ومنع [249- ا] الشياطين إياه منها بتخويف الفقير إن صح الخبر، فإني لا اقف هل سمع الاعمش من ابن بريدة ام لا؟ قال الله- عز وجل-: [الشيطان يعدكم الفقر ويامركم بالفحشاء] الآية [البقرة: 268] وَمَنْعَ [249- أ] الشَّيَاطِينُ إِيَّاهُ مِنْهَا بِتَخْوِيفِ الْفَقِيرِ إِنْ صَحَّ الْخَبَرُ، فَإِنِّي لَا أَقِفُ هَلْ سَمِعَ الْأَعْمَشُ مِنِ ابْنَ بُرَيْدَةَ أَمْ لَا؟ قَالَ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ-: [الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ] الْآيَةَ [الْبَقَرَةِ: 268]
اور شیاطین کا اسے فقر و فاقہ کا خوف دلاکر صدقے سے منع کرنے کا بیان۔ اگر یہ روایت صحیح ہو۔ کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ امام اعمش نے ابن بریدہ سے سنا ہے یا نہیں؟ اللہ تعالی فرماتا ہے «الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ» [ سورة البقرة: 268 ]”شیطان تمھیں تنگ دستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حُکم دیتا ہے۔“
جناب ابن بریدہ اپنے والد گرامی سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”کوئی شخص اس وقت تک کسی بھی چیز کا صدقہ نہیں کر سکتا حتّیٰ کہ اس کو ستّر شیطانوں کے جبڑوں سے نہ چھڑالے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» [ سورة آل عمران: 92 ]”تم نیکی کو ہرگز نہیں پا سکو گے حتّیٰ کہ اپنی پسندیدہ چیز میں سے خرچ کرو۔“ اور یہ فرمان «مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا» [ سورة البقرة: 245 ]”کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے۔“ تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، فلاں فلاں جگہ پر واقع میرا باغ اللہ کے لئے صدقہ ہے اور اگر میں اس کو خفیہ رکھنے کی استطاعت رکھتا تو میں اس کا اعلان نہ کرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے اپنے قریبی فقیر رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔“
وحدثنا ابو موسى ، حدثنا سهل بن يوسف ، عن حميد ، عن انس ، قال: لما نزلت هذه الآية، فذكر نحوه عن النبي صلى الله عليه وسلم.وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کی۔
1710. اس بات کی دلیل کا بیان کہ کسی زمین کے صدقہ ہونے کی گواہی دینا جائز ہے جبکہ گواہوں کو صدقہ کی گئی زمین کا علم ہو اگرچہ اس کی تعیین و تحدید نہ بھِی ہو۔
إذ العقار مشهور بالمتصدق منسوب إليه مستغن بشهرته ونسبته إلى المتصدق به عن ذكر تحديده، والدليل على إباحة الحاكم احتمال الشهادة إذا شهد عليها. إِذِ الْعَقَارُ مَشْهُورٌ بِالْمُتَصَدِّقِ مَنْسُوبٌ إِلَيْهِ مُسْتَغْنٍ بِشُهْرَتِهِ وَنِسْبَتِهِ إِلَى الْمُتَصَدِّقِ بِهِ عَنْ ذِكْرِ تَحْدِيدِهِ، وَالدَّلِيلُ عَلَى إِبَاحَةِ الْحَاكِمِ احْتِمَالَ الشَّهَادَةِ إِذَا شَهِدَ عَلَيْهَا.
یہ اس وقت ہوگا جب زمین صدقہ کرنے والے شخص کی طرف منسوب ہو اور اسی کی ملکیت مشہور ہو، اس کی طرف نسبت اور شہرت کی بنا پر تحدید کی بھی ضرورت نہیں ہوگی اور اس بات کی دلیل کہ جب ایسی زمین کے متعلق حاکم کو گواہ بنایا جائے تو وہ گواہ بن سکتا ہے
حدثنا محمد بن ابي صفوان الثقفي ، حدثنا بهز ، حدثنا حماد ، عن ثابت ، عن انس ، قال: لما نزلت هذه الآية: لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، قال ابو طلحة: ارى ربنا يسالنا اموالنا، فاشهدك يا رسول الله، إني قد جعلت ارضي بيرحى لله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اجعلها في قرابتك" ، قال: فجعلها في حسان بن ثابت، وابي بن كعبحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَرَى رَبَّنَا يَسْأَلُنَا أَمْوَالَنَا، فَأُشْهِدُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي بَيْرَحَى لِلَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ" ، قَالَ: فَجَعَلَهَا فِي حَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» [ سورة آل عمران: 92 ]”تم نیکی کو ہر گزنہ پا سکو گے حتّیٰ کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ کرو۔“ تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرے خیال میں ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے لہٰذا اے اللہ کے رسول، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے بیرحاء کی اپنی زمین اللہ کے لئے دیدی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم وہ زمین اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔“ تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ زمین سیدنا حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما میں تقسیم کردی۔
1711. عورت کا اپنے خاوند اور بچّوں کو نفلی صدقہ دینا دور کے رشتہ داروں کو دینے کی نسبت مستحب ہے کیونکہ دور کے رشتہ داروں کی بجائے وہ اس صدقہ کے زیادہ حقدار ہیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد فارغ ہوئے تو مسجد میں عورتوں کے پاس تشریف لائے اور اُن کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت، میں نے کم عقل اور ناقص دین والیوں میں تم سے بڑھ کر کسی کو عقلمند شخص کی عقل ختم کرنے والا نہیں دیکھا۔ اور بیشک میں نے دیکھا ہے کہ تمھاری اکثریت قیامت کے دن جہنّمی ہوگی لہٰذا حسب طاقت اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔“ عورتوں میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ بھی تھیں۔ وہ واپس سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنایا اور اپنا زیور لیکر چل دیں۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ زیور لیکر کہاں جارہی ہو؟ کہتی ہیں کہ میں اس کو صدقہ کرکے اللہ اور اس کے رسول کا تقرب حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تمھارا بھلا ہو، لاؤ مجھ پر اور میرے بچّوں پر صدقہ کردو ہم اس کے مستحق ہیں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں حتّیٰ کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر پوچھ لوں۔ لہٰذا وہ گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ زینب اجازت طلب کر رہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کونسی زینب اجازت مانگ رہی ہے؟“ جواب دیا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دو۔“ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں نے صدقے کے بارے میں آپ کا فرمان سنا تو میں نے واپس جا کر ابن مسعود کو وہ سنایا، پھر میں نے اپنا زیور لیا اور اسے اللہ اور اس کے رسول کے تقرب کے حصول کے لئے صدقہ کرنا چاہا اس امید پر کہ اللہ مجھے اہل جہنّم سے نجات دیدے۔ تو ابن مسعود نے مجھ سے کہا کہ تم یہ زیور مجھے اور میرے بچّوں کو صدقہ دے دو کیونکہ اس کے حقدار ہیں۔ تو میں نے کہا کہ اچھا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے ابن مسعود اور اس کے بچّوں پر صدقہ کردو وہ اس کے مستحق ہیں۔“
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔ تمھارا خاوند اور تمہارے بچّے تمہارے صدقے کے زیادہ حقدار ہیں۔“ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے جن بچّوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان بچّوں پر صدقہ کردو وہ سیدنا ابن مسعود کے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے بچّے تھے۔ (یعنی وہ ان دونوں کے حقیقی بیٹے تھے)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حُکم دیا اور فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت، صدقہ کرو خواہ اپنے زیور میں سے ہی سہی۔“ وہ فرماتی ہیں کہ میں عبداللہ اور اپنے زیر پرورش بچّوں پر خرچ کرتی تھی تو میں نےسیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر آؤ کہ کیا میرا تم پر خرچ کرنا صدقے سے مجھے کفایت کریگا؟ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ تم خود ہی آپ سے پوچھ کر آؤ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور آپ کے دروازے پر بیٹھ گئی کیونکہ آپ کی ذات اقدس بڑی با رعب تھی (کوئی بھی شخص براہ راست جرأت نہ کرتا تھا) تو میں نے ایک انصاری عورت کو دیکھا جو میری طرح کا مسئلہ پوچھنے آئی تھی۔ تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھو مگر ہمارے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتانا کہ ہم کون ہیں؟ تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ دو عورتیں اپنے خاوندوں اور زیر پرورش اپنے بچّوں پر خرچ کرتی ہیں، کیا ان کا یہ خرچ صدقے سے کفایت کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”یہ دو عورتیں کون ہیں؟“ انہوں نے عرض کیا کہ ایک سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہے اور دوسری ایک انصاری عورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کونسی زینب؟“ انہوں نے بتایا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود کی زوجہ محترمہ اور ایک انصاری خاتون ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (انہیں یہ خرچ کرنا صدقے سے کفایت کریگا) انہیں دہرا اجر ملیگا۔ ایک قرابت داری کا اجر اور دوسرا صدقے کا اجر۔“