(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابو عبد الصمد , حدثنا مطر الوراق , عن شهر بن حوشب , عن ابي هريرة , قال: كنا نتحدث عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرنا الكماة , فقالوا: هو جدري الارض , فنمي الحديث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" الكماة من المن , والعجوة من الجنة , وهي شفاء من السم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا الْكَمْأَةَ , فَقَالُوا: هُوَ جُدَرِيُّ الْأَرْضِ , فَنُمِيَ الْحَدِيثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ , وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ , وَهِيَ شِفَاءٌ مِنَ السَّمِّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گفتگو کر رہے تھے کہ کھمبی کا ذکر آ گیا، تو لوگوں نے کہا: وہ تو زمین کی چیچک ہے، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھمبی «منّ» میں سے ہے، اور عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے، اور اس میں زہر سے شفاء ہے“۔
رافع بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عجوہ کھجور اور صخرہ یعنی بیت المقدس کا پتھر جنت کی چیزیں ہیں“۔ عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: لفظ «صخرہ» میں نے ان کے منہ سے سن کر یاد کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3598، ومصباح الزجاجة: 1203)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/426، 5/31، 65) (ضعیف)» (مشعمل نے کبھی «الصخرة» کہا اور کبھی «الشجرہ» اس اضطراب کی وجہ سے یہ ضعیف ہے)
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن محمد بن يوسف بن سرح الفريابي , حدثنا عمرو بن بكر السكسكي , حدثنا إبراهيم بن ابي عبلة , قال: سمعت ابا ابي بن ام حرام , وكان قد صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم القبلتين , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" عليكم بالسنى والسنوت , فإن فيهما شفاء من كل داء , إلا السام" , قيل يا رسول الله: وما السام؟ قال:" الموت" , قال عمرو: قال ابن ابي عبلة: السنوت: الشبت , وقال آخرون: بل هو العسل الذي يكون في زقاق السمن , وهو قول الشاعر: هم السمن بالسنوت لا الس فيهم وهم يمنعون جارهم ان يقردا. (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ سَرْحٍ الْفِرْيَابِيُّ , حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ بَكْرٍ السَّكْسَكِيُّ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي عَبْلَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُبَيِّ بْنَ أُمِّ حَرَامٍ , وَكَانَ قَدْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَتَيْنِ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" عَلَيْكُمْ بِالسَّنَى وَالسَّنُّوتِ , فَإِنَّ فِيهِمَا شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ , إِلَّا السَّامَ" , قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: وَمَا السَّامُ؟ قَالَ:" الْمَوْتُ" , قَالَ عَمْرٌو: قَالَ ابْنُ أَبِي عَبْلَةَ: السَّنُّوتُ: الشِّبِتُّ , وقَالَ آخَرُونَ: بَلْ هُوَ الْعَسَلُ الَّذِي يَكُونُ فِي زِقَاقِ السَّمْنِ , وَهُوَ قَوْلُ الشَّاعِرِ: هُمُ السَّمْنُ بِالسَّنُّوتِ لَا أَلْسَ فِيهِمْ وَهُمْ يَمْنَعُونَ جَارَهُمْ أَنْ يُقَرَّدَا.
ابو ابی بن ام حرام رضی اللہ عنہا (وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھ چکے ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ” «تمسنا» اور «سنوت»۱؎ کا استعمال لازم کر لو، اس لیے کہ «سام» کے سوا ان میں ہر مرض کے لیے شفاء ہے“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! «سام» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت“۔ عمرو کہتے ہیں کہ ابن ابی عبلہ نے کہا: «سنوت»: «سویے» کو کہتے ہیں، بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ وہ شہد ہے جو گھی کی مشکوں میں ہوتا ہے، شاعر کا یہ شعر اسی معنی میں وارد ہے۔ «هم السمن بالسنوت لا ألس فيهم وهم يمنعون جارهم أن يقردا» وہ لوگ ملے ہوئے گھی اور شہد کی طرح ہیں ان میں خیانت نہیں، اور وہ لوگ تو اپنے پڑوسی کو بھی دھوکا دینے سے منع کرتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا جعفر بن مسافر , حدثنا السري بن مسكين , حدثنا ذواد بن علبة , عن ليث , عن مجاهد , عن ابي هريرة , قال: هجر النبي صلى الله عليه وسلم فهجرت , فصليت , ثم جلست فالتفت إلي النبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" اشكمت درد؟" , قلت: نعم يا رسول الله , قال:" قم فصل , فإن في الصلاة شفاء". (مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ , حَدَّثَنَا السَّرِيُّ بْنُ مِسْكِينٍ , حَدَّثَنَا ذَوَّادُ بْنُ عُلْبَةَ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: هَجَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَجَّرْتُ , فَصَلَّيْتُ , ثُمَّ جَلَسْتُ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" اشكمت درد؟" , قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" قُمْ فَصَلِّ , فَإِنَّ فِي الصَّلَاةِ شِفَاءً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار دوپہر کو چلے، میں بھی چلا، تو میں نے نماز پڑھی پھر بیٹھ گیا، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا: ” «اشكمت درد» کیا پیٹ میں درد ہے“؟ میں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اٹھو اور نماز پڑھو، اس لیے کہ نماز میں شفاء ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14351، ومصباح الزجاجة: 1205)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/390، 403) (ضعیف)» (سند میں ذوّاد بن علبہ اور لیث بن ابی سلیم دونوں ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ذواد: ضعيف عابد (تقريب: 1844) وتابعه الصلت بن الحجاج وعامة حديثه مناكير (ديوان الضعفاء للذهبي: 1969) وليث بن أبي سليم: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 501
(مرفوع) حدثنا ابو الحسن القطان , حدثنا إبراهيم بن نصر , حدثنا ابو سلمة , حدثنا ذواد بن علبة , فذكر نحوه , وقال فيه:" اشكمت درد" , يعني: تشتكي بطنك بالفارسية , قال ابو عبد الله: حدث به رجل لاهله , فاستعدوا عليه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ , حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا ذَوَّادُ بْنُ عُلْبَةَ , فَذَكَرَ نَحْوَهُ , وَقَالَ فِيهِ:" اشكمت درد" , يَعْنِي: تَشْتَكِي بَطْنَكَ بِالْفَارِسِيَّةِ , قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: حَدَّثَ بِهِ رَجُلٌ لِأَهْلِهِ , فَاسْتَعْدَوْا عَلَيْهِ.
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فارسی میں فرمایا ” «اشكمت درد» کیا تیرے پیٹ میں درد ہے“؟ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک آدمی نے یہ حدیث اپنے خاندان والوں کو سنائی تو انہوں نے (قاضی سے) اس کی شکایت کر دی۔ (حدیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ ہے)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
11. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ
11. باب: ناپاک دواؤں سے علاج کرنے کی ممانعت۔
Chapter: Prohibition of treating illness with foul things
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ حرام سے دوا مت کرو، اور زہر سب حرام ہے اس مقدار میں جس سے مرنے کا اندیشہ ہو، بیہقی نے کہا: اگر یہ دونوں حدیثیں صحیح ہوں، تو مراد خبیث حرام سے مسکر ہے، یعنی جس چیز میں نشہ ہو۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو مار ڈالا، تو وہ اسے جہنم میں بھی پیتا رہے گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا“۔
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”تم مسہل کس چیز کا لیتی تھی“؟ میں نے عرض کیا: «شبرم» سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو بہت گرم ہے“، پھر میں «سنا» کا مسہل لینے لگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی چیز موت سے نجات دے سکتی تو وہ «سنا» ہوتی، «سنا» ہر قسم کی جان لیوا امراض سے شفاء دیتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 30 (2081)، (تحفة الأشراف: 15759)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/369) (ضعیف)» (زرعہ بن عبد الرحمن مجہول اورمولی معمر مبہم راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: ایک گرم اور سخت قسم کا چنے کے برابر دانہ ہوتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مولي لمعمر التيمي ھو عتبة بن عبد اللّٰه ومن طريقه أخرجه الترمذي (2081) وفي سماعه من أسماء نظر وللحديث طريق آخر ضعيف عند الحاكم (200/4،201) فيه ابن جريج عنعن تنبيه: قوله: ”عن معمر التيمي“ وهم في جميع النسخ والصواب عدمه كما في تحفة الأشراف وغيره ومعمر ھذا لم أجد له ترجمة! انوار الصحيفه، صفحه نمبر 501
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور اس سے پہلے میں نے «عذرہ»۱؎(ورم حلق) کی شکایت سے اس کا حلق دبایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آخر کیوں تم لوگ اپنے بچوں کے حلق دباتی ہو؟ تم یہ عود ہندی اپنے لیے لازم کر لو، اس لیے کہ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے، اگر «عذرہ»۱؎(ورم حلق) کی شکایت ہو تو اس کو ناک ٹپکایا جائے، اور اگر «ذات الجنب»۲؎(نمونیہ) کی شکایت ہو تو اسے منہ سے پلایا جائے“۔
وضاحت: ۱؎: «عذرہ»: ایک ورم ہے حلق میں بچوں کو اکثر ہو جاتا ہے، عورتیں دبا کر انگلی سے اس کا علاج کرتی ہیں۔ ۲؎: «ذات الجنب»: ایک بیماری ہے جسے نمونیہ کہا جاتا ہے۔