(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، قال: سمعته يقول: شهدت عمر بجمع فقال:" إن اهل الجاهلية كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، ويقولون اشرق ثبير، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفهم، ثم افاض قبل ان تطلع الشمس". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: شَهِدْتُ عُمَرَ بِجَمْعٍ فَقَالَ:" إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَيَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو وہ کہنے لگے: اہل جاہلیت جب تک سورج نکل نہیں جاتا مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے، کہتے تھے «أشرق ثبیر»”اے ثبیر روشن ہو جا“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی، پھر وہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے خاندان کے کمزور لوگوں کے ساتھ (رات ہی میں) بھیج دیا تو ہم نے نماز فجر منیٰ میں پڑھی، اور جمرہ کی رمی کی۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے خواہش ہوئی کہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرتی جس طرح سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت طلب کی تھی۔ اور لوگوں کے آنے سے پہلے میں بھی منیٰ میں نماز فجر پڑھتی، سودہ رضی اللہ عنہا بھاری بدن کی سست رفتار عورت تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (پہلے ہی لوٹ جانے کی) اجازت مانگی۔ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی، تو انہوں نے فجر منیٰ میں پڑھی، اور لوگوں کے پہنچنے سے پہلے رمی کر لی۔
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کے ایک غلام کہتے ہیں کہ میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے ساتھ اخیر رات کے اندھیرے میں منیٰ آیا۔ میں نے ان سے کہا: ہم رات کی تاریکی ہی میں منیٰ آ گئے (حالانکہ دن میں آنا چاہیئے)، تو انہوں نے کہا: ہم اس ذات کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے (یعنی غلس میں آتے تھے) جو تم سے بہتر تھے۔
عروہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا، اور میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے لوٹتے وقت کیسے چل رہے تھے؟ تو انہوں نے کہا: اپنی اونٹنی کو عام رفتار سے چلا رہے تھے، اور جب خالی جگہ پاتے تو تیز بھگاتے۔
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن هارون، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل، قال: حدثنا جعفر بن محمد، عن ابيه، قال: دخلنا على جابر بن عبد الله، فقلت: اخبرني عن حجة النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دفع من المزدلفة قبل ان تطلع الشمس، واردف الفضل بن العباس حتى اتى محسرا حرك قليلا، ثم سلك الطريق الوسطى التي تخرجك على الجمرة الكبرى، حتى اتى الجمرة التي عند الشجرة، فرمى بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة منها، حصى الخذف رمى من بطن الوادي". (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَفَعَ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا حَرَّكَ قَلِيلًا، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تُخْرِجُكَ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ، فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا، حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي".
ابو جعفر محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس گئے تو میں نے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے سورج نکلنے سے پہلے چلے آپ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا، یہاں تک کہ وادی محسر پہنچے، تو اونٹ کی رفتار آپ نے قدرے بڑھا دی، پھر آپ نے وہ درمیانی راستہ پکڑا جو تمہیں جمرہ کبریٰ کے پاس لے جا کر نکالے گا یہاں تک کہ آپ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے۔ آپ نے (وہاں پہنچ کر) سات ایسی چھوٹی کنکریاں ماریں جو انگوٹھے اور شہادت کی دونوں انگلیوں کے درمیان آ جائیں، ہر کنکری کے ساتھ آپ تکبیر کہہ رہے تھے، آپ نے وادی کی نشیب سے رمی کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2623، 2636)، انظر حدیث رقم: 2975)، ویأتي عند المؤلف: 3056 (صحیح)»
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے، تو برابر تلبیہ پکارتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کی رمی کی۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي، قال: حدثنا ابن علية، قال: حدثنا عوف، قال: حدثنا زياد بن حصين، عن ابي العالية، قال: قال ابن عباس: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة العقبة وهو على راحلته:" هات القط لي، فلقطت له حصيات هن حصى الخذف فلما وضعتهن في يده، قال: بامثال هؤلاء وإياكم والغلو في الدين، فإنما اهلك من كان قبلكم الغلو في الدين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ:" هَاتِ الْقُطْ لِي، فَلَقَطْتُ لَهُ حَصَيَاتٍ هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ فَلَمَّا وَضَعْتُهُنَّ فِي يَدِهِ، قَالَ: بِأَمْثَالِ هَؤُلَاءِ وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کی صبح مجھ سے فرمایا: اور آپ اپنی سواری پر تھے کہ ”میرے لیے کنکریاں چن دو“۔ تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں جو چھوٹی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آ سکتی تھیں جب میں نے آپ کے ہاتھ میں انہیں رکھا تو آپ نے فرمایا: ”ایسی ہی ہونی چاہیئے، اور تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو ہی نے ہلاک کر دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحج 63 (3029)، (تحفة الأشراف: 5427)، مسند احمد (1/215)، ویأتی عند المؤلف برقم 3061 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ترمزی اور امام احمد دونوں نے یہاں ”ابن عباس“ سے ”عبداللہ بن عباس“ سمجھا ہے، حالانکہ ”عبداللہ“ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ہی میں عورتوں بچوں کے ساتھ منی روانہ کر دیا تھا، اور مزدلفہ سے منی تک سواری پر آپ کے پیچھے ”فضل بن عباس“ ہی سوار تھے، یہ دونوں باتیں صحیح مسلم کتاب الحج باب ۴۵ اور ۴۹ میں اور سنن کبریٰ بیہقی (۵/۱۲۷) میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔