نا محمد بن ابي صفوان العلي ، نا بهز يعني ابن اسد ، نا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن انس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغير عند صلاة الصبح، فإن سمع اذانا امسك، وإلا اغار، فاستمع ذات يوم فسمع رجلا، يقول: الله اكبر، الله اكبر، فقال:" على الفطرة"، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله، قال:" خرجت من النار" . قال ابو بكر: فإذا كان المرء يطمع بالشهادة بالتوحيد لله في الاذان، وهو يرجو ان يخلصه الله من النار بالشهادة بالله بالتوحيد في اذانه، فينبغي لكل مؤمن ان يتسارع إلى هذه الفضيلة طمعا في ان يخلصه الله من النار، خلا في منزله او في بادية او قرية او مدينة، طلبا لهذه الفضيلة، وقد خرجت ابواب الاذان في السفر ايضا في مواضع غير هذا الموضع، في نوم النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الصبح حتى طلعت الشمس، وامره صلى الله عليه وسلم بلالا بالاذان للصبح بعد ذهاب وقت تلك الصلاة، وتلك الاخبار ايضا خلاف قول من زعم ان لا يؤذن للصلاة بعد ذهاب وقتها، وإنما يقام لها بغير اذاننا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ الْعَلِيُّ ، نا بَهْزٌ يَعْنِي ابْنَ أَسَدٍ ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُغِيرُ عِنْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِلا أَغَارَ، فَاسْتَمَعَ ذَاتَ يَوْمٍ فَسَمِعَ رَجُلا، يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ:" عَلَى الْفِطْرَةِ"، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، قَالَ:" خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَإِذَا كَانَ الْمَرْءُ يَطْمَعُ بِالشَّهَادَةِ بِالتَّوْحِيدِ لِلَّهِ فِي الأَذَانِ، وَهُوَ يَرْجُو أَنْ يُخَلِّصَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ بِالشَّهَادَةِ بِاللَّهِ بِالتَّوْحِيدِ فِي أَذَانِهِ، فَيَنْبَغِي لِكُلِّ مُؤْمِنٍ أَنْ يَتَسَارَعَ إِلَى هَذِهِ الْفَضِيلَةِ طَمَعًا فِي أَنْ يُخَلِّصَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ، خَلا فِي مَنْزِلِهِ أَوْ فِي بَادِيَةٍ أَوْ قَرْيَةٍ أَوْ مَدِينَةٍ، طَلَبًا لِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ، وَقَدْ خَرَّجْتُ أَبْوَابَ الأَذَانِ فِي السَّفَرِ أَيْضًا فِي مَوَاضِعَ غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ، فِي نَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاةِ الصُّبْحِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَأَمْرُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلالا بِالأَذَانِ لِلصُّبْحِ بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِ تِلْكَ الصَّلاةِ، وَتِلْكَ الأَخْبَارُ أَيْضًا خِلافُ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنْ لا يُؤَذَّنَ لِلصَّلاةِ بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِهَا، وَإِنَّمَا يُقَامُ لَهَا بِغَيْرِ أَذَانٍ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے وقت (دشمن کی بستیوں پر) حملہ آور ہوتے تھے پھر اگر اذان کی آواز سن لیتے تو (حملہ کرنے سے) رُک جاتے (اور اگر اذان کی آواز نہ سنتے تو) حملہ کر دیتے۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا: «اللہُ أَکبَرُ، اللہُ أَکبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ فطرتِ اسلام پر ہے۔“ تو اُس نے کہا: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”توجہنّم کی آگ سے نجات پا گیا۔“ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کواذان میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے اعلان و گواہی دینے کی خواہش ہو اور وہ امید رکھتا ہو کہ اس کی اذان میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی دینے سے اللہ تعالیٰ اٗسے جہنّم کی آگ سے نجات عطا فرمائیں گے تو ہر مومن کو اس خواہش اور تمنّا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اُس کو آگ سے نجات دے دیں گے، اس فضیلت کے حُصول میں سبقت کرنی چاہیے۔ وہ اپنے گھر میں تنہا ہو یا جنگل میں یا بستی وشہر میں اکیلا ہو، اس فضلیت واجر کو حاصل کرنے کے لئے (اُسے اذان دینی چاہیے) میں نے اس جگہ کے علاوہ بھی کئی مقامات پر سفر میں اذان کے ابواب کو بیان کیا ہے (مثلاً) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح کی نماز سے سوئے رہ جانا حتیٰ کہ سورج طلوع ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کوصبح کی نماز کی اذان دینے کا حُکم دینا جبکہ اُس کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ یہ احادیث اُن لوگوں کے قول کے برعکس ہیں اُن کا دعویٰ ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو جانے کے بعد اُس کے لیے اذان نہیں دی جائے گی بلکہ بغیر اذان کے صرف اقامت کہی جائے گی۔
إذا كان للمسجد مؤذنان لا مؤذن واحد، فيؤذن احدهما قبل طلوع الفجر، والآخر بعد طلوعه بذكر خبر مجمل غير مفسر.إِذَا كَانَ لِلْمَسْجِدِ مُؤَذِّنَانِ لَا مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ، فَيُؤَذِّنُ أَحَدُهُمَا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، وَالْآخَرُ بَعْدَ طُلُوعِهِ بِذِكْرِ خَبَرٍ مُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسَّرٍ.
جبکہ مسجد کے ایک کی بجائے دو مؤذن ہوں،اور ان میں سے ایک طلوع فجر سے پہلے اذان دے اور دوسرا طلوع فجر کے بعد اذان کہے،اس سلسلے میں مذکورہ مجمل غیر مفسر روایت ہے۔
حضرت سالم رحمہ اللہ اپنے باپ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان کہتے ہیں توتم (روزہ رکھنے کے لئے) کھاؤ پیو حتیٰ کہ تم ابن اُم مکتوم کی اذان سُنو۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ نے اپنے استاد مخزومی سے بھی روایت کی ہے، اس سند میں تمام جگہ «عن» سے روایت ہے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان اُس کی سحری سے نہ روکے کیونکہ وہ تو اس لئے اذان دیتے ہیں تا کہ تمہارا نفل پڑھنے والا (آرام کرنے کے لئے) لوٹ جائے اور تمہارا سونے والا جاگ جائے اور (صبح کا وقت) ایسے ایسے نہیں ہوتا حتیٰ کہ (روشنی) ایسے ایسے ہو جائے۔“ امام صاحب فرماتے ہیں ہمیں یوسف بن موسیٰ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک بلال رضہ اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں، تو تم (روزے کے لئے) کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ ابن مکتُوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔ اور ان دونوں اذانوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ (اذان دینے کے لیے چڑھ جائیں اور وہ اُتر آئیں۔)
288. اس رویت کا بیان جسے بعض جہلاء نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ وہ اِس روایت کے مخالف ہے جو ہم نے بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں
حضرت خبیب بن عبدالرحمٰن اپنی پُھوپی سیدہ انیسہ بنت خبیب رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ اذان دیں تو کھاؤ، پیو اور جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں تو مت کھاؤ پیو۔“ لہٰذا اگر ہم میں سے کسی عورت کی سحری میں سے کچھ باقی رہ جاتا تو وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہتی کہ ذرا ٹھہریں تاکہ میں اپنی سحری سے فارغ ہو جاؤں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے بیان میں خبیب بن عبدالرحمٰن سے اختلاف کیا گیا ہے۔ امام شعبہ نے ان کی پُھوپھی سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو کہا کہ ابن مکتُوم یا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں۔
حضرت خبیب بن عبدالرحمٰن اپنی پھوپھی سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ (بکثرت نفلی) نماز پڑھنے والی خاتون تھیں، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ یا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں تو تم کھاؤ پیو حتیٰ کہ بلال رضی اللہ عنہ یا ابن مکتُوم اذان دیں اور فرق اتنا ہوتا تھا کہ ایک اُترتا تو دوسرا بیٹھ جاتا۔ تو سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہا اُن کا کپڑا تھام کر کہتیں کہ اسی طرح تشریف فرما رہیں حتیٰ کہ میں سحری کرلوں۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں احمد بن مقدام عجلی نے بھی شعبہ سے اسی طرح بیان کیا ہے، امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں راویوں نے اُن الفاظ میں اختلاف کیا ہے لیکن دراوردی نے اپنی سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منصور بن زاذان کی روایت (404) کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک ابن اٗم مکتٗوم رضی اللہ عنہا رات کے وقت اذان دیتے ہیں تو تم کھاوٗ اور پیو حتیٰ کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں۔ کیونکہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر دیکھ کر ہی اذان دیتے ہیں۔ اس سے ملتی جُلتی روایت ابواسحاق نے اسود کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے۔
حضرت اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ کس وقت وتر ادا کرتی ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ میں اُس وقت تک وتر نہیں پڑھتی حتیٰ کہ وہ اذان دینے لگیں، اور وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جائے۔ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے، فلاں اور عمرو بن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عمرو اذان کہیں تو کھاتے پیتے رہو کیونکہ وہ ایک نابینا شخص ہیں۔ اور جب بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں تو اپنے ہاتھ (کھانے سے) روک لو، کیونکہ بلال رضی اللہ عنہ صبح ہونے پر ہی اذان کہتے ہیں۔“
نا احمد بن سعيد الدارمي ، ومحمد بن عثمان العجلي ، قالا: حدثنا عبيد الله بن موسى ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة مؤذنين: بلال، وابو محذورة، وعمرو بن ام مكتوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اذن عمرو، فإنه ضرير البصر فلا يغرنكم، وإذا اذن بلال فلا يطعمن احد" . قال ابو بكر: اما خبر ابي إسحاق، عن الاسود، عن عائشة، فإن فيه نظرا، لاني لا اقف على سماع ابي إسحاق هذا الخبر من الاسود، فاما خبر هشام بن عروة، فصحيح من جهة النقل، وليس هذا الخبر يضاد خبر سالم عن ابن عمر، وخبر القاسم عن عائشة، إذ جائز ان يكون النبي صلى الله عليه وسلم قد كان جعل الاذان بالليل نوائب بين بلال وبين ابن ام مكتوم، فامر في بعض الليالي بلالا ان يؤذن اولا بالليل، فإذا نزل بلال، صعد ابن ام مكتوم، فاذن بعده بالنهار، فإذا جاءت نوبة ابن ام مكتوم، بدا ابن ام مكتوم، فاذن بليل، فإذا نزل، صعد بلال، فاذن بعده بالنهار، وكانت مقالة النبي صلى الله عليه وسلم: ان بلالا يؤذن بليل في الوقت الذي كانت النوبة لبلال في الاذان بليل، وكانت مقالته صلى الله عليه وسلم: ان ابن ام مكتوم يؤذن بليل في الوقت الذي كانت النوبة في الاذان بالليل نوبة ابن ام مكتوم، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يعلم الناس في كل الوقتين ان الاذان الاول منهما، هو اذان بليل لا بنهار، وانه لا يمنع من اراد الصوم طعاما ولا شرابا، وان اذان الثاني إنما يمنع الطعام والشراب إذ هو بنهار لا بليل، فاما خبر الاسود، عن عائشة: وما يؤذنون حتى يطلع الفجر، فإن له احد معنيين: احدهما لا يؤذن جميعهم حتى يطلع الفجر لا انه لا يؤذن احد منهم، الا تراه انه قد قال في الخبر: إذا اذن عمرو، فكلوا واشربوا، فلو كان عمرو لا يؤذن حتى يطلع الفجر، لكان الاكل والشرب على الصائم بعد اذان عمرو محرمين، والمعنى الثاني ان تكون عائشة ارادت حتى يطلع الفجر الاول، فيؤذن البادي منهم، بعد طلوع الفجر الاول لا قبله، وهو الوقت الذي يحل فيه الطعام والشراب لمن اراد الصوم، إذ طلوع الفجر الاول بليل لا بنهار، ثم يؤذن الذي يليه بعد طلوع الفجر الثاني الذي هو نهار لا ليل، فهذا معنى هذا الخبر عندي، والله اعلمنا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثَةُ مُؤَذِّنِينَ: بِلالٌ، وَأَبُو مَحْذُورَةَ، وَعَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَذَّنَ عَمْرٌو، فَإِنَّهُ ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَلا يَغُرَّنَّكُمْ، وَإِذَا أَذَّنَ بِلالٌ فَلا يَطْعَمَنَّ أَحَدٌ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَّا خَبَرُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، فَإِنَّ فِيهِ نَظَرًا، لأَنِّي لا أَقِفُ عَلَى سَمَاعِ أَبِي إِسْحَاقَ هَذَا الْخَبَرَ مِنَ الأَسْوَدِ، فَأَمَّا خَبَرُ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، فَصَحِيحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، وَلَيْسَ هَذَا الْخَبَرُ يُضَادُّ خَبَرَ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَخَبَرَ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ، إِذْ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ جَعَلَ الأَذَانَ بِاللَّيْلِ نَوَائِبَ بَيْنَ بِلالٍ وَبَيْنَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَأَمَرَ فِي بَعْضِ اللَّيَالِي بِلالا أَنْ يُؤَذِّنَ أَوَلا بِاللَّيْلِ، فَإِذَا نَزَلَ بِلالٌ، صَعِدَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَأَذَّنَ بَعْدَهُ بِالنَّهَارِ، فَإِذَا جَاءَتْ نَوْبَةُ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، بَدَأَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَأَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَإِذَا نَزَلَ، صَعِدَ بِلالٌ، فَأَذَّنَ بَعْدَهُ بِالنَّهَارِ، وَكَانَتْ مَقَالَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ بِلالا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فِي الْوَقْتِ الَّذِي كَانَتِ النَّوْبَةُ لِبِلالٍ فِي الأَذَانِ بِلَيْلٍ، وَكَانَتْ مَقَالَتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنُّ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فِي الْوَقْتِ الَّذِي كَانَتِ النَّوْبَةُ فِي الأَذَانِ بِاللَّيْلِ نَوْبَةَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْلِمُ النَّاسَ فِي كُلِّ الْوَقْتَيْنِ أَنَّ الأَذَانَ الأَوَّلَ مِنْهُمَا، هُوَ أَذَانٌ بِلَيْلٍ لا بِنَهَارٍ، وَأَنَّهُ لا يَمْنَعُ مَنْ أَرَادَ الصَّوْمَ طَعَامًا وَلا شَرَابًا، وَأَنَّ أَذَانَ الثَّانِي إِنَّمَا يَمْنَعُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ إِذْ هُوَ بِنَهَارٍ لا بِلَيْلٍ، فَأَمَّا خَبَرُ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: وَمَا يُؤَذِّنُونَ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَإِنَّ لَهُ أَحَدَ مَعْنَيَيْنِ: أَحَدُهُمَا لا يُؤَذِّنُ جَمِيعُهُمْ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرَ لا أَنَّهُ لا يُؤَذِّنُ أَحَدٌ مِنْهُمْ، أَلا تَرَاهُ أَنَّهُ قَدْ قَالَ فِي الْخَبَرِ: إِذَا أَذَّنَ عَمْرٌو، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، فَلَوْ كَانَ عَمْرٌو لا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، لَكَانَ الأَكْلُ وَالشُّرْبُ عَلَى الصَّائِمِ بَعْدَ أَذَانِ عَمْرٍو مُحَرَّمَيْنِ، وَالْمَعْنَى الثَّانِي أَنْ تَكُونَ عَائِشَةُ أَرَادَتْ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ الأَوَّلُ، فَيُؤَذِّنُ الْبَادِي مِنْهُمْ، بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الأَوَّلِ لا قَبْلَهُ، وَهُوَ الْوَقْتُ الَّذِي يَحِلُّ فِيهِ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ لِمَنْ أَرَادَ الصَّوْمَ، إِذْ طُلُوعُ الْفَجْرِ الأَوَّلِ بِلَيْلٍ لا بِنَهَارٍ، ثُمَّ يُؤَذِّنُ الَّذِي يَلِيهِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الثَّانِي الَّذِي هُوَ نَهَارٌ لا لَيْلٌ، فَهَذَا مَعْنَى هَذَا الْخَبَرِ عِنْدِي، وَاللَّهُ أَعْلَمُ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مؤذن تھے۔ سیدنا بلال، ابومحذورہ اور عمرہ بن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہم تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عمرہ رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو وہ تمہیں مغالطے میں نہ ڈال دیں کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں۔ اور جب بلال رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کوئی شخص ہرگز نہ کھائے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رہی ابواسحاق کی اسود کے واسطے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت تو اس میں غور و فکر کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے اسود سے ابواسحاق کا اس روایت کا سماع نہیں ملا۔ جبکہ ہشام بن عروہ کی روایت نقل کے اعتبار سے صحیح ہے اور یہ روایت حضرت سالم کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت اور قاسم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی اذان کے لئے سیدنا بلال اور سیدنا ابن اُم مکتُوم رضی ﷲ عنہما کی باری مقرر کی ہو۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض راتوں میں سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ پہلے رات کے وقت اذان دیں، تو جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ (اذان دے کر) اُترے تو سیدنا ابن مکتُوم رضی اللہ عنہ (اذان دینے کے لئے) اُوپر چڑھ گئے اور اُنہوں نے اُن کے بعد صبح کی اذان دی۔ پھر جب سیدنا ابن اٗم مکتٗوم کی باری آئی تو اُنہوں نے رات کے وقت اذان دی، پھر جب وہ اذان دے کر اُترے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اُن کے بعد اوپر چڑھ کر صبح کی اذان کہی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک کہ بلال رات کے وقت اذان دیتے ہیں۔ یہ اٗس وقت ہو گا جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی باری رات کے وقت اذان دینے کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان دیتے ہیں، یہ اُس وقت ہو جبکہ رات کے وقت اذان دینے کی باری سیدنا ابن اُم مکتُوم رضی اللہ عنہ کی تھی۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو وقتوں میں لوگوں کو بتایا کہ دونوں اذانوں میں سے پہلی اذان رات کے وقت ہے صبح کے وقت نہیں۔ اور یہ اذان روزے کا ارادہ کرنے والے کو کھانے پینے سے منع نہیں کرتی۔ اور دوسری اذان کھانے پینے سے روکتی ہے کیونکہ وہ دن کے وقت (یعنی طلوع فجر کے بعد) ہوتی ہے رات کے وقت نہیں۔ جبکہ حضرت اسود کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ وہ موذن اذان نہیں کہتے تھے حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جاتی، تو اس کا دو معنوں میں سے ایک معنی ہو سکتا ہے۔ ایک معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب مؤذن اُس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک فجر طلوع نہیں ہوتی تھی۔ یہ مطلب نہیں کہ اٗن میں سے کوئی ایک بھی (طلوع فجر سے پہلے) اذان نہیں دیتا تھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اُنہوں نے اپنی روایت میں یہ کہا ہے کہ جب عمرو رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کھاتے پیتے رہو۔ اس لئے اگر سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ طلوع فجر کے بعد ہی اذان دیتے ہوتے تو سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد روزے دار کے لئے کھانا پینا حرام ہوتا۔ دوسرا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہو کہ (وہ اُس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے) جب تک پہلی فجر طلوع نہ ہو جائے۔ تو مؤذن میں سے پہلے اذان دینے والا پہلی فجر کے طلوع کے بعد اذان دیتا نہ کہ اس سے پہلے۔ یہی وقت ہے جب روزے کا ارادہ رکھنے کے لیے کھانا اور پینا حلال ہوتا ہے کیونکہ پہلی فجر رات کے طلوع ہوتی ہے دن کے وقت نہیں۔ پھر ان کے بعد والا مؤذن دوسری فجر طلوع ہونے کے بعد اذان کہتا ہے جو کہ دن میں ہوتا ہے رات میں نہیں۔ تو اس روایت کا میرے نزدیک یہ معنی ہے۔ واللہ اعلم۔