(مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الواحد، قال: حدثنا مروان وهو ابن محمد، قال: حدثنا خالد بن يزيد بن صالح بن صبيح المري، قال: حدثنا إبراهيم بن ابي عبلة، عن الوليد بن عبد الرحمن الجرشي، عن جبير بن نفير، عن سلمة بن نفيل الكندي، قال: كنت جالسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: يا رسول الله، اذال الناس الخيل، ووضعوا السلاح، وقالوا: لا جهاد قد وضعت الحرب اوزارها، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه، وقال:" كذبوا الآن الآن جاء القتال، ولا يزال من امتي امة يقاتلون على الحق، ويزيغ الله لهم قلوب اقوام، ويرزقهم منهم حتى تقوم الساعة، وحتى ياتي وعد الله، والخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة، وهو يوحى إلي اني مقبوض غير ملبث، وانتم تتبعوني افنادا يضرب بعضكم رقاب بعض، وعقر دار المؤمنين الشام". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ صَالِحِ بْنِ صَبِيحٍ الْمُرِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُفَيْلٍ الْكِنْدِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَذَالَ النَّاسُ الْخَيْلَ، وَوَضَعُوا السِّلَاحَ، وَقَالُوا: لَا جِهَادَ قَدْ وَضَعَتِ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ، وَقَالَ:" كَذَبُوا الْآنَ الْآنَ جَاءَ الْقِتَالُ، وَلَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ، وَيُزِيغُ اللَّهُ لَهُمْ قُلُوبَ أَقْوَامٍ، وَيَرْزُقُهُمْ مِنْهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، وَحَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ، وَالْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَهُوَ يُوحَى إِلَيَّ أَنِّي مَقْبُوضٌ غَيْرَ مُلَبَّثٍ، وَأَنْتُمْ تَتَّبِعُونِي أَفْنَادًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، وَعُقْرُ دَارِ الْمُؤْمِنِينَ الشَّامُ".
سلمہ بن نفیل کندی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس وقت ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! لوگوں نے گھوڑوں کی اہمیت اور قدر و قیمت ہی گھٹا دی، ہتھیار اتار کر رکھ دیے اور کہتے ہیں: اب کوئی جہاد نہیں رہا، لڑائی موقوف ہو چکی ہے۔ یہ سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ اس کی طرف کیا اور (پورے طور پر متوجہ ہو کر) فرمایا: ”غلط اور جھوٹ کہتے ہیں، (صحیح معنوں میں) لڑائی کا وقت تو اب آیا ہے ۱؎، میری امت میں سے تو ایک امت (ایک جماعت) حق کی خاطر ہمیشہ برسرپیکار رہے گی اور اللہ تعالیٰ کچھ قوموں کے دلوں کو ان کی خاطر کجی میں مبتلا رکھے گا ۲؎ اور انہیں (اہل حق کو) ان ہی (گمراہ لوگوں) کے ذریعہ روزی ملے گی ۳؎، یہ سلسلہ قیامت ہونے تک چلتا رہے گا، جب تک اللہ کا وعدہ (متقیوں کے لیے جنت اور مشرکوں و کافروں کے لیے جہنم) پورا نہ ہو جائے گا، قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی (خیر) بندھی ہوئی ہے ۴؎ اور مجھے بذریعہ وحی یہ بات بتا دی گئی ہے کہ جلد ہی میرا انتقال ہو جائے گا اور تم لوگ مختلف گروہوں میں بٹ کر میری اتباع (کا دعویٰ) کرو گے اور حال یہ ہو گا کہ سب (اپنے متعلق حق پر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود) ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوں گے اور مسلمانوں کے گھر کا آنگن (جہاں وہ پڑاؤ کر سکیں، ٹھہر سکیں، کشادگی سے رہ سکیں) شام ہو گا“۵؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے لڑائی کی مشروعیت تو ابھی ہوئی ہے اتنی جلد یہ بند کیسے ہو جائے گی۔ ۲؎: یعنی وہ گمراہ و بدراہ ہوں گے اور انہیں راہ راست پر لانے کے لیے یہ حق پرست دعوت و تبلیغ اور قتال و جہاد کا سلسلہ جاری و قائم رکھیں گے۔ ۳؎: یعنی لوگ انہیں جہاد کے لیے اموال اور اسباب و ذرائع مہیا کریں گے اور وہ ان سے اپنی روزی (بصورت مال غنیمت) حاصل کریں گے۔ ۴؎: مفہوم یہ ہے کہ گھوڑوں میں ان کے مالکوں کے لیے بھلائی اور خیر رکھ دی گئی ہے، اس لیے گھوڑوں کو جنگ و قتال کے لیے ہر وقت تیار رکھو۔ ۵؎: یعنی ایسے خلفشار کے وقت شام میں امن و سکون ہو گا جہاں اہل حق رہ سکیں گے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: حدثنا محبوب بن موسى، قال: حدثنا ابو إسحاق يعني الفزاري، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة، الخيل ثلاثة: فهي لرجل اجر، وهي لرجل ستر، وهي على رجل وزر، فاما الذي هي له اجر فالذي يحتبسها في سبيل الله، فيتخذها له ولا تغيب في بطونها شيئا إلا كتب له بكل شيء غيبت في بطونها اجر، ولو عرضت له مرج" , وساق الحديث. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق يَعْنِي الْفَزَارِيَّ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سَتْرٌ، وَهِيَ عَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَالَّذِي يَحْتَبِسُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيَتَّخِذُهَا لَهُ وَلَا تُغَيِّبُ فِي بُطُونِهَا شَيْئًا إِلَّا كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ غَيَّبَتْ فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، وَلَوْ عَرَضَتْ لَهُ مَرْجٌ" , وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھ دیا ہے“۔ گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں: بعض ایسے گھوڑے ہیں جن کے باعث آدمی (یعنی گھوڑے والے) کو اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے، اور کچھ گھوڑے وہ ہوتے ہیں جو آدمی کی عزت و وقار کے لیے پردہ پوشی کا باعث (اور آدمی کا بھرم باقی رکھنے کا سبب بنتے) ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آدمی کے لیے بوجھ (اور وبال) ہوتے ہیں۔ اب رہے وہ گھوڑے جو آدمی کے لیے اجر و ثواب کا باعث بنتے ہیں تو یہ ایسے گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے رکھے جائیں اور جہاد کے لیے تیار کیے جائیں، وہ جو چیز بھی کھالیں گے ان کے اپنے پیٹ میں ڈالی ہوئی ہر چیز کے عوض ان کے مالک کو اجر و ثواب ملے گا اگرچہ وہ چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہوں۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له , عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح السمان، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الخيل لرجل اجر، ولرجل ستر، وعلى رجل وزر، فاما الذي هي له اجر: فرجل ربطها في سبيل الله، فاطال لها في مرج او روضة، فما اصابت في طيلها ذلك في المرج او الروضة كان له حسنات، ولو انها قطعت طيلها ذلك، فاستنت شرفا او شرفين كانت آثارها، وفي حديث الحارث: وارواثها حسنات له، ولو انها مرت بنهر فشربت منه ولم يرد ان تسقى كان ذلك حسنات، فهي له اجر، ورجل ربطها تغنيا، وتعففا، ولم ينس حق الله عز وجل في رقابها، ولا ظهورها فهي لذلك ستر، ورجل ربطها فخرا ورياء ونواء لاهل الإسلام فهي على ذلك وزر"، وسئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الحمير، فقال:" لم ينزل علي فيها شيء إلا هذه الآية الجامعة الفاذة: فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره {7} ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره {8} سورة الزلزلة آية 7-8". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْخَيْلُ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سَتْرٌ، وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ: فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ، فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ فِي الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَ لَهُ حَسَنَاتٌ، وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا ذَلِكَ، فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا، وَفِي حَدِيثِ الْحَارِثِ: وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ، وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ تُسْقَى كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ، فَهِيَ لَهُ أَجْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا، وَتَعَفُّفًا، وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي رِقَابِهَا، وَلَا ظُهُورِهَا فَهِيَ لِذَلِكَ سَتْرٌ، وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ"، وَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَمِيرِ، فَقَالَ:" لَمْ يَنْزِلْ عَلَيَّ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْجَامِعَةُ الْفَاذَّةُ: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہیں، اور بعض گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے ستر و حجاب کا ذریعہ ہیں، اور بعض گھوڑے وہ ہیں جو آدمی پر بوجھ ہوتے ہیں، اب رہا وہ آدمی جس کے لیے گھوڑے اجر و ثواب کا باعث ہوتے ہیں تو وہ ایسا آدمی ہے جس نے گھوڑوں کو اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے باندھ کر پالا اور باغ و چراگاہ میں چرنے کے لیے ان کی رسی لمبی کی، تو وہ اس رسی کی درازی کے سبب چراگاہ اور باغ میں جتنی دور بھی چریں گے اس کے لیے (اسی اعتبار سے) نیکیاں لکھی جائیں گی اور اگر وہ اپنی رسی توڑ کر آگے پیچھے دوڑنے لگیں اور (بقدر) ایک دو منزل بلندیوں پر چڑھ جائیں تو بھی ان کے ہر قدم (اور حارث کی روایت کے مطابق) حتیٰ کہ ان کی لید (گوبر) پر بھی اسے اجر و ثواب ملے گا اور اگر وہ کسی نہر پر پہنچ جائیں اور اس نہر سے وہ پانی پی لیں اور مالک کا انہیں پانی پلانے کا پہلے سے کوئی ارادہ بھی نہ رہا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں شمار ہوں گی اور اسے اس کا بھی اجر ملے گا۔ اور (اب رہا دوسرا) وہ شخص جو گھوڑے پالے شکر کی نعمت اور دوسرے لوگوں سے مانگنے کی محتاجی سے بے نیازی کے اظہار کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے ان کی گردنوں اور ان کے پٹھوں کے ذریعہ (یعنی ان کی زکاۃ دے، اور جب اللہ کی راہ میں ان پر سواری کی ضرورت پیش آئے تو انہیں سواری کے لیے پیش کرے) تو ایسے شخص کے لیے یہ گھوڑے اس کے لیے (جہنم کے عذاب اور مار سے بچنے کے لیے) ڈھال بن جائیں گے۔ اور (اب رہا تیسرا) وہ شخص جو فخر، ریا و نمود اور اہل اسلام سے دشمنی کی خاطر گھوڑے باندھے تو یہ گھوڑے اس کے لیے بوجھ (عذاب و مصیبت) ہیں“۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سلسلے میں ان کے متعلق مجھ پر کچھ نہیں اترا ہے سوائے اس منفرد جامع آیت کے «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره»”جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی یا بھلائی کرے گا وہ اسے قیامت کے دن دیکھے گا اور جو شخص ذرہ برابر شر (برائی) کرے گا وہ اسے دیکھے گا“(الزلزال: ۷، ۸)۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا ابو احمد البزاز هشام بن سعيد الطالقاني , قال: حدثنا محمد بن مهاجر الانصاري، عن عقيل بن شبيب، عن ابي وهب وكانت له صحبة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تسموا باسماء الانبياء، واحب الاسماء إلى الله عز وجل عبد الله وعبد الرحمن، وارتبطوا الخيل، وامسحوا بنواصيها واكفالها، وقلدوها ولا تقلدوها الاوتار، وعليكم بكل كميت اغر محجل او اشقر اغر محجل او ادهم اغر محجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْبَزَّازُ هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّالَقَانِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَارْتَبِطُوا الْخَيْلَ، وَامْسَحُوا بِنَوَاصِيهَا وَأَكْفَالِهَا، وَقَلِّدُوهَا وَلَا تُقَلِّدُوهَا الْأَوْتَارَ، وَعَلَيْكُمْ بِكُلِّ كُمَيْتٍ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ أَوْ أَشْقَرَ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ أَوْ أَدْهَمَ أَغَرَّ مُحَجَّلٍ".
صحابی رسول ابو وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (اپنے بچوں کے) نام انبیاء کے ناموں پر رکھو، اور اللہ کے نزدیک سب ناموں میں زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہے ۱؎، گھوڑے باندھو، ان کی پیشانی سہلاؤ اور ان کے پٹھوں کی مالش کرو، ان کے گلے میں قلادے لٹکاؤ، لیکن تانت کے نہیں، کمیتی (سرخ سیاہ رنگ والے) گھوڑے رکھو جن کی پیشانی اور ٹانگیں سفید ہوں یا اشقر (سرخ زرد رنگ والے) گھوڑے رکھو جن کی پیشانیاں اور ٹانگیں سفید ہوں یا «ادھم»(کالے رنگ کے) گھوڑے رکھو جن کی پیشانی اور ٹانگوں پر سفیدی ہو“(یہ گھوڑے اچھے اور خیر و برکت والے ہوتے ہیں)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 44 (2544)، 50 (2553)، (تحفة الأشراف: 15519، 15520، 15521)، مسند احمد ش (4/345) (حسن) (اس کے راوی عقیل بن شبیب مجہول ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، دیکھئے صحیح ابوداود 2301، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 1040، 904، تراجع الالبانی 46، 487) لیکن (تسموا بأسماء الأنبيائ) کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے)۔»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ یہ اور انہیں دونوں جیسے ایسے نام رکھو جن میں عبودیت کا اعتراف اور اظہار ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2543،2544،2553،4950) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 348
وضاحت: ۱؎: یہ راوی نے «شکال» کی تفسیر کی ہے، اہل لغت کے نزدیک گھوڑوں میں «شکال» یہ ہے کہ اس کے تین پاؤں سفید ہوں، اور ایک باقی بدن کے ہم رنگ ہو یا اس کے برعکس ہو، یعنی ایک پاؤں سفید اور باقی تین پاؤں باقی بدن کے ہم رنگ ہیں۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثني سلم بن عبد الرحمن، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" انه كره الشكال من الخيل"، قال ابو عبد الرحمن: الشكال من الخيل: ان تكون ثلاث قوائم محجلة، وواحدة مطلقة، او تكون الثلاثة مطلقة، ورجل محجلة، وليس يكون الشكال إلا في رجل ولا يكون في اليد. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ كَرِهَ الشِّكَالَ مِنَ الْخَيْلِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الشِّكَالُ مِنَ الْخَيْلِ: أَنْ تَكُونَ ثَلَاثُ قَوَائِمَ مُحَجَّلَةً، وَوَاحِدَةٌ مُطْلَقَةً، أَوْ تَكُونَ الثَّلَاثَةُ مُطْلَقَةً، وَرِجْلٌ مُحَجَّلَةً، وَلَيْسَ يَكُونُ الشِّكَالُ إِلَّا فِي رِجْلٍ وَلَا يَكُونُ فِي الْيَدِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «شکال» گھوڑا ناپسند فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: گھوڑے کا «شکال» یہ ہے کہ اس کے تین پیر سفید ہوں اور ایک کسی اور رنگ کا ہو یا تین پیر کسی اور رنگ کے ہوں اور ایک سفید ہو، «شکال» ہمیشہ پیروں میں ہوتا ہے ہاتھ میں نہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نحوست تین چیزوں میں ہے، عورت، گھوڑے اور گھر میں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 34 (2225)، سنن الترمذی/الأدب 58 (2824)، (تحفة الأشراف: 6826)، مسند احمد (2/8، 36، 115، 126) (صحیح) (اس حدیث میں ’’الشؤم‘‘ کا لفظ آیا ہے اور بعض روایتوں میں إنما الشؤم ہے جو (شاذ) ہے اور محفوظ ’’إن کان الشؤم‘‘ کا لفظ ہے جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے ’’إن کان الشؤم‘‘ لفظ ثابت ہے، جس کے شواہد جابر (صحیح مسلم/2227 ونسائی 3600) سعد بن أبی وقاص (سنن ابی داود: 3921 ومسند أحمد 1/180، 186)، اور سہل بن سعد (صحیح البخاری/5095)، کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: الفتح 6/60-63) وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 799، 789، 1857)۔ اب جب کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی یہی روایت صحیح مسلم میں کئی سندوں سے اس طرح ہے: ”اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی‘‘ اور یہی مطلب اس عام روایت کا بھی ہے، اس کی وضاحت سعد بن مالک کی روایت میں ہے، اور وہ جو سنن ابی داود (3924) میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم ایک گھر میں تھے تو اس میں ہمارے لو گوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ رہتا تھا پھر ہم ایک دوسرے گھر میں آ گئے تو اس میں ہماری تعداد بھی کم ہو گئی اور ہمارا مال بھی گھٹ گیا، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، مذموم حالت میں‘‘ تو اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لئے دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا عقیدہ خراب ہو جائے، اور وہ گھر ہی کو مؤثر سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں پڑ جائیں، اور یہ حکم ایسے ہی ہے جیسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے احتیاطا کوڑھی سے دور بھاگنے کا حکم دیا، حالانکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے: ’’چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ہے‘‘۔»
وضاحت: ۱؎: اگر نحوست بات عملاً مان لی جائے یا یہ کہ لوگ معاشرہ میں ایسا ہی سمجھتے اور سوچتے ہیں تو عورت کی نحوست یہ ہے کہ عورت زبان دراز یا بدخلق ہو اور گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ لات مارے، دانت کاٹے اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ پڑوسی اچھے نہ ہوں یا گرمی و سردی کے لحاظ سے آرام دہ نہ ہو، اس طرح سے ان چیزوں سے آدمی متوحش ہوتا ہے، اور اپنے جذبات کی تعبیر نحوست کے لفظ سے کرتا ہے، لیکن اس کا معنی یہی ہوتا ہے جو ہم نے ذکر کیا۔
قال الشيخ الألباني: شاذ والمحفوظ بلفظ إن كان الشؤم في شيء ففي ...
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نحوست گھر میں، عورت میں اور گھوڑے میں ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 18 (5093)، الطب 54 (5772)، صحیح مسلم/السلام 34 (2225)، سنن ابی داود/الطب 24 (3922)، سنن الترمذی/الأدب 58 (2824)، (تحفة الأشراف: 6699)، موطا امام مالک/الاستئذان 8 (22)، مسند احمد (2/26، 115، 126، 136) (صحیح) (جیسا کہ اوپر گزرا الشؤم اور إنماالشؤم کا لفظ شاذ ہے، اور خود صحیحین میں إن کان الشؤم کی روایت موجود ہے تو شواہد کی بنا پر یہی لفظ محفوظ ہوگا اور علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ امام بخاری طرق حدیث کے ذکر میں راجح روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس کے لیے یہ مثال کافی ہے، نیز ملاحظہ ہو اس کے بعد کی حدیث حاشیہ)»
وضاحت: ۱؎: لگتا ہے کہ امام نسائی کے یہاں بھی راجح یہی لفظ ہے کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہو سکتی تو ان چیزوں میں ہوتی اس لیے کہ پہلی دونوں حدیثوں میں «الشؤم مطلقاً» کی تخریج کی اور آخر میں جابر کی حدیث دے کر اپنا فیصلہ سنا دیا، اس طرح سے یہ مثال امام نسائی کے طریقہ ترجیح میں ایک عمدہ مثال مانی جانی چاہیئے۔