حضرت ام ایوب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کریم سات حرفوں پر نازل ہوا ہے تم جس حرف پر بھی تلاوت کرو گے، وہ تمہاری طرف سے کفایت کر جائے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناده ضعيف من أجل أبى يزيد والد عبيد الله
حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا (جو نبی کی آزاد کردہ باندی تھیں) سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ”ناجائز بچے“ کے متعلق پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں کوئی خیر نہیں ہوتی، میرے نزدیک وہ دو جوتیاں جنہیں پہن کر میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں، کسی ولد الزنا کو آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔“
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو بوسہ دے دے اور وہ دونوں روزے سے ہوں تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا روزہ ٹوٹ گیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى يزيد الضبي، وقد ثبت أنه ﷺ كان يقبل وهو صائم، انظر: 25613
حدثنا علي بن بحر ، قال: حدثنا عيسى ، قال: ثنا ثور ، عن زياد بن ابي سودة ، عن اخيه ، ان ميمونة مولاة النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: يا نبي الله، افتنا في بيت المقدس؟ فقال: " ارض المنشر والمحشر، ائتوه فصلوا فيه، فإن صلاة فيه كالف صلاة فيما سواه"، قالت: ارايت من لم يطق ان يتحمل إليه، او ياتيه؟ قال:" فليهد إليه زيتا يسرج فيه، فإن من اهدى له، كان كمن صلى فيه" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، قَالَ: حدثَنَا عِيسَى ، قَالَ: ثَنَا ثَوْرٌ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ ، عَنْ أَخِيهِ ، أَنَّ مَيْمُونَةَ مَوْلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَقَالَ: " أَرْضُ الْمَنْشَرِ وَالْمَحْشَرِ، ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ"، قَالَتْ: أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يُطِقْ أَنْ يَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ، أَوْ يَأْتِيَهُ؟ قَالَ:" فَلْيُهْدِ إِلَيْهِ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ، فَإِنَّ مَنْ أَهْدَى لَهُ، كَانَ كَمَنْ صَلَّى فِيهِ" .
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ہمیں بیت المقدس کے متعلق کچھ بتائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اٹھائے جانے اور جمع کیے جانے کا علاقہ ہے، تم وہاں جا کر اس میں نماز پڑھا کرو، کیونکہ بیت المقدس میں ایک نماز پڑھنا دوسری جگہوں پر ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے“، انہوں نے عرض کیا کہ بتایئے کہ اگر کسی آدمی میں وہاں جانے کی طاقت نہ ہو، وہ کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چاہیے کہ زیتون کا تیل بھیج دے جو وہاں چراغوں میں جلایا جائے، کیونکہ اس کی طرف ہدیہ بھیجنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے اس میں نماز پڑھی ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وهذا من منكرات زياد بن أبى سودة، وقد اختلف فيه
حضرت ام ہشام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا، میں نے سورۃ ق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی یاد کی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ منبر پر پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ام ہشام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے سورۃ ق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی یاد کی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز فجر میں پڑھا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة ، عبدالرحمن بن أبى الرجال صدوق ربما أخطأ، وقد خالف هنا الراوة عن يحيى بن سعيد الأنصاري فى متن الحديث
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور دم حیض کے مستقل جاری رہنے کی شکایت کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ تو ایک رگ کا خون ہے اس لئے یہ دیکھ لیا کرو کہ جب تمہارے ایام حیض کا وقت آ جائے تو نماز نہ پڑھا کرو اور جب وہ زمانہ گزر جائے تو اپنے آپ کو پاک سمجھ کر طہارت حاصل کیا کرو اور اگلے ایام تک نماز پڑھتی رہا کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة المنذر بن المغيرة، وقد اختلف فيه على عروة بن الزبير
حدثنا يحيى بن ابي بكير , قال: حدثنا إسرائيل ، عن عثمان بن سعد ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، قال: حدثتني خالتي فاطمة بنت ابي حبيش ، قالت: اتيت عائشة، فقلت لها: يا ام المؤمنين، قد خشيت ان لا يكون لي حظ في الإسلام، وان اكون من اهل النار، امكث ما شاء الله من يوم استحاض، فلا اصلي لله عز وجل صلاة، قالت: اجلسي حتى يجيء النبي صلى الله عليه وسلم، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم , قالت: يا رسول الله، هذه فاطمة بنت ابي حبيش تخشى ان لا يكون لها حظ في الإسلام، وان تكون من اهل النار، تمكث ما شاء الله من يوم تستحاض، فلا تصلي لله عز وجل صلاة، فقال: " مري فاطمة بنت ابي حبيش، فلتمسك كل شهر عدد ايام اقرائها، ثم تغتسل، وتحتشي، وتستثفر، وتنظف، ثم تطهر عند كل صلاة، وتصلي، فإنما ذلك ركضة من الشيطان، او عرق انقطع، او داء عرض لها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , قَالَ: حدثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ ، قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، قَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَكُونَ لِي حَظٌّ فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمْكُثُ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ يَوْمِ أُسْتَحَاضُ، فَلَا أُصَلِّي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةً، قَالَتْ: اجْلِسِي حَتَّى يَجِيءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ تَخْشَى أَنْ لَا يَكُونَ لَهَا حَظٌّ فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنْ تَكُونَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، تَمْكُثُ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ يَوْمِ تُسْتَحَاضُ، فَلَا تُصَلِّي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةً، فَقَالَ: " مُرِي فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ، فَلْتُمْسِكْ كُلَّ شَهْرٍ عَدَدَ أَيَّامِ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ، وَتَحْتَشِي، وَتَسْتَثْفِرُ، وَتَنَظَّفُ، ثُمَّ تَطَهَّرُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، وَتُصَلِّي، فَإِنَّمَا ذَلِكَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، أَوْ عِرْقٌ انْقَطَعَ، أَوْ دَاءٌ عَرَضَ لَهَا" .
حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے کہا کہ اے ام المومنین! مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام میں میرا کوئی حصہ نہ رہے اور میں اہل جہنم یں سے ہو جاؤں، میں ”جب تک اللہ چاہتا ہے“، ایام سے رہتی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی نماز نہیں پڑھ پاتی، انہوں نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے، تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ فاطمہ بنت ابی حبیش ہیں، انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہے گا اور یہ اہل جہنم میں سے ہو جائیں گی، کیونکہ یہ اتنے دن تک ایام سے رہتی ہیں جب تک اللہ کو منظور ہوتا ہے اور یہ اللہ کے لئے کوئی نماز نہیں پڑھ پاتیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم فاطمہ بنت ابی حبیش سے کہہ دو کہ ہر مہینے میں (ایام حیض) کے شمار کے مطابق رکی رہا کرے، پھر غسل کر کے اپنے جسم پر اچھی طرح کپڑا لپیٹ لیا کرے اور ہر نماز کے وقت طہارت حاصل کر کے نماز پڑھ لیا کرے، یہ شیطان کا ایک کچوکا ہے یا ایک رگ ہے جو کٹ گئی ہے یا ایک بیماری ہے جو انہیں لاحق ہو گئی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عثمان بن سعد، ثم إنه قد اختلف فى إسناده
حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھوٹے بچے کو لایا گیا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاپ کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس جگہ پر پانی کے چھینٹے مار دیئے گئے، پھر ایک بچی کو لایا گیا، اس نے پیشاپ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھونے کا حکم دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عمرو ابن شعيب لم يسمع من أم كرز