وضاحت: ۱؎: نووی کے بقول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے، نہ کر سکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا: ”وتر کو رات کی نماز (تہجد) میں سب سے اخیر میں کر دو“ تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کر سکتے تھے، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مالك بن انس، عن ابي بكر بن عمر بن عبد الرحمن، عن سعيد بن يسار، قال: كنت امشي مع ابن عمر في سفر فتخلفت عنه، فقال: اين كنت؟ فقلت: اوترت، فقال: اليس لك في رسول الله اسوة، " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر على راحلته ". قال: وفي الباب عن ابن عباس، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، وراوا ان يوتر الرجل على راحلته، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يوتر الرجل على الراحلة، وإذا اراد ان يوتر نزل فاوتر على الارض، وهو قول بعض اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَتَخَلَّفْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَوْتَرْتُ، فَقَالَ: أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ، " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ عَلَى رَاحِلَتِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَبِهِ يَقُولُ الشافعي , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُوتِرُ الرَّجُلُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَى الْأَرْضِ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اسے اتر کر زمین پر پڑھے۔ یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوتر 5 (999)، وتقصیر الصلاة 7 (1095)، و8 (1098)، و12 (1105)، صحیح مسلم/المسافرین 4 (700)، سنن النسائی/قیام اللیل 33 (1687-1689)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 127 (1200)، (تحفة الأشراف: 7085)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل 3 (15)، مسند احمد (2/57، 138)، سنن الدارمی/الصلاة 213) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بھی وتر پڑھا کرتے تھے، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو ناپسند کرے اور یہ صرف جائز ہے نہ کہ فرض و واجب ہے، کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اتر کر بھی پڑھا کرتے تھے، ہر دونوں صورتیں جائز ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني موسى بن فلان بن انس، عن عمه ثمامة بن انس بن مالك، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى الضحى ثنتي عشرة ركعة بنى الله له قصرا من ذهب في الجنة " قال: وفي الباب عن ام هانئ، وابي هريرة , ونعيم بن همار , وابي ذر , وعائشة , وابي امامة , وعتبة بن عبد السلمي , وابن ابي اوفى , وابي سعيد , وزيد بن ارقم , وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث انس حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ فُلَانِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَمِّهِ ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَنُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ , وَأَبِي ذَرٍّ , وَعَائِشَةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ , وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ , وَابْنِ أَبِي أَوْفَى , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر فرمائے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ام ہانی، ابوہریرہ، نعیم بن ہمار، ابوذر، عائشہ، ابوامامہ، عتبہ بن عبد سلمی، ابن ابی اوفی، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 187 (1380)، (تحفة الأشراف: 505) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن فلان بن انس مجہول راوی ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس سیاق و لفظ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ نفس چاشت کی صلاۃ، آگے والی حدیث صحیح ہے جس سے آٹھ رکعت چاشت کی صلاۃ کا ثبوت ملتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1380) // عندنا برقم (291) //
قال الشيخ زبير على زئي: (473) إسناده ضعيف / جه 1380 موسي بن فلان:مجھول (تق:7024)
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، اخبرنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: ما اخبرني احد انه راى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى إلا ام هانئ، فإنها حدثت، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " دخل بيتها يوم فتح مكة، فاغتسل فسبح ثمان ركعات ما رايته صلى صلاة قط اخف منها، غير انه كان يتم الركوع والسجود ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وكان احمد راى اصح شيء في هذا الباب حديث ام هانئ واختلفوا في نعيم، فقال بعضهم: نعيم بن خمار، وقال بعضهم: ابن همار، ويقال: ابن هبار ويقال: ابن همام، والصحيح ابن همار , وابو نعيم وهم فيه، فقال: ابن حماز واخطا فيه ثم ترك، فقال نعيم: عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: واخبرني بذلك عبد بن حميد، عن ابي نعيم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى إِلَّا أُمَّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا حَدَّثَتْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَاغْتَسَلَ فَسَبَّحَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مَا رَأَيْتُهُ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَكَأَنَّ أَحْمَدَ رَأَى أَصَحَّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثَ أُمِّ هَانِئٍ وَاخْتَلَفُوا فِي نُعَيْمٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نُعَيْمُ بْنُ خَمَّارٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: ابْنُ هَمَّارٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ هَبَّارٍ وَيُقَالُ: ابْنُ هَمَّامٍ، وَالصَّحِيحُ ابْنُ هَمَّارٍ , وَأَبُو نُعَيْمٍ وَهِمَ فِيهِ، فَقَالَ: ابْنُ حِمَازٍ وَأَخْطَأَ فِيهِ ثُمَّ تَرَكَ، فَقَالَ نُعَيْمٌ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وأَخْبَرَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے صرف ام ہانی رضی الله عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، ام ہانی رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں داخل ہوئے تو غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے بھی ہلکی نماز کبھی پڑھی ہو، البتہ آپ رکوع اور سجدے پورے پورے کر رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- احمد بن حنبل کی نظر میں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ام ہانی رضی الله عنہا کی حدیث ہے۔
ابو الدرداء رضی الله عنہ یا ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو دن کے شروع میں میری رضا کے لیے چار رکعتیں پڑھا کر، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا“۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی محافظت کی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع، نضر بن شمیل اور دوسرے کئی ائمہ نے یہ حدیث نہاس بن قہم سے روایت کی ہے۔ اور ہم نہاس کو صرف ان کی اسی حدیث سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 187 (1382)، (تحفة الأشراف: 13491) (ضعیف) (سند میں نہاس بن قہم ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1318) // ضعيف ابن ماجة (292 / 1382)، ضعيف الجامع (5549) //
قال الشيخ زبير على زئي: (476) إسناده ضعيف /جه 1382 نھاس:ضعيف (د 1791)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے، اور آپ اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب اسے نہیں پڑھیں گے۔
عبداللہ بن سائب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، اور فرماتے: ”یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرا نیک عمل اس میں اوپر چڑھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن سائب رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں علی اور ابوایوب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: ہو سکتا ہے کہ یہ ظہر سے پہلے والی چار رکعت سنت مؤکدہ ہی ہوں، کسی نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں یا دونوں ایک ہی ہیں۔
۲؎: یہ حدیث ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور اس میں ”آخر میں سلام پھیرنے ولا“ ٹکڑا ضعیف ہے (دیکھئیے صحیح ابوداود۱۱۵۳)
(مرفوع) حدثنا علي بن عيسى بن يزيد البغدادي، حدثنا عبد الله بن بكر السهمي، وحدثنا عبد الله بن منير عن عبد الله بن بكر، عن فائد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن ابي اوفى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت له إلى الله حاجة او إلى احد من بني آدم فليتوضا فليحسن الوضوء، ثم ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليقل لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، اسالك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا ارحم الراحمين ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وفي إسناده مقال فائد بن عبد الرحمن يضعف في الحديث، وفائد هو ابو الورقاء.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكْرٍ، عَنْ فَائِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ، ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَى اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَفَائِدٌ هُوَ أَبُو الْوَرْقَاءِ.
عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) و سلام بھیجے، پھر کہے: «لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين»”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم (بردبار) ہے، کریم (بزرگی والا) ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین (سارے جہانوں کا پالنہار) ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند میں کلام ہے، فائد بن عبدالرحمٰن کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیا جاتا ہے، اور فائد ہی ابوالورقاء ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقازہ 189 (1384)، (تحفة الأشراف: 5178) (ضعیف جداً) (سند میں فائد بن عبدالرحمن سخت ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (1384) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (293)، ضعيف الجامع الصغير (5809)، المشكاة (1327) //
قال الشيخ زبير على زئي: (479) إسناده ضعيف جدًا /جه 1384 فائد:متروك اتھموه (تق:5373)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الموالي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الامور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: " إذا هم احدكم بالامر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل اللهم إني استخيرك بعلمك واستقدرك بقدرتك واسالك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا اقدر، وتعلم ولا اعلم، وانت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم ان هذا الامر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة امري، او قال: في عاجل امري وآجله، فيسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم ان هذا الامر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة امري، او قال: في عاجل امري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم ارضني به، قال: ويسمي حاجته " قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود , وابي ايوب، قال ابو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الرحمن بن ابي الموالي، وهو شيخ مديني ثقة، روى عنه سفيان حديثا، وقد روى عن عبد الرحمن غير واحد من الائمة، وهو عبد الرحمن بن زيد بن ابي الموالي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ: " إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ، فَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ، قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَأَبِي أَيُّوبَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي، وَهُوَ شَيْخٌ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ حَدِيثًا، وَقَدْ رَوَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ، وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: ”تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» یا کہے «في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني به»”اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو علم والا ہے اور میں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے (یا آپ نے فرمایا: یا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے) بہتر ہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے یا فرمایا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے برا ہے تو اسے تو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔“ آپ نے فرمایا: ”اور اپنی حاجت کا نام لے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن سے دیگر کئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے، یہی عبدالرحمٰن بن زید بن ابی الموالی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے ”دعا استخارہ“ کہا جاتا ہے، اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے، فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حال میں ضروری ہے، ان میں استخارہ نہیں ہے۔
۲؎: یعنی: لفظ «هذا الأمر»(یہ کام) کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔ اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے، یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے، استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک، تین پانچ یا سات بار کیا جائے، دل کا اطمینان، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اسے آدمی اختیار کر لے، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے، عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں، کہیں پر ممانعت نہیں۔