رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمار کے ایک لڑکے کے پاس تشریف لے گئے (وہ بیمار تھا) اور یوں دعا فرمائی: «اكشف الباس رب الناس إله الناس»”لوگوں کے رب، لوگوں کے معبود! (اے اللہ) تو اس بیماری کو دور فرما“۔
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے پاس بخار کی مریضہ ایک عورت لائی جاتی تھی، تو وہ پانی منگواتیں، پھر اسے اس کے گریبان میں ڈالتیں، اور کہتیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”اسے پانی سے ٹھنڈا کرو“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”یہ جہنم کی بھاپ ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 28 (5724)، صحیح مسلم/السلام 26 (2211)، سنن الترمذی/الطب 25 (2074)، (تحفة الأشراف: 15744) وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العین 6 (15)، مسند احمد (6/346) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں سے کسی میں خیر ہے تو پچھنے میں ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 3 (3857)، (تحفة الأشراف: 10511)، وقد أخرجہ، مسند احمد (2/242، 423) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پچھنا لگوانے کے کافی فوائد ہیں، بالخصوص جب بدن میں خون کی کثرت ہو تو یہ نہایت مفید ہوتا ہے، اور بعض امراض میں اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فوراً آرام ہو جاتا ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ہوا اس نے یہی کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ پچھنے کو لازم کر لیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 12 (2053)، (تحفة الأشراف: 6138)، وقد أخرجہ: (1/354) (صحیح)» (سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی پیدا ہو گئی تھی، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: حدیث 3479، وحدیث ابن عمر فی مسند البزار و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2263)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2053) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 502
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنا لگانے والا بہت بہتر شخص ہے کہ وہ خون نکال دیتا ہے، کمر کو ہلکا اور نگاہ کو تیز کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 12 (2053)، (تحفة الأشراف: 2053) (ضعیف)» (سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی، ترمذی نے حدیث کی تحسین کی ہے، اور حاکم نے تصحیح، اور ان کی موافقت ذہبی نے ایک جگہ (4؍212) کی ہے، اور دوسری جگہ نہیں (4؍410)، البانی صاحب نے اس کو ذہبی کا وہم بتایا ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2036)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2053) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 502
(مرفوع) حدثنا جبارة بن المغلس , حدثنا كثير بن سليم , سمعت انس بن مالك , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما مررت ليلة اسري بي بملإ , إلا قالوا: يا محمد , مر امتك بالحجامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ , حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ , سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِمَلَإٍ , إِلَّا قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ , مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس رات معراج ہوئی میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر ہوا اس نے کہا: ”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت کو پچھنا لگانے کا حکم دیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1448، ومصباح الزجاجة: 1211) (صحیح)» (سند میں جبارہ اور کثیر بن سلیم ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: حدیث: 3478)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جبارة وكثير بن سليم مجروحان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 502
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح المصري , انبانا الليث بن سعد , عن ابي الزبير , عن جابر , ان ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحجامة ," فامر النبي صلى الله عليه وسلم ابا طيبة ان يحجمها" , وقال: حسبت انه كان اخاها من الرضاعة او غلاما لم يحتلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ , أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , اسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحِجَامَةِ ," فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا طَيْبَةَ أَنْ يَحْجُمَهَا" , وَقَالَ: حَسِبْتُ أَنَّهُ كَانَ أَخَاهَا مِنَ الرِّضَاعَةِ أَوْ غُلَامًا لَمْ يَحْتَلِمْ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطیبہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں پچھنا لگائے، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابوطیبہ یا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے یا پھر نابالغ لڑکے ۱؎۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام گردن کی دونوں رگوں اور دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ پر پچھنا لگانے کا حکم لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10025، ومصباح الزجاجة: 1212) (ضعیف جدا)» » (سند میں سوید بن سعید، سعد الاسکاف دونوں ضعیف ہیں، اور اصبغ بن نباتہ متروک ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا الأصبغ بن نباتة وسعد الأسكاف: متروكان (تقريب: 537،2241) ورميا بالرفض انوار الصحيفه، صفحه نمبر 502