(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا عبد الوهاب، قال: سمعت يحيى بن سعيد، يقول: اخبرني بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، ان عبد الله بن سهل الانصاري , ومحيصة بن مسعود خرجا إلى خيبر، فتفرقا في حاجتهما، فقتل عبد الله بن سهل الانصاري، فجاء محيصة , وعبد الرحمن اخو المقتول، وحويصة بن مسعود حتى اتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذهب عبد الرحمن يتكلم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" الكبر الكبر"، فتكلم محيصة , وحويصة، فذكروا شان عبد الله بن سهل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تحلفون خمسين يمينا فتستحقون قاتلكم؟"، قالوا: كيف نحلف ولم نشهد ولم نحضر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فتبرئكم يهود بخمسين يمينا"، قالوا: يا رسول الله، كيف نقبل ايمان قوم كفار؟ قال: فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال بشير: قال لي سهل بن ابي حثمة: لقد ركضتني فريضة من تلك الفرائض في مربد لنا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ , وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقَا فِي حَاجَتِهِمَا، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَجَاءَ مُحَيِّصَةُ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ أَخُو الْمَقْتُولِ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ حَتَّى أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْكُبْرَ الْكُبْرَ"، فَتَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ , وَحُوَيِّصَةُ، فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ؟"، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَحْضُرْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بُشَيْرٌ: قَالَ لِي سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي فَرِيضَةٌ مِنْ تِلْكَ الْفَرَائِضِ فِي مِرْبَدٍ لَنَا.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما خیبر کی طرف نکلے پھر اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل انصاری رضی اللہ عنہ کا قتل ہو گیا۔ چنانچہ محیصہ، مقتول کے بھائی عبدالرحمٰن اور حویصہ بن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبدالرحمٰن بات کرنے لگے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“۔ پھر محیصہ اور حویصہ رضی اللہ عنہما نے گفتگو کی اور عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کا معاملہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں پچاس قسمیں کھانی ہوں گی، پھر تم اپنے قاتل کے (خون کے) حقدار بنو گے“، وہ بولے: ہم قسم کیوں کر کھائیں، نہ ہم موجود تھے اور نہ ہم نے دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر یہودی پچاس قسمیں کھا کر تمہارے شک کو دور کریں گے“۔ وہ بولے: ہم کافروں کی قسمیں کیسے قبول کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت ادا کی۔ بشیر کہتے ہیں: مجھ سے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: دیت میں دی گئی ان اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے ہمارے «مربد»(باڑھ) میں مجھے لات ماری۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، قال: وجد عبد الله بن سهل قتيلا، فجاء اخوه وعماه حويصة , ومحيصة وهما عما عبد الله بن سهل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذهب عبد الرحمن يتكلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الكبر الكبر"، قالا: يا رسول الله، إنا وجدنا عبد الله بن سهل قتيلا في قليب من بعض قلب خيبر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" من تتهمون؟"، قالوا: نتهم اليهود، قال:" افتقسمون خمسين يمينا ان اليهود قتلته؟"، قالوا: وكيف نقسم على ما لم نر؟ قال:" فتبرئكم اليهود بخمسين انهم لم يقتلوه" , قالوا: وكيف نرضى بايمانهم وهم مشركون؟ فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده. ارسله مالك بن انس. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وُجِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ قَتِيلًا، فَجَاءَ أَخُوهُ وَعَمَّاهُ حُوَيِّصَةُ , وَمُحَيِّصَةُ وَهُمَا عَمَّا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْكُبْرَ الْكُبْرَ"، قَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا وَجَدْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا فِي قَلِيبٍ مِنْ بَعْضِ قُلُبِ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَتَّهِمُونَ؟"، قَالُوا: نَتَّهِمُ الْيَهُودَ، قَالَ:" أَفَتُقْسِمُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ؟"، قَالُوا: وَكَيْفَ نُقْسِمُ عَلَى مَا لَمْ نَرَ؟ قَالَ:" فَتُبَرِّئُكُمْ الْيَهُودُ بِخَمْسِينَ أَنَّهُمْ لَمْ يَقْتُلُوهُ" , قَالُوا: وَكَيْفَ نَرْضَى بِأَيْمَانِهِمْ وَهُمْ مُشْرِكُونَ؟ فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ. أَرْسَلَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“، ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا: ”تمہارا شک کس پر ہے؟“ انہوں نے کہا: ہمارا شک یہودیوں پر ہے، آپ نے فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ یہودیوں نے ہی انہیں قتل کیا ہے؟“، انہوں نے کہا: جسے ہم نے دیکھا نہیں، اس پر قسم کیسے کھائیں؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر یہودیوں کی پچاس قسمیں کہ انہوں نے عبداللہ بن سہل کو قتل نہیں کیا ہے، تمہارے شک کو دور کریں گی؟“ وہ بولے: ہم ان کی قسموں پر کیسے رضامند ہوں جبکہ وہ مشرک ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ مالک بن انس نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے (یعنی سہل بن ابی حثمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)۔
(مرفوع) قال الحارث بن مسكين , قراءة عليه وانا اسمع: عن ابن القاسم، حدثني مالك، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار انه اخبره , ان عبد الله بن سهل الانصاري , ومحيصة بن مسعود خرجا إلى خيبر، فتفرقا في حوائجهما، فقتل عبد الله بن سهل، فقدم محيصة، فاتى هو واخوه حويصة , وعبد الرحمن بن سهل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذهب عبد الرحمن ليتكلم لمكانه من اخيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كبر كبر"، فتكلم حويصة , ومحيصة، فذكروا شان عبد الله بن سهل، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتحلفون خمسين يمينا وتستحقون دم صاحبكم او قاتلكم؟"، قال مالك: قال يحيى: فزعم بشير: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وداه من عنده، خالفهم سعيد بن عبيد الطائي. (مرفوع) قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ , قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ , وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ، فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَقَدِمَ مُحَيِّصَةُ، فَأَتَى هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ لِمَكَانِهِ مِنْ أَخِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرْ كَبِّرْ"، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ , وَمُحَيِّصَةُ، فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ؟"، قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى: فَزَعَمَ بُشَيْرٌ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ، خَالَفَهُمْ سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ.
بشیر بن یسار بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما خیبر کی طرف نکلے، پھر وہ اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کا قتل ہو گیا، محیصہ رضی اللہ عنہ آئے تو وہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ مقتول کے بھائی ہونے کی وجہ سے بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“، چنانچہ حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہما نے بات کی اور عبداللہ بن سہل کا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ اپنے آدمی یا اپنے قاتل کے خون کے حقدار بنو؟“۔ مالک کہتے ہیں: یحییٰ نے کہا: بشیر نے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ سعید بن طائی نے ان راویوں کے برعکس بیان کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4714 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سعید بن طائی کی روایت میں مقتول کے اولیاء سے قسم کھانے کے بجائے گواہ پیش کرنے، پھر مدعی علیہم سے قسم کھلانے کا ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے، (دیات ۲۲) بقول امام ابن حجر: بعض رواۃ نے گواہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور بعض نے کیا ہے، بس اتنی سی بات ہے، حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گواہی طلب کی اور گواہی نہ ہونے پر قسم کی بات کہی، اور جب مدعی یہ بھی نہیں پیش کر سکے تو مدعا علیہم سے قسم کی بات کی، اس بات کی تائید عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سعيد بن عبيد الطائي، عن بشير بن يسار زعم، ان رجلا من الانصار، يقال له: سهل بن ابي حثمة اخبره , ان نفرا من قومه انطلقوا إلى خيبر فتفرقوا فيها، فوجدوا احدهم قتيلا، فقالوا للذين وجدوه عندهم: قتلتم صاحبنا، قالوا: ما قتلناه ولا علمنا قاتلا، فانطلقوا إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا نبي الله، انطلقنا إلى خيبر فوجدنا احدنا قتيلا، رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الكبر الكبر"، فقال لهم:" تاتون بالبينة على من قتل؟"، قالوا: ما لنا بينة، قال:" فيحلفون لكم"، قالوا: لا نرضى بايمان اليهود، وكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة، خالفهم عمرو بن شعيب. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ زَعَمَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ , أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلًا، فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا، قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا، فَانْطَلَقُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلًا، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْكُبْرَ الْكُبْرَ"، فَقَالَ لَهُمْ:" تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ؟"، قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ:" فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ"، قَالُوا: لَا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، وَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْطُلَ دَمُهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، خَالَفَهُمْ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ.
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری شخص نے ان سے بیان کیا کہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے، پھر وہ الگ الگ ہو گئے، تو انہیں اپنا ایک آدمی مرا ہوا ملا، انہوں نے ان لوگوں سے جن کے پاس مقتول کو پایا، کہا: ہمارے آدمی کو تم نے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا: نہ تو ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتا ہے، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنا ایک آدمی مقتول پایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“۱؎، پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”تمہیں قاتل کے خلاف گواہ پیش کرنا ہو گا“، وہ بولے: ہمارے پاس گواہ تو نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو وہ قسم کھائیں گے“، وہ بولے: ہمیں یہودیوں کی قسمیں منظور نہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گراں گزرا کہ ان کا خون بیکار جائے، تو آپ نے انہیں صدقے کے سو اونٹ کی دیت ادا کی۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) عمرو بن شعیب نے ان (یعنی اوپر مذکور رواۃ) کی مخالفت کی ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4714 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہاں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ عمر میں چھوٹے آدمی (عبدالرحمٰن مقتول کے بھائی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع کی تو آپ نے ادب سکھایا کہ بڑوں کو بات کرنی چاہیئے اور چھوٹوں کو خاموش رہنا چاہیئے۔ ملاحظہ ہو: سابقہ احادیث۔ ۲؎: عمرو بن شعیب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ الاصغر کو مقتول کہا ہے، اور یہ کہا ہے کہ مدعیان سے شہادت طلب کرنے کے بعد اسے نہ پیش کر پانے کی صورت میں ان سے قسم کھانے کو کہا گیا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن معمر، قال: حدثنا روح بن عبادة، قال: حدثنا عبيد الله بن الاخنس، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان ابن محيصة الاصغر اصبح قتيلا على ابواب خيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقم شاهدين على من قتله ادفعه إليكم برمته"، قال: يا رسول الله، ومن اين اصيب شاهدين وإنما اصبح قتيلا على ابوابهم؟ قال:" فتحلف خمسين قسامة؟"، قال: يا رسول الله، وكيف احلف على ما لا اعلم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فنستحلف منهم خمسين قسامة"، فقال: يا رسول الله، كيف نستحلفهم وهم اليهود؟ فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ديته عليهم , واعانهم بنصفها. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ ابْنَ مُحَيِّصَةَ الْأَصْغَرَ أَصْبَحَ قَتِيلًا عَلَى أَبْوَابِ خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَقِمْ شَاهِدَيْنِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ أَدْفَعْهُ إِلَيْكُمْ بِرُمَّتِهِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمِنْ أَيْنَ أُصِيبُ شَاهِدَيْنِ وَإِنَّمَا أَصْبَحَ قَتِيلًا عَلَى أَبْوَابِهِمْ؟ قَالَ:" فَتَحْلِفُ خَمْسِينَ قَسَامَةً؟"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ أَحْلِفُ عَلَى مَا لَا أَعْلَمُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَنَسْتَحْلِفُ مِنْهُمْ خَمْسِينَ قَسَامَةً"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَسْتَحْلِفُهُمْ وَهُمْ الْيَهُودُ؟ فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ عَلَيْهِمْ , وَأَعَانَهُمْ بِنِصْفِهَا.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ کے چھوٹے بیٹے کا خیبر کے دروازوں کے پاس قتل ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو گواہ لاؤ کہ کس نے قتل کیا ہے، میں اسے اس کی رسی سمیت تمہارے حوالے کروں گا“، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمیں گواہ کہاں سے ملیں گے؟ وہ تو انہیں کے دروازے پر قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: ”تو پھر تمہیں پچاس قسمیں کھانی ہوں گی“، وہ بولے: اللہ کے رسول! جسے میں نہیں جانتا اس پر قسم کیوں کر کھاؤں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم ان سے پچاس قسمیں لے لو“، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم ان سے قسمیں کیسے لے سکتے ہیں وہ تو یہودی ہیں، تو آپ نے اس کی دیت یہودیوں پر تقسیم کی اور آدھی دیت دے کر ان کی مدد کی۔
وضاحت: ۱؎: امام نسائی نے اس روایت پر نقد یہ کہہ کر کیا کہ عمرو بن شعیب نے ان رواة کی مخالفت کی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اوپر گزری روایتوں سے اس روایت میں تین جگہ مخالفت ہے: اس میں مقتول کا نام عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ ہے، اور مدعی سے قسم سے پہلے گواہ پیش کرنے کی بات ہے،، نیز اس میں یہ ہے کہ آدھی دیت یہودیوں پر مقرر کی، دوسری شق کی تائید کہیں نہ کہیں سے ہو جاتی ہے لیکن بقیہ دو باتیں بالکل شاذ ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبید اللہ بن اخنس، بقول ابن حبان: روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کا خون بہانا جائز تین صورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے: جان کے بدلے جان ۱؎، جس کا نکاح ہو چکا ہو وہ زنا کرے، جو دین چھوڑ دے اور اس سے پھر جائے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4021 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسی لفظ سے ”قصاص“ کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جان ناحق لی گئی ہو۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء , واحمد بن حرب , واللفظ لاحمد، قالا: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قتل رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , فرفع القاتل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فدفعه إلى ولي المقتول، فقال القاتل: يا رسول الله، لا والله ما اردت قتله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لولي المقتول:" اما إنه إن كان صادقا ثم قتلته دخلت النار"، فخلى سبيله، قال: وكان مكتوفا بنسعة , فخرج يجر نسعته فسمي ذا النسعة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ , وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ , وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ:" أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ"، فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ , فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتل کر دیا گیا، قاتل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ نے اسے مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا ۱؎، قاتل نے کہا: اللہ کے رسول! میرا ارادہ قتل کا نہ تھا، آپ نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”سنو! اگر وہ سچ کہہ رہا ہے اور تم نے اسے قتل کر دیا تو تم بھی جہنم میں جاؤ گے“، تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ شخص رسی سے بندھا ہوا تھا، وہ اپنی رسی گھسیٹتا ہوا نکلا تو اس کا نام ذوالنسعۃ (رسی والا) پڑ گیا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا إسحاق، عن عوف الاعرابي، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن ابيه، قال: جيء بالقاتل الذي قتل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء به ولي المقتول، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتعفو؟"، قال: لا، قال:" اتقتل؟"، قال: نعم، قال:" اذهب"، فلما ذهب دعاه، قال:" اتعفو؟"، قال: لا، قال:" اتاخذ الدية؟"، قال: لا، قال:" اتقتل؟"، قال: نعم، قال:" اذهب" , فلما ذهب، قال:" اما إنك إن عفوت عنه فإنه يبوء بإثمك وإثم صاحبك"، فعفا عنه فارسله، قال: فرايته يجر نسعته. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق، عَنْ عَوْفٍ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جِيءَ بِالْقَاتِلِ الَّذِي قَتَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِهِ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَعْفُو؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَقْتُلُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبْ"، فَلَمَّا ذَهَبَ دَعَاهُ، قَالَ:" أَتَعْفُو؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَقْتُلُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبْ" , فَلَمَّا ذَهَبَ، قَالَ:" أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ"، فَعَفَا عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ، قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.
وائل حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ (قتل کرو)“، جب وہ (قتل کرنے) چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو کیا قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ (قتل کرو)“، جب وہ (قتل کرنے) چلا، تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اسے معاف کر دو تو تمہارا گناہ اور تمہارے (مقتول) آدمی کا گناہ اسی پر ہو گا“۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹتا جا رہا تھا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ بلا کچھ لیے دئیے ولی کے معاف کر دینے کی صورت میں ولی اور مقتول دونوں کے گناہ کا حامل قاتل ہو گا، لیکن اس میں اشکال ہے کہ ولی کے گناہ کا حامل کیونکر ہو گا، اس لیے حدیث کے اس ظاہری مفہوم کی توجیہ کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ولی کے معاف کر دینے کے سبب رب العالمین ولی اور مقتول دونوں کو مغفرت سے نوازے گا اور قاتل اس حال میں لوٹے گا کہ مغفرت کے سبب ان دونوں کے گناہ زائل ہو چکے ہوں گے۔ ۲؎: یہ وہی آدمی ہے جس کا تذکرہ پچھلی حدیث میں گزرا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن عوف بن ابي جميلة، قال: حدثني حمزة ابو عمر العائذي، قال: حدثنا علقمة بن وائل، عن وائل، قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين جيء بالقاتل يقوده ولي المقتول في نسعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لولي المقتول:" اتعفو؟"، قال: لا، قال:" اتاخذ الدية؟"، قال: لا، قال:" فتقتله؟"، قال: نعم، قال:" اذهب به"، فلما ذهب به، فولى من عنده دعاه، فقال له:" اتعفو؟"، قال: لا، قال:" اتاخذ الدية؟"، قال: لا، قال:" فتقتله؟"، قال: نعم، قال:" اذهب به"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك:" اما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبك"، فعفا عنه وتركه , فانا رايته يجر نسعته. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ وَائِلٍ، قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جِيءَ بِالْقَاتِلِ يَقُودُهُ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ فِي نِسْعَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ:" أَتَعْفُو؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَتَقْتُلُهُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبْ بِهِ"، فَلَمَّا ذَهَبَ بِهِ، فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ، فَقَالَ لَهُ:" أَتَعْفُو؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَتَقْتُلُهُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبْ بِهِ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:" أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ"، فَعَفَا عَنْهُ وَتَرَكَهُ , فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ.
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قاتل کو لایا گیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، مقتول کا ولی اسے رسی میں کھینچ کر لا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“، چنانچہ جب وہ لے کر چلا اور رخ پھیرا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو قتل ہی کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”سنو! اگر اسے معاف کرتے ہو تو وہ اپنا گناہ اور تمہارے (مقتول) آدمی کا گناہ سمیٹ لے گا“۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا، اور اسے چھوڑ دیا، پھر میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ قتل سے پہلے جو گناہ اس کے سر تھا اور قتل کے بعد جس گناہ کا وہ مرتکب ہوا ہے ان دونوں کو وہ سمیٹ لے گا۔