(مرفوع) اخبرنا ابو بكر بن إسحاق، قال: حدثنا ابو الجواب، قال: حدثنا عمار بن رزيق، عن محمد بن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن إسماعيل بن امية، عن محمد بن مسلم، عن عروة، عن عائشة، قالت: سرقت امراة من قريش من بني مخزوم فاتي بها النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: من يكلمه فيها؟، قالوا: اسامة بن زيد , فاتاه فكلمه فزبره، وقال:" إن بني إسرائيل كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق الوضيع قطعوه، والذي نفسي بيده , لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطعتها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَرَقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُهُ فِيهَا؟، قَالُوا: أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , فَأَتَاهُ فَكَلَّمَهُ فَزَبَرَهُ، وَقَالَ:" إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ الْوَضِيعُ قَطَعُوهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش یعنی بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، کچھ لوگوں نے کہا: آپ سے اس کے بارے میں کون بات چیت کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: اسامہ بن زید، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا تو آپ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا: ”بنی اسرائیل کا جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی عام آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا“۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن جبلة، قال: حدثنا محمد بن موسى بن اعين، قال: حدثنا ابي، عن إسحاق بن راشد، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، ان قريشا اهمهم شان المخزومية التي سرقت، فقالوا: من يكلم فيها؟، قالوا: من يجترئ عليه إلا اسامة بن زيد حب رسول الله صلى الله عليه وسلم , فكلمه اسامة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما هلك الذين من قبلكم انهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد، وايم الله لو سرقت فاطمة بنت محمد لقطعت يدها". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَبَلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ إِسْحَاق بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا؟، قَالُوا: مَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ مَنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ لَوْ سَرَقَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ لَقَطَعْتُ يَدَهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش کو مخزومی عورت کے معاملے نے فکر میں ڈال دیا جس نے چوری کی تھی۔ ان لوگوں نے کہا: اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بات کرے گا؟ لوگوں نے کہا: اس کی جرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اسامہ بن زید کے سوا اور کون کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے بات کی تو آپ نے فرمایا: ”تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ جب ان میں کوئی معزز اور باوقار آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور اور بے حیثیت آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے، اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا“۔
(مرفوع) قال الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع: عن ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، ان عروة بن الزبير اخبره، عن عائشة: ان امراة سرقت في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة الفتح، فاتي بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلمه فيها اسامة بن زيد، فلما كلمه تلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتشفع في حد من حدود الله"، فقال له اسامة: استغفر لي يا رسول الله، فلما كان العشي، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فاثنى على الله عز وجل بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد , إنما هلك الناس قبلكم انهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد"، ثم قال:" والذي نفسي بيده , لو ان فاطمة بنت محمد سرقت قطعت يدها". (مرفوع) قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَهُ فِيهَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَلَمَّا كَلَّمَهُ تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ"، فَقَالَ لَهُ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ , إِنَّمَا هَلَكَ النَّاسُ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ"، ثُمَّ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ قَطَعْتُ يَدَهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں فتح مکہ کے وقت چوری کی، چنانچہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے اس کے بارے میں آپ سے بات کی۔ جب انہوں نے آپ سے بات کی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟“ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: میرے لیے اللہ کے رسول! اللہ سے مغفرت طلب کیجئیے۔ جب شام ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد بیان کی جس کا وہ اہل ہے، پھر فرمایا: ”تم سے پہلے کے لوگ صرف اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا معزز اور باحیثیت آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور اور بے حیثیت آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے“، پھر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا“۔
(مرفوع) اخبرنا سويد، قال: انبانا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير، ان امراة سرقت في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , في غزوة الفتح مرسل، ففزع قومها إلى اسامة بن زيد يستشفعونه، قال عروة: فلما كلمه اسامة فيها تلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اتكلمني في حد من حدود الله"، قال اسامة: استغفر لي يا رسول الله، فلما كان العشي قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا , فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد , فإنما هلك الناس قبلكم انهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد، والذي نفس محمد بيده , لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها"، ثم امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بيد تلك المراة فقطعت , فحسنت توبتها بعد ذلك، قالت عائشة رضي الله عنها: وكانت تاتيني بعد ذلك , فارفع حاجتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ مُرْسَلٌ، فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِيهَا تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ"، قَالَ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا , فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ , فَإِنَّمَا هَلَكَ النَّاسُ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا"، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ تِلْكَ الْمَرْأَةِ فَقُطِعَتْ , فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَكَانَتْ تَأْتِينِي بَعْدَ ذَلِكَ , فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نے چوری کی (”فتح مکہ کے وقت“ کا لفظ مرسل ہے) تو اس کے خاندان کے لوگ گھبرا کر سفارش کا مطالبہ کرنے کے لیے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس گئے۔ جب اسامہ نے آپ سے اس کے بارے میں بات چیت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے فرمایا: ”تم مجھ سے اللہ کی حدوں میں سے کسی ایک حد کے بارے میں بات کر رہے ہو؟“ اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے لیے اللہ سے بخشش طلب کیجئے، جب شام ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی جو اس کے لائق ہے، پھر فرمایا: ”تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا“۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور اسے کاٹ دیا گیا، پھر اس کے بعد اس نے اچھی طرح سے توبہ کر لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: وہ اس کے بعد میرے پاس آتی تو میں اس کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتی تھی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک حد کا نافذ ہونا اہل زمین کے لیے تیس دن بارش ہونے سے بہتر ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 3 (2538)، (تحفة الأشراف: 14888) حم2/362، 302، 302 (حسن) لفظ ’’أربعین‘‘ کے ساتھ یہ حدیث حسن ہے، ابن ماجہ میں ’’أربعین صباحا‘‘ کا لفظ آیا ہے، اور اگلی حدیث میں اربعین لیلة کا لفظ آ رہا ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بارش عام طور پر رزق میں وسعت اور خوشحالی کا سبب ہوتی ہے، مگر حد کا نفاذ اس بابت زیادہ فائدہ مند ہے اس لیے کہ معاشرہ میں امن و امان کے قیام میں بہت ہی موثر چیز ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن بلفظ أربعين
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (2538) جرير بن يزيد: ضعيف،،كما فى التقريب (917). وللحديث شواهد ضعيف،ة عند ابن حبان (1507 موارد) وغيره. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 358
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کی چوری میں ہاتھ کاٹا، جس کی قیمت پانچ درہم تھی، راوی نے اسی طرح کہا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 1 (1686)، (تحفة الأشراف: 7653) (صحیح) (لفظ ’’ثلاثة‘‘ کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ راوی کا وہم ہے کہ ڈھال کی قیمت پانچ درہم تھی، صحیح یہ ہے کہ اس کی قیمت تین درہم تھی، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ ثلاثة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، شاذ انظر الحديث الآتي (الأصل: 4911) وصحيح مسلم (6 /1686) وهو المحفوظ. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 358
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (چرانے) میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہی روایت صحیح اور درست ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قطع في مجن ثمنه ثلاثة دراهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَطَعَ فِي مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (چرانے) پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا جس نے عورتوں کے چبوترے سے ایک ڈھال چرائی، جس کی قیمت تین درہم تھی۔