حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا صالح يعني ابن حيان ، عن ابن بريدة ، عن ابيه انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في اثنين واربعين من اصحابه، والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي في المقام، وهم خلفه جلوس ينتظرونه، فلما صلى، اهوى فيما بينه وبين الكعبة كانه يريد ان ياخذ شيئا، ثم انصرف إلى اصحابه، فثاروا، واشار إليهم بيده ان اجلسوا، فجلسوا، فقال:" رايتموني حين فرغت من صلاتي اهويت فيما بيني وبين الكعبة كاني اريد ان آخذ شيئا؟"، قالوا: نعم، يا رسول الله، قال: " إن الجنة عرضت علي، فلم ار مثل ما فيها، وإنها مرت بي خصلة من عنب، فاعجبتني، فاهويت إليها لآخذها، فسبقتني، ولو اخذتها، لغرستها بين ظهرانيكم حتى تاكلوا من فاكهة الجنة، واعلموا ان الكماة دواء العين، وان العجوة من فاكهة الجنة، وان هذه الحبة السوداء التي تكون في الملح اعلموا انها دواء من كل داء، إلا الموت" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عُبيْدٍ ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ يَعْنِي ابنَ حَيَّانَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْنِ وَأَرْبعِينَ مِنْ أَصْحَابهِ، وَالنَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْمَقَامِ، وَهُمْ خَلْفَهُ جُلُوسٌ يَنْتَظِرُونَهُ، فَلَمَّا صَلَّى، أَهْوَى فِيمَا بيْنَهُ وَبيْنَ الْكَعْبةِ كَأَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَأْخُذَ شَيْئًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى أَصْحَابهِ، فَثَارُوا، وَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بيَدِهِ أَنْ اجْلِسُوا، فَجَلَسُوا، فَقَالَ:" رَأَيْتُمُونِي حِينَ فَرَغْتُ مِنْ صَلَاتِي أَهْوَيْتُ فِيمَا بيْنِي وَبيْنَ الْكَعْبةِ كَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ آخُذَ شَيْئًا؟"، قَالُوا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ عُرِضَتْ عَلَيَّ، فَلَمْ أَرَ مِثْلَ مَا فِيهَا، وَإِنَّهَا مَرَّتْ بي خَصْلَةٌ مِنْ عِنَب، فَأَعْجَبتْنِي، فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا لِآخُذَهَا، فَسَبقَتْنِي، وَلَوْ أَخَذْتُهَا، لَغَرَسْتُهَا بيْنَ ظَهْرَانِيكُمْ حَتَّى تَأْكُلُوا مِنْ فَاكِهَةِ الْجَنَّةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْكَمْأَةَ دَوَاءُ الْعَيْنِ، وَأَنَّ الْعَجْوَةَ مِنْ فَاكِهَةِ الْجَنَّةِ، وَأَنَّ هَذِهِ الْحَبةَ السَّوْدَاءَ الَّتِي تَكُونُ فِي الْمِلْحِ اعْلَمُوا أَنَّهَا دَوَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا الْمَوْتَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ٢٤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے قریب نماز پڑھ رہے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیچھے بیٹھے انتظار کر رہے تھے نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی جانب اس طرح بڑھے جیسے کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں پھر واپس آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دست مبارک سے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ لوگ بیٹھ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم نے مجھے نماز سے فارغ ہو کر خانہ کعبہ کی طرف اس طرح بڑھتے ہوئے دیکھا تھا جیسے کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا جس کی نعمتوں جیسی کوئی چیز میں نے کبھی نہیں دیکھی میرے سامنے سے انگوروں کا ایک خوشہ گذرا جو مجھے اچھا لگا میں اسے پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو وہ مجھ سے آگے نکل گیا اگر میں اسے پکڑ لیتا تو اسے تمہارے سامنے گاڑ دیتا تاکہ تم جنت کے میوے کھاتے اور جان رکھو کہ کھنبی آنکھوں کا علاج ہے اور عجوہ جنت کا میوہ ہے اور یہ کلونجی جو نمک میں ہوتی ہے موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، صالح بن حيان ضعيف، ولبعضه شواهد يصح بها
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كان يوم الفتح فتح مكة، توضا ومسح على خفيه، فقال له عمر: رايتك يا رسول الله، صنعت اليوم شيئا لم تكن تصنعه! قال: " عمدا صنعته يا عمر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ فَتْحُ مَكَّةَ، تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: رَأَيْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ تَصْنَعُهُ! قَالَ: " عَمْدًا صَنَعْتُهُ يَا عُمَرُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آج تو آپ نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا شريك ، عن ابي ربيعة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تتبع النظرة النظرة، فإنما لك الاولى، وليست لك الآخرة" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبي رَبيعَةَ ، عَنْ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُتْبعْ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّمَا لَكَ الْأُولَى، وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نامحرم عورت پر ایک مرتبہ نظر پڑجانے کے بعد دوبارہ نظر مت ڈالا کرو کیونکہ پہلی نظر تمہیں معاف ہے لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى ربيعة وشريك
حدثنا وكيع ، حدثنا بشير بن مهاجر ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تعلموا، فإن اخذها بركة، وتركها حسرة، ولا يستطيعها البطلة، تعلموا عمران، فإنهما هما الزهراوان، يجيئان يوم القيامة كانهما غمامتان، او غيايتان، او كانهما فرقان من طير صواف، تجادلان عن صاحبهما" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ مُهَاجِرٍ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَلَّمُوا، فَإِنَّ أَخْذَهَا برَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبطَلَةُ، تَعَلَّمُوا عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا هُمَا الزَّهْرَاوَانِ، يَجِيئَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُجَادِلَانِ عَنْ صَاحِبهِمَا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور غلط کار لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا سورت بقرہ اور آل عمران دونوں کو سیکھو کیونکہ یہ دونوں روشن سورتیں اپنے پڑھنے والوں پر قیامت کے دن بادلوں، سائبانوں یا پرندوں کی دو ٹولیوں کی صورت میں سایہ کریں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا وكيع ، حدثنا بشير بن المهاجر ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجيء القرآن يوم القيامة كالرجل الشاحب، فيقول لصاحبه: انا الذي اسهرت ليلك، واظمات هواجرك" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ الْمُهَاجِرِ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِب، فَيَقُولُ لِصَاحِبهِ: أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَأَظْمَأْتُ هَوَاجِرَكَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن جب انسان کی قبر شق ہوگی تو قرآن اپنے پڑھنے والے سے " جو لاغر آدمی کی طرح ہوگا ملے گا اور اس سے کہے گا کہ میں تمہارا وہی ساتھی قرآن ہوں جس نے تمہیں سخت گرم دوپہروں میں پیاسا رکھا اور راتوں کو جگایا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة امهاتهم، وما من رجل من القاعدين يخلف رجلا من المجاهدين في اهله فيخونه فيها، إلا وقف له يوم القيامة، فياخذ من عمله ما شاء، فما ظنكم؟" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ فَيَخُونُهُ فِيهَا، إِلَّا وَقَفَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَأْخُذُ مِنْ عَمَلِهِ مَا شَاءَ، فَمَا ظَنُّكُمْ؟" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجاہدین کی عورتوں کی حرمت انتظار جہاد میں بیٹھنے والوں پر ان کی ماؤں جیسی ہے اگر ان بیٹھنے والوں میں سے کوئی شخص کسی مجاہد کے پیچھے اس کے اہل خانہ کا ذمہ دار بنے اور اس میں خیانت کرے تو اسے قیامت کے دن اس مجاہد کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور وہ اس کے اعمال میں سے جو چاہے گا لے لے گا اب تمہارا کیا خیال ہے؟
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث اميرا على سرية او جيش، اوصاه في خاصة نفسه بتقوى الله، ومن معه من المسلمين خيرا، وقال: " اغزوا بسم الله في سبيل الله، قاتلوا من كفر بالله، فإذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال، او خلال فايتهن ما اجابوك إليها، فاقبل منهم، وكف عنهم ادعهم إلى الإسلام، فإن اجابوك فاقبل منهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واعلمهم إن هم فعلوا ذلك، ان لهم ما للمهاجرين، وان عليهم ما على المهاجرين، فإن ابوا واختاروا دارهم، فاعلمهم انهم يكونون كاعراب المسلمين، يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الفيء والغنيمة نصيب، إلا ان يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم ابوا، فادعهم إلى إعطاء الجزية، فإن اجابوا فاقبل منهم، وكف عنهم، فإن ابوا فاستعن الله، ثم قاتلهم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بعَثَ أَمِيرًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْ جَيْشٍ، أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بتَقْوَى اللَّهِ، وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، وَقَالَ: " اغْزُوا بسْمِ اللَّهِ فِي سَبيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ باللَّهِ، فَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ، أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابوكَ إِلَيْهَا، فَاقْبلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابوكَ فَاقْبلْ مِنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَعْلِمْهُمْ إِنْ هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ، أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبوْا وَاخْتَارُوا دَارَهُمْ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَاب الْمُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْءِ وَالْغَنِيمَةِ نَصِيب، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبوْا، فَادْعُهُمْ إِلَى إِعْطَاءِ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ أَجَابوا فَاقْبلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ أَبوْا فَاسْتَعِنْ اللَّهَ، ثُمَّ قَاتِلْهُمْ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو کسی دستہ یا لشکر کا امیر مقرر کر کے روانہ فرماتے تو اسے خصوصیت کے ساتھ اس کو اپنے متعلق تقوی کی وصیت فرماتے اور اس کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ بہترین سلوک کی تاکید فرماتے پھر فرماتے کہ اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کے ساتھ قتال کرو اور جب دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو تو اسے تین میں سے کسی ایک بات کو قبول کرنے کی دعوت دو وہ ان میں سے جس بات کو بھی قبول کرلیں تم اسے ان کی طرف سے تسلیم کرلو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو سب سے پہلے اسلام کی دعوت ان کے سامنے پیش کرو اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو تم بھی اسے قبول کرلو پھر انہیں اپنے علاقے سے دارالمہاجرین کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور وہی فرائض ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اگر وہ اس سے انکار کردیں اور اپنے علاقے ہی میں رہنے کو ترجیح دیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی مانند شمار ہوں گے ان پر اللہ کے احکام تو ویسے ہی جاری ہوں گے جیسے تمام مسلمانوں پر ہوتے ہیں لیکن مال غنیمت میں مسلمانوں کے ہمراہ جہاد کئے بغیر ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اگر وہ اس سے انکار کردیں تو انہیں جزیہ دینے کی دعوت دو اگر وہ اسے تسلیم کرلیں تو تم اسے ان کی طرف سے قبول کرلینا اور ان سے اپنے ہاتھ روک لینا لیکن اگر وہ اس سے بھی انکار کردیں تو پھر اللہ سے مدد چاہتے ہوئے ان سے قتال کرو۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بارہ ٹانی کے ساتھ کھیلتا ہے وہ گویا اپنے ہاتھ خنزیر کے خون اور گوشت میں ڈبو دیتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو امانت پر قسم اٹھا لے اور جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے یا غلام کو اس کے آقا کے خلاف تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی شاہ حبشہ نے سیاہ رنگ کے دو سادہ موزے ہدیہ میں پیش کئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہن لیا اور وضو کرتے ہوئے ان پر مسح فرمایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، دلهم بن صالح ضعيف ، وحجر بن عبدالله مجهول