حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے نرمی کا حصہ مل گیا، اسے خیر کا حصہ مل گیا اور قیامت کے دن میزان عمل میں اچھے اخلاق سے بھاری کوئی چیز نہ ہوگی۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وبعضه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة يعلي بن مملك
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن إبراهيم , عن علقمة , قال: قدمنا إلى الشام , فاتانا ابو الدرداء , فقال: افيكم احد يقرا علي قراءة عبد الله ؟ فاشاروا إلي , قال: قلت: نعم انا , فقال: كيف سمعت عبد الله يقرا هذه الآية والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى سورة الليل آية 1 - 2؟ قال: قلت: سمعته يقرا: " والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى , والذكر والانثى" , قال: وانا والله هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها , وهؤلاء يريدون ان اقرا: وما خلق , فلا اتابعهم .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , قَالَ: قَدِمْنَا إِلَى الشَّامِ , فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَيَّ قِرَاءَةَ عَبْدِ اللَّهِ ؟ فَأَشَارُوا إِلَيَّ , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا , فَقَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى سورة الليل آية 1 - 2؟ قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: " وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , قَالَ: وَأَنَا وَاللَّهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا , وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ أَقْرَأَ: وَمَا خَلَقَ , فَلَا أُتَابِعُهُمْ .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے شام دمشق کی جامع مسجد میں دو رکعتیں پڑھ کر اچھے ہم نشین کی دعاء کی تو وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کی اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں وما خلق بھی پڑھوں لیکن میں ان کی بات نہیں مانوں گا۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن ابي صالح , عن عطاء بن يسار , عن رجل من اهل مصر , عن ابي الدرداء , قال: سئل عن هذه الآية لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة يونس آية 64 , فقال: لقد سالت عن شيء ما سمعت احدا سال بعد رجل سال عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " هي الرؤيا الصالحة , يراها الرجل المسلم , او ترى له بشراه في الحياة الدنيا , وبشراه في الآخرة الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة يونس آية 64 , فَقَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ شَيْءٍ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا سَأَلَ بَعْدَ رَجُلٍ سَأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " هِيَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ , يَرَاهَا الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ , أَوْ تُرَى لَهُ بُشْرَاهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا , وَبُشْرَاهُ فِي الْآخِرَةِ الْجَنَّةُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الراوي عن أبى الدرداء
حضرت ام درداء بحوالہ ابودرداء نقل کرتی ہیں کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی پیٹھ پیچھے جو دعاء کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے اور اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ اس مقصد کے لئے مقرر ہوتا ہے جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعاء مانگے تو وہ اس پر آمین کہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تہ میں بھی یہی نصیب ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد وهم ابن نميرفيه بإثبات سماع أم الدرداء من النبيي ﷺ، م: 2732
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا عبد الملك , عن ابي الزبير , عن صفوان بن عبد الله وكانت تحته الدرداء , فاتاهم , فوجد ام الدرداء , فقالت له: اتريد الحج العام؟ فقال: نعم , قالت: فادع لنا بخير , فإن النبي صلى الله عليه وسلم , كان يقول: " إن دعوة المرء المسلم مستجابة لاخيه بظهر الغيب , عند راسه ملك موكل به , كلما دعا لاخيه بخير , قال: آمين , ولك بمثل" , قال: فخرجت إلى السوق , فلقيت ابا الدرداء , فحدثني عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل ذلك.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءِ , فَأَتَاهُمْ , فَوَجَدَ أُمَّ الدَّرْدَاءِ , فَقَالَتْ لَهُ: أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ , قَالَتْ: فَادْعُ لَنَا بِخَيْرٍ , فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يَقُولُ: " إِنَّ دَعْوَةَ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ , عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ بِهِ , كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ , قَالَ: آمِينَ , وَلَكَ بِمِثْلٍ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ , فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذَلِكَ.
صفوان بن عبداللہ " جن کے نکاح میں " درداء " تھیں کہتے ہیں کی ایک مرتبہ میں شام آیا اور حضرت ابودردا رضی اللہ عنہء کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن وہ گھر پر نہیں لے البتہ ان کی اہلیہ موجود تھیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اس سال تمہارا حج کا ارداہ ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا، انہوں نے فرمایا کہ ہمارے لئے بھی خیر کی دعاء کرنا کیونکہ نبی فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان اپنے بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی پیٹھ پیچھے جو دعاء کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے اور سکے سر کے پاس ایک فرشتہ اس مقصد کے لئے مقرر ہوتا ہے جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعاء مانگے تو وہ اس پر آمین کہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تہ میں بھی یہی نصیب ہو۔
پھر میں بازار کی طرف نکلا تو حضرت ابودردا رضی اللہ عنہء سے بھی ملاقات ہوگئی، انہوں نے بھی مجھ سے یہی کہا اور یہی حدیث انہوں نے بھی نبی کے حوالے سے سنائی۔
حدثنا سفيان , قال ابي: وقرئ على سفيان: سمعت ابن ابي حسين , عن شهر بن حوشب , عن اسماء بنت يزيد , حدثنا سفيان , عن ابن ابي حسين , عن شهر بن حوشب , عن اسماء , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال: " لا تجمعن جوعا وكذبا" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ أَبِي: وَقُرِئَ عَلَى سُفْيَانَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي حُسَيْنٍ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَسْمَاءَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَكَذِبًا" .
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھوک اور جھوٹ کو اکٹھا نہ کرو۔“
حدثنا سفيان , عن ابن ابي حسين , سمع شهرا , يقول: سمعت اسماء بنت يزيد إحدى نساء بني عبد الاشهل , تقول: مر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن في نسوة , فسلم علينا , وقال:" إياكن وكفر المنعمين" , فقلنا: يا رسول الله , وما كفر المنعمين؟ قال: " لعل إحداكن ان تطول ايمتها بين ابويها وتعنس , فيرزقها الله عز وجل زوجا , ويرزقها منه مالا وولدا , فتغضب الغضبة , فراحت تقول: ما رايت منه يوما خيرا قط" , وقال مرة:" خيرا قط" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ , سَمِعَ شَهْرًا , يَقُولُ: سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ إِحْدَى نِسَاءِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ , تَقُولُ: مَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي نِسْوَةٍ , فَسَلَّمَ عَلَيْنَا , وَقَالَ:" إِيَّاكُنَّ وَكُفْرَ الْمُنَعَّمِينَ" , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا كُفْرُ الْمُنَعَّمِينَ؟ قَالَ: " لَعَلَّ إِحْدَاكُنَّ أَنْ تَطُولَ أَيْمَتُهَا بَيْنَ أَبَوَيْهَا وَتَعْنُسَ , فَيَرْزُقَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ زَوْجًا , وَيَرْزُقَهَا مِنْهُ مَالًا وَوَلَدًا , فَتَغْضَبَ الْغَضْبَةَ , فَرَاحَتْ تَقُولُ: مَا رَأَيْتُ مِنْهُ يَوْمًا خَيْرًا قَطُّ" , وَقَالَ مَرَّةً:" خَيْرًا قَطُّ" .
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا ”جن کا تعلق بنی عبدالاشہل سے ہے“ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے، ہم کچھ عورتوں کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا: ”احسان کرنے والوں کی ناشکری سے اپنے آپ کو بچاؤ“، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے ماں باپ کے یہاں طویل عرصے تک رشتے کے انتظار میں بیٹھی رہے، پھر اللہ اسے شوہر عطاء فرما دے اور اس سے اسے مال و دولت بھی عطاء فرما دے اور وہ پھر کسی دن غصے میں آکر یوں کہہ دے کہ میں نے تو تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وقد توبع
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کیا کرو، کیونکہ حالت رضاعت میں بیوی سے قربت کے نتیجے میں دودھ پینے والا بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو گھوڑا اسے اپنی پشت سے گرا دیتا ہے (وہ جم کر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال مهاجر، وقد انفرد به ، ومثله لا يحتمل تفرده، ثم إنه معارض بحديث صحيح