(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، ووكيع، عن هشام بن عروة، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم امر فذكر نحوه. قال ابو عيسى: وهذا اصح من الحديث الاول.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، وَوَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ.
اس سند سے بھی ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، پھر آگے اسی طرح کی حدیث انہوں نے ذکر کی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
اس سند سے بھی ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، آگے اسی طرح کی حدیث انہوں نے ذکر کی۔ سفیان کہتے ہیں: دور یا محلوں میں مسجدیں بنانے سے مراد قبائل میں مسجدیں بنانا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن علي الازدي، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الليل والنهار مثنى مثنى ". قال ابو عيسى: اختلف اصحاب شعبة في حديث ابن عمر فرفعه بعضهم واوقفه بعضهم، وروي عن عبد الله العمري، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، والصحيح ما روي عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " صلاة الليل مثنى مثنى " وروى الثقات عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ولم يذكروا فيه صلاة النهار، وقد روي عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، انه كان " يصلي بالليل مثنى مثنى وبالنهار اربعا " وقد اختلف اهل العلم في ذلك فراى بعضهم ان صلاة الليل والنهار مثنى مثنى، وهو قول: الشافعي، واحمد، وقال بعضهم: صلاة الليل مثنى مثنى، وراوا صلاة التطوع بالنهار اربعا مثل الاربع قبل الظهر وغيرها من صلاة التطوع، وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَلِيٍّ الْأَزْدِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: اخْتَلَفَ أَصْحَابُ شُعْبَةَ فِي حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ فَرَفَعَهُ بَعْضُهُمْ وَأَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ، وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى " وَرَوَى الثِّقَاتُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ صَلَاةَ النَّهَارِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ " يُصَلِّي بِاللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَبِالنَّهَارِ أَرْبَعًا " وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَرَأَوْا صَلَاةَ التَّطَوُّعِ بِالنَّهَارِ أَرْبَعًا مِثْلَ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَغَيْرِهَا مِنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث میں شعبہ کے تلامذہ میں اختلاف ہے، بعض نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے اور بعض نے موقوفاً، ۲- عبداللہ عمری بطریق: «نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ صحیح وہی ہے جو ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے“، ۳- ثقات نے عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے دن کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎، ۴- عبیداللہ سے مروی ہے، انہوں نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے اور دن کو چار چار رکعت، ۵- اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں رات اور دن دونوں کی نماز دو دو رکعت ہے، یہی شافعی اور احمد کا قول ہے، اور بعض کہتے ہیں: رات کی نماز دو دو رکعت ہے، ان کی رائے میں دن کی نفل نماز چار رکعت ہے مثلاً ظہر وغیرہ سے پہلے کی چار نفل رکعتیں، سفیان ثوری، ابن مبارک، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 302 (1295)، سنن النسائی/قیام اللیل 26 (1678)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 172 (1322)، (تحفة الأشراف: 7349)، مسند احمد (2/26، 51)، سنن الدارمی/الصلاة 155 (1500) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علامہ البانی نے ابن عمر رضی الله عنہما کی اس حدیث کی تصحیح بڑے بڑے ائمہ سے نقل کی ہے (دیکھئیے صحیح ابی داود رقم ۱۱۷۲) آپ کے عمل سے دونوں طرح ثابت ہے، کبھی دو دو کر کے پڑھتے اور کبھی چار ایک سلام سے، لیکن اس قولی صحیح حدیث کی بنا پر دن کی بھی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھنا افضل ہے، ظاہر بات ہے کہ دو سلام میں اوراد و اذکار زیادہ ہیں، تو افضل کیوں نہیں ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، قال: سالنا عليا عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من النهار، فقال: إنكم لا تطيقون ذاك، فقلنا: من اطاق ذاك منا، فقال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند العصر صلى ركعتين، وإذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند الظهر صلى اربعا، وصلى اربعا قبل الظهر، وبعدها ركعتين وقبل العصر اربعا يفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين والنبيين والمرسلين ومن تبعهم من المؤمنين والمسلمين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَ ذَاكَ، فَقُلْنَا: مَنْ أَطَاقَ ذَاكَ مِنَّا، فَقَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الظُّهْرِ صَلَّى أَرْبَعًا، وَصَلَّى أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالنَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ".
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی الله عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کی نماز کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے، اس پر ہم نے کہا: ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج اس طرف (یعنی مشرق کی طرف) اس طرح ہو جاتا جیسے کہ عصر کے وقت اس طرف (یعنی مغرب کی طرف) ہوتا ہے تو دو رکعتیں پڑھتے، اور جب سورج اس طرف (مشرق میں) اس طرح ہو جاتا جیسے کہ اس طرف (مغرب میں) ظہر کے وقت ہوتا ہے تو چار رکعت پڑھتے، اور چار رکعت ظہر سے پہلے پڑھتے اور دو رکعت اس کے بعد اور عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتے، ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور انبیاء و رسل پر اور مومنوں اور مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے ان پر سلام پھیر کر فصل کرتے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الإمامة 65 (874، 875)، (تحفة الأشراف: 10137)، مسند احمد (1/85، 142، 160)، وانظر أیضا ما تقدم برقم 424، و429) (حسن)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقال إسحاق بن إبراهيم: احسن شيء روي في تطوع النبي صلى الله عليه وسلم في النهار هذا. وروي عن عبد الله بن المبارك، انه كان يضعف هذا الحديث. وإنما ضعفه عندنا والله اعلم، لانه لا يروى مثل هذا عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، وعاصم بن ضمرة هو ثقة عند بعض اهل العلم. قال علي بن المديني: قال يحيى بن سعيد القطان: قال سفيان: كنا نعرف فضل حديث عاصم بن ضمرة على حديث الحارث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وقَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ: أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي تَطَوُّعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّهَارِ هَذَا. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ كَانَ يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ. وَإِنَّمَا ضَعَّفَهُ عِنْدَنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ، لِأَنَّهُ لَا يُرْوَى مِثْلُ هَذَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَاصِمُ بْنُ ضَمْرَةَ هُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: قَالَ سُفْيَانُ: كُنَّا نَعْرِفُ فَضْلَ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَلَى حَدِيثِ الْحَارِثِ.
اس سند سے بھی علی رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کی نفل نماز کے سلسلے میں مروی چیزوں میں سب سے بہتر یہی روایت ہے، ۳- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے۔ اور ہمارے خیال میں انہوں نے اسے صرف اس لیے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس جیسی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی سند سے۔ (یعنی: عاصم بن ضمرہ کے واسطے سے علی رضی الله عنہ سے) مروی ہے، ۴- سفیان ثوری کہتے ہیں: ہم عاصم بن ضمرہ کی حدیث کو حارث (اعور) کی حدیث سے افضل جانتے تھے۔
وضاحت: ۱؎: ایسے کپڑوں میں نماز نہ پڑھنا صرف احتیاط کی وجہ سے تھا، عدم جواز کی وجہ سے نہیں، یہی وجہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس کپڑے کے متعلق پختہ یقین ہوتا کہ وہ نجس نہیں ہے، اس میں نماز پڑھتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف، حدثنا بشر بن المفضل، عن برد بن سنان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: " جئت ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في البيت، والباب عليه مغلق، فمشى حتى فتح لي ثم رجع إلى مكانه ". ووصفت الباب في القبلة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " جِئْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْبَيْتِ، وَالْبَاب عَلَيْهِ مُغْلَقٌ، فَمَشَى حَتَّى فَتَحَ لِي ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ ". وَوَصَفَتِ الْبَاب فِي الْقِبْلَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں گھر آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور دروازہ بند تھا، تو آپ چل کر آئے اور میرے لیے دروازہ کھولا۔ پھر اپنی جگہ لوٹ گئے، اور انہوں نے بیان کیا کہ دروازہ قبلے کی طرف تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 169 (922)، سنن النسائی/السہو 14 (1207)، (تحفة الأشراف: 16417)، مسند احمد (6/183، 2340) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: سنت و نفل کے اندر اس طرح سے چلنا کہ قبلہ سے انحراف واقع نہ ہو جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (855)، المشكاة (1005)، الإرواء (386)
قال الشيخ زبير على زئي: (601) إسناده ضعيف / د 922، ن 1207
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن الاعمش، قال: سمعت ابا وائل، قال: سال رجل عبد الله عن هذا الحرف غير آسن او ياسن، قال: كل القرآن قرات غير هذا الحرف، قال: نعم، قال: إن قوما يقرءونه ينثرونه نثر الدقل لا يجاوز تراقيهم، إني لاعرف السور النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرن بينهن، قال: فامرنا علقمة فساله، فقال: " عشرون سورة من المفصل كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرن بين كل سورتين في ركعة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذَا الْحَرْفِ غَيْرِ آسِنٍ أَوْ يَاسِنٍ، قَالَ: كُلَّ الْقُرْآنِ قَرَأْتَ غَيْرَ هَذَا الْحَرْفِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَهُ يَنْثُرُونَهُ نَثْرَ الدَّقَلِ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، إِنِّي لَأَعْرِفُ السُّوَرَ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، قَالَ: فَأَمَرْنَا عَلْقَمَةَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: " عِشْرُونَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَ كُلِّ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں: ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے لفظ «غَيْرِ آسِنٍ» یا «يَاسِنٍ» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: کیا تم نے اس کے علاوہ پورا قرآن پڑھ لیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، انہوں نے کہا: ایک قوم اسے ایسے پڑھتی ہے جیسے کوئی خراب کھجور جھاڑ رہا ہو، یہ ان کے گلے سے آگے نہیں بڑھتا، میں ان متشابہ سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھتے تھے۔ ابووائل کہتے ہیں: ہم نے علقمہ سے پوچھنے کے لیے کہا تو انہوں نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا: انہوں نے بتایا کہ یہ مفصل کی بیس سورتیں ہیں ۱؎ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں دو دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن الاعمش، سمع ذكوان، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا توضا الرجل فاحسن الوضوء ثم خرج إلى الصلاة لا يخرجه او قال: لا ينهزه إلا إياها، لم يخط خطوة إلا رفعه الله بها درجة او حط عنه بها خطيئة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، سَمِعَ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا تَوَضَّأَ الرَّجُلُ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ لَا يُخْرِجُهُ أَوْ قَالَ: لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا إِيَّاهَا، لَمْ يَخْطُ خُطْوَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً أَوْ حَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی وضو کرے اور اچھی طرح کرے، پھر نماز کے لیے نکلے، اور اسے صرف نماز ہی نے نکالا، یا کہا اٹھایا ہو، تو جو بھی قدم وہ چلے گا، اللہ اس کے بدلے اس کا درجہ بڑھائے گا، یا اس کے بدلے اس کا ایک گناہ کم کرے گا“۔