امام ابن خزیمہ ابن جریج کی سند سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں اور فضل گدھی پر سوار ہوکر آئے، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے عرفات میں گزرے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے، کوئی بھی چیز بطور سُترہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل نہیں تھی۔
امام ابوبکر رحمه ﷲ فرماتے ہیں کہ عبدا لکریم کی مجاہد سے روایت کو امام زہری کی عبیداﷲ بن عبداﷲ کی روایت پر حجت و دلیل بنانا جائز اور درست نہیں ہے۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت اس معنی کے برعکس بھی بیان کی گئی ہے۔
نا محمد بن رافع ، حدثنا إبراهيم بن الحكم بن ابان ، حدثني ابي ، ح وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثني إبراهيم بن الحكم ، نا ابي ، ح وحدثنا سعد بن عبد الله بن عبد الحكم ، حدثنا حفص بن عمر المقرئ ، حدثنا الحكم بن ابان ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" ركزت العنزة بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفات، فصلى إليها، والحمار من وراء العنزة" . قال ابو بكر: فهذا الخبر مضاد خبر عبد الكريم، عن مجاهد ؛ لان في هذا الخبر ان الحمار إنما كان وراء العنزة، وقد ركز النبي صلى الله عليه وسلم العنزة بين يديه بعرفة، فصلى إليها، وفي خبر عبد الكريم، عن مجاهد، قال: وهو يصلي المكتوبة ليس شيء يستره يحول بيننا وبينه، وخبر عبد الكريم، وخبر الحكم بن ابان قريب من جهة النقل، لان عبد الكريم قد تكلم اهل المعرفة بالحديث في الاحتجاج بخبره، وكذلك خبر الحكم بن ابان، غير ان خبر الحكم بن ابان تؤيده اخبار عن النبي صلى الله عليه وسلم صحاح من جهة النقل وخبر عبد الكريم عن مجاهد يدفعه اخبار صحاح من جهة النقل عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهذا الفعل الذي ذكره عبد الكريم، عن مجاهد، عن ابن عباس قد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قد زجر عن مثل هذا الفعل في خبر سهل بن ابي حثمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا صلى احدكم فليصل إلى سترة، وليدن منها، لا يقطع الشيطان عليه صلاته"نَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَكَمِ ، نَا أَبِي ، ح وَحَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" رُكِزَتِ الْعَنَزَةُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ، فَصَلَّى إِلَيْهَا، وَالْحِمَارُ مِنْ وَرَاءِ الْعَنَزَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ مُضَادُّ خَبَرِ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ ؛ لأَنَّ فِي هَذَا الْخَبَرِ أَنَّ الْحِمَارَ إِنَّمَا كَانَ وَرَاءَ الْعَنَزَةِ، وَقَدْ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَنَزَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ بِعَرَفَةَ، فَصَلَّى إِلَيْهَا، وَفِي خَبَرِ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: وَهُوَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ لَيْسَ شَيْءٌ يَسْتُرُهُ يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ، وَخَبَرُ عَبْدِ الْكَرِيمِ، وَخَبَرُ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ قَرِيبٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، لأَنَّ عَبْدَ الْكَرِيمِ قَدْ تَكَلَّمَ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ فِي الاحْتِجَاجِ بِخَبَرِهِ، وَكَذَلِكَ خَبَرِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، غَيْرَ أَنَّ خَبَرَ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ تُؤَيِّدُهُ أَخْبَارٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِحَاحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ وَخَبَرُ عَبْدِ الْكَرِيمِ عَنْ مُجَاهِدٍ يَدْفَعُهُ أَخْبَارٌ صِحَاحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا الْفِعْلُ الَّذِي ذَكَرَهُ عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ زَجَرَ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْفِعْلِ فِي خَبَرِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا، لا يَقْطَعُ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلاتَهُ"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برچھی گاڑی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سُترہ بنا کر نماز ادا کی جبکہ گدھا برچھی کے پیچھے تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت عبدلکریم کی مجاہد سے بیان کردہ روایت کے مخالف ہے۔ کیونکہ اس روایت میں ہے کہ گدھا برچھی کے پیچھے تھا جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برچھی اپنے سامنے عرفات میں گاڑی تھی اور اُسے سُترہ بنا کر نماز پڑھی تھی۔ عبدالکریم کی مجاہد سے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے جبکہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہونے والا سُترہ نہیں تھا۔ عبدالکریم اور حکم بن ابان کی روایات نقل کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ کیونکہ محدثین نے عبدالکریم کی روایت کو دلیل اور حجت بنانے میں جرح کی ہے ـ اور حکم بن ابان کی روایت کا حال بھی ایسے ہی ہے ـ البتہ حکم بن ابان کی روایت کی تائید نقل کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح احادیث عبد الکریم کی مجاہد سے روایت کو رد کرتی ہیں۔ اور یہ فعل جسے عبدالکریم نے مجاہد رحمه الله کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے تو اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت ثابت ہو چکی ہے۔ حضرت سہل بن ابی حثمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے سُترہ بنا کر نماز پڑھنی چاہیے، اور اسے سُترے کے قریب کھڑے ہونا چاہیے تو شیطان اس کی نماز کو کاٹ نہیں سکے گا۔“
وفي خبر عون بن ابي جحيفة ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم " ركز عنزة فجعل يصلي إليها يمر من ورائها الكلب، والمراة، والحمار" . ناه الدورقي ، نا ابن مهدي ، ح وحدثنا ابو موسى ، حدثنا عبد الرحمن ، نا سفيان ، عن عون بن ابي جحيفة، وفي خبر الربيع بن سبرة الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" استتروا في صلاتكم ولو بسهم" وفي خبر ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا صلى احدكم فليصل إلى سترة، وليدن منها" قال ابو بكر: فهذه الاخبار كلها صحاح، قد امر النبي صلى الله عليه وسلم المصلي ان يستتر في صلاته وزعم عبد الكريم، عن مجاهد، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى إلى غير سترة، وهو في فضاء ؛ لان عرفات لم يكن بها بناء على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يستتر به النبي صلى الله عليه وسلم، وقد زجر صلى الله عليه وسلم ان يصلي المصلي إلا إلى سترة. وفي خبر صدقة بن يسار، سمعت ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تصلوا إلا إلى سترة" وقد زجر صلى الله عليه وسلم ان يصلي المصلي إلا إلى سترة، فكيف يفعل ما يزجر عنه صلى الله عليه وسلم؟ وفي خبر موسى بن طلحة، عن ابيه، كالدال على ان الحمار إذا مر بين يدي المصلي ولا سترة بين يديه، ضره مرور الحمار بين يديهوَفِي خَبَرِ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَكَزَ عَنَزَةً فَجَعَلَ يُصَلِّي إِلَيْهَا يَمُرُّ مِنْ وَرَائِهَا الْكَلْبُ، وَالْمَرْأَةُ، وَالْحِمَارُ" . ناهُ الدَّوْرَقِيُّ ، نَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، وَفِي خَبَرِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَتَرُوا فِي صَلاتِكُمْ وَلَوْ بِسَهْمٍ" وَفِي خَبَرِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذِهِ الأَخْبَارُ كُلُّهَا صِحَاحٌ، قَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصَلِّيَ أَنْ يَسْتَتِرَ فِي صَلاتِهِ وَزَعَمَ عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ، وَهُوَ فِي فَضَاءٍ ؛ لأَنَّ عَرَفَاتٍ لَمْ يَكُنْ بِهَا بِنَاءٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَتِرُ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ زَجَرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمُصَلِّي إِلا إِلَى سُتْرَةٍ. وَفِي خَبَرِ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لا تُصَلُّوا إِلا إِلَى سُتْرَةٍ" وَقَدْ زَجَرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمُصَلِّي إِلا إِلَى سُتْرَةٍ، فَكَيْفَ يَفْعَلُ مَا يَزْجُرُ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَفِي خَبَرِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، كَالدَّالِ عَلَى أَنَّ الْحِمَارَ إِذَا مَرَّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي وَلا سُتْرَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ، ضَرَّهُ مُرُورُ الْحِمَارِ بَيْنَ يَدَيْهِ
جناب عون بن ابی جحیفہ کی اپنے والد سے روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برچھی گاڑ کرنماز پڑھنی شروع کی جبکہ اس کے پیچھے سے کُتّا، عورت اور گدھا گزر رہا تھا۔ اور جناب ربیع بن سبرہ جہنی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ ”اپنی نماز میں سُترہ بنایا کرو۔ خواہ ایک تیر ہی کے ساتھ ہو۔“ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے سُترے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی چاہیے اور اُسے سُترے کے قریب ہو کر کھڑا ہونا چاہیے ـ“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات صحیح ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو اپنی نماز میں سُترہ بنانے کا حُکم دیا ہے - جبکہ عبدالکریم نے مجاہد کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے میدان میں بغیر سُترے کے نماز کی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں عرفات میں کوئی ایسی عمارت نہیں تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُترہ بناتے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو بغیر سُترے کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور صدقہ بن یسار کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سترہ بنائے بغیر نماز مت پڑھو ـ“ اور موسٰی بن طلحہ کی اپنے والد محترم سے روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب گدھا نمازی کے آگے سے گذرے اور اس کے سامنے سُترہ نہ ہو تو گدھے کا اس کے آگے سے گزرنا اسے نقصان دے گا۔
جناب موسیٰ بن طلحہ اپنے والد گرامی سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس حال میں نماز پڑھا کرتے تھے کہ چوپائے ہمارے سامنے سے گزرتے رہتے تھے، ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز ہو تو آگے سے گزرنے والی چیز اُسے نقصان نہیں دے گی۔“
نا ابو موسى ، نا عبد الرحمن ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن موسى بن طلحة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ليجعل احدكم بين يديه مثل مؤخرة الرحل، ثم لا يضره ما مر بين يديه" . قال ابو بكر: ففي قوله صلى الله عليه وسلم:" مثل مؤخرة الرحل يكون بين يدي احدكم، ثم لا يضره ما مر بين يديه" دلالة واضحة إذا لم يكن بين يديه مثل مؤخرة الرحل ضره مرور الدواب بين يديه، والدواب التي تضر مرورها بين يديه هي الدواب التي اعلم النبي صلى الله عليه وسلم انها تقطع الصلاة، وهو الحمار، والكلب الاسود، على ما اعلم المصطفى صلى الله عليه وسلم، لا غيرهما من الدواب التي لا تقطع الصلاةنَا أَبُو مُوسَى ، نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لِيَجْعَلْ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ، ثُمَّ لا يَضُرُّهُ مَا مَرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَفِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ يَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ أَحَدِكُمْ، ثُمَّ لا يَضُرُّهُ مَا مَرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ" دَلالَةٌ وَاضِحَةٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ ضَرَّهُ مُرُورُ الدَّوَابِّ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَالدَّوَابُّ الَّتِي تَضُرُّ مُرُورُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ هِيَ الدَّوَابُّ الَّتِي أَعْلَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا تَقْطَعُ الصَّلاةَ، وَهُوَ الْحِمَارُ، وَالْكَلْبُ الأَسْوَدُ، عَلَى مَا أَعْلَمَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لا غَيْرَهُمَا مِنَ الدَّوَابِّ الَّتِي لا تَقْطَعُ الصَّلاةَ
جناب موسی بن طلحہ کے والد محترم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز (بطور سترہ) رکھلے، پھر اُسے اپنے آگے سے گزرنے والی چیزیں ضرر نہیں دیںگی ـ“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ” کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز جب تم میں سے کسی شخص کے سامنے ہوگی تو اسے اپنے آگے سے گزرنے والی چیز نقصان نہیں دے گی۔“ میں واضح دلیل ہے کہ جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر سُترہ نہیں ہو گا تو اُسے اپنے آگے سے گزرنے والے چوپائے نقصان دیںگے۔ اور وہ چوپائے جن کا اُس کے آگے سے گزرنا نقصان دہ ہے، وہ وہی چوپائے ہیں جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ وہ نماز توڑ دیتے ہیں، اور وہ گدھا اور سیاہ کُتّا ہیں، جیسا کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ان کے علاوہ دیگر چوپائے مراد نہیں ہیں جو نماز نہیں کاٹتے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ اُن کے پاس تصویروں والا کپڑا تھا جو دریچے پر پھیلا ہوا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے سُترہ بنا کرنماز پڑھا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کپڑا مجھ سے دور کردو، لہٰذا میں نے اُسکے تکیے بنا لئے۔“