صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
حدیث نمبر: 1586
Save to word اعراب
نا محمد بن معمر القيسي ، نا ابو عامر ، وحدثنا محمد بن معمر ايضا، حدثنا حرمي بن عمارة ، عن زربي مولى لآل المهلب، قال: سمعت انس بن مالك ، يقول: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم جلوسا، فقال:" إن الله اعطاني خصالا ثلاثة"، فقال رجل من جلسائه: وما هذه الخصال يا رسول الله؟ قال:" اعطاني صلاة في الصفوف، واعطاني التحية، إنها لتحية اهل الجنة، واعطاني التامين، ولم يعطه احدا من النبيين قبل، إلا ان يكون الله اعطى هارون، يدعو موسى ويؤمن هارون" نا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ الْقَيْسِيُّ ، نا أَبُو عَامِرٍ ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ أَيْضًا، حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ ، عَنْ زَرْبِيٍّ مَوْلًى لآلِ الْمُهَلَّبِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسًا، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ أَعْطَانِي خِصَالا ثَلاثَةً"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: وَمَا هَذِهِ الْخِصَالُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَعْطَانِي صَلاةً فِي الصُّفُوفِ، وَأَعْطَانِي التَّحِيَّةَ، إِنَّهَا لَتَحِيَّةُ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَعْطَانِي التَّأْمِينَ، وَلَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا مِنَ النَّبِيِّينَ قَبْلُ، إِلا أَنْ يَكُونَ اللَّهُ أَعْطَى هَارُونَ، يَدْعُو مُوسَى وَيُؤَمِّنُ هَارُونُ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے تین خصوصی چیزیں عطا فرمائی ہیں، حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، وہ کون سی چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعا لیٰ نے مجھے صفیں بنا کر نماز پڑھنی عطا کی ہے اور مجھے سلام سے نوازاہے اور بلاشبہ وہ اہل جنّت کا تحفہ اور سلام ہوگا اور مجھے آمین عطا کی ہے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں ہوئی۔ سوائے ہارون علیہ السلام کے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں آمین عطا کی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
1045. (94) بَابُ السُّنَّةِ فِي جَهْرِ الْإِمَامِ بِالْقِرَاءَةِ، وَاسْتِحْبَابِ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ جَهْرًا بَيْنَ الْمُخَافَتَةِ، وَبَيْنَ الْجَهْرِ الرَّفِيعِ.
1045. امام کے جہری قراءت کرنے میں سنّت کا بیان۔ بہت زیادہ بلند آواز اور بالکل پست آواز کے درمیان آواز سے قراءت کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1587
Save to word اعراب
نا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، واحمد بن منيع ، قالا: حدثنا هشيم ، اخبرنا ابو بشر ، عن سعيد ، عن ابن عباس ، في قوله عز وجل: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 قال:" نزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، فكان إذا صلى باصحابه جهر بالقرآن"، وقال الدورقي:" رفع صوته بالقرآن"، وقالا:" فكان المشركون إذا سمعوا، سبوا القرآن، ومن انزله، ومن جاء به، فقال الله لنبيه صلى الله عليه وسلم: ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 اي بقراءتك، فيسمع المشركون، فيسبون القرآن. ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك، فلا يسمعون، وابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110" . قال الدورقي:" عن اصحابك، فلا تسمعهم". قال ابو بكر: هذا الخبر من الجنس الذي اعلمت في كتاب الإيمان ان الاسم قد يقع على بعض اجزاء الشيء ذي الاجزاء والشعب، قد اوقع الله عز وجل اسم الصلاة على القراءة فيها فقط، ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110، اراد القراءة فيها، وليس الصلاة كلها، القراءة فيها فقطنا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 قَالَ:" نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ جَهَرَ بِالْقُرْآنِ"، وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ:" رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ"، وَقَالا:" فَكَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا سَمِعُوا، سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّونَ الْقُرْآنَ. وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلا يَسْمَعُونَ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110" . قَالَ الدَّوْرَقِيُّ:" عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلا تُسْمِعُهُمْ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي كِتَابِ الإِيمَانِ أَنَّ الاسْمَ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِ أَجْزَاءِ الشَّيْءِ ذِي الأَجْزَاءِ وَالشُّعَبِ، قَدْ أَوْقَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ اسْمَ الصَّلاةِ عَلَى الْقِرَاءَةِ فِيهَا فَقَطْ، وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110، أَرَادَ الْقِرَاءَةَ فِيهَا، وَلَيْسَ الصَّلاةَ كُلَّهَا، الْقِرَاءَةُ فِيهَا فَقَطْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تفسیر میں فرماتے ہیں «‏‏‏‏وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا» ‏‏‏‏ [ سورة الإسراء: 110 ] اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں، نہ بالکل پست آواز سے۔ یہ آیت مبارکہ اُس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں چھپے ہوئے تھے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن مجید پڑھتے۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے وقت اپنی آواز بلند کرتے۔ لہٰذا جب مشرکین قرآن کی تلاوت سنتے تو قرآن مجید کو گالیاں دیتے، اس کے نازل کرنے والے اور اُسے لانے والے کو سب و شتم کرتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حُکم دیا «‏‏‏‏وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ» ‏‏‏‏ اپنی قراءت کو بلند آواز سے نہ کریں۔ کہ مشرکین اسے سن کو قرآن مجید کو گالیاں دیں «‏‏‏‏وَلَا تُخَافِتْ بِهَا» ‏‏‏‏ اور نہ اتنی پست آواز میں قراءت کریں کہ آپ کے صحابہ کرام سن نہ سکیں۔ «‏‏‏‏وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا» ‏‏‏‏ اور ان دونوں کے درمیانی راہ اختیار کریں۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے اتنی پست آواز نہ رکھیں کہ آپ اُنہیں قرأت سنا نہ سکیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اس جنس کے متعلق ہے جس کے بارے میں کتاب الایمان میں بیان کرچکا ہوں کہ کبھی اسم کا اطلاق مختلف اجزاء اور شاخوں والی چیز کے کسی ایک جزء یا شاخ پر بھی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے، اس روایت میں، نماز کا اطلاق صرف قراءت پر کیا ہے «‏‏‏‏وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ» ‏‏‏‏ اپنی قراءت کو بلند نہ کریں۔ اس میں صلاۃ سے مراد صرف قراءت ہے پوری نماز مراد نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1046. (95) بَابُ ذِكْرِ مُخَافَتَةِ الْإِمَامِ الْقِرَاءَةَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَإِبَاحَةِ الْجَهْرِ بِبَعْضِ الْآيِ أَحْيَانًا فِيمَا يُخَافِتُ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَاةِ
1046. نماز ظہر اور عصر میں امام کا پوشیدہ آواز سے قراءت کرنے کا بیان کبھی کبھار سری نماز میں آیت کا کچھ حصّہ بلند آواز سے پڑھنا جائز ہے
حدیث نمبر: 1588
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، نا يحيى ، نا هشام ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يقرا في الظهر، وربما اسمعنا الآية احيانا، ويطيل الركعة الاولى" . قال ابو بكر: في خبر زيد بن ثابت: كان النبي صلى الله عليه وسلم" يحرك شفتيه"، وفي خبر خباب: كنا نعرف قراءة النبي صلى الله عليه وسلم" باضطراب لحيته"، دليل على انه كان يخافت بالقراءة في الظهر والعصر. خرجت خبرهما في كتاب الصلاة في ابواب القراءةنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نا يَحْيَى ، نا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ، وَرُبَّمَا أَسْمَعَنَا الآيَةَ أَحْيَانًا، وَيُطِيلُ الرَّكْعَةَ الأُولَى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ"، وَفِي خَبَرِ خَبَّابٍ: كُنَّا نَعْرِفُ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ"، دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ يُخَافِتُ بِالْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ. خَرَّجْتُ خَبَرَهُمَا فِي كِتَابِ الصَّلاةِ فِي أَبْوَابِ الْقِرَاءَةِ
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں (سری، مخفی) قراءت کرتے تھے اور بعض اوقات ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت کو طویل ادا کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پنے ہونٹ مبارک ہلاتے تھے۔ اور سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کو آپ کی ڈاڑھی کی حرکت سے جانتے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ظہر اور عصر کی نمازوں میں مخفی قراءت کرتے تھے۔ میں نے دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کی روایات کو کتاب الصلاۃ کے ابواب القراءۃ میں بیان کیا ہے .

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1047. (96) بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ
1047. نمازِ مغرب میں امام کا بلند آواز سے قراءت کرنا
حدیث نمبر: 1589
Save to word اعراب
نا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، قال: سمعت الزهري ، يقول: حدثني محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه. ح وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا ابن عيينة ، وحدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي ، حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن محمد بن جبير بن مطعم ، عن ابيه ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم " يقرا في المغرب بالطور" نا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ. ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ"
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورة الطور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1048. (97) بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ
1048. نمازِ عشاء میں امام کا جہری قراءت کرنا
حدیث نمبر: 1590
Save to word اعراب
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عشاء میں سورة التين «‏‏‏‏وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ» ‏‏‏‏ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر اور خو بصور قراءت کسی کی نہیں سنی۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1049. (98) بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ
1049. نمازِ فجر میں امام کا بلند آواز سے قراءت کرنا
حدیث نمبر: 1591
Save to word اعراب
نا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، عن زياد بن علاقة ، فسمع قطبة ، يقول: وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا ابن عيينة ، عن ابن علاقة ، وحدثنا احمد بن عبدة ، نا سفيان بن عيينة ، عن زياد بن علاقة ، عن عمه قطبة بن مالك ، سمع النبي صلى الله عليه وسلم " يقرا في الصبح بسورة ق فسمعته يقرا: والنخل باسقات لها طلع نضيد سورة ق آية 10" . وقال مرة: باسقات لها طلع نضيد سورة ق آية 10. وقال عبد الجبار: قال:" صليت خلف النبي صلى الله عليه وسلم فسمعته يقول: والنخل باسقات سورة ق آية 10"نا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ ، فَسَمِعَ قُطْبَةَ ، يَقُولُ: وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ ابْنِ عِلاقَةَ ، وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ ، عَنْ عَمِّهِ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ ، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ بِسُورَةِ ق فَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ سورة ق آية 10" . وَقَالَ مَرَّةً: بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ سورة ق آية 10. وَقَالَ عَبْدُ الْجَبَّارِ: قَالَ:" صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ سورة ق آية 10"
سیدنا قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز صبح میں سورۃ ق کی قراءت کرتے ہوئے سنا۔ (وہ کہتے ہیں) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے «‏‏‏‏وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ» ‏‏‏‏ اور کھجور کے بلند و بالا درخت پیدا کیے جن کے شگوفے تہ بہ تہ ہیں۔ اور ایک مرتبہ یہ الفاظ روایت کیے «‏‏‏‏بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ» ‏‏‏‏ جناب عبدالجبار کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا «‏‏‏‏وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ» ‏‏‏‏۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1050. (99) بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُفَسِّرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا كَانَ يَجْهَرُ فِي الْأُولَيَيْنِ مِنَ الْمَغْرِبِ، وَالْأُولَيَيْنِ مِنَ الْعِشَاءِ، لَا فِي جَمِيعِ الرَّكَعَاتِ كُلِّهَا،
1050. یہ تفسیر کرنے والی روایت کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔ آپ ان کی تمام رکعات میں بلند آواز سے قراءت نہیں کرتے تھے
حدیث نمبر: Q1592
Save to word اعراب
من المغرب والعشاء إن ثبت الخبر مسندا، ولا اخال، وإنما خرجت هذا الخبر في هذا الكتاب إذ لا خلاف بين اهل القبلة في صحة متنه، وإن لم يثبت الخبر من جهة الإسناد الذي نذكره. مِنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ مُسْنَدًا، وَلَا أَخَالُ، وَإِنَّمَا خَرَّجْتُ هَذَا الْخَبَرَ فِي هَذَا الْكِتَابِ إِذْ لَا خِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ فِي صِحَّةِ مَتْنِهِ، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتِ الْخَبَرُ مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ الَّذِي نَذْكُرُهُ.

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1592
Save to word اعراب
نا زكريا بن يحيى بن ابان ، نا عمرو بن الربيع بن طارق ، نا عكرمة بن إبراهيم ، نا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، حدثني انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بينا انا بين الركن، والمقام إذ سمعته يقول: احدا يكلمه"، فذكر حديث المعراج بطوله، وقال:" ثم نودي ان لك بكل صلاة عشرا، قال: فهبطت، فلما زالت الشمس عن كبد السماء، نزل جبريل في صف من الملائكة، فصلى به، وامر النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه، فصفوا خلفه، فائتم بجبريل، وائتم اصحاب النبي بالنبي صلى الله عليه وسلم، فصلى بهم اربعا، يخافت القراءة، ثم تركهم، حتى تصوبت الشمس وهي بيضاء نقية، نزل جبريل فصلى بهم اربعا يخافت فيهن القراءة، فائتم النبي صلى الله عليه وسلم بجبريل، وائتم اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالنبي صلى الله عليه وسلم، ثم تركهم، حتى إذا غابت الشمس، نزل جبريل، فصلى بهم ثلاثا، يجهر في ركعتين، ويخافت في واحدة، ائتم النبي صلى الله عليه وسلم بجبريل، وائتم اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالنبي صلى الله عليه وسلم، إذا غاب الشفق نزل جبريل فصلى بهم اربع ركعات: يجهر في ركعتين، ويخافت في اثنين، ائتم النبي صلى الله عليه وسلم بجبريل، وائتم اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالنبي عليه السلام، فباتوا حتى اصبحوا، نزل جبريل فصلى بهم ركعتين يطيل فيهن القراءة" . قال ابو بكر: هذا الخبر رواه البصريون، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، عن مالك بن صعصعة قصة المعراج، وقالوا في آخره قال الحسن:" فلما زالت الشمس نزل جبريل"، إلى آخره، فجعل الخبر من هذا الموضع في إمامة جبريل مرسلا، عن الحسن، وعكرمة بن إبراهيم، ادرج هذه القصة في خبر انس بن مالك. وهذه القصة غير محفوظة عن انس، إلا ان اهل القبلة لم يختلفوا ان كل ما ذكر في هذا الخبر من الجهر والمخافتة من القراءة في الصلاة فكما ذكر في هذا الخبرنا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبَانَ ، نا عَمْرُو بْنُ الرَّبِيعِ بْنِ طَارِقٍ ، نا عِكْرِمَةُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، نا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَا أَنَا بَيْنَ الرُّكْنِ، وَالْمَقَامِ إِذْ سَمِعَتْهُ يَقُولُ: أَحَدًا يُكَلِّمُهُ"، فَذَكَرَ حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ بِطُولِهِ، وَقَالَ:" ثُمَّ نُودِيَ أَنَّ لَكَ بِكُلِّ صَلاةٍ عَشْرًا، قَالَ: فَهَبَطْتُ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ عَنْ كَبِدِ السَّمَاءِ، نَزَلَ جِبْرِيلُ فِي صَفٍّ مِنَ الْمَلائِكَةِ، فَصَلَّى بِهِ، وَأَمَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ، فَصَفُّوا خَلْفَهُ، فَائْتَمَّ بِجِبْرِيلَ، وَائْتَمَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِهِمْ أَرْبَعًا، يُخَافِتُ الْقِرَاءَةِ، ثُمَّ تَرَكَهُمْ، حَتَّى تَصَوَّبَتِ الشَّمْسُ وَهِيَ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ، نَزَلَ جِبْرِيلُ فَصَلَّى بِهِمْ أَرْبَعًا يُخَافِتُ فِيهِنَّ الْقِرَاءَةَ، فَائْتَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِبْرِيلَ، وَائْتَمَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَرَكَهُمْ، حَتَّى إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، نَزَلَ جِبْرِيلُ، فَصَلَّى بِهِمْ ثَلاثًا، يَجْهَرُ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَيُخَافِتُ فِي وَاحِدَةٍ، ائْتَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِبْرِيلَ، وَائْتَمَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا غَابَ الشَّفَقُ نَزَلَ جِبْرِيلُ فَصَلَّى بِهِمْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ: يَجْهَرُ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَيُخَافِتُ فِي اثْنَيْنِ، ائْتَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِبْرِيلَ، وَائْتَمَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلامُ، فَبَاتُوا حَتَّى أَصْبَحُوا، نَزَلَ جِبْرِيلُ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ يُطِيلُ فِيهِنَّ الْقِرَاءَةَ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ رَوَاهُ الْبَصْرِيُّونَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ قِصَّةَ الْمِعْرَاجِ، وَقَالُوا فِي آخِرِهِ قَالَ الْحَسَنُ:" فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ جِبْرِيلُ"، إِلَى آخِرِهِ، فَجَعَلَ الْخَبَرَ مِنْ هَذَا الْمَوْضِعِ فِي إِمَامَةِ جِبْرِيلَ مُرْسَلا، عَنِ الْحَسَنِ، وَعِكْرِمَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أَدْرَجَ هَذِهِ الْقِصَّةَ فِي خَبَرِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. وَهَذِهِ الْقِصَّةُ غَيْرُ مَحْفُوظَةٍ عَنْ أَنَسٍ، إِلا أَنَّ أَهْلَ الْقِبْلَةِ لَمْ يَخْتَلِفُوا أَنَّ كُلَّ مَا ذُكِرَ فِي هَذَا الْخَبَرِ مِنَ الْجَهْرِ وَالْمُخَافَتَةِ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاةِ فَكَمَا ذُكِرَ فِي هَذَا الْخَبَرِ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اثناء میں کہ میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان (سورہا) تھا جب میں نے کسی کو بات کرتے ہوئے سنا۔ پھر معراج والی مکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا: پھر اعلان کیا گیا بیشک آپ کو ہر نماز کے بدلے دس گنا ثواب ملے گا۔ فرمایا: پھر میں نیچے اُتر آیا۔ پھر جب سورج آسمان کے درمیان سے ڈھل گیا تو جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک صف کے ساتھ نازل ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حُکم دیا تواُنہوں نے آپ کے پیچھے صف بنالی ـ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کی اقتدا کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار رکعات نماز پڑھائی اور آہستہ آواز سے قراءت کی، پھر صحابہ کو چھوڑدیا۔ یہاں تک کہ سورج جھک گیا مگر ابھی وہ روشن اور سفید تھا (زرد نہیں ہوا تھا)۔ جبرائیل علیہ سلام نازل ہوئے اور انہیں چار رکعات پڑھائیں جن میں پوشیدہ قراءت کی۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کی اقتدا کی اور نبی کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی۔ پھر انہیں سورج غروب ہونے تک چھوڑ دیا - پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہیں تین رکعات پڑھائیں، پہلی دو رکعتوں میں جہری قراءت کی اور تیسری رکعت میں پوشیدہ قراءت کی - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام اور صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ پھر جب شفق غائب ہوگئی جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہیں چار رکعات پڑھائیں۔ دو رکعات میں جہری اور دو رکعات میں سری قراءت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کی اقتداء کی اور نبی کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ پھر لوگ سوگئے حتّیٰ کہ صبح ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام نا زل ہوئے اور انہیں دو رکعات پڑھائیں اور ان میں طویل قراءت کی۔ امام ابوبکر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ بصری راویوں نی یہ حدیث سعید اور انہوں نے حضرت قتادہ کے واسطے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے استاد سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے واقعہ معراج میں بیان کی ہے۔ روایت کے آخر میں وہ کہتے ہیں کہ امام حسن بصری فرماتے ہیں، پھر جب سورج ڈھل گیا تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے۔۔۔۔ آخر تک۔ اسی طرح انہوں نے اس مقام سے آگے کی روایت حضرت حسن بصری رحمه الله سے مرسل بیان کی ہے۔ اور عکرمہ بن ابراہیم نے یہ قصّہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں درج کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ واقعات سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی صورت میں محفوظ اور ثابت نہیں ہے۔ مگر تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے، کہ نماز میں جہری اور سری قراءت کا جو تذکرہ اس حدیث میں آیا ہے وہ اسی طرح درست ہے جیسے اس حدیث میں مذکور ہوا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
1051. (100) بَابُ الْأَمْرِ بِمُبَادَرَةِ الْإِمَامِ الْمَأْمُومَ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
1051. امام کو مقتدی سے پہلے رکوع و سجود کرنے کا حُکم کا بیان
حدیث نمبر: 1593
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، نا يحيى بن سعيد ، نا هشام بن ابي عبد الله ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله . ح وحدثنا بندار ، حدثنا ابن ابي عدي . ح وحدثنا هارون بن إسحاق الهمداني ، حدثنا عبدة ، كلاهما عن سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، وهذا حديث عبدة، قال: صلى بنا ابو موسى الاشعري، فلما جلس في آخر صلاته، قال رجل منهم: اقرت الصلاة بالبر والزكاة، فلما انفتل ابو موسى الاشعري ، قال: ايكم القائل كلمة كذا وكذا؟ اما تدرون ما تقولون في صلاتكم؟ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا، وعلمنا صلاتنا، فقال: " إذا صليتم فاقيموا صفوفكم، وليؤمكم احدكم، فإذا كبر الإمام كبروا، وإذا قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين، فقولوا: آمين يحبكم الله، وإذا كبر وركع فكبروا واركعوا ؛ فإن الإمام يركع قبلكم، ويرفع قبلكم"، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك، فإذا كبر وسجد فاسجدوا ؛ فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم" . زاد بندار: فقال نبي الله:" فتلك بتلك". قال ابو بكر: يريد ان الإمام يسبقكم إلى الركوع، فيركع قبلكم، فترفعون انتم رءوسكم من الركوع بعد رفعه، فتمكثون في الركوع، فهذه المكثة في الركوع بعد رفع الإمام الراس من الركوع بتلك السبقة التي سبقكم بها الإمام إلى الركوع، وكذلك السجودنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، نا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ . ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ . ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، كِلاهُمَا عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عُرْوَبةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، وَهَذَا حَدِيثُ عَبْدَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ، فَلَمَّا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلاتِهِ، قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: أُقِرَّتِ الصَّلاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ ، قَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟ أَمَا تَدْرُونَ مَا تَقُولُونَ فِي صَلاتِكُمْ؟ إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا، وَعَلَّمَنَا صَلاتَنَا، فَقَالَ: " إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ الإِمَامُ كَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ، فَقُولُوا: آمِينَ يُحِبَّكُمُ اللَّهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا ؛ فَإِنَّ الإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ، فَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَاسْجُدُوا ؛ فَإِنَّ الإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ" . زَادَ بُنْدَارٌ: فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يُرِيدُ أَنَّ الإِمَامَ يَسْبِقُكُمْ إِلَى الرُّكُوعِ، فَيَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، فَتَرْفَعُونَ أَنْتُمْ رُءُوسَكُمْ مِنَ الرُّكُوعِ بَعْدَ رَفْعِهِ، فَتَمْكُثُونَ فِي الرُّكُوعِ، فَهَذِهِ الْمَكْثَةُ فِي الرُّكُوعِ بَعْدَ رَفْعِ الإِمَامِ الرَّأْسَ مِنَ الرُّكُوعِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ الَّتِي سَبَقَكُمْ بِهَا الإِمَامُ إِلَى الرُّكُوعِ، وَكَذَلِكَ السُّجُودُ
جناب حطان بن عبد اللہ رقاشی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، جب وہ اپنی نماز کے آخر میں بیٹھے تو ایک شخص نے کہا کہ نماز نیکی اور زکوٰۃ کے ساتھ ملائی گئی ہے (قرآن مجید میں ان کا تذکرہ ایک ساتھ ہوا ہے)۔ پھر جب سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ یہ کلمات کس شخص نے کہے ہیں؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہیں اپنی نماز میں کون سے کلمات کہنے ہیں؟ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو ہمیں سنّتیں بیان کیں اور ہمیں ہماری نماز سکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں درست اور سیدھی کیا کرو، اور تم میں سے ایک شخص کو امامت کرانی چاہیے، پھر جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جب وہ «‏‏‏‏غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎» پڑھے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا اور جب امام تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو۔ کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے رکوع سے سر اُٹھاتا ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس کے برابر ہو جائے گا (تمہارا دیر سے رکوع میں جانا اور بعد میں اُٹھنا) - جب وہ تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، بلاشبہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے اور تم سے پہلے سجدے سے سر اُٹھاتا ہے - جناب بندار کی روایت میں اضافہ ہے کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس کے بدلے میں ہو جائے گا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ کی مراد یہ ہے کہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے، تم پر سبقت لے جاتا ہے اور تم رکوع سے اپنے سر اس کے سر اُٹھانے کے بعد اُٹھاتے ہو، اس طرح تم رکوع میں (اس کے بعد بھی کچھ دیر) ٹھہرتے ہو۔ اس طرح امام کے رکوع سے سر اُٹھا لینے کے بعد رکوع میں ٹھہرنا یہ اس سبقت کے بدلے میں ہو جائے گا، جو امام مقتدیوں سے رکوع و سجود میں کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1052. (101) بَابُ النَّهْيِ عَنْ مُبَادَرَةِ الْإِمَامِ الْمَأْمُومَ بِالرُّكُوعِ،
1052. مقتدی کا امام سے پہلے رکوع میں جانا منع ہے۔
حدیث نمبر: Q1594
Save to word اعراب
والإخبار بان الإمام ما سبق الماموم من الركوع، ادركه الماموم بعد رفع الإمام راسه من الركوع وَالْإِخْبَارِ بِأَنَّ الْإِمَامَ مَا سَبَقَ الْمَأْمُومَ مِنَ الرُّكُوعِ، أَدْرَكَهُ الْمَأْمُومُ بَعْدَ رَفْعِ الْإِمَامِ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
اور اس بات کا بیان کہ امام مقتدی سے رکوع میں جانے میں جو سبقت کرتا ہے، مقتدی وہ سبقت امام کے سر اُٹھانے کے بعد پالے گا۔ (یعنی اس کے رکوع کی مقدار امام کے رکوع کی مقدار کے برابر ہو جائے گی

تخریج الحدیث:

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.