اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی کے مثل مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کی سند میں چار تابعین ۱؎ ہیں، جو ایک دوسرے سے روایت کر رہے ہیں، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ «إذا السماء انشقت» اور «اقرأ باسم ربك الذي خلق» میں سجدہ کرنے کے قائل ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 14865) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: وہ یہ ہیں: ابوبکر بن محمد بن حزم، عمر بن عبدالعزیز، ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ہشام۔
(مرفوع) حدثنا هارون بن عبد الله البزاز البغدادي، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا ابي، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها يعني النجم والمسلمون والمشركون والجن والإنس ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم يرون السجود في سورة النجم، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: ليس في المفصل سجدة، وهو قول مالك بن انس، والقول الاول اصح، وبه يقول الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا يَعْنِي النَّجْمَ وَالْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ السُّجُودَ فِي سُورَةِ النَّجْمِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَيْسَ فِي الْمُفَصَّلِ سَجْدَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ، وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یعنی سورۃ النجم میں سجدہ کیا اور مسلمانوں، مشرکوں، جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کی رائے میں سورۃ النجم میں سجدہ ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مفصل کی سورتوں میں سجدہ نہیں ہے۔ اور یہی مالک بن انس کا بھی قول ہے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہاں تفسیر اور شروحات حدیث کی کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں پیش آنے والا ”غرانیق“ سے متعلق ایک عجیب وغریب قصہ مذکور ہوا ہے، جس کی تردید ائمہ کرام اور علماء عظام نے نہایت مدلل انداز میں کی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی، فتح الباری، مقدمۃ الحدیث، جلد اول)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح نصب المجانيق لنسف قصة الغرانيق (18 و 25 و 31)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا وكيع، عن ابن ابي ذئب، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن عطاء بن يسار، عن زيد بن ثابت، قال: " قرات على رسول الله صلى الله عليه وسلم النجم فلم يسجد فيها ". قال ابو عيسى: حديث زيد بن ثابت حديث حسن صحيح، وتاول بعض اهل العلم هذا الحديث، فقال: " إنما ترك النبي صلى الله عليه وسلم السجود " لان زيد بن ثابت حين قرا فلم يسجد لم يسجد النبي صلى الله عليه وسلم، وقالوا: السجدة واجبة على من سمعها فلم يرخصوا في تركها، وقالوا: إن سمع الرجل وهو على غير وضوء، فإذا توضا سجد، وهو قول: سفيان الثوري واهل الكوفة، وبه يقول إسحاق، وقال بعض اهل العلم: إنما السجدة على من اراد ان يسجد فيها، والتمس فضلها ورخصوا في تركها إن اراد ذلك، واحتجوا بالحديث المرفوع، حديث زيد بن ثابت، حيث قال: قرات على النبي صلى الله عليه وسلم النجم فلم يسجد فيها، فقالوا: لو كانت السجدة واجبة لم يترك النبي صلى الله عليه وسلم زيدا حتى كان يسجد، ويسجد النبي صلى الله عليه وسلم. واحتجوا بحديث عمر، انه قرا سجدة على المنبر فنزل فسجد، ثم قراها في الجمعة الثانية فتهيا الناس للسجود، فقال: إنها لم تكتب علينا إلا ان نشاء، فلم يسجد ولم يسجدوا. فذهب بعض اهل العلم إلى هذا، وهو قول الشافعي، واحمد.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: " قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَتَأَوَّلَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السُّجُودَ " لِأَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حِينَ قَرَأَ فَلَمْ يَسْجُدْ لَمْ يَسْجُدِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: السَّجْدَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى مَنْ سَمِعَهَا فَلَمْ يُرَخِّصُوا فِي تَرْكِهَا، وَقَالُوا: إِنْ سَمِعَ الرَّجُلُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، فَإِذَا تَوَضَّأَ سَجَدَ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّمَا السَّجْدَةُ عَلَى مَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ فِيهَا، وَالْتَمَسَ فَضْلَهَا وَرَخَّصُوا فِي تَرْكِهَا إِنْ أَرَادَ ذَلِكَ، وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ، حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَيْثُ قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا، فَقَالُوا: لَوْ كَانَتِ السَّجْدَةُ وَاجِبَةً لَمْ يَتْرُكِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا حَتَّى كَانَ يَسْجُدَ، وَيَسْجُدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَرَأَ سَجْدَةً عَلَى الْمِنْبَرِ فَنَزَلَ فَسَجَدَ، ثُمَّ قَرَأَهَا فِي الْجُمُعَةِ الثَّانِيَةَ فَتَهَيَّأَ النَّاسُ لِلسُّجُودِ، فَقَالَ: إِنَّهَا لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْنَا إِلَّا أَنْ نَشَاءَ، فَلَمْ يَسْجُدْ وَلَمْ يَسْجُدُوا. فَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورۃ النجم پڑھی مگر آپ نے سجدہ نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تاویل کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ نے جس وقت یہ سورۃ پڑھی تو خود انہوں نے بھی سجدہ نہیں کیا، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سجدہ نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں: یہ سجدہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو اسے سنے، ان لوگوں نے اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ آدمی اگر اسے سنے اور وہ بلا وضو ہو تو جب وضو کر لے سجدہ کرے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ سجدہ صرف اس پر ہے جو سجدہ کرنے کا ارادہ کرے، اور اس کی خیر و برکت کا طلب گار ہو، انہوں نے اسے ترک کرنے کی اجازت دی ہے، اگر وہ ترک کرنا چاہے، ۳- اور انہوں نے حدیث مرفوع یعنی زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث سے جس میں ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورۃ النجم پڑھی، لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ استدلال کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سجدہ واجب ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زید کو سجدہ کرائے بغیر نہ چھوڑتے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سجدہ کرتے۔ اور ان لوگوں نے عمر رضی الله عنہ کی حدیث سے بھی استدلال ہے کہ انہوں نے منبر پر سجدہ کی آیت پڑھی اور پھر اتر کر سجدہ کیا، اسے دوسرے جمعہ میں پھر پڑھا، لوگ سجدے کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے کہا: یہ ہم پر فرض نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم چاہیں تو چنانچہ نہ تو انہوں نے سجدہ کیا اور نہ لوگوں نے کیا، بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في ص ". قال ابن عباس: وليست من عزائم السجود. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. واختلف اهل العلم في ذلك، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم ان يسجد فيها، وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعضهم: إنها توبة نبي ولم يروا السجود فيها.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي ص ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَيْسَتْ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يَسْجُدَ فِيهَا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهَا تَوْبَةُ نَبِيٍّ وَلَمْ يَرَوْا السُّجُودَ فِيهَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ ص میں سجدہ کرتے دیکھا۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہ واجب سجدوں میں سے نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے، صحابہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ اس میں سجدہ کرے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ایک نبی کی توبہ ہے، اس میں سجدہ ضروری نہیں ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن مشرح بن هاعان، عن عقبة بن عامر، قال: قلت: يا رسول الله فضلت سورة الحج بان فيها سجدتين، قال: " نعم، ومن لم يسجدهما فلا يقراهما ". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بذاك القوي واختلف اهل العلم في هذا، فروي عن عمر بن الخطاب، وابن عمر، انهما قالا: فضلت سورة الحج بان فيها سجدتين، وبه يقول ابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وراى بعضهم فيها سجدة، وهو قول سفيان الثوري، ومالك واهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فُضِّلَتْ سُورَةُ الْحَجِّ بِأَنَّ فِيهَا سَجْدَتَيْنِ، قَالَ: " نَعَمْ، وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْهُمَا فَلَا يَقْرَأْهُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُمَا قَالَا: فُضِّلَتْ سُورَةُ الْحَجِّ بِأَنَّ فِيهَا سَجْدَتَيْنِ، وَبِهِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَرَأَى بَعْضُهُمْ فِيهَا سَجْدَةً، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكٍ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سورۃ الحج کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ اسے نہ پڑھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں ہے، ۲- اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، عمر بن خطاب اور ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سورۃ الحج کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ۳- اور بعض کی رائے ہے کہ اس میں ایک سجدہ ہے۔ یہ سفیان ثوری، مالک اور اہل کوفہ کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 328 (1402)، (تحفة الأشراف: 9965) (حسن) (”مشرح بن ہاعان“ میں قدرے کلام ہے، مگر خالد بن حمد ان کی روایت سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے /دیکھئے ابی داود رقم: 1265/م)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (250) // هو في ضعيف سنن أبي داود برقم (303 / 1402)، المشكاة (1030) //
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا محمد بن يزيد بن خنيس، حدثنا الحسن بن محمد بن عبيد الله بن ابي يزيد، قال: قال لي ابن جريج: يا حسن اخبرني عبيد الله بن ابي يزيد، عن ابن عباس، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني رايتني الليلة وانا نائم كاني اصلي خلف شجرة فسجدت فسجدت الشجرة لسجودي فسمعتها، وهي تقول: اللهم اكتب لي بها عندك اجرا، وضع عني بها وزرا واجعلها لي عندك ذخرا، وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدك داود قال الحسن: قال لي ابن جريج: قال لي جدك: قال ابن عباس، " فقرا النبي صلى الله عليه وسلم سجدة ثم سجد ". قال: فقال ابن عباس: فسمعته وهو يقول مثل ما اخبره الرجل عن قول الشجرة. قال: وفي الباب عن ابي سعيد. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث ابن عباس لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ جُرَيْجٍ: يَا حَسَنُ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُنِي اللَّيْلَةَ وَأَنَا نَائِمٌ كَأَنِّي أُصَلِّي خَلْفَ شَجَرَةٍ فَسَجَدْتُ فَسَجَدَتِ الشَّجَرَةُ لِسُجُودِي فَسَمِعْتُهَا، وَهِيَ تَقُولُ: اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ قَالَ الْحَسَنُ: قَالَ لِيَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ لِي جَدُّكَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، " فَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجْدَةً ثُمَّ سَجَدَ ". قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَسَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ مِثْلَ مَا أَخْبَرَهُ الرَّجُلُ عَنْ قَوْلِ الشَّجَرَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہا کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے آج رات اپنے کو دیکھا اور میں سو رہا تھا (یعنی خواب میں دیکھا) کہ میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں، میں نے سجدہ کیا تو میرے سجدے کے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا، پھر میں نے اسے سنا، وہ کہہ رہا تھا: «اللهم اكتب لي بها عندك أجرا وضع عني بها وزرا واجعلها لي عندك ذخرا وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدك داود»”اے اللہ! اس کے بدلے تو میرے لیے اجر لکھ دے، اور اس کے بدلے میرا بوجھ مجھ سے ہٹا دے، اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنا لے، اور اسے مجھ سے تو اسی طرح قبول فرما جیسے تو نے اپنے بندے داود سے قبول کیا تھا“۔ حسن بن محمد بن عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں: مجھ سے ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے تمہارے دادا نے کہا کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت سجدے کی تلاوت کی اور سجدہ کیا، ابن عباس کہتے ہیں: تو میں نے آپ کو ویسے ہی کہتے سنا جیسے اس شخص نے اس درخت کے الفاظ بیان کئے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، حدثنا خالد الحذاء، عن ابي العالية، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في سجود القرآن بالليل: " سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ: " سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت قرآن کے سجدوں کہتے: «سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته»”میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا ہے جس نے اسے بنایا، اور اپنی طاقت و قوت سے اس کے کان اور اس کی آنکھیں پھاڑیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 334 (1414)، سنن النسائی/التطبیق70 (1130)، (تحفة الأشراف: 16083)، مسند احمد (6/30، 217) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1273)
قال الشيخ زبير على زئي: (580) إسناده ضعيف /د 1414، ن 1130 وياتي:3425
عبدالرحمٰن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سو جائے، پھر وہ اسے نماز فجر سے لے کر ظہر کے درمیان تک کسی وقت پڑھ لے تو یہ اس کے لیے ایسے ہی لکھا جائے گا، گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن محمد بن زياد وهو ابو الحارث البصري ثقة، عن ابي هريرة، قال: قال محمد صلى الله عليه وسلم: " اما يخشى الذي يرفع راسه قبل الإمام ان يحول الله راسه راس حمار ". قال قتيبة: قال حماد: قال لي محمد بن زياد: وإنما قال: اما يخشى. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ومحمد بن زياد هو بصري ثقة ويكنى ابا الحارث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ وَهُوَ أَبُو الْحَارِثِ الْبَصْرِيُّ ثِقَةٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ ". قَالَ قُتَيْبَةُ: قَالَ حَمَّادٌ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ: وَإِنَّمَا قَالَ: أَمَا يَخْشَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ هُوَ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ وَيُكْنَى أَبَا الْحَارِثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے؟“۔
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن جابر بن عبد الله، ان " معاذ بن جبل كان يصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب، ثم يرجع إلى قومه فيؤمهم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اصحابنا الشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: إذا ام الرجل القوم في المكتوبة وقد كان صلاها قبل ذلك ان صلاة من ائتم به جائزة، واحتجوا بحديث جابر في قصة معاذ، وهو حديث صحيح، وقد روي من غير وجه عن جابر، وروي عن ابي الدرداء انه سئل عن رجل دخل المسجد والقوم في صلاة العصر وهو يحسب انها صلاة الظهر فائتم بهم، قال: صلاته جائزة، وقد قال قوم من اهل الكوفة: إذا ائتم قوم بإمام وهو يصلي العصر وهم يحسبون انها الظهر فصلى بهم واقتدوا به، فإن صلاة المقتدي فاسدة إذ اختلف نية الإمام ونية الماموم.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ " مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ كَانَ يُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى قَوْمِهِ فَيَؤُمُّهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا أَمَّ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فِي الْمَكْتُوبَةِ وَقَدْ كَانَ صَلَّاهَا قَبْلَ ذَلِكَ أَنَّ صَلَاةَ مَنِ ائْتَمَّ بِهِ جَائِزَةٌ، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ جَابِرٍ فِي قِصَّةِ مُعَاذٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ، وَرُوِي عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالْقَوْمُ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهَا صَلَاةُ الظُّهْرِ فَائْتَمَّ بِهِمْ، قَالَ: صَلَاتُهُ جَائِزَةٌ، وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ: إِذَا ائْتَمَّ قَوْمٌ بِإِمَامٍ وَهُوَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنَّهَا الظُّهْرُ فَصَلَّى بِهِمْ وَاقْتَدَوْا بِهِ، فَإِنَّ صَلَاةَ الْمُقْتَدِي فَاسِدَةٌ إِذْ اخْتَلَفَ نِيَّةُ الْإِمَامِ وَنِيَّةُ الْمَأْمُومِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر اپنی قوم کے لوگوں میں لوٹ کر آتے اور ان کی امامت کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہمارے اصحاب یعنی شافعی احمد اور اسحاق کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی فرض نماز میں اپنی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے پہلے یہ نماز پڑھ چکا ہو تو جن لوگوں نے اس کی اقتداء کی ہے ان کی نماز درست ہے۔ ان لوگوں نے معاذ رضی الله عنہ کے قصے سے جو جابر رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے اس سے دلیل پکڑی ہے، ۳- ابوالدرداء رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مسجد میں داخل ہوا اور لوگ نماز عصر میں مشغول تھے اور وہ سمجھ رہا تھا کہ ظہر ہے تو اس نے ان کی اقتداء کر لی، تو ابو الدرداء نے کہا: اس کی نماز جائز ہے، ۴- اہل کوفہ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ جب کچھ لوگ کسی امام کی اقتداء کریں اور وہ عصر پڑھ رہا ہو اور لوگ سمجھ رہے ہوں کہ وہ ظہر پڑھ رہا ہے اور وہ انہیں نماز پڑھا دے اور لوگ اس کی اقتداء میں نماز پڑھ لیں تو مقتدی کی نماز فاسد ہے کیونکہ کہ امام کی نیت اور مقتدی کی نیت مختلف ہو گئی ۱؎۔