عبداللہ بن حارث رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں میرے والد صاحب نے میری شادی کی اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کو بھی دعوت دی، ان میں حضرات میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو انتہائی بوڑھے ہو چکے تھے، وہ آئے تو کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”گوشت کو دانتوں سے نوچ کر کھایا کرو کہ یہ خوشگوار اور زود ہضم ہوتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن معاوية، ولانقطاعه ، عثمان بن أبى سليمان لم يسمع من صفوان بن امية
حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا سليمان يعنى ابن قرم ، عن سماك ، عن جعيد ابن اخت صفوان بن امية، عن صفوان بن امية ، قال: كنت نائما في المسجد على خميصة لي، فسرقت، فاخذنا السارق، فرفعناه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فامر بقطعه، فقلت: يا رسول الله، افي خميصتي ثمن ثلاثين درهما؟ انا اهبها له، او ابيعها له، قال: " فهلا كان قبل ان تاتيني به؟" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حدثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِى ابْنَ قَرْمٍ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جعيد ابْنِ أُخْتِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: كُنْتُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى خَمِيصَةٍ لِي، فَسُرِقَتْ، فَأَخَذْنَا السَّارِقَ، فَرَفَعْنَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفِي خَمِيصَتِي ثَمَنُ ثَلَاثِينَ دِرْهَمًا؟ أَنَا أَهَبُهَا لَهُ، أَوَ أَبِيعُهَا لَهُ، قَالَ: " فَهَلَّا كَانَ قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ؟" .
حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں سو ر ہا تھا کہ ایک چور آیا اور اس نے میرے سر کے نیچے سے کپڑا نکال لیا اور چلتا بنا، میں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے پکڑ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کیا کہ اس شخص نے میرا کپڑا چرایا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا تیس درہم کی چادر کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، یہ میں اسے ہبہ کرتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ صدقہ کر دیا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشاهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف سليمان بن قرم، وجهالة جعيد، ثم انه اختلف فيه على سماك فى اسم جعيد
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، وسريج المعنى , قالا: حدثنا نافع بن عمر يعني الجمحي ، عن امية بن صفوان ، عن ابي بكر بن ابي زهير , كلاهما قال: عن ابي بكر بن ابي زهير الثقفي , عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول بالنباءة , او النباوة , شك نافع بن عمر , من الطائف وهو يقول:" يا ايها الناس، إنكم توشكون ان تعرفوا اهل الجنة من اهل النار"، او قال:" خياركم من شراركم"، قال: فقال رجل من الناس: بم يا رسول الله؟ قال:" بالثناء السيئ، والثناء الحسن، وانتم شهداء الله بعضكم على بعض" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، وَسُرَيْجٌ الْمَعْنَى , قَالَا: حدثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ يَعْنِي الْجُمَحِيَّ ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ , كِلَاهُمَا قَالَ: عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ الثَّقَفِيِّ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ بِالنَّبَاءَةِ , أَوْ النَّبَاوَةِ , شَكَّ نَافِعُ بْنُ عُمَرَ , مِنَ الطَّائِفِ وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تُوشِكُونَ أَنْ تَعْرِفُوا أَهْلَ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ"، أَوْ قَالَ:" خِيَارُكُمْ مِنْ شِرَارِكُمْ"، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بِالثَّنَاءِ السَّيِّئِ، وَالثَّنَاءِ الْحَسَنِ، وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ" .
ابوبکر بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانہ نبوت میں، طائف میں، یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”لوگو! عنقریب تم اہل جنت اور اہل جہنم یا اچھوں اور بروں میں امتیاز کر سکو گے“، ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ کیسے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کی اچھی اور بری تعریف کے ذریعے کیونکہ تم لوگ ایک دوسرے کے متعلق زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔
حدثنا هشام بن سعيد ، قال: اخبرنا معاوية بن سلام ، قال: سمعت يحيى بن ابي كثير ، قال: اخبرني بعجة بن عبد الله ، ان اباه اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال لهم يوما: " هذا يوم عاشوراء فصوموا"، فقال رجل من بنى عمرو بن عوف: يا رسول الله، إني تركت قومي منهم صائم , ومنهم مفطر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اذهب إليهم , فمن كان منهم مفطرا , فليتم صومه" .حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي بَعْجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لَهُمْ يَوْمًا: " هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَصُومُوا"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِى عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي تَرَكْتُ قَوْمِي مِنْهُمْ صَائِمٌ , وَمِنْهُمْ مُفْطِرٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ إِلَيْهِمْ , فَمَنْ كَانَ مِنْهُمْ مُفْطِرًا , فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ" .
بعجہ بن عبداللہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”آج عاشوراء کا دن ہے، لہٰذا تم آج کا روزہ رکھو“، یہ سن کر بنو عمرو بن عوف کے ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی قوم کو اس حال میں چھوڑ کر آ رہا ہوں کہ ان میں سے کسی کا روزہ تھا اور کسی کا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کے پاس جاؤ اور یہ پیغام دے دو کہ ان میں سے جس کا روزہ نہ ہو، اسے چاہیے کہ بقیہ دن کچھ کھائے پیے بغیر گزار دے۔“
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا جرير بن حازم ، قال: حدثنا محمد بن ابي يعقوب ، عن عبد الله بن شداد ، عن ابيه ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في إحدى صلاتي العشي الظهر او العصر وهو حامل الحسن او الحسين، فتقدم النبي صلى الله عليه وسلم، فوضعه، ثم كبر للصلاة، فصلى، فسجد بين ظهري صلاته سجدة اطالها، قال: إني رفعت راسي فإذا الصبي على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ساجد، فرجعت في سجودي، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة , قال الناس: يا رسول الله، إنك سجدت بين ظهري الصلاة سجدة اطلتها، حتى ظننا انه قد حدث امر، او انه يوحى إليك؟ قال: " كل ذلك لم يكن، ولكن ابني ارتحلني، فكرهت ان اعجله حتى يقضي حاجته" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ: حدثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى صَلَاتَيْ الْعَشِيِّ الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ وَهُوَ حَامِلُ الحَسَنِ أَوْ الحُسَيْنَِ، فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَهُ، ثُمَّ كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ، فَصَلَّى، فَسَجَدَ بَيْنَ ظَهْرَيْ صَلَاتِهِ سَجْدَةً أَطَالَهَا، قَالَ: إِنِّي رَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الصَّبِيُّ عَلَى ظَهَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَرَجَعْتُ فِي سُجُودِي، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ , قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْ الصَّلَاةِ سَجْدَةً أَطَلْتَهَا، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ، أَوْ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْكَ؟ قَالَ: " كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ، وَلَكِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي، فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ" .
حضرت شداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر یا عصر میں سے کسی نماز کے لئے باہر تشریف لائے تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ یا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اٹھائے ہوئے تھے، آگے بڑھ کر انہیں ایک طرف بٹھا دیا اور نماز کے لئے تکبیر کہہ کر نماز شروع کر دی، سجدے میں گئے تو خوب طویل کر دیا، میں نے درمیان میں سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں تھے، میں یہ دیکھ کر دوبارہ سجدے میں چلا گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فار غ ہوئے تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آج تو آپ نے اس نماز میں بہت لمبا سجدہ کیا، ہم تو سمجھے کہ شاید کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے یا آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا، البتہ میرا یہ بیٹا میرے اوپر سوار ہو گیا تھا، میں نے اسے اپنی خواہش کی تکمیل سے پہلے جلدی میں مبتلا کرنا اچھا نہ سمجھا۔“