(مرفوع) اخبرنا احمد بن حفص، قال: حدثني ابي، قال: حدثني إبراهيم بن طهمان، عن الحجاج بن الحجاج، عن قتادة , عن ابي حسان الاعرج، عن الاشتر , انه قال لعلي: إن الناس قد تفشغ بهم ما يسمعون، فإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إليك عهدا فحدثنا به، قال: ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا لم يعهده إلى الناس، غير ان في قراب سيفي صحيفة , فإذا فيها:" المؤمنون تتكافا دماؤهم يسعى بذمتهم ادناهم لا يقتل مؤمن بكافر، ولا ذو عهد في عهده" , مختصر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ، عَنْ الْأَشْتَرِ , أَنَّهُ قَالَ لِعَلِيٍّ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ تَفَشَّغَ بِهِمْ مَا يَسْمَعُونَ، فَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيْكَ عَهْدًا فَحَدِّثْنَا بِهِ، قَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ، غَيْرَ أَنَّ فِي قِرَابِ سَيْفِي صَحِيفَةً , فَإِذَا فِيهَا:" الْمُؤْمِنُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ" , مُخْتَصَرٌ.
اشتر کہتے ہیں کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں میں مشہور ہو رہی ہیں جو وہ سن رہے ہیں، لہٰذا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کوئی بات کہی ہو تو اسے بیان کر دیجئیے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی بات ایسی نہیں بتائی جو لوگوں کو نہ بتائی ہو، سوائے اس کے جو ایک صحیفہ میری تلوار کی نیام میں ہے، اس میں لکھا ہے: ”مومنوں کا خون برابر ہے، ان کا معمولی آدمی بھی کسی کا ذمہ لے سکتا ہے، کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی ذمی جب تک وہ عہد پر قائم رہے“۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، عن عيينة، قال: اخبرني ابي، قال: قال ابو بكرة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل معاهدا في غير كنهه حرم الله عليه الجنة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عُيَيْنَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی ذمی کو بلا وجہ قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت حرام کر دی ہے“۱؎۔
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی ذمی کی جان لی جب کہ اس کا خون جائز نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کی خوشبو حرام کر دی ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا النضر، قال: حدثنا شعبة، عن منصور، عن هلال بن يساف، عن القاسم بن مخيمرة، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من قتل رجلا من اهل الذمة لم يجد ريح الجنة وإن ريحها ليوجد من مسيرة سبعين عاما". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا".
ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کا قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت کی دوری سے آتی ہے“۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اہل ذمہ میں سے کسی کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8616)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجزیة 5 (3166)، الدیات 20 (6914)، سنن ابن ماجہ/الدیات 32 (2686)، مسند احمد (2/186) (صحیح)»
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غریب لوگوں کے ایک غلام نے امیر لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے انہیں کچھ نہ دلایا۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مؤلف کا یہ اپنا استدلال ہے، جب کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس پر جو باب باندھا ہے وہ اس حدیث کے مفہوم کی صحیح ترجمان ہے ان کے الفاظ ہیں ”فقراء کے غلام کی جنایت کا باب“ تب حدیث کا مطلب ہو گا ”مجرم غلام اگر غریب لوگوں کا ہو گا تو اس سے ساقط ہو جائے گا۔ لیکن مؤلف کا یہ استنباط بہرحال باقی ہے کہ جب یہ جنایت قتل سے کم تر ہو، ورنہ قتل کے بدلے اگر قصاص کا فیصلہ ہو تو بہرحال غلام سے بھی قصاص لیا جائے گا۔ اور دیت کے فیصلے کی صورت میں اگر مالک غریب ہے تو بیت المال سے دیت دی جائے گی اور امام خطابی کے بقول یہاں ”غلام“ بمعنی ”لڑکا ہے نہ کہ غلام بمعنی ”عبد“ یعنی اگر غریبوں کے کسی لڑکے نے قتل سے کم تر جنایت کا ارتکاب کیا تو اس کے غریب سرپرستوں سے دیت ساقط ہو جائے گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (4590) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 356
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا ابو خالد سليمان بن حيان، قال: حدثنا حميد، عن انس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بالقصاص في السن، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كتاب الله القصاص". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو خَالِدٍ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْقِصَاصِ فِي السِّنِّ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت میں قصاص کا فیصلہ فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے“۔
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام کو قتل کیا، اسے ہم قتل کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا کوئی عضو کاٹا تو اس کا عضو ہم کاٹیں گے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4740 (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: اس آخری جملہ کی باب سے مطابقت ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، پچھلی اور اگلی حدیثوں میں ہمارے لیے اس موضوع پر کافی مواد موجود ہے۔
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام کو خصی کیا اسے ہم خصی کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا عضو کاٹا ہم اس کا عضو کاٹیں گے“۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا عفان، قال: حدثنا حماد بن سلمة، قال: حدثنا ثابت، عن انس: ان اخت الربيع ام حارثة جرحت إنسانا , فاختصموا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" القصاص القصاص"، فقالت ام الربيع: يا رسول الله، ايقتص من فلانة , لا والله لا يقتص منها ابدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سبحان الله يا ام الربيع , القصاص كتاب الله"، قالت: لا والله , لا يقتص منها ابدا فما زالت حتى قبلوا الدية، قال:" إن من عباد الله من لو اقسم على الله لابره". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ أُخْتَ الرُّبَيِّعِ أُمَّ حَارِثَةَ جَرَحَتْ إِنْسَانًا , فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْقِصَاصَ الْقِصَاصَ"، فَقَالَتْ أُمُّ الرَّبِيعِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُقْتَصُّ مِنْ فُلَانَةَ , لَا وَاللَّهِ لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا أَبَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أُمَّ الرَّبِيعِ , الْقِصَاصُ كِتَابُ اللَّهِ"، قَالَتْ: لَا وَاللَّهِ , لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا أَبَدًا فَمَا زَالَتْ حَتَّى قَبِلُوا الدِّيَةَ، قَالَ:" إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ربیع کی بہن ام حارثہ رضی اللہ عنہا ۱؎ نے ایک شخص کو زخمی کر دیا، وہ لوگ مقدمہ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصاص ہو گا قصاص“، ام ربیع رضی اللہ عنہا بولیں: اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ نہیں، اللہ کی قسم! اس سے کبھی بھی قصاص نہ لیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی ذات پاک ہے، ام ربیع! قصاص تو اللہ کی کتاب کا حکم ہے“، وہ بولیں: نہیں، اس سے ہرگز قصاص نہ لیا جائے گا، وہ کہتی رہیں، یہاں تک کہ انہوں نے دیت قبول کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے بندوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کو (قسم میں) سچا کر دیتا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں زخمی کرنے والی کا نام ربیع بنت نضر کی بہن ”ام حارثہ“ ہے اور اعتراض کرنے والی ربیع ہیں، جب کہ اگلی روایت میں زخمی کرنے کی نسبت خود ربیع بنت نضر کی طرف کی گئی ہے، اور اعتراض کرنے کی نسبت ان کے بھائی انس بن نضر کی طرف کی گئی ہے، حافظ ابن حزم وغیرہ علماء کی تحقیق کے مطابق یہ الگ الگ دو واقعات ہیں، حافظ ابن حجر کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، (دیکھئیے کتاب الدیات باب ۱۹)۔