(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، وهناد بن السري، عن حسين بن علي، عن زائدة، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله، قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت الانصار: منا امير ومنكم امير فاتاهم عمر، فقال: الستم تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد" امر ابا بكر ان يصلي بالناس فايكم تطيب نفسه ان يتقدم ابا بكر قالوا نعوذ بالله ان نتقدم ابا بكر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلَيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قالتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَأَتَاهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ" أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہو گا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۳؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لیے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ ۲؎: اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہو گا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے متعلق «اقرأکم أبی» فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقدم کیا۔ ۳؎: اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہو گئے۔
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، قال: حدثنا ايوب، عن ابي العالية البراء قال: اخر زياد الصلاة فاتاني ابن صامت فالقيت له كرسيا فجلس عليه فذكرت له صنع زياد فعض على شفتيه وضرب على فخذي وقال: إني سالت ابا ذر كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك وقال: إني سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك فقال عليه الصلاة والسلام" صل الصلاة لوقتها فإن ادركت معهم فصل ولا تقل إني صليت فلا اصلي". (مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، قال: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ قال: أَخَّرَ زِيَادٌ الصَّلَاةَ فَأَتَانِي ابْنُ صَامِتٍ فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا فَجَلَسَ عَلَيْهِ فَذَكَرْتُ لَهُ صُنْعَ زِيَادٍ فَعَضَّ عَلَى شَفَتَيْهِ وَضَرَبَ عَلَى فَخِذِي وَقَالَ: إنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخْذَكَ وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ" صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتَ مَعَهُمْ فَصَلِّ وَلَا تَقُلْ إِنِّي صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي".
ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ زیاد نے نماز میں دیر کر دی تو میرے پاس (عبداللہ ابن صامت) ابن صامت آئے میں نے ان کے لیے ایک کرسی لا کر رکھی، وہ اس پہ بیٹھے، میں نے ان سے زیاد کی کارستانیوں کا ذکر کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو بھینچا ۱؎ اور میری ران پر ہاتھ مارا، اور کہا: میں نے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح پوچھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے میری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پہ مارا ہے، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح پوچھا ہے، جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے تمہاری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پہ مارا ہے، اور فرمایا: ”نماز اس کے وقت پر پڑھ لیا کرو، اور اگر تم ان کے ساتھ نماز کا وقت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا اب نہیں پڑھوں گا“۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 41 (648)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 11948)، مسند احمد 5/147، 160، 168، سنن الدارمی/الصلاة 25 (1263)، ویأتی عند المؤلف في الإمامة 55 (برقم: 860) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے اس کے فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار مقصود تھا۔ ۲؎: کیونکہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لعلكم ستدركون اقواما يصلون الصلاة لغير وقتها فإن ادركتموهم فصلوا الصلاة لوقتها وصلوا معهم واجعلوها سبحة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّكُمْ سَتُدْرِكُونَ أَقْوَامًا يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ لِغَيْرِ وَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتُمُوهُمْ فَصَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا وَصَلُّوا مَعَهُمْ وَاجْعَلُوهَا سُبْحَةً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم کچھ ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو نماز کو بے وقت کر کے پڑھیں گے، تو اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھ لیا کرو، اور ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرو ۱؎ اور اسے سنت (نفل) بنا لو“۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة 150 (1255)، (تحفة الأشراف: 9211)، مسند احمد 1/379، 455، 459، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 5 (534) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ۲؎: صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں «واجعلوا صلاتکم معہم نافلۃ» یعنی بعد میں ان کے ساتھ جو نماز پڑھو اسے نفل سمجھو۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة قال: انبانا فضيل بن عياض، عن الاعمش، عن إسماعيل بن رجاء، عن اوس بن ضمعج، عن ابي مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يؤم القوم اقرؤهم لكتاب الله فإن كانوا في القراءة سواء فاقدمهم في الهجرة فإن كانوا في الهجرة سواء فاعلمهم بالسنة فإن كانوا في السنة سواء فاقدمهم سنا ولا تؤم الرجل في سلطانه ولا تقعد على تكرمته إلا ان ياذن لك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قال: أَنْبَأَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ فِي الْهِجْرَةِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِنًّا وَلَا تَؤُمَّ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا تَقْعُدْ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا أَنْ يَأْذَنَ لَكَ".
ابومسعود (عقبہ بن عمرو) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو ۱؎، اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو وہ امامت کرے ۲؎، اور اگر سنت (کے جاننے) میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ ۳؎ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دیدے“۴؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب وہ قرآن سمجھتا ہو (واللہ اعلم)۲؎: کیونکہ ہجرت میں سبقت اور پہل کے شرف کا تقاضا ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے صحیح مسلم کی روایت (جو ابومسعود رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے) میں سنت کے جانکار کو ہجرت میں سبقت کرنے والے پر مقدم کیا گیا ہے، ابوداؤد اور ترمذی میں بھی یہی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے (واللہ اعلم)۔ ۳؎: مثلاً کسی کی مخصوص کرسی یا مسند وغیرہ پر۔ ۴؎: «إلا ا ٔن یاذن لکم» کا تعلق دونوں فعلوں یعنی امامت کرنے اور مخصوص جگہ پر بیٹھنے سے ہے، لہٰذا اس استثناء کی روسے مہمان میزبان کی اجازت سے اس کی امامت کر سکتا ہے۔
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچازاد بھائی (اور کبھی انہوں) نے کہا: میں اور میرے ایک ساتھی، دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دونوں سفر کرو تو تم دونوں اذان اور اقامت کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 635 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک اذان کہے دوسرا اس کا جواب دے، یا دونوں میں سے کوئی اذان دے اور دوسرا امامت کرائے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین شخص ہوں تو ان میں سے ایک کو امامت کرنی چاہیئے، اور ان میں امامت کا زیادہ حقدار وہ ہے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“۔
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی امامت ایسی جگہ نہ کی جائے جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور بغیر اجازت اس کی مخصوص نشست گاہ پر نہ بیٹھا جائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 781 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر حاکم موجود ہو تو وہی امامت کا مستحق ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يعقوب وهو ابن عبد الرحمن، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغه ان بني عمرو بن عوف كان بينهم شيء فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلح بينهم في اناس معه فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم فحانت الاولى فجاء بلال إلى ابي بكر فقال: يا ابا بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة فهل لك ان تؤم الناس قال: نعم إن شئت فاقام بلال وتقدم ابو بكر فكبر بالناس وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصف واخذ الناس في التصفيق وكان ابو بكر لا يلتفت في صلاته فلما اكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يامره ان يصلي فرفع ابو بكر يديه فحمد الله عز وجل ورجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس فلما فرغ اقبل على الناس فقال:" يا ايها الناس ما لكم حين نابكم شيء في الصلاة اخذتم في التصفيق إنما التصفيق للنساء من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله فإنه لا يسمعه احد حين يقول سبحان الله إلا التفت إليه يا ابا بكر ما منعك ان تصلي للناس حين اشرت إليك". قال: ابو بكر ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَانَتِ الْأُولَى فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتِ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ قَالَ: نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ بِلَالٌ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَكَبَّرَ بِالنَّاسِ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ وَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيقِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ فِي التَّصْفِيقِ إِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ حِينَ يَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ إِلَّا الْتَفَتَ إِلَيْهِ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ". قَالَ: أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابوبکر! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور نماز کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہو گا (پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابوبکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی؟“، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھائے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 48 (684)، العمل في الصلاة 3 (1201)، 5 (1204)، 16 (1218)، السھو 9 (1234)، الصلح 1 (2690)، الأحکام 36 (7190)، صحیح مسلم/الصلاة 22 (421)، وقد أخرجہ: مسند احمد 5/336، 338، سنن الدارمی/الصلاة 95 (1404، 1405) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں اور خود مؤلف کے یہاں (حدیث رقم: ۷۹۴ میں) یہ صراحت ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا۔ ۲؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام راتب (مستقل امام) کہیں گیا ہوا ہو، اور اس کی جگہ کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو، تو جب امام راتب درمیان نماز آ جائے تو چاہے تو وہی نائب نماز پڑھاتا رہے، اور چاہے تو وہ پیچھے ہٹ آئے اور امام راتب نماز پڑھائے، مگر یہ بات اس وقت تک ہے جب نائب نے ایک رکعت بھی نہ پڑھائی ہو، اور اگر ایک رکعت پڑھا دی ہو تو پھر باقی نماز بھی وہی پوری کرائے، امام ابن عبدالبر کے نزدیک یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا حميد، عن انس قال:" آخر صلاة صلاها رسول الله صلى الله عليه وسلم مع القوم صلى في ثوب واحد متوشحا خلف ابي بكر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قال:" آخِرُ صَلَاةٍ صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ الْقَوْمِ صَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُتَوَشِّحًا خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز وہ تھی جسے آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک کپڑے میں اس حال میں پڑھی تھی کہ اس کے دونوں کنارے بغل سے نکال کر آپ کندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔