سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے تین خصوصی چیزیں عطا فرمائی ہیں، حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، وہ کون سی چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اللہ تعا لیٰ نے مجھے صفیں بنا کر نماز پڑھنی عطا کی ہے اور مجھے سلام سے نوازاہے اور بلاشبہ وہ اہل جنّت کا تحفہ اور سلام ہوگا اور مجھے آمین عطا کی ہے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں ہوئی۔ سوائے ہارون علیہ السلام کے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں آمین عطا کی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تفسیر میں فرماتے ہیں «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا» [ سورة الإسراء: 110 ]”اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں، نہ بالکل پست آواز سے۔“ یہ آیت مبارکہ اُس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں چھپے ہوئے تھے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن مجید پڑھتے۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے وقت اپنی آواز بلند کرتے۔ لہٰذا جب مشرکین قرآن کی تلاوت سنتے تو قرآن مجید کو گالیاں دیتے، اس کے نازل کرنے والے اور اُسے لانے والے کو سب و شتم کرتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حُکم دیا «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ» ” اپنی قراءت کو بلند آواز سے نہ کریں۔“ کہ مشرکین اسے سن کو قرآن مجید کو گالیاں دیں «وَلَا تُخَافِتْ بِهَا» اور نہ اتنی پست آواز میں قراءت کریں کہ آپ کے صحابہ کرام سن نہ سکیں۔ «وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا» اور ان دونوں کے درمیانی راہ اختیار کریں۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے اتنی پست آواز نہ رکھیں کہ آپ اُنہیں قرأت سنا نہ سکیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اس جنس کے متعلق ہے جس کے بارے میں کتاب الایمان میں بیان کرچکا ہوں کہ کبھی اسم کا اطلاق مختلف اجزاء اور شاخوں والی چیز کے کسی ایک جزء یا شاخ پر بھی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے، اس روایت میں، نماز کا اطلاق صرف قراءت پر کیا ہے «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ» ”اپنی قراءت کو بلند نہ کریں۔“ اس میں صلاۃ سے مراد صرف قراءت ہے پوری نماز مراد نہیں ہے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں (سری، مخفی) قراءت کرتے تھے اور بعض اوقات ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت کو طویل ادا کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پنے ہونٹ مبارک ہلاتے تھے۔ اور سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کو آپ کی ڈاڑھی کی حرکت سے جانتے تھے۔“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ظہر اور عصر کی نمازوں میں مخفی قراءت کرتے تھے۔ میں نے دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما کی روایات کو کتاب الصلاۃ کے ابواب القراءۃ میں بیان کیا ہے .
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عشاء میں سورة التين «وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ» کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر اور خو بصور قراءت کسی کی نہیں سنی۔
سیدنا قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز صبح میں سورۃ ق کی قراءت کرتے ہوئے سنا۔ (وہ کہتے ہیں) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے «وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ» ”اور کھجور کے بلند و بالا درخت پیدا کیے جن کے شگوفے تہ بہ تہ ہیں۔“ اور ایک مرتبہ یہ الفاظ روایت کیے «بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ» جناب عبدالجبار کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا «وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ» ۔
1050. یہ تفسیر کرنے والی روایت کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔ آپ ان کی تمام رکعات میں بلند آواز سے قراءت نہیں کرتے تھے
من المغرب والعشاء إن ثبت الخبر مسندا، ولا اخال، وإنما خرجت هذا الخبر في هذا الكتاب إذ لا خلاف بين اهل القبلة في صحة متنه، وإن لم يثبت الخبر من جهة الإسناد الذي نذكره. مِنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ مُسْنَدًا، وَلَا أَخَالُ، وَإِنَّمَا خَرَّجْتُ هَذَا الْخَبَرَ فِي هَذَا الْكِتَابِ إِذْ لَا خِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ فِي صِحَّةِ مَتْنِهِ، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتِ الْخَبَرُ مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ الَّذِي نَذْكُرُهُ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اثناء میں کہ میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان (سورہا) تھا جب میں نے کسی کو بات کرتے ہوئے سنا۔“ پھر معراج والی مکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا: ”پھر اعلان کیا گیا بیشک آپ کو ہر نماز کے بدلے دس گنا ثواب ملے گا“۔ فرمایا: ”پھر میں نیچے اُتر آیا۔ پھر جب سورج آسمان کے درمیان سے ڈھل گیا تو جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک صف کے ساتھ نازل ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حُکم دیا تواُنہوں نے آپ کے پیچھے صف بنالی ـ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کی اقتدا کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار رکعات نماز پڑھائی اور آہستہ آواز سے قراءت کی، پھر صحابہ کو چھوڑدیا۔ یہاں تک کہ سورج جھک گیا مگر ابھی وہ روشن اور سفید تھا (زرد نہیں ہوا تھا)۔ جبرائیل علیہ سلام نازل ہوئے اور انہیں چار رکعات پڑھائیں جن میں پوشیدہ قراءت کی۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کی اقتدا کی اور نبی کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی۔ پھر انہیں سورج غروب ہونے تک چھوڑ دیا - پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہیں تین رکعات پڑھائیں، پہلی دو رکعتوں میں جہری قراءت کی اور تیسری رکعت میں پوشیدہ قراءت کی - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام اور صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ پھر جب شفق غائب ہوگئی جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہیں چار رکعات پڑھائیں۔ دو رکعات میں جہری اور دو رکعات میں سری قراءت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کی اقتداء کی اور نبی کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی۔ پھر لوگ سوگئے حتّیٰ کہ صبح ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام نا زل ہوئے اور انہیں دو رکعات پڑھائیں اور ان میں طویل قراءت کی۔ امام ابوبکر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ بصری راویوں نی یہ حدیث سعید اور انہوں نے حضرت قتادہ کے واسطے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے استاد سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے واقعہ معراج میں بیان کی ہے۔ روایت کے آخر میں وہ کہتے ہیں کہ امام حسن بصری فرماتے ہیں، پھر جب سورج ڈھل گیا تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے۔۔۔۔ آخر تک۔ اسی طرح انہوں نے اس مقام سے آگے کی روایت حضرت حسن بصری رحمه الله سے مرسل بیان کی ہے۔ اور عکرمہ بن ابراہیم نے یہ قصّہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں درج کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ واقعات سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی صورت میں محفوظ اور ثابت نہیں ہے۔ مگر تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے، کہ نماز میں جہری اور سری قراءت کا جو تذکرہ اس حدیث میں آیا ہے وہ اسی طرح درست ہے جیسے اس حدیث میں مذکور ہوا ہے۔
جناب حطان بن عبد اللہ رقاشی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، جب وہ اپنی نماز کے آخر میں بیٹھے تو ایک شخص نے کہا کہ نماز نیکی اور زکوٰۃ کے ساتھ ملائی گئی ہے (قرآن مجید میں ان کا تذکرہ ایک ساتھ ہوا ہے)۔ پھر جب سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ یہ کلمات کس شخص نے کہے ہیں؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہیں اپنی نماز میں کون سے کلمات کہنے ہیں؟ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو ہمیں سنّتیں بیان کیں اور ہمیں ہماری نماز سکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں درست اور سیدھی کیا کرو، اور تم میں سے ایک شخص کو امامت کرانی چاہیے، پھر جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جب وہ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ » پڑھے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا اور جب امام تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو۔ کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے رکوع سے سر اُٹھاتا ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس کے برابر ہو جائے گا (تمہارا دیر سے رکوع میں جانا اور بعد میں اُٹھنا) - جب وہ تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، بلاشبہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے اور تم سے پہلے سجدے سے سر اُٹھاتا ہے - جناب بندار کی روایت میں اضافہ ہے کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس کے بدلے میں ہو جائے گا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ کی مراد یہ ہے کہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے، تم پر سبقت لے جاتا ہے اور تم رکوع سے اپنے سر اس کے سر اُٹھانے کے بعد اُٹھاتے ہو، اس طرح تم رکوع میں (اس کے بعد بھی کچھ دیر) ٹھہرتے ہو۔ اس طرح امام کے رکوع سے سر اُٹھا لینے کے بعد رکوع میں ٹھہرنا یہ اس سبقت کے بدلے میں ہو جائے گا، جو امام مقتدیوں سے رکوع و سجود میں کرتا ہے۔
والإخبار بان الإمام ما سبق الماموم من الركوع، ادركه الماموم بعد رفع الإمام راسه من الركوع وَالْإِخْبَارِ بِأَنَّ الْإِمَامَ مَا سَبَقَ الْمَأْمُومَ مِنَ الرُّكُوعِ، أَدْرَكَهُ الْمَأْمُومُ بَعْدَ رَفْعِ الْإِمَامِ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
اور اس بات کا بیان کہ امام مقتدی سے رکوع میں جانے میں جو سبقت کرتا ہے، مقتدی وہ سبقت امام کے سر اُٹھانے کے بعد پالے گا۔ (یعنی اس کے رکوع کی مقدار امام کے رکوع کی مقدار کے برابر ہو جائے گی