حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس سے قیامت کے دن جہنم کی آگ کو دور کرے۔ علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام پہنچا۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا حدثنا ابو العلاء الحسن بن سوار , حدثنا ليث , عن معاوية , عن ابي حلبس يزيد بن ميسرة , قال: سمعت ام الدرداء , تقول: سمعت ابا الدرداء , يقول: سمعت ابا القاسم صلى الله عليه وسلم , يقول: ما سمعته يكنيه قبلها ولا بعدها , يقول: " إن الله عز وجل يقول: يا عيسى , إني باعث من بعدك امة , إن اصابهم ما يحبون , حمدوا الله وشكروا , وإن اصابهم ما يكرهون , احتسبوا وصبروا , ولا حلم ولا علم , قال: يا رب كيف هذا لهم , ولا حلم ولا علم؟ قال: اعطيهم من حلمي وعلمي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ , حَدَّثَنَا لَيْثٌ , عَنْ مُعَاوِيَةَ , عَنْ أَبِي حَلْبَسٍ يَزِيدَ بْنِ مَيْسَرَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ , تَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: مَا سَمِعْتُهُ يُكَنِّيهِ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا , يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: يَا عِيسَى , إِنِّي بَاعِثٌ مِنْ بَعْدِكَ أُمَّةً , إِنْ أَصَابَهُمْ مَا يُحِبُّونَ , حَمِدُوا اللَّهَ وَشَكَرُوا , وَإِنْ أَصَابَهُمْ مَا يَكْرَهُونَ , احْتَسَبُوا وَصَبَرُوا , وَلَا حِلْمَ وَلَا عِلْمَ , قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ هَذَا لَهُمْ , وَلَا حِلْمَ وَلَا عِلْمَ؟ قَالَ: أُعْطِيهِمْ مِنْ حِلْمِي وَعِلْمِي" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے " بقول راوی میں نے انہیں اس سے قبل یا بعد میں نبی کی کنیت ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا " کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ! میں تمہارے بعد ایک امت بھیجنے والا ہوں، انہیں اگر کوئی خوشی نصیب ہوگی تو وہ حمد و شکر بجا لائیں گے اور اگر کوئی ناپسندیدہ صورت پیش آئے گی تو وہ اس پر صبر کریں گے اور ثواب کی نیت کریں گے اور کوئی حلم و علم نہ ہوگا، انہوں نے عرض کیا پروردگار! یہ کیسے ہوگا جبکہ ان کے پاس کوئی حلم و علم نہ ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں انہیں اپنا حلم و علم عطاء کروں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال أبى حلبس يزيد بن ميسرة
حدثنا احمد بن عبد الملك , حدثني سهل بن ابي صدقة , قال: حدثني كثير ابو الفضل الطفاوي , حدثني يوسف بن عبد الله بن سلام , قال: اتيت ابا الدرداء في مرضه الذي قبض فيه , فقال لي: يا ابن اخي , ما اعمدك إلى هذا البلد , او ما جاء بك؟ قال: قلت: لا , إلا صلة ما كان بينك وبين والدي عبد الله بن سلام , فقال ابو الدرداء : بئس ساعة الكذب هذه , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " من توضا , فاحسن وضوءه , ثم قام , فصلى ركعتين , او اربعا شك سهل , يحسن فيهما الذكر والخشوع , ثم استغفر الله عز وجل , غفر له" , قال عبد الله: وحدثناه سعيد بن ابي الربيع السمان , قال: حدثنا صدقة بن ابي سهل الهنائي , قال عبد الله: واحمد بن عبد الملك وهم في اسم الشيخ , فقال: سهل بن ابي صدقة , وإنما هو صدقة بن ابي سهل الهنائي.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ , حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ أَبِي صَدَقَةَ , قَالَ: حَدَّثَنِي كَثِيرُ أَبُو الْفَضْلِ الطُّفَاوِيُّ , حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ , فَقَالَ لِي: يَا ابْنَ أَخِي , مَا أَعْمَدَكَ إِلَى هَذَا الْبَلَدِ , أَوْ مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا , إِلَّا صِلَةُ مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ وَالِدِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : بِئْسَ سَاعَةُ الْكَذِبِ هَذِهِ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَنْ تَوَضَّأَ , فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ , ثُمَّ قَامَ , فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ , أَوْ أَرْبَعًا شَكَّ سَهْلٌ , يُحْسِنُ فِيهِمَا الذِّكْرَ وَالْخُشُوعَ , ثُمَّ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , غَفَرَ لَهُ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وحَدَّثَنَاه سَعِيدُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ السَّمَّانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ الْهُنَائِيُّ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ وَهِمَ فِي اسْمِ الشَّيْخِ , فَقَالَ: سَهْلُ بْنُ أَبِي صَدَقَةَ , وَإِنَّمَا هُوَ صَدَقَةُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ الْهُنَائِيُّ.
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام سے مروی ہے کہ مجھے حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے جب ان کی دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا بھتیجے! کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا محض آپ کے اور میرے والد عبداللہ بن سلام کی دوستی کی وجہ سے، انہوں نے فرمایا زندگی کے اس لمحے میں جھوٹ بولنا بہت بری بات ہوگی، میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر دو رکعتیں مکمل خشوع کے ساتھ پڑھے پھر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو اللہ اسے ضرور بخش دے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن على وهم فى تسمية أحذ رواته ، فقد وهم أحمد بن عبدالملك ، فسمي صدقة بن أبى سهل: سهل ابن أبى صدقة، كما نبه عليه الإمام عبدالله بن الإمام أحمد عقب هذا الحديث
حدثنا عفان , حدثنا همام , قال: حدثنا عاصم بن بهدلة , عن ابي صالح , عن معاذ بن جبل , انه إذ حضر , قال: ادخلوا علي الناس , فادخلوا عليه , فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " من مات لا يشرك بالله شيئا , جعله الله في الجنة" , وما كنت احدثكموه إلا عند الموت , والشهيد على ذلك عويمر ابو الدرداء , فاتوا ابا الدرداء , فقال: صدق اخي , وما كان يحدثكم به إلا عند موته .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , قَالَ: حدثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنَّهُ إِذْ حُضِرَ , قَالَ: أَدْخِلُوا عَلَيَّ النَّاسَ , فَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ , فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا , جَعَلَهُ اللَّهُ فِي الْجَنَّةِ" , وَمَا كُنْتُ أُحَدِّثُكُمُوهُ إِلَّا عِنْدَ الْمَوْتِ , وَالشَّهِيدُ عَلَى ذَلِكَ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَأَتَوْا أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي , وَمَا كَانَ يُحَدِّثُكُمْ بِهِ إِلَّا عِنْدَ مَوْتِهِ .
حضرت معاذ بن جبل کے حوالے سے مروی ہے کہ جب ان کا آخری وقت قریب آیا تو فرمایا لوگوں کو میرے پاس بلا کر لاؤ، لوگ آئے تو فرمایا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا، میں تمہیں یہ بات اپنی موت کے وقت بتارہا ہوں اور اس کے گواہ عویمر حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا میرے بھائی نے سچ کہا اور انہوں نے یہ حدیث تم سے اپنی موت کے وقت ہی بیان کرنا تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو صالح لم يسمع من معاذ بن جبل، ولا من أبى الدرداء
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن مغيرة , انه سمع إبراهيم , يحدث , قال: اتى علقمة الشام فصلى ركعتين , فقال: اللهم وفق لي جليسا صالحا , قال: فجلست إلى رجل , فإذا هو ابو الدرداء , فقال: ممن انت؟ فقلت: من اهل الكوفة , فقال: هل تدري كيف كان عبد الله يقرا هذا الحرف والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى وما خلق الذكر والانثى سورة الليل آية 1 - 3 , فقلت: كان يقرؤها: " والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى , والذكر والانثى" , فقال: هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها , فما زال بي هؤلاء حتى كادوا يشككوني , ثم قال: اليس فيكم صاحب الوساد والسواك؟ يعني: عبد الله ابن مسعود , اليس فيكم الذي اجاره الله على لسان نبيه من الشيطان؟ يعني: عمار بن ياسر , اليس فيكم الذي يعلم السر ولا يعلمه غيره؟ يعني: حذيفة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ مُغِيرَةَ , أَنَّهُ سَمِعَ إِبْرَاهِيمَ , يُحَدِّثُ , قالَ: أَتَى عَلْقَمَةُ الشَّامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ وَفِّقْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا , قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى رَجُلٍ , فَإِذَا هُوَ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , فَقَالَ: هَلْ تَدْرِي كَيْفَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذَا الْحَرْفَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى سورة الليل آية 1 - 3 , فَقُلْتُ: كَانَ يَقْرَؤُهَا: " وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , فَقَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا , فَمَا زَالَ بِي هَؤُلَاءِ حَتَّى كَادُوا يُشَكِّكُونِي , ثُمَّ قَالَ: أَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ الْوِسَادِ وَالسِّوَاكِ؟ يَعْنِي: عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ مَسْعُودٍ , أَلَيْسَ فِيكُمْ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مِنَ الشَّيْطَان؟ يَعْنِي: عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ , أَلَيْسَ فِيكُمْ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ وَلَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ؟ يَعْنِي: حُذَيْفَةَ .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام میں دمشق کی جامع مسجد میں دو رکعتیں پڑھ کر اچھے ہم نشین کی دعاء کی تو وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں، انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کو اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے اس پر اتنی بحث کی تھی کہ مجھے شک میں مبتلا کردیا تھا، پھر فرمایا کیا تم میں " تکیے والے " ایسے رازوں کو جاننے والے جنہیں کوئی نہ جانتا ہو اور جنہیں نبی کی زبانی شیطان سے محفوظ قرار دیا گیا تھا " نہیں ہیں؟ تکیے والے تو ابن مسعود ہیں، رازوں کو جاننے والے حذیفہ ہیں اور شیطان سے محفوظ عمار ہیں۔
حضرت نعیم سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے چار حصے میں چار رکعتیں پڑھنے سے اپنے آپ کو عاجز ظاہر نہ کرو، میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، شريح بن عبيد لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل ابوقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے جنہیں میں کبھی نہیں چھوڑوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر تین مہینے روزے رکھنے کی، وتر پڑھ کر سونے کی اور سفر وحضر میں چاشت کے نوافل پڑھنے کی وصیت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون قوله: "فى الحضر والسفر"، م: 722، وهذا إسناد ضعيف لابهام الراوي عن أبى إدريس السكوني، ولجهالة أبى إدريس
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے، اب تمہاری مرضی ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا اسے چھوڑ دو۔