(مرفوع) اخبرنا محمد بن حاتم بن نعيم، قال: انبانا حبان، قال: حدثنا عبد الله، عن الاوزاعي، قال: حدثني عطاء بن ابي رباح،" ان رجلا سرق ثوبا , فاتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم , فامر بقطعه، فقال الرجل: يا رسول الله , هو له. قال:" فهلا قبل الآن؟". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ،" أَنَّ رَجُلًا سَرَقَ ثَوْبًا , فَأُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هُوَ لَهُ. قَالَ:" فَهَلَّا قَبْلَ الْآن؟".
عطا بن ابی رباح کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک کپڑا چرایا، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا (جس کا کپڑا تھا) وہ شخص بولا: اللہ کے رسول! وہ اسی کے لیے ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: ”ایسا اس سے پہلے ہی کیوں نہ کیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4882 (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، اس لیے کہ اس میں عطاء تابعی اور نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ کا ذکر نہیں ہے لیکن پچھلی روایت مرفوع متصل ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی میں نے اسے دے دیا، اب اسے معاف کر دیجئیے۔
(مرفوع) اخبرني هلال بن العلاء، قال: حدثنا حسين، قال: حدثنا زهير، قال: حدثنا عبد الملك هو ابن ابي بشير، قال: حدثني عكرمة، عن صفوان بن امية، انه طاف بالبيت وصلى، ثم لف رداء له من برد , فوضعه تحت راسه فنام، فاتاه لص فاستله من تحت راسه فاخذه، فاتي به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن هذا سرق ردائي، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اسرقت رداء هذا؟"، قال: نعم، قال:" اذهبا به فاقطعا يده"، قال صفوان: ما كنت اريد ان تقطع يده في ردائي، فقال له:" فلو ما قبل هذا؟". خالفه اشعث بن سوار. (مرفوع) أَخْبَرَنِي هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ هُوَ ابْنُ أَبِي بَشِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ طَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى، ثُمَّ لَفَّ رِدَاءً لَهُ مِنْ بُرْدٍ , فَوَضَعَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ فَنَامَ، فَأَتَاهُ لِصٌّ فَاسْتَلَّهُ مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ فَأَخَذَهُ، فَأَتَي بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا سَرَقَ رِدَائِي، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَسَرَقْتَ رِدَاءَ هَذَا؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبَا بِهِ فَاقْطَعَا يَدَهُ"، قَالَ صَفْوَانُ: مَا كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ فِي رِدَائِي، فَقَالَ لَهُ:" فَلَوْ مَا قَبْلَ هَذَا؟". خَالَفَهُ أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ.
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر نماز پڑھی، پھر اپنی چادر لپیٹ کر سر کے نیچے رکھی اور سو گئے، ایک چور آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچی، انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور بولے: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم نے ان کی چادر چرائی ہے؟ وہ بولا: ہاں، آپ نے (دو آدمیوں سے) فرمایا: اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا مقصد یہ نہ تھا کہ میری چادر کے سلسلے میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ کام پہلے ہی کیوں نہ کر لیا“۔ اشعث نے عبدالملک کے برخلاف (ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے) اس کو روایت کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن هشام يعني ابن ابي خيرة , قال: حدثنا الفضل يعني ابن العلاء الكوفي، قال: حدثنا اشعث، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: كان صفوان نائما في المسجد، ورداؤه تحته فسرق، فقام وقد ذهب الرجل , فادركه فاخذه فجاء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فامر بقطعه، قال صفوان: يا رسول الله , ما بلغ ردائي ان يقطع فيه رجل، قال:" هلا كان هذا قبل ان تاتينا به؟"، قال ابو عبد الرحمن: اشعث ضعيف. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خِيَرَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ يَعْنِي ابْنَ الْعَلَاءِ الْكُوفِيَّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ صَفْوَانُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ، وَرِدَاؤُهُ تَحْتَهُ فَسُرِقَ، فَقَامَ وَقَدْ ذَهَبَ الرَّجُلُ , فَأَدْرَكَهُ فَأَخَذَهُ فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ، قَالَ صَفْوَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا بَلَغَ رِدَائِي أَنْ يُقْطَعَ فِيهِ رَجُلٌ، قَالَ:" هَلَّا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنَا بِهِ؟"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَشْعَثُ ضَعِيفٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ صفوان رضی اللہ عنہ مسجد میں سو رہے تھے، ان کی چادر ان کے سر کے نیچے تھی، کسی نے اسے چرایا تو وہ اٹھ گئے، اتنے میں آدمی جا چکا تھا، انہوں نے اسے پا لیا اور اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میری چادر اس قیمت کی نہ تھی کہ کسی شخص کا ہاتھ کاٹا جائے ۱؎۔ آپ نے فرمایا: ”تو ہمارے پاس لانے سے پہلے ہی ایسا کیوں نہ کر لیا“۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اشعث ضعیف ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5985) (صحیح) (اشعث ضعیف راوی ہیں، لیکن پچھلی سند سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ ان کا اپنا ظن و گمان تھا ورنہ چادر کی قیمت چوری کے نصاب کی حد سے متجاوز تھی۔
(مرفوع) اخبرني احمد بن عثمان بن حكيم، قال: حدثنا عمرو، عن اسباط، عن سماك، عن حميد ابن اخت صفوان، عن صفوان بن امية، قال: كنت نائما في المسجد على خميصة لي ثمنها ثلاثون درهما , فجاء رجل فاختلسها مني، فاخذ الرجل فاتي به النبي صلى الله عليه وسلم , فامر به ليقطع، فاتيته، فقلت: اتقطعه من اجل ثلاثين درهما انا ابيعه وانسئه ثمنها، قال:" فهلا كان هذا قبل ان تاتيني به؟". (مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ أَسْبَاطٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ حُمَيْدٍ ابْنِ أُخْتِ صَفْوَانَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: كُنْتُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى خَمِيصَةٍ لِي ثَمَنُهَا ثَلَاثُونَ دِرْهَمًا , فَجَاءَ رَجُلٌ فَاخْتَلَسَهَا مِنِّي، فَأُخِذَ الرَّجُلُ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَمَرَ بِهِ لِيُقْطَعَ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَتَقْطَعُهُ مِنْ أَجْلِ ثَلَاثِينَ دِرْهَمًا أَنَا أَبِيعُهُ وَأُنْسِئُهُ ثَمَنَهَا، قَالَ:" فَهَلَّا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ؟".
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں اپنی ایک چادر پر سو رہا تھا، جس کی قیمت تیس درہم تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور مجھ سے چادر اچک لے گیا، پھر وہ آدمی پکڑا گیا اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے، تو میں نے آپ کے پاس آ کر عرض کیا: کیا آپ اس کا ہاتھ صرف تیس درہم کی وجہ سے کاٹ دیں گے؟ میں چادر اس کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں اور اس کی قیمت ادھار کر لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا تم نے اسے ہمارے پاس لانے سے پہلے کیوں نہیں کیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4882 (منکر) (اس کا یہ ٹکڑا ”أبیعہ … منکر ہے، اور نکارت کے سبب حمید ہیں جو لین الحدیث ہیں باقی مشمولات صحیح ہیں)»
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک چادر ان کے سر کے نیچے سے چوری ہو گئی اور وہ مسجد نبوی میں سو رہے تھے، انہوں نے چور پکڑ لیا اور اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر اسے میرے پاس لانے سے پہلے ہی کیوں نہ چھوڑ دیا“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن هاشم، قال: حدثنا الوليد، قال: حدثنا ابن جريج، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" تعافوا الحدود قبل ان تاتوني به، فما اتاني من حد فقد وجب". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَعَافَوْا الْحُدُودَ قَبْلَ أَنْ تَأْتُونِي بِهِ، فَمَا أَتَانِي مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حدود کو میرے پاس آنے سے پہلے معاف کر دیا کرو، کیونکہ جس حد کا مقدمہ میرے پاس آیا، اس میں حد لازم ہو گئی“۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حدود کو آپس ہی میں معاف کر دو، جب حد کی کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہو گئی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (4889) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 358
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: انبانا معمر، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما:" ان امراة مخزومية كانت تستعير المتاع، فتجحده، فامر النبي صلى الله عليه وسلم بقطع يدها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنَّ امْرَأَةً مَخْزُومِيَّةً كَانَتْ تَسْتَعِيرُ الْمَتَاعَ، فَتَجْحَدُهُ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ يَدِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں کا سامان مانگ لیتی تھی، پھر مکر جاتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عاریت (روزمرہ برتے جانے والے سامانوں کی منگنی) کے انکار کر دینے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخزومیہ عورت کا ہاتھ کاٹ دیا، اس سے بعض علماء عاریت کے انکار کو بھی چوری مانتے ہیں۔ (اس حدیث کی بعض روایات کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو چوری سے تعبیر فرمایا) اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عاریت کے انکار پر آپ نے اس لیے ہاتھ کاٹا کہ ایسا نہ ہو کہ عاریت دینے کا چلن ہی سماج اور معاشرے سے ختم ہو جائے تو لوگ پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ بہرحال عاریت کے انکار پر ہاتھ کاٹنا ثابت ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: انبانا معمر، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" كانت امراة مخزومية تستعير متاعا على السنة جاراتها وتجحده، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقطع يدها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَتْ امْرَأَةٌ مَخْزُومِيَّةٌ تَسْتَعِيرُ مَتَاعًا عَلَى أَلْسِنَةِ جَارَاتِهَا وَتَجْحَدُهُ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ يَدِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت پڑوسی عورتوں (کی گواہیوں) کے ذریعہ سامان مانگتی، پھر مکر جاتی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔
(مرفوع) اخبرنا عثمان بن عبد الله، قال: حدثني الحسن بن حماد، قال: حدثنا عمرو بن هاشم الجنبي ابو مالك، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: ان امراة كانت تستعير الحلي للناس، ثم تمسكه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لتتب هذه المراة إلى الله ورسوله , وترد ما تاخذ على القوم"، ثم قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قم يا بلال , فخذ بيدها فاقطعها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ الْجَنْبِيُّ أَبُو مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَسْتَعِيرُ الْحُلِيَّ لِلنَّاسِ، ثُمَّ تُمْسِكُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِتَتُبْ هَذِهِ الْمَرْأَةُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ , وَتَرُدَّ مَا تَأْخُذُ عَلَى الْقَوْمِ"، ثُمَّ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُمْ يَا بِلَالُ , فَخُذْ بِيَدِهَا فَاقْطَعْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت لوگوں کے زیورات مانگ لیتی پھر اسے رکھ لیتی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت کو اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرنی چاہیئے، اور جو کچھ لیتی ہے اسے لوگوں کو لوٹا دینا چاہیئے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال کھڑے ہو اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کاٹ دو“۔