(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن سفيان، عن سلمة بن نبيط، عن ابيه، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب على جمل احمر بعرفة قبل الصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْطٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ".
نبیط رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے پہلے ایک سرخ اونٹ پر سوار ہو کر خطبہ دیتے دیکھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 62 (1916)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 158 (1286)، (تحفة الأشراف: 1589)، مسند احمد (4/305، 306) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1916) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 344
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عمرو بن السرح، قال: حدثنا ابن وهب، اخبرني مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر جاء إلى الحجاج بن يوسف يوم عرفة حين زالت الشمس وانا معه، فقال: الرواح , إن كنت تريد السنة , فقال: هذه الساعة , قال: نعم، قال سالم: فقلت للحجاج:" إن كنت تريد ان تصيب اليوم السنة فاقصر الخطبة، وعجل الصلاة"، فقال عبد الله بن عمر: صدق. (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ جَاءَ إِلَى الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ يَوْمَ عَرَفَةَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَأَنَا مَعَهُ، فَقَالَ: الرَّوَاحَ , إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ , فَقَالَ: هَذِهِ السَّاعَةَ , قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَالِمٌ: فَقُلْتُ لِلْحَجَّاجِ:" إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُصِيبَ الْيَوْمَ السُّنَّةَ فَأَقْصِرِ الْخُطْبَةَ، وَعَجِّلِ الصَّلَاةَ"، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: صَدَقَ.
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عرفہ کے دن جس وقت سورج ڈھل گیا حجاج بن یوسف کے پاس آئے، اور میں ان کے ساتھ تھا۔ اور کہا: اگر سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو آؤ چلیں۔ تو حجاج نے کہا: اسی وقت، انہوں نے کہا: ہاں (اسی وقت)، سالم کہتے ہیں: میں نے حجاج سے کہا: اگر آپ آج سنت کو پانا چاہتے ہیں تو خطبہ مختصر دیں، اور نماز جلدی پڑھیں، اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اس نے سچ کہا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز اس کے وقت پر پڑھتے تھے، سوائے مزدلفہ اور عرفات کے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 609 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عرفات میں ظہر اور عصر دونوں ظہر کے وقت پڑھتے یعنی جمع تقدیم کرے، اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء دونوں عشاء کے وقت پڑھتے یعنی جمع تاخیر کرتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، عن هشيم، قال: حدثنا عبد الملك، عن عطاء، قال: قال اسامة بن زيد: كنت رديف النبي صلى الله عليه وسلم بعرفات فرفع يديه، يدعو فمالت به ناقته، فسقط خطامها، فتناول الخطام بإحدى يديه وهو رافع يده الاخرى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هُشَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: قَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: كُنْتُ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ فَرَفَعَ يَدَيْهِ، يَدْعُو فَمَالَتْ بِهِ نَاقَتُهُ، فَسَقَطَ خِطَامُهَا، فَتَنَاوَلَ الْخِطَامَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَهُ الْأُخْرَى".
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں عرفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا۔ تو آپ نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے، اتنے میں آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر مڑی تو اس کی نکیل گر گئی تو آپ نے ایک ہاتھ سے اسے پکڑ لیا، اور دوسرا ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے رہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا ابو معاوية، قال: حدثنا هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" كانت قريش تقف بالمزدلفة ويسمون الحمس وسائر العرب تقف بعرفة فامر الله تبارك وتعالى نبيه صلى الله عليه وسلم ان يقف بعرفة ثم يدفع منها، فانزل الله عز وجل: ثم افيضوا من حيث افاض الناس سورة البقرة آية 199". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَتْ قُرَيْشٌ تَقِفُ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَيُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ وَسَائِرُ الْعَرَبِ تَقِفُ بِعَرَفَةَ فَأَمَرَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقِفَ بِعَرَفَةَ ثُمَّ يَدْفَعُ مِنْهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ قریش مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے، اور اپنا نام حمس رکھتے تھے، باقی تمام عرب کے لوگ عرفات میں، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ عرفات میں ٹھہریں، پھر وہاں سے لوٹیں، اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس»”جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں وہیں سے تم بھی لوٹو“ نازل فرمائی۔
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ایک اونٹ کھو دیکھا، تو میں عرفہ کے دن عرفات میں اس کی تلاش میں گیا، تو میں نے وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وقوف کیے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا: ارے ان کا کیا معاملہ ہے؟ یہ تو حمس میں سے ہیں (پھر یہاں کیسے؟)۔
یزید بن شیبان کہتے ہیں کہ ہم عرفہ کے دن عرفات میں ”موقف“(ٹھہرنے کی خاص جگہ) سے دور ٹھہرے ہوئے تھے۔ تو ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے اور کہنے لگے تمہاری طرف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، آپ فرماتے ہیں: تم اپنے مشاعر میں رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی میراث کے وارث ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 63 (1919)، سنن الترمذی/الحج 53 (883)، سنن ابن ماجہ/الحج 55 (3011)، مسند احمد 4/137 (صحیح)»
ابو جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو ہم ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفات سارا کا سارا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 20 (1218)، سنن ابی داود/الحج 57 (1907، 1908)، 65 (1936)، (تحفة الأشراف: 2596)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الحج 73 (3048)، مسند احمد 3/321، 326، سنن الدارمی/المناسک 50 (1921)، ویأتی عند المؤلف برقم: 3048 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا وكيع، قال: حدثنا سفيان، عن بكير بن عطاء، عن عبد الرحمن بن يعمر، قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتاه ناس، فسالوه عن الحج؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الحج عرفة، فمن ادرك ليلة عرفة قبل طلوع الفجر من ليلة جمع فقد تم حجه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ نَاسٌ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الْحَجِّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْحَجُّ عَرَفَةُ، فَمَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ عَرَفَةَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ مِنْ لَيْلَةِ جَمْعٍ فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ".
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا کہ اتنے میں کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور انہوں نے حج کے متعلق آپ سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج عرفات میں ٹھہرنا ہے جس شخص نے عرفہ کی رات مزدلفہ کی رات طلوع فجر سے پہلے پا لی تو اس کا حج پورا ہو گیا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے، اور حج کے فوت ہونے سے مامون ہو گیا، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہو گیا، اب اسے کچھ اور نہیں کرنا ہے، ابھی تو طواف افاضہ جو حج کا ایک رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہو سکتا ہے۔