سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
176. باب مَا جَاءَ فِي سَجْدَتَىِ السَّهْوِ قَبْلَ التَّسْلِيمِ
176. باب: سلام سے پہلی سجدہ سہو کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Prostrations Of As-Sahw Before The Salaam
حدیث نمبر: 391
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن الاعرج، عن عبد الله ابن بحينة الاسدي حليف بني عبد المطلب، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قام في صلاة الظهر وعليه جلوس، فلما اتم صلاته سجد سجدتين يكبر في كل سجدة وهو جالس قبل ان يسلم، وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس " قال: وفي الباب عن عبد الرحمن بن عوف.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسَدِيِّ حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
عبداللہ ابن بحینہ اسدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں کھڑے ہو گئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا، چنانچہ جب نماز پوری کر چکے تو سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری رضی الله عنہما دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے،
۴- اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ان کی رائے ہے کہ سجدہ سہو ہر صورت میں سلام سے پہلے ہے، اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آخر میں اسی پر رہا ہے،
۵- اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو وہ ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے،
۶- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں، ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں،
۷- سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے،
۸- اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے، مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ وغیرہ کا اور یہی قول شافعی کا بھی ہے،
۹- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہی قول مالک بن انس کا ہے،
۱۰- اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہو جائے تو ابن بحینہ رضی الله عنہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر اور عصر میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے، اس پر اسی طرح عمل کرے، اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ ۱۱- اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔ مگر فرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہو کی جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل موجود نہ ہو تو اس میں اگر نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 146 (829)، و147 (830)، والسہو1 (1225)، و5 (1230)، والأیمان والنذور 15 (6670)، صحیح مسلم/المساجد 19 (570)، سنن ابی داود/ الصلاة 200 (1034)، سنن النسائی/التطبیق 106 (1178)، والسہو 28 (1262)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 131 (1206، 1207)، (تحفة الأشراف: 9154)، موطا امام مالک/الصلاة 17 (65)، مسند احمد (3455، 346) سنن الدارمی/الصلاة 176 (1540) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: (حديث عبد الله ابن بحينة) صحيح، (حديث محمد بن إبراهيم) صحيح الإسناد، إن كان ابن إبراهيم - وهو التيمي المدني - لقي أبا هريرة والسائب وهو ابن عمير.، ابن ماجة (1206 و 1207)
177. باب مَا جَاءَ فِي سَجْدَتَىِ السَّهْوِ بَعْدَ السَّلاَمِ وَالْكَلاَمِ
177. باب: سلام اور کلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Prostrations For As-Sahw After The Salam, And Talking
حدیث نمبر: 392
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود، ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى الظهر خمسا "، فقيل له ازيد في الصلاة، " فسجد سجدتين بعد ما سلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا "، فَقِيلَ لَهُ أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ، " فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پانچ رکعت پڑھی تو آپ سے پوچھا گیا: کیا نماز بڑھا دی گئی ہے؟ (یعنی چار کے بجائے پانچ رکعت کر دی گئی ہے) تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 31 (401)، و32 (404)، والسہو 2 (1226)، والأیمان 15 (6671)، وأخبار الآحاد 1 (7249)، صحیح مسلم/المساجد 19 (572)، سنن ابی داود/ الصلاة 196 (1019)، سنن النسائی/السہو 25 (1242)، و26 (1255)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 129 (1203)، و30 (1205)، و133 (1211)، و136 (1218)، (تحفة الأشراف: 9411)، مسند احمد (1/379، 429، 438، 455)، سنن الدارمی/الصلاة 175 (1539) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1205 و 1211 و 1212 و 1218)
حدیث نمبر: 393
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، ومحمود بن غيلان، قالا: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم " سجد سجدتي السهو بعد الكلام " قال: وفي الباب عن معاوية , وعبد الله بن جعفر , وابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَ الْكَلَامِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دونوں سجدے بات کرنے کے بعد کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۱؎،
۲- اس باب میں معاویہ، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 9424) (صحیح)»

وضاحت:
ا؎: یہ حکم نیچے والی حدیث میں موجود ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1212)
حدیث نمبر: 394
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، عن هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " سجدهما بعد السلام ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح وقد رواه ايوب وغير واحد، عن ابن سيرين وحديث ابن مسعود حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، قالوا: إذا صلى الرجل الظهر خمسا فصلاته جائزة، وسجد سجدتي السهو وإن لم يجلس في الرابعة، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعضهم: إذا صلى الظهر خمسا ولم يقعد في الرابعة مقدار التشهد فسدت صلاته، وهو قول: سفيان الثوري وبعض اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَجَدَهُمَا بَعْدَ السَّلَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ أَيُّوبُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ الظُّهْرَ خَمْسًا فَصَلَاتُهُ جَائِزَةٌ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ وَإِنْ لَمْ يَجْلِسْ فِي الرَّابِعَةِ، وَهُوَ قَوْلُ الشافعي، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا وَلَمْ يَقْعُدْ فِي الرَّابِعَةِ مِقْدَارَ التَّشَهُّدِ فَسَدَتْ صَلَاتُهُ، وَهُوَ قَوْلُ: سفيان الثوري وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دونوں سجدے سلام کے بعد کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- (ابوہریرہ رضی الله عنہ کی) یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے ایوب اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ابن سیرین سے روایت کیا ہے،
۳- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ظہر بھول کر پانچ رکعت پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہے وہ سہو کے دو سجدے کر لے اگرچہ وہ چوتھی (رکعت) میں نہ بیٹھا ہو، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۵- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے اور چوتھی رکعت میں نہ بیٹھا ہو تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ یہ قول سفیان ثوری اور بعض کوفیوں کا ہے ا؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم: 399 (تحفة الأشراف: 1548) (صحیح)»

وضاحت:
ا؎: سفیان ثوری، اہل کوفہ اور ابوحنیفہ کا قول محض رائے پر مبنی ہے، جب کہ ائمہ کرام مالک بن انس، شافعی، احمد بن حنبل اور بقول امام نووی سلف وخلف کے تمام جمہور علماء مذکور بالا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ والی صحیح حدیث کی بنیاد پر یہی فتویٰ دیتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں، کہ اگر کوئی بھول کر اپنی نماز میں ایک رکعت اضافہ کر بیٹھے تو اس کی نماز نہ باطل ہو گی اور نہ ہی فاسد، بلکہ سلام سے پہلے اگر یاد آ جائے تو سلام سے قبل سہو کے دو سجدے کر لے اور اگر سلام کے بعد یاد آئے تو بھی سہو کے دو سجدے کر لے، یہی اس کے لیے کافی ہے، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا اور آپ نے کوئی اور رکعت پڑھ کر اس نماز کو جفت نہیں بنایا تھا۔ (دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی: ۱/۳۰۴طبع ملتا)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1214)
178. باب مَا جَاءَ فِي التَّشَهُّدِ فِي سَجْدَتَىِ السَّهْوِ
178. باب: سجدہ سہو میں تشہد پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Tashah-hud In The Case Of The Prostrations Of As-Sahw
حدیث نمبر: 395
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، قال: اخبرني اشعث، عن ابن سيرين، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى بهم فسها فسجد سجدتين ثم تشهد ثم سلم " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وروى محمد بن سيرين، عن ابي المهلب وهو عم ابي قلابة غير هذا الحديث، وروى محمد هذا الحديث، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب , وابو المهلب اسمه: عبد الرحمن بن عمرو، ويقال ايضا: معاوية بن عمرو، وقد روى عبد الوهاب الثقفي , وهشيم وغير واحد هذا الحديث، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة بطوله، وهو حديث عمران بن حصين، ان النبي صلى الله عليه وسلم " سلم في ثلاث ركعات من العصر، فقام رجل يقال له الخرباق " واختلف اهل العلم في التشهد في سجدتي السهو، فقال بعضهم: يتشهد فيهما ويسلم، وقال بعضهم: ليس فيهما تشهد وتسليم وإذا سجدهما قبل السلام لم يتشهد، وهو قول: احمد , وإسحاق، قالا: إذا سجد سجدتي السهو قبل السلام لم يتشهد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَشْعَثُ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى بِهِمْ فَسَهَا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ تَشَهَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ وَهُوَ عَمُّ أَبِي قِلَابَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ , وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍوَ، وَيُقَالُ أَيْضًا: مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍوَ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ , وَهُشَيْمٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ بِطُولِهِ، وَهُوَ حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَلَّمَ فِي ثَلَاثِ رَكَعَاتٍ مِنَ الْعَصْرِ، فَقَامَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْخِرْبَاقُ " وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي التَّشَهُّدِ فِي سَجْدَتَيِ السَّهْوِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَتَشَهَّدُ فِيهِمَا وَيُسَلِّمُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ فِيهِمَا تَشَهُّدٌ وَتَسْلِيمٌ وَإِذَا سَجَدَهُمَا قَبْلَ السَّلَامِ لَمْ يَتَشَهَّدْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، قَالَا: إِذَا سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ قَبْلَ السَّلَامِ لَمْ يَتَشَهَّدْ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی آپ سے سہو ہو گیا، تو آپ نے دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- عبد الوھاب ثقفی، ھشیم اور ان کے علاوہ کئی اور لوگوں نے بطریق: «خالد الحذاء عن أبي قلابة» یہ حدیث ذرا لمبے سیاق کے ساتھ روایت کی ہے، اور وہ یہی عمران بن حصین رضی الله عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر میں صرف تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ایک آدمی اٹھا جسے «خرباق» کہا جاتا تھا (اور اس نے پوچھا: کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے، یا آپ بھول گئے ہیں)
۳- سجدہ سہو کے تشہد کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھے گا اور سلام پھیرے گا۔ اور بعض کہتے کہ سجدہ سہو میں تشہد اور سلام نہیں ہے اور جب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے (اختلاف تو سلام کے بعد میں ہے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 202 (1039)، سنن النسائی/السہو 23 (1237)، (تحفة الأشراف: 10885) (شاذ) (حدیث میں تشہد کا تذکرہ شاذ ہے)»

قال الشيخ الألباني: شاذ بذكر التشهد، الإرواء (403)، ضعيف أبي داود (193) // هذا رقم الشيخ ناصر الخاص به وعندنا برقم (227 / 1039) //، المشكاة (1019)
179. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي فَيَشُكُّ فِي الزِّيَادَةِ وَالنُّقْصَانِ
179. باب: آدمی کو نماز پڑھتے وقت کمی یا زیادتی میں شک و شبہ ہو جائے تو کیا کرے؟
Chapter: Regarding One Who Has Doubts Over Addition Or A Omission
حدیث نمبر: 396
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن عياض يعني ابن هلال، قال: قلت لابي سعيد احدنا يصلي فلا يدري كيف صلى، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى احدكم فلم يدر كيف صلى فليسجد سجدتين وهو جالس " قال: وفي الباب عن عثمان , وابن مسعود , وعائشة , وابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد حديث حسن، وقد روي هذا الحديث عن ابي سعيد من غير هذا الوجه، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " إذا شك احدكم في الواحدة والثنتين فليجعلهما واحدة وإذا شك في الثنتين والثلاث فليجعلهما ثنتين ويسجد في ذلك سجدتين قبل ان يسلم " والعمل على هذا عند اصحابنا، وقال بعض اهل العلم: إذا شك في صلاته فلم يدر كم صلى فليعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِيَاضٍ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ أَحَدُنَا يُصَلِّي فَلَا يَدْرِي كَيْفَ صَلَّى، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلَمْ يَدْرِ كَيْفَ صَلَّى فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الْوَاحِدَةِ وَالثِّنْتَيْنِ فَلْيَجْعَلْهُمَا وَاحِدَةً وَإِذَا شَكَّ فِي الثِّنْتَيْنِ وَالثَّلَاثِ فَلْيَجْعَلْهُمَا ثِنْتَيْنِ وَيَسْجُدْ فِي ذَلِكَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ " وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا شَكَّ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى فَلْيُعِدْ.
عیاض یعنی ابن ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے کہا: ہم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں (یا وہ کیا کرے؟) تو ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی پڑھی ہے؟ تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔ (یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد)
امام ترمذی کہتے ہیں:
ا- ابوسعید رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عثمان، ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ وغیرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- یہ حدیث ابوسعید سے دیگر کئی سندوں سے بھی مروی ہے،
۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تم سے کسی کو ایک اور دو میں شک ہو جائے تو اسے ایک ہی مانے اور جب دو اور تین میں شک ہو تو اسے دو مانے اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کرے۔ اسی پر ہمارے اصحاب (محدثین) کا عمل ہے ۱؎ اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب کسی کو اپنی نماز میں شبہ ہو جائے اور وہ نہ جان سکے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ تو وہ پھر سے لوٹائے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 198 (1029)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 129 (1204)، (تحفة الأشراف: 4396)، مسند احمد (3/12، 37، 50، 51، 54) (صحیح) (ہلال بن عیاض یا عیاض بن ہلال مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی راجح مسئلہ ہے۔
۲؎: یہ مرجوح قول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1204)
حدیث نمبر: 397
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشيطان ياتي احدكم في صلاته فيلبس عليه حتى لا يدري كم صلى فإذا وجد ذلك احدكم فليسجد سجدتين وهو جالس "قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْتِي أَحَدَكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَيَلْبِسُ عَلَيْهِ حَتَّى لَا يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ "قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے پاس شیطان اس کی نماز میں آتا ہے اور اسے شبہ میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک آدمی نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ چنانچہ تم میں سے کسی کو اگر اس قسم کا شبہ محسوس ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 4 (608)، والعمل في الصلاة 18 (1222)، والسہو 6 (1231)، وبدء الخلق 11 (3285)، صحیح مسلم/الصلاة 8 (39)، والمساجد 19 (570)، سنن ابی داود/ الصلاة 198 (1030)، سنن النسائی/الأذان 30 (671)، والسہو 25 (1253)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 135 (1216)، (تحفة الأشراف: 15239)، مسند احمد (2/313، 358، 411، 460، 503، 522، 531) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یقینی بات پر بنا کرنے کے بعد۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (943 - 345)
حدیث نمبر: 398
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن خالد ابن عثمة البصري، حدثنا إبراهيم بن سعد، قال: حدثني محمد بن إسحاق، عن مكحول، عن كريب، عن ابن عباس، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا سها احدكم في صلاته فلم يدر واحدة صلى او ثنتين فليبن على واحدة فإن لم يدر ثنتين صلى او ثلاثا فليبن على ثنتين فإن لم يدر ثلاثا صلى او اربعا فليبن على ثلاث وليسجد سجدتين قبل ان يسلم " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح، وقد روي هذا الحديث عن عبد الرحمن بن عوف من غير هذا الوجه، رواه الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن عبد الرحمن بن عوف، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا سَهَا أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ وَاحِدَةً صَلَّى أَوْ ثِنْتَيْنِ فَلْيَبْنِ عَلَى وَاحِدَةٍ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّى أَوْ ثَلَاثًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثِنْتَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثَلَاثًا صَلَّى أَوْ أَرْبَعًا فَلْيَبْنِ عَلَى ثَلَاثٍ وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی شخص نماز بھول جائے اور یہ نہ جان سکے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو؟ تو ایسی صورت میں اسے ایک مانے، اور اگر وہ یہ نہ جا سکے کہ اس نے دو پڑھی ہے یا تین تو ایسی صورت میں دو پر بنا کرے، اور اگر وہ یہ نہ جان سکے کہ اس نے تین پڑھی ہے یا چار تو تین پر بنا کرے، اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 32 (1209)، (تحفة الأشراف: 9722)، مسند احمد (1/190، 193) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1209)
180. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسَلِّمُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
180. باب: غلطی سے ظہر یا عصر کی دو ہی رکعت میں سلام پھیر دینے والے کا حکم۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Says The Taslim After Two Rakah During The Zuhr Or Asr Prayers
حدیث نمبر: 399
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن ايوب بن ابي تميمة وهو: ايوب السختياني، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " انصرف من اثنتين، فقال له ذو اليدين: اقصرت الصلاة ام نسيت يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اصدق ذو اليدين، فقال الناس: نعم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى اثنتين اخريين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده او اطول ثم كبر فرفع ثم سجد مثل سجوده او اطول " قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمران بن حصين , وابن عمر , وذي اليدين، قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في هذا الحديث، فقال بعض اهل الكوفة: إذا تكلم في الصلاة ناسيا او جاهلا او ما كان فإنه يعيد الصلاة، واعتلوا بان هذا الحديث كان قبل تحريم الكلام في الصلاة، قال: واما الشافعي فراى هذا حديثا صحيحا، فقال به، وقال: هذا اصح من الحديث الذي روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في " الصائم إذا اكل ناسيا فإنه لا يقضي وإنما هو رزق رزقه الله "، قال الشافعي: وفرق هؤلاء بين العمد والنسيان في اكل الصائم بحديث ابي هريرة، وقال احمد في حديث ابي هريرة: إن تكلم الإمام في شيء من صلاته وهو يرى انه قد اكملها ثم علم انه لم يكملها يتم صلاته، ومن تكلم خلف الإمام وهو يعلم ان عليه بقية من الصلاة، فعليه ان يستقبلها، واحتج بان الفرائض كانت تزاد وتنقص على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإنما تكلم ذو اليدين وهو على يقين من صلاته انها تمت، وليس هكذا اليوم ليس لاحد ان يتكلم على معنى ما تكلم ذو اليدين، لان الفرائض اليوم لا يزاد فيها ولا ينقص، قال احمد نحوا من هذا الكلام، وقال إسحاق نحو قول احمد في هذا الباب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ وَهُوَ: أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ، فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَابْنِ عُمَرَ , وَذِي الْيَدَيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ: إِذَا تَكَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ نَاسِيًا أَوْ جَاهِلًا أَوْ مَا كَانَ فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلَاةَ، وَاعْتَلُّوا بِأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَرَأَى هَذَا حَدِيثًا صَحِيحًا، فَقَالَ بِهِ، وقَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي " الصَّائِمِ إِذَا أَكَلَ نَاسِيًا فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي وَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ "، قَالَ الشافعي: وَفَرَّقَ هَؤُلَاءِ بَيْنَ الْعَمْدِ وَالنِّسْيَانِ فِي أَكْلِ الصَّائِمِ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ: إِنْ تَكَلَّمَ الْإِمَامُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ قَدْ أَكْمَلَهَا ثُمَّ عَلِمَ أَنَّهُ لَمْ يُكْمِلْهَا يُتِمُّ صَلَاتَهُ، وَمَنْ تَكَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ عَلَيْهِ بَقِيَّةً مِنَ الصَّلَاةِ، فَعَلَيْهِ أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْفَرَائِضَ كَانَتْ تُزَادُ وَتُنْقَصُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ وَهُوَ عَلَى يَقِينٍ مِنْ صَلَاتِهِ أَنَّهَا تَمَّتْ، وَلَيْسَ هَكَذَا الْيَوْمَ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتَكَلَّمَ عَلَى مَعْنَى مَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ، لِأَنَّ الْفَرَائِضَ الْيَوْمَ لَا يُزَادُ فِيهَا وَلَا يُنْقَصُ، قَالَ أَحْمَدُ نَحْوًا مِنْ هَذَا الْكَلَامِ، وقَالَ إِسْحَاق نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي هَذَا الْبَابِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر یا عصر کی) دو رکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں (آپ نے دو ہی رکعت پڑھی ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا، پھر اپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہا اور سر اٹھایا، پھر اپنے اسی سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔ (یعنی سجدہ سہو کیا)
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمران بن حصین، ابن عمر، ذوالیدین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اس حدیث کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی نماز میں بھول کر یا لاعلمی میں یا کسی بھی وجہ سے بات کر بیٹھے تو اسے نئے سرے سے نماز دہرانی ہو گی۔ وہ اس حدیث میں مذکور واقعہ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے ۱؎،
۴- رہے امام شافعی تو انہوں نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے فتویٰ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اُس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو روزہ دار کے سلسلے میں مروی ہے کہ جب وہ بھول کر کھا لے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں، کیونکہ وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔ شافعی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے روزہ دار کے قصداً اور بھول کر کھانے میں جو تفریق کی ہے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کی وجہ سے ہے،
۵- امام احمد ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر امام یہ سمجھ کر کہ اس کی نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کر لے پھر اسے معلوم ہو کہ اس کی نماز پوری نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنی نماز پوری کر لے، اور جو امام کے پیچھے مقتدی ہو اور بات کر لے اور یہ جانتا ہو کہ ابھی کچھ نماز اس کے ذمہ باقی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے دوبارہ پڑھے، انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرائض کم یا زیادہ کئے جا سکتے تھے۔ اور ذوالیدین رضی الله عنہ نے جو بات کی تھی تو وہ محض اس وجہ سے کہ انہیں یقین تھا کہ نماز کامل ہو چکی ہے اور اب کسی کے لیے اس طرح بات کرنا جائز نہیں جو ذوالیدین کے لیے جائز ہو گیا تھا، کیونکہ اب فرائض میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۱؎،
۶- احمد کا قول بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی اس باب میں احمد جیسی بات کہی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 88 (482)، والأذان 69 (714)، والسہو 3 (1227)، و4 (1228)، و85 (1367)، والأدب 45 (6051)، وأخبار الآحاد 1 (7250)، صحیح مسلم/المساجد 19 (573)، سنن ابی داود/ الصلاة 195 (1008)، سنن النسائی/السہو 22 (1225)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 134 (1214)، (تحفة الأشراف: 14449)، مسند احمد (2/235، 433، 460)، سنن الدارمی/الصلاة 175 (1538) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس پر ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں، صرف یہ کمزور دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے سے پہلے کا ہے، کیونکہ ذوالیدین رضی اللہ کا انتقال غزوہ بدر میں ہو گیا تھا، اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نے یہ واقعہ کسی صحابی سے سن کر بیان کیا، حالانکہ بدر میں ذوالشمالین رضی الله عنہ کی شہادت ہوئی تھی نہ کہ ذوالیدین کی، نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ نے صاف صاف بیان کیا ہے کہ میں اس واقعہ میں تھا (جیسا کہ مسلم اور احمد کی روایت میں ہے) پس یہ واقعہ نماز میں بات چیت ممنوع ہونے کے بعد کا ہے۔
۲؎: یہ بات مبنی بر دلیل نہیں ہے اگر بات ایسی ہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اس کی وضاحت کیوں نہیں فرما دی، اصولیین کے یہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ شارع علیہ السلام (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ کسی بات کو بتانے کی ضرورت ہو اور آپ نہ بتائیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1214)
181. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي النِّعَالِ
181. باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat In Sandals
حدیث نمبر: 400
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن سعيد بن يزيد ابي مسلمة، قال: قلت لانس بن مالك: " اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في نعليه؟ قال: نعم "، قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود , وعبد الله بن ابي حبيبة , وعبد الله بن عمر , وعمرو بن حريث , وشداد بن اوس , واوس الثقفي , وابي هريرة، وعطاء رجل من بني شيبة. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ , وَعَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ , وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ , وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَطَاءٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِي شَيْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
سعید بن یزید (ابو مسلمہ) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن ابی حبیبۃ، عبداللہ بن عمرو، عمرو بن حریث، شداد بن اوسثقفی، ابوہریرہ رضی الله عنہم اور عطاء سے بھی جو بنی شیبہ کے ایک فرد تھے احادیث آئی ہیں،
۳- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 24 (386)، واللباس 37 (5850)، صحیح مسلم/المساجد 14 (555)، سنن النسائی/القبلة 24 (776)، (تحفة الأشراف: 866)، مسند احمد (3/100، 166، 189)، سنن الدارمی/الصلاة 103 (1417) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں کی مخالفت کرو وہ جوتوں میں نماز نہیں پڑھتے، علماء کہتے ہیں کہ اگر جوتوں میں نجاست نہ لگی ہو تو ان میں نماز یہودیوں کی مخالفت کے پیش نظر مستحب ہو گی ورنہ اسے رخصت پر محمول کیا جائے گا، مساجد کی تحسین و طہارت کے پیش نظر جہاں دریاں، قالین وغیرہ بچھے ہوں وہاں جوتے اُتار کر نماز پڑھنی چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح صفة الصلاة / الأصل

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.