الاسود، عن ابيه، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال في بول الغلام الرضيع: " ينضح بول الغلام، ويغسل بول الجارية ". قال قتادة: وهذا ما لم يطعما فإذا طعما غسلا جميعا. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، رفع هشام الدستوائي هذا الحديث عن قتادة، واوقفه سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة ولم يرفعه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي بَوْلِ الْغُلَامِ الرَّضِيعِ: " يُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلَامِ، وَيُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ ". قَالَ قَتَادَةُ: وَهَذَا مَا لَمْ يَطْعَمَا فَإِذَا طَعِمَا غُسِلَا جَمِيعًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، رَفَعَ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ، وَأَوْقَفَهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیتے بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں گے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے گا“۔ قتادہ کہتے ہیں: یہ اس وقت تک ہے جب تک دونوں کھانا نہ کھائیں، جب وہ کھانے لگیں تو دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہشام دستوائی نے یہ حدیث قتادہ سے روایت کی ہے اور سعید بن ابی عروبہ نے اسے قتادہ سے موقوفاً روایت کیا ہے، انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 137 (377)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 77 (525)، (تحفة الأشراف: 10131)، مسند احمد 1/97) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (525)
قال الشيخ زبير على زئي: (610) إسناده ضعيف /د 377۔378، جه 525
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا خالد بن زياد، عن مقاتل بن حيان، عن شهر بن حوشب، قال: رايت جرير بن عبد الله توضا ومسح على خفيه، قال: فقلت له في ذلك، فقال: " رايت النبي صلى الله عليه وسلم توضا فمسح على خفيه ". فقلت له: اقبل المائدة ام بعد المائدة، قال: ما اسلمت إلا بعد المائدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ". فَقُلْتُ لَهُ: أَقَبْلَ الْمَائِدَةِ أَمْ بَعْدَ الْمَائِدَةِ، قَالَ: مَا أَسْلَمْتُ إِلَّا بَعْدَ الْمَائِدَةِ.
شہر بن حوشب کہتے ہیں: میں نے جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا، انہوں نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ چنانچہ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ سورۃ المائدہ کے نزدول سے پہلے کی بات ہے یا مائدہ کے بعد کی؟ تو انہوں نے کہا: میں نے مائدہ کے بعد ہی اسلام قبول کیا تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3213) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب کے اندر کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: سورۃ المائدہ کے نازل ہونے کے پہلے یا بعد سے کا مطلب یہ تھا کہ وضو کا حکم سورۃ المائدہ ہی میں ہے، اس لیے اگر مسح کا معاملہ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے کا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ مائدہ کی آیت سے مسح منسوخ ہو گیا، مگر معاملہ یہ ہے کہ وضو کا حکم آ جانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں پر مسح کیا، اس سے ثابت ہوا کہ مسح کا معاملہ منسوخ نہیں ہوا۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا قبيصة، عن حماد بن سلمة، عن عطاء الخراساني، عن يحيى بن يعمر، عن عمار، ان النبي صلى الله عليه وسلم " رخص للجنب إذا اراد ان ياكل او يشرب او ينام ان يتوضا وضوءه للصلاة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ عَمَّارٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَخَّصَ لِلْجُنُبِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ أَوْ يَشْرَبَ أَوْ يَنَامَ أَنْ يَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمار رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو جب وہ کھانا، پینا اور سونا چاہے اس بات کی رخصت دی کہ وہ اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کر لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 89 (224)، (تحفة الأشراف: 10371) (ضعیف) (اس میں دو علتیں ہیں: سند میں یحییٰ اور عمار کے درمیان انقطاع ہے اور ”عطاء خراسانی“ ضعیف ہیں لیکن سونے کے لیے وضوء رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے)»