حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، عن ثابت ، عن شهر بن حوشب ، عن اسماء ، انها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم: " يقرا إن الله يغفر الذنوب جميعا ولا يبالي إنه هو الغفور الرحيم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقْرَأُ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا وَلا يُبَالِي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ" .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا وَلا يُبَالِي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» ۔
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی، جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میرے ان دو کنگنوں کے اوپر پڑی جو میں نے پہنے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟“ ہم نے عرض کیا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتیں کہ اللہ ان کے بدلے میں تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے، اس کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن عاصم، وشهر بن حوشب
حدثنا ابو النضر ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن محمد بن إسحاق ، عن عبيد الله بن علي بن ابي رافع ، عن ابيه ، عن ام سلمى، قالت: " اشتكت فاطمة شكواها التي قبضت فيه، فكنت امرضها، فاصبحت يوما كامثل ما رايتها في شكواها تلك، قالت: وخرج علي لبعض حاجته، فقالت: يا امه، اسكبي لي غسلا، فسكبت لها غسلا، فاغتسلت كاحسن ما رايتها تغتسل، ثم قالت: يا امه، اعطيني ثيابي الجدد، فاعطيتها، فلبستها، ثم قالت: يا امه، قدمي لي فراشي وسط البيت، ففعلت، واضطجعت , واستقبلت القبلة، وجعلت يدها تحت خدها، ثم قالت: يا امه، إني مقبوضة الآن، إني مقبوضة الآن، وقد تطهرت، فلا يكشفني احد، فقبضت مكانها، قالت: فجاء علي، فاخبرته" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بن علي بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُمِ سَلْمَى، قَالَتْ: " اشْتَكَتْ فَاطِمَةُ شَكْوَاهَا الَّتِي قُبِضَتْ فِيهِ، فَكُنْتُ أُمَرِّضُهَا، فَأَصْبَحَتْ يَوْمًا كَأَمْثَلِ مَا رَأَيْتُهَا فِي شَكْوَاهَا تِلْكَ، قَالَتْ: وَخَرَجَ عَلِيٌّ لِبَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَتْ: يَا أُمَّهْ، اسْكُبِي لِي غُسْلًا، فَسَكَبْتُ لَهَا غُسْلًا، فَاغْتَسَلَتْ كَأَحْسَنِ مَا رَأَيْتُهَا تَغْتَسِلُ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أُمَّهْ، أَعْطِينِي ثِيَابِيَ الْجُدُدَ، فَأَعْطَيْتُهَا، فَلَبِسَتْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أُمَّهْ، قَدِّمِي لِي فِرَاشِي وَسَطَ الْبَيْتِ، فَفَعَلْتُ، وَاضْطَجَعَتْ , وَاسْتَقْبَلَتْ الْقِبْلَةَ، وَجَعَلَتْ يَدَهَا تَحْتَ خَدِّهَا، ثُمَّ قَالَتْ: يَا أُمَّهْ، إِنِّي مَقْبُوضَةٌ الْآنَ، إِنِّي مَقْبُوضَةٌ الْآنَ، وَقَدْ تَطَهَّرْتُ، فَلَا يَكْشِفُنِي أَحَدٌ، فَقُبِضَتْ مَكَانَهَا، قَالَتْ: فَجَاءَ عَلِيٌّ، فَأَخْبَرْتُهُ" .
حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مرض الوفات میں مبتلا ہوئیں تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی، ایک دن میں ان کے پاس پہنچی تو میں نے انہیں ایسی بہتریں حالت میں پایا جو میں نے بیماری کے ایام میں نہیں دیکھی تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت کسی کام سے باہر نکلے ہوئے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا: اماں جان! میرے لئے غسل کا پانی رکھ دو، میں نے ان کے لئے غسل کا پانی رکھا، انہوں نے اتنے عمدہ طریقے سے غسل کیا کہ اس سے پہلے بیماری کے ایام میں میں نے انہیں اس طرح غسل کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، پھر وہ کہنے لگیں کہ اماں جان! مجھے میرے نئے کپڑے دے دو، میں نے انہیں وہ کپڑے دے دئیے، انہوں نے وہ کپڑے زیب تن کئے اور فرمایا: اماں جان! میرا بستر گھر کے درمیان میں کر دو، میں نے ایسا ہی کیا اور وہ وہاں آکر قبلہ رخ لیٹ گئیں اور اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ کر فرمایا: اماں جان! اب میری روح قبض ہونے والی ہے، میں غسل کر چکی ہوں لہٰذا اب کوئی میرے جسم سے کپڑے نہ اتارے، چنانچہ اسی جگہ ان کی روح قبض ہو گئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے انہیں بتا دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، ولضعف عبيدالله بن على بن أبى رافع، وفي متنه نكارة
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ تھیں) سے مروی ہے کہ میں نے جب بھی کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر درد کی شکایت کرتے ہوئے سنا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہی فرمایا کہ سینگی لگواؤ اور جب بھی کسی نے پاؤں میں درد کی شکایت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ان پر مہندی لگاؤ۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطرابه، وقد اختلف فى إسناده على عبدالرحمن بن أبى الموالي
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ تھیں) سے مروی ہے کہ میں نے جب بھی کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر درد کی شکایت کرتے ہوئے سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہی فرمایا کہ سینگی لگواؤ اور جب بھی کسی نے پاؤں میں درد کی شکایت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ان پر مہندی لگاؤ۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطرابه، وقد اختلف فى إسناده على عبدالرحمن بن أبى الموالي
حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله ، يقول: اخبرتني ام شريك ، انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " ليفرن الناس من الدجال في الجبال"، قالت ام شريك: يا رسول الله، فاين العرب يومئذ؟ قال:" كلهم قليل" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ شَرِيكٍ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنَ الدَّجَّالِ فِي الْجِبَالِ"، قَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" كُلُّهُمْ قَلِيلٌ" .
حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب لوگ دجال سے بھاگ کر پہاڑوں میں چلے جائیں گے، حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس دن عرب کے لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بہت تھوڑے ہوں گے۔“
حدثنا سفيان بن عيينة ، حدثنا عبيد الله بن ابي يزيد ، اخبره ابوه ، قال: نزلت على ام ايوب الذين نزل عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، نزلت عليها، فحدثتني بهذا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: انهم تكلفوا طعاما فيه بعض هذه البقول، فقربوه، فكرهه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال لاصحابه: " كلوا، إني لست كاحد منكم، إني اخاف ان اوذي صاحبي" , يعني: الملك.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ ، أَخْبَرَهُ أَبُوهُ ، قَالَ: نَزَلْتُ عَلَى أُمِّ أَيُّوبَ الَّذِينَ نَزَلَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَزَلْتُ عَلَيْهَا، فَحَدَّثَتْنِي بِهَذَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُمْ تَكَلَّفُوا طَعَامًا فِيهِ بَعْضُ هَذِهِ الْبُقُولِ، فَقَرَّبُوهُ، فَكَرِهَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: " كُلُوا، إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ أُوذِيَ صَاحِبِي" , يَعْنِي: الْمَلَكَ.
حضرت ام ایوب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے کھانا آیا جس میں لہسن تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرما دیا تم اسے کھالو، میں تمہاری طرح نہیں ہوں، میں اپنے ساتھی یعنی فرشتے کو ایذاء پہنچانا اچھا نہیں سمجھتا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن فى الشواهد، أبو يزيد والد عبيدالله مجهول الحال