سیدنا ابولاس خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سفرحج کے لئے زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے کمزور اونٹوں پرسوار کیا۔ تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، ہمارے خیال میں یہ اونٹ ہمیں سواری کا کام نہیں دے سکیں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اونٹ کی کوہان پر ایک شیطان ہوتا ہے تو تم جب ان پر سوار ہونے لگو تو اللہ تعالیٰ کے حُکم کے مطابق اس کا نام لیکر (بسم اللہ پڑھ کر) ان پر سوار ہوجاؤ پھر ان سے خوب اپنی خدمت لو، بیشک (اصل میں) سوار تو اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے (انسان میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ ان طاقتوں جانوروں کو اپنے تابع کر سکے)“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا شبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان جانوروں پر اچھے طریقے سے سواری کرو اور انہیں صیحح سالم حالت میں چھوڑ دو، اور انہیں کرسیاں نہ بناوَ۔“
سیدنا سہل بن حنظلۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر (بھوک کی وجہ سے) اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جب یہ صحتمند ہوں، تو ان پر سواری کرو، اور انہیں صحیح سلامت حالت ہی میں (ذبح کر کے) کھالو۔“
1777. کسی مقصد کے حصول کے لئے دوران سفر سواری کے جانور پر سامان لادنا بھی جائز ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا نام لیکران پر سواری کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں ایک مختصر غیر مفصل روایت کا بیان
سیدنا محمد بن حمزہ بن عمرو سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اونٹ کی کمر پر ایک شیطان ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تم ان پر سواری کرنے لگو تو اللہ کا نام لیکر لیا کرو اور اپنا مقصد وضرورت پوری کرنے سے عاجز مت آؤ (اسے مکمّل کئے بغیر نہ چھوڑو)۔“
1778. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کے جانور پر سامان لادنے اور اپنی حاجت و ضرورت کو پورا کرنے کو اس لئے جائز کیا ہے کیونکہ اللہ تعالی اس کا نگہبان ہوتا ہے اور اس کی رحم ہی سے وہ سواری کرتا ہے۔ اور اس کی سواری کو قوت و طاقت ملتی ہے (کہ وہ سامان سمیت سوار کو لیکر چلتی ہے) تاکہ سوار اپنی ضرورت و مقصد کو پورا کرلے
وان لا تقصر على طلب حاجة، إذ الله- عز وجل- يراقبه، ورحمته تحمل الراكب بان يقوي المركوب ليقضي الراكب حاجته وَأَنْ لَا تُقْصَرَ عَلَى طَلَبِ حَاجَةٍ، إِذِ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- يُرَاقِبُهُ، وَرَحْمَتُهُ تَحْمِلُ الرَّاكِبَ بِأَنْ يُقَوِّيَ الْمَرْكُوبَ لِيَقْضِيَ الرَّاكِبُ حَاجَتَهُ
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني ابن ابي الزناد ، عن ابيه ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن على ذروة كل بعير شيطانا فامتهنوهن بالركوب، وإنما يحمل الله" ، قال ابو بكر: في خبر معاذ بن انس الجهني، عن ابيه دلالة على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اباح الحمل عليها في السير طلبا لقضاء الحاجة إذا كانت الدابة المركوبة محتملة للحمل عليها، لانه قال:" اركبوها سالمة، وابتدعوها سالمة"، وكذلك في خبر سهل اركبوها صالحة وكلوها صالحة، فإذا كان الاغلب من الدواب المركوبة انها إذا حمل عليها في المسير عطبت لم يكن لراكبها الحمل عليها..... النبي صلى الله عليه وسلم قد اشترط ان تركب سالمة، ويشبه ان يكون معنى قوله، اركبوها سالمة اي ركوبا تسلم منه، ولا تعطب، والله اعلمحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ عَلَى ذُرْوَةِ كُلِّ بَعِيرٍ شَيْطَانًا فَامْتَهِنُوهُنَّ بِالرُّكُوبِ، وَإِنَّمَا يَحْمِلُ اللَّهُ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَبَاحَ الْحَمْلَ عَلَيْهَا فِي السَّيْرِ طَلَبًا لِقَضَاءِ الْحَاجَةِ إِذَا كَانَتِ الدَّابَّةُ الْمَرْكُوبَةُ مُحْتَمِلَةٌ لِلْحَمْلِ عَلَيْهَا، لأَنَّهُ قَالَ:" ارْكَبُوهَا سَالِمَةً، وَابْتَدِعُوهَا سَالِمَةً"، وَكَذَلِكَ فِي خَبَرِ سَهْلٍ ارْكَبُوهَا صَالِحَةً وَكُلُوهَا صَالِحَةً، فَإِذَا كَانَ الأَغْلَبُ مِنَ الدَّوَابِّ الْمَرْكُوبَةِ أَنَّهَا إِذَا حُمِلَ عَلَيْهَا فِي الْمَسِيرِ عَطِبَتْ لَمْ يَكُنْ لِرَاكِبِهَا الْحَمْلُ عَلَيْهَا..... النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ اشْتَرَطَ أَنْ تُرْكَبَ سَالِمَةً، وَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ مَعْنَى قَوْلِهِ، ارْكَبُوهَا سَالِمَةً أَيْ رُكُوبًا تَسْلَمُ مِنْهُ، وَلا تَعْطِبُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک ہر اونٹ کی کوہان پر ایک شیطان ہوتا ہے۔ تو ان سے خوب خدمت لو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی سوار کراتا ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ کی اپنے باپ سے روایت میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر سواری کے جانور پر سامان لادنے کی اجازت دی ہے تاکہ سوار اپنا مقصد پورا کرسکے اور اپنی حاجت پا سکے، یہ اجازت اس وقت دی ہے جب کہ سواری کا جانور بوجھ اُٹھانے کے قابل ہو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم جانور پر سواری اُس وقت کرو جب وہ صحت مند ہو اور اسے صحیح سلامت حالت ہی میں چھوڑ دو (یہ نہیں کہ اسے مرنے کے قریب کرکے ہی چھوڑو)“ اسی طرح سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ”تم ان جانوروں پر سواری کرو جب کہ وہ سواری کے قابل ہوں اور ان کا گوشت کھا لو جب کہ ابھی وہ صحت مند اور گوشت کھانے کے قابل ہوں۔“ لہٰذا جب غالب امکان یہ ہو کہ سواری کے جانور پر دوران سفر میں سامان لادا جائے تو وہ تھک ہار جائیگا تو پھر سوار اس پر سامان نہیں لاد سکتا۔۔۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط لگائی ہے کہ اس کے صحیح و سالم ہوتے ہوئے سواری کی جائے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے فرمان: ”ان کے صحت مند ہوتے ہوئے ان پر سواری کرو“ کا مطلب یہ ہو کہ ایسی حالت میں سواری کرو جس میں اونٹ سالم رہے اور تھک ہار کر سفر سے عاجز نہ آجائے۔ واللہ اعلم
1779. اس بات کی دلیل کا بیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سواری جانور پر سامان لادنے) اور اپنی حاجت و ضرورت کو پانے کی رخصت اس وقت دی ہے جب مسافر ہر منزل پر بغیر رکے نہ گزرے اور علاقے سرسبز و شاداب ہو (تاکہ جانور چارہ کھا سکے اور سفر کے لئے تازہ دم ہو سکے)
والامر بإمكان الركاب عن الرعي في الخصب إن صح الخبر؛ فإن في القلب من سماع الحسن من جابر وَالْأَمْرِ بِإِمْكَانِ الرِّكَابِ عَنِ الرَّعْيِ فِي الْخِصْبِ إِنْ صَحَّ الْخَبَرُ؛ فَإِنَّ فِي الْقَلْبِ مِنْ سَمَاعِ الْحَسَنِ مِنْ جَابِرٍ
سوار کو یہ حُکم ہے کہ سواری کو سر سبز علاقے میں چرنے کا موقع دے۔ بشرطیکہ یہ حدیث صحیح ہو۔ کیونکہ امام حسن بصری کے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سماع کرنے بارے میں میرا دل مطمئن نہیں ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرنے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سرسبز و شاداب علاقے میں سفر کرو تو اپنی سواریوں کو چرنے کا موقع دو اور منازل پر رکے بغیر مت گزرو (تا کہ جانور آرام کرلیں اور پانی وغیرہ پی لیں)۔ اور جب تم خشک علاقوں میں سفر کرو تو تیز رفتاری سے گزر جاؤ اور رات کے وقت سفر کرو کیونکہ رات کے وقت زیادہ سفر طے ہوتا ہے۔ اور جب غول شیاطین رنگ بدل بدل کر تمہارے سامنے نمودار ہوں تو تم جلدی سے نماز پڑھ لو۔ (اور رات کے وقت) بڑے راستوں پر آرام کے لئے ہرگز نہ اترو اور نہ وہاں نماز پڑھو کیونکہ بڑے راستے سانپوں اور درندوں کی پناہ گاہ ہیں۔ اور ایسے راستوں پر قضائے حاجت بھی نہ کرو کیونکہ یہ کام لوگوں کی لعنت کا باعث بنتا ہے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سرسبز علاقہ ہو تو سواریوں کو چارہ کھانے کا موقع دیدو اور ٹھہرنے کے مخصوص مقامات پر ضرور رکو۔ اور اگر خشک علاقہ آجائے تو تیز رفتاری سے وہاں سے نکل جاؤ۔ اور رات کے وقت سفر کرو کیونکہ رات کے وقت زمین لپیٹ دی جاتی ہے (سفر زیادہ طے ہوتا ہے) اور (آرام کے لئے) راستوں کے عین درمیان میں مت بیٹھو کیونکہ (رات کے وقت) وہ سانپوں اور درندوں کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ اور جب تم غول شیطان کو دیکھو تو اذان پڑھو۔“ امام محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ امام علی بن عبداللہ، امام حسن بصری رحمه الله کے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سماع کا انکار کرتے تھے۔