سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے (دل میں) کہا کہ میں ضرور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسے پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لئے) کھڑے ہوئے تو تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اُٹھایا حتیٰ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کانوں کے برابر ہو گئے پھر دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت، کلائی اور بازو پر رکھا۔
إذ الله- عز وجل- يصرف وجهه عن وجه المصلي إذا التفت في صلاته.إِذِ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِ الْمُصَلِّي إِذَا الْتَفَتَ فِي صَلَاتِهِ.
کیونکہ جب نمازی اپنی نماز میں ادھر اُدھر متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا چہرہ مبارک نمازی کے چہرے سے پھیر لیتے ہیں۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ مسلسل بندے کی طرف متوجہ رہتا ہے جب تک وہ اِدھر اُدھر متوجہ نہ ہو، لیکن جب بندہ اپنا چہرہ پھیر لیتا ہے (نماز سے توجہ ہٹا لیتا ہے) تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے توجہ ہٹا لیتا ہے۔
سیدنا حارث اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے سیدنا یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کوحُکم دیا کہ پانچ باتوں پر عمل پیرا ہوں اور بنی اسرائیل کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے کا حُکم دیں۔ لہٰذا وہ (ان باتوں کا) لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے۔ پھر فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے۔ لہٰذا جب تم اپنے چہروں کو (نماز میں) متوجہ کرلو تو پھر اِدھر اُدھر متوجہ نہ ہوں کیونکہ جب بندہ اﷲ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھتا ہے تو ﷲ تعالیٰ اپنے چہرے کو اپنے بندے کے چہرے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اور اُس وقت تک اپنے چہرے کو اُس سے نہیں ہٹاتے جب تک بندہ اپنا چہرہ نہ ہٹا لے۔“
325. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نماز میں ادھر اُدھر متوجہ ہونا نماز (کے اجر و ثواب) میں کمی کا باعث بنتا ہے، لیکن یہ التفات نماز کو فاسد نہیں کرتا کہ نمازی کو نماز دہرانی پڑے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں التفات کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اُچک لینا ہے جسے شیطان بندے کی نماز سے اُچک لیتا ہے۔“ ابوالاحوص کی روایت میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں آدمی کی بے توجہی اور اِدھر اُدھر جھا نکنے کے بارے میں سوال کیا۔
326. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نماز میں منع کردہ التفات جس سے نمازی کی نماز (اجر و ثواب) میں نقص آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ نمازی اپنی گردن موڑ کر التفات کرے
لا ان يلحظ بعينه يمينا وشمالا من غير ان يلوي عنقه، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد كان يلتفت في صلاته من غير ان يلوي عنقه خلف ظهره.لَا أَنْ يَلْحَظَ بِعَيْنِهِ يَمِينَا وَشِمَالًا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَلْوِيَ عُنُقَهُ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَلْوِيَ عُنُقَهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ.
اس سے گردن موڑے بغیر دائیں بائیں جھانکنا مراد نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار اپنی گردن اپنی پشت کے پیچھے موڑے بغیر اپنی نماز میں (بوقت ضرورت التفات) کر لیا کرتے تھےـ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں دائیں بائیں التفات کر لیا کرتے تھے اور اپنی گردن اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں موڑتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں التفات فرما لیتے تھے۔ کا معنی یہ ہے کہ آپ دائیں بائیں آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے۔
هو الالتفات في الصلاة في غير الوقت الذي يحتاج المصلي ان يعرف فعل المامومين او بعضهم ليامرهم بفعل او يزجرهم عن فعل بإشارة او إيماء يفهمهم ما ياتون وما يذرون في صلواتهم.هُوَ الِالْتِفَاتُ فِي الصَّلَاةِ فِي غَيْرِ الْوَقْتِ الَّذِي يَحْتَاجُ الْمُصَلِّي أَنْ يَعْرِفَ فِعْلَ الْمَأْمُومِينَ أَوْ بَعْضِهِمْ لِيَأْمُرَهُمْ بِفِعْلٍ أَوْ يَزْجُرَهُمْ عَنْ فِعْلٍ بِإِشَارَةٍ أَوْ إِيمَاءٍ يُفْهِمُهُمْ مَا يَأْتُونَ وَمَا يَذَرُونَ فِي صَلَوَاتِهِمْ.
امام کو ضرورت نہ ہو کہ وہ مقتدیوں کے عمل کودیکھے یا ان میں سے کسی ایک کو دیکھے تاکہ انہیں کسی کام کے کرنے یا انہیں منع کا حکم ایسے اشارے کنائے سے دے جسے وہ سمجھ جائیں کہ کون سا کام انہوں نے اپنی نماز میں کرنا ہے اور کونسا ترک کرنا ہے
نا الربيع بن سليمان ، نا شعيب يعني ابن الليث ، عن الليث ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، انه قال: اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلينا وراءه وهو قاعد، وابو بكر يكبر، فيسمع الناس تكبيره، قال: فالتفت إلينا، فرآنا قياما، فاشار إلينا فقعدنا، فلما سلم، قال:" إن كدتم آنفا تفعلون فعل فارس والروم، يقومون على ملوكهم وهم قعود، فلا تفعلوا، ائتموا بائمتكم، إن صلى الإمام قائما، فصلوا قياما، وإن صلى قاعدا، فصلوا قعودا" . وفي خبر سهل بن الحنظلية في بعث النبي صلى الله عليه وسلم انس بن ابي مرثد ليحرسهم، قال: فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يلتفت إلى الشعب، حتى إذا قضى صلاته فسلم، فقال لي: ابشروا فقد جاءكم فارسكمنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، نا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ اللَّيْثِ ، عَنِ اللَّيْثِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَأَبُو بَكْرٍ يُكَبِّرُ، فَيَسْمَعُ النَّاسُ تَكْبِيرَهُ، قَالَ: فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَرَآنَا قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْنَا فَقَعَدْنَا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ:" إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا تَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ، يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قَعُودٌ، فَلا تَفْعَلُوا، ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ، إِنْ صَلَّى الإِمَامُ قَائِمًا، فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا، فَصَلُّوا قُعُودًا" . وَفِي خَبَرِ سَهْلِ بْنِ الْحَنْظَلِيَّةِ فِي بَعْثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَسَ بْنَ أَبِي مَرْثَدٍ لِيَحْرُسَهُمْ، قَالَ: فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ، حَتَّى إِذَا قَضَى صَلاتَهُ فَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: أَبْشِرُوا فَقَدْ جَاءَكُمْ فَارِسُكُمْ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (کھڑے ہوکر) نماز پڑھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر امامت کروا رہے تھے۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تکبیر کہہ رہے تھے اور وہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف جھانک کر دیکھا تو ہمیں کھڑے (ہو کر نماز پڑھتے) دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (بیٹھنے کا) اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے۔ پھر جب سلام پھیرا تو فرمایا: ”تم نے ابھی ابھی فارسیوں اور رومیوں جیسا کام کیا ہے۔ وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ جبکہ وہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ لہٰذا (آئندہ) ایسے مت کرنا۔ اپنے ائمہ کی اقتدا کرو۔ اگر امام کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم کھڑے ہوکر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر امامت کرائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو۔“ اور سیدنا سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا انس بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ کو ان کی حفاظت و نگہبانی کے لئے (گھاٹی پر) بھیجا تھا، کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نمازوں کے دوران) گھاٹی کی طرف التفات فرماتے رہے حتیٰ کہ جب اپنی نماز مکمل کی تو سلام پھیرا اور مجھ سے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ تمہارا (محافظ) شہسوار آگیا ہے۔“