حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير بن المهاجر ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل يقال له: ماعز بن مالك، فقال: يا نبي الله، إني قد زنيت، وانا اريد ان تطهرني، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع"، فلما كان من الغد اتاه ايضا، فاعترف عنده بالزنا، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع"، ثم ارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى قومه، فسالهم عنه، فقال لهم: " ما تعلمون من ماعز بن مالك الاسلمي؟ هل ترون به باسا، او تنكرون من عقله شيئا؟"، قالوا: يا نبي الله، ما نرى به باسا، وما ننكر من عقله شيئا، ثم عاد إلى النبي صلى الله عليه وسلم الثالثة، فاعترف عنده بالزنا ايضا، فقال: يا نبي الله، طهرني، فارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى قومه ايضا، فسالهم عنه، فقالوا له كما قالوا له المرة الاولى: ما نرى به باسا، وما ننكر من عقله شيئا، ثم رجع إلى النبي صلى الله عليه وسلم الرابعة ايضا، فاعترف عنده بالزنا، فامر النبي صلى الله عليه وسلم فحفر له حفرة، فجعل فيها إلى صدره، ثم امر الناس ان يرجموه ، وقال بريدة: كنا نتحدث اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بيننا ان ماعز بن مالك لو جلس في رحله بعد اعترافه ثلاث مرار، لم يطلبه، وإنما رجمه عند الرابعة.حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ الْمُهَاجِرِ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: مَاعِزُ بنُ مَالِكٍ، فَقَالَ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ"، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَاهُ أَيْضًا، فَاعْترَفَ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَقَالَ لَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ"، ثُمَّ أَرْسَلَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمِهِ، فَسَأَلَهُمْ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُمْ: " مَا تَعْلَمُونَ مِنْ مَاعِزِ بنِ مَالِكٍ الْأَسْلَمِيِّ؟ هَلْ تَرَوْنَ بهِ بأْسًا، أَوْ تُنْكِرُونَ مِنْ عَقْلِهِ شَيْئَا؟"، قَالُوا: يَا نَبيَّ اللَّهِ، مَا نَرَى بهِ بأْسًا، وَمَا نُنْكِرُ مِنْ عَقْلِهِ شَيْئًا، ثُمَّ عَادَ إِلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّالِثَةَ، فَاعْتَرَفَ عِنْدَهُ بالزِّنَا أَيْضًا، فَقَالَ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَأَرْسَلَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمِهِ أَيْضًا، فَسَأَلَهُمْ عَنْهُ، فَقَالُوا لَهُ كَمَا قَالُوا لَهُ الْمَرَّةَ الْأُولَى: مَا نَرَى بهِ بأْسًا، وَمَا نُنْكِرُ مِنْ عَقْلِهِ شَيْئًا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّابعَةَ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَأَمَرَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحُفِرَ لَهُ حُفْرَةً، فَجُعِلَ فِيهَا إِلَى صَدْرِهِ، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهُ ، وَقَالَ برَيْدَةُ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَصْحَاب النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بيْنَنَا أَنَّ مَاعِزَ بنَ مَالِكٍ لَوْ جَلَسَ فِي رَحْلِهِ بعْدَ اعْتِرَافِهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، لَمْ يَطْلُبهُ، وَإِنَّمَا رَجَمَهُ عِنْدَ الرَّابعَةِ.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ماعز بن مالک نامی ایک آدمی آیا اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! مجھ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہوگیا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کردیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس چلے جاؤ اگلے دن وہ دوبارہ حاضر ہوا اور دوبارہ بدکاری کا اعتراف کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ واپس بھیج دیا پھر ایک آدمی کو اس کی قوم میں بھیج کر ان سے پوچھا کہ تم لوگ ماعز بن مالک اسلمی کے متعلق کیا جانتے ہو؟ کیا تم اس میں کوئی نامناسب چیز دیکھتے ہو یا اس کی عقل میں کچھ نقص محسوس ہوتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! ہم اس میں کوئی نامناسب بات نہیں دیکھتے اور اس کی عقل میں کوئی نقص بھی محسوس نہیں کرتے۔
پھر وہ تیسری مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر بدکاری کا اعتراف کیا اور کہا کہ اے اللہ کے نبی! مجھے پاک کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس کی قوم کی طرف ایک آدمی کو وہی سوال دے کر بھیجا تو انہوں نے حسب سابق جواب دہرایا پھر جب اس نے چوتھی مرتبہ اعتراف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کے لئے ایک گڑھا کھود دیا گیا اور اسے سینے تک اس گڑھے میں اتار دیا گیا پھر لوگوں کو اس پر پتھرم ارنے کا حکم دیا۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر ماعز تین مرتبہ اعتراف کرنے کے بعد بھی اپنے گھر میں بیٹھ جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تلاش نہ کرواتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی مرتبہ اعتراف کے بعد ہی انہیں رجم فرمایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1695، وقول بريدة الذى فى آخر الحديث تفرد به بشير بن المهاجر، وهو مختلف فيه، وهو إلى الضعف أقرب، لكن يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حدثنا الاسود بن عامر ، اخبرنا ابو إسرائيل ، عن حارث بن حصيرة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه، قال: دخل على معاوية، فإذا رجل يتكلم، فقال بريدة: يا معاوية، فائذن لي في الكلام؟ فقال: نعم، وهو يرى انه سيتكلم بمثل ما قال الآخر، فقال بريدة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إني لارجو ان اشفع يوم القيامة عدد ما على الارض من شجرة ومدرة" ، قال: افترجوها انت يا معاوية، ولا يرجوها علي بن ابي طالب رضي الله عنه؟!.حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ ، أَخْبرَنَا أَبو إِسْرَائِيلَ ، عَنْ حَارِثِ بنِ حَصِيرَةَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أبيه، قَالَ: دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ برَيْدَةُ: يَا مُعَاوِيَةُ، فَائْذَنْ لِي فِي الْكَلَامِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ سَيَتَكَلَّمُ بمِثْلِ مَا قَالَ الْآخَرُ، فَقَالَ برَيْدَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَشْفَعَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدَدَ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ وَمَدَرَةٍ" ، قَالَ: أَفَتَرْجُوهَا أَنْتَ يَا مُعَاوِيَةُ، وَلَا يَرْجُوهَا عَلِيُّ بنُ أَبي طَالِب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؟!.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہاں ایک آدمی بات کر رہا تھا حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا معاویہ! کیا آپ مجھے بولنے کی اجازت دیتے ہیں انہوں نے فرمایا ہاں! ان کا خیال یہ تھا کہ وہ بھی پہلے آدمی کی طرح کوئی بات کریں گے لیکن حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میں اتنے لوگوں کی سفارش کروں گا جتنے زمین پر درخت اور مٹی ہے اے معاویہ! تم اس شفاعت کی امید رکھ سکتے ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی امید نہیں رکھ سکتے؟
حدثنا الخزاعي وهو ابو سلمة , اخبرنا شريك ، عن ابي بكر بن احمر اسمه جبريل ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال توفي رجل من الازد، فلم يدع وارثا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " التمسوا له وارثا، التمسوا له ذا رحم"، قال: فلم يوجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ادفعوه إلى اكبر خزاعة" .حَدَّثَنَا الْخُزَاعِيُّ وَهُوَ أَبو سَلَمَةَ , أَخْبرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبي بكْرِ بنِ أَحْمَرَ اسْمُهُ جِبرِيلُ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنَ الْأَزْدِ، فَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْتَمِسُوا لَهُ وَارِثًا، الْتَمِسُوا لَهُ ذَا رَحِمٍ"، قَالَ: فَلَمْ يُوجَدْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْفَعُوهُ إِلَى أَكْبرِ خُزَاعَةَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ ازد کا ایک آدمی فوت ہوگیا اور پیچھے کوئی وارث چھوڑ کر نہیں گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا کوئی وارث تلاش کرو اس کا کوئی قریبی رشتہ دار تلاش کرو لیکن تلاش کے باوجود کوئی نہ مل سکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا مال خزاعہ کے سب سے بڑے آدمی کو دے دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف والحديث منكر من أجل أبى بكر بن أحمر، وشريك سيء الحفظ، لكنه توبع إلا فى قوله: التمسوا له ذا رحم
حدثنا الفضل بن دكين ، حدثنا ابن ابي غنية ، عن الحكم ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن بريدة ، قال: غزوت مع علي اليمن، فرايت منه جفوة، فلما قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرت عليا، فتنقصته، فرايت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتغير، فقال:" يا بريدة، الست اولى بالمؤمنين من انفسهم؟"، قلت: بلى يا رسول الله، قال: " من كنت مولاه، فعلي مولاه" .حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بنُ دُكَيْنٍ ، حَدَّثَنَا ابنُ أَبي غَنِيَّةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ سَعِيدِ بنِ جُبيْرٍ ، عَنِ ابنِ عَباسٍ ، عَنْ برَيْدَةَ ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ:" يَا برَيْدَةُ، أَلَسْتُ أَوْلَى بالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟"، قُلْتُ: بلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں یمن میں جہاد کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک تھا مجھے ان کی طرف سے سختی کا سامنا ہوا لہٰذا جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شان میں کوتاہی کی میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بریدہ! کیا مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حق نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جس کا محبوب ہوں تو علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا هشام ، عن قتادة ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يتطير من شيء، ولكنه كان إذا اراد ان ياتي امراة، سال عن اسمها، فإن كان حسنا رئي البشر في وجهه، وإن كان قبيحا رئي ذلك في وجهه، وكان إذا بعث رجلا سال عن اسمه، فإن كان حسن الاسم رئي البشر في وجهه، وإن كان قبيحا رئي ذلك في وجهه" .حَدَّثَنَا عَبدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْءٍ، وَلَكِنَّهُ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةً، سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا، فَإِنْ كَانَ حَسَنًا رُئِيَ الْبشْرُ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَانَ قَبيحًا رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَكَانَ إِذَا بعَثَ رَجُلًا سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ، فَإِنْ كَانَ حَسَنَ الِاسْمِ رُئِيَ الْبشْرُ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَانَ قَبيحًا رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے شگون بد نہیں لیتے تھے البتہ جب کسی علاقے میں جانے کا ارادہ فرماتے تو پہلے اس کا نام پوچھتے اگر اس کا نام اچھا ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک پر بشاشت کے اثرات دیکھے جاسکتے تھے اور اگر اس اس کا نام اچھا نہ ہوتا تو اس کے اثرات بھی چہرہ مبارک پر نظر آجاتے تھے اسی طرح جب کسی آدمی کو کہیں بھیجتے تھے تو پہلے اس کا نام پوچھتے تھے، اگر اس کا نام اچھا ہوتا تو بشاشت کے اثرات روئے مبارک پر دیکھے جاسکتے تھے اور اگر نام برا ہوتا تو اس کے اثرات بھی نظر آجاتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منقطع، لا يعرف سماع قتادة من ابن بريدة
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مجھے اور قیامت کو ایک ساتھ بھیجا گیا ہے قریب تھا کہ وہ مجھ سے پہلے آجاتی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: خرج إلينا النبي صلى الله عليه وسلم يوما، فنادى ثلاث مرار، فقال:" يا ايها الناس، تدرون ما مثلي ومثلكم؟"، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" إنما مثلي ومثلكم مثل قوم خافوا عدوا ياتيهم، فبعثوا رجلا يتراءى لهم، فبينما هم كذلك، ابصر العدو، فاقبل لينذرهم، وخشي ان يدركه العدو قبل ان ينذر قومه، فاهوى بثوبه: ايها الناس اتيتم، ايها الناس اتيتم"، ثلاث مرار .حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَنَادَى ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، تَدْرُونَ مَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ؟"، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ مَثَلُ قَوْمٍ خَافُوا عَدُوًّا يَأْتِيهِمْ، فَبعَثُوا رَجُلًا يَتَرَاءى لَهُمْ، فَبيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، أَبصَرَ الْعَدُوَّ، فَأَقْبلَ لِيُنْذِرَهُمْ، وَخَشِيَ أَنْ يُدْرِكَهُ الْعَدُوُّ قَبلَ أَنْ يُنْذِرَ قَوْمَهُ، فَأَهْوَى بثَوْبهِ: أَيُّهَا النَّاسُ أُتِيتُمْ، أَيُّهَا النَّاسُ أُتِيتُمْ"، ثَلَاثَ مِرَارٍ .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور تین مرتبہ پکار کر فرمایا لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ میری اور تمہاری کیا مثال ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جسے اس کی قوم نے ہر اول کے طور پر بھیجا ہو جب اسے اندیشہ ہو کہ دشمن اس سے آگے بڑھ جائے گا تو وہ اپنے کپڑے ہلا ہلا کر لوگوں کو خبردار کرے کہ تم پر دشمن آپہنچا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ آدمی میں ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءته امراة من غامد، فقالت: يا نبي الله، إني قد زنيت، وانا اريد ان تطهرني، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجعي"، فلما ان كان من الغد اتته ايضا، فاعترفت عنده بالزنا، فقالت: يا رسول الله، إني قد زنيت، وانا اريد ان تطهرني، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجعي"، فلما ان كان من الغد اتته ايضا، فاعترفت عنده بالزنا، فقالت: يا نبي الله، طهرني، فلعلك ان تردني كما رددت ماعز بن مالك، فوالله إني لحبلى، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجعي حتى تلدي"، فلما ولدت جاءت بالصبي تحمله، فقالت: يا نبي الله، هذا قد ولدت، قال:" فاذهبي فارضعيه حتى تفطميه"، فلما فطمته، جاءت بالصبي في يده كسرة خبز، قالت: يا نبي الله، هذا قد فطمته، فامر النبي صلى الله عليه وسلم بالصبي فدفعه إلى رجل من المسلمين، وامر بها فحفر لها حفرة، فجعلت فيها إلى صدرها، ثم امر الناس ان يرجموها، فاقبل خالد بن الوليد بحجر، فرمى راسها، فنضح الدم على وجنة خالد فسبها، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم سبه إياها، فقال:" مهلا يا خالد بن الوليد، لا تسبها، فوالذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له"، فامر بها، فصلى عليها، ودفنت .حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعِي"، فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعِي"، فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَقَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَلَعَلَّكَ أَنْ تَرُدَّنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بنَ مَالِكٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَحُبلَى، فَقَالَ لَهَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعِي حَتَّى تَلِدِي"، فَلَمَّا وَلَدَتْ جَاءَتْ بالصَّبيِّ تَحْمِلُهُ، فَقَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، هَذَا قَدْ وَلَدْتُ، قَالَ:" فَاذْهَبي فَأَرْضِعِيهِ حَتَّى تَفْطِمِيهِ"، فَلَمَّا فَطَمَتْهُ، جَاءَتْ بالصَّبيِّ فِي يَدِهِ كِسْرَةُ خُبزٍ، قَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، هَذَا قَدْ فَطَمْتُهُ، فَأَمَرَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالصَّبيِّ فَدَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بهَا فَحُفِرَ لَهَا حُفْرَةٌ، فَجُعِلَتْ فِيهَا إِلَى صَدْرِهَا، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهَا، فَأَقْبلَ خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ بحَجَرٍ، فَرَمَى رَأْسَهَا، فَنَضَحَ الدَّمُ عَلَى وَجْنَةِ خَالِدٍ فَسَبهَا، فَسَمِعَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ:" مَهْلًا يَا خَالِدُ بنَ الْوَلِيدِ، لَا تَسُبهَا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لَقَدْ تَابتْ تَوْبةً لَوْ تَابهَا صَاحِب مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ"، فَأَمَرَ بهَا، فَصَلَّى عَلَيْهَا، وَدُفِنَتْ .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ " غامد " سے ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے نبی! مجھ سے بدکاری کا ارتکاب ہوگیا ہے چاہتی ہوں کہ آپ مجھے پاک کردیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بھیج دیا اگلے دن وہ پھر آگئی اور دوبارہ اعتراف کرتے ہوئے کہنے لگی کہ شاید آپ مجھے بھی ماعز کی طرح واپس بھیجنا چاہتے ہیں واللہ میں تو " امید " سے ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا واپس چلی جاؤ یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے چنانچہ جب اس کے یہاں بچہ پیدا ہوچکا تو وہ بچے کو اٹھائے ہوئے پھر آگئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے نبی! یہ بچہ پیدا ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اسے دودھ پلاؤ چنانچہ جب اس نے اس کا دودھ بھی چھڑا دیا تو وہ بچے کو لے کر آئی اس وقت بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا اور کہنے لگی اے اللہ کے نبی! میں نے اس کا دودھ بھی چھڑا دیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ ایک مسلمان کے حوالے کردیا اور اس عورت کے لئے گڑھا کھودنے کا حکم دے دیا پھر اسے سینے تک اس میں اتارا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس پر پتھر مارنے کا حکم دیا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا اس سے خون نکل کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے رخسار پر گرا انہوں نے اسے سخت سست کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا رکو خالد! اسے برا بھلا مت کہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس وصولی میں ظلم کرنے والا کرلے تو اس کی بھی بخشش ہوجائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقصة سب خالد بن الوليد الغامدية، وقصة انتظار الفطام للرجم تفرد بهما بشير فى حديث بريدة وهو مختلف فيه
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير بن المهاجر ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعته يقول: " تعلموا سورة، فإن اخذها بركة، وتركها حسرة، ولا يستطيعها البطلة"، قال: ثم مكث ساعة، ثم قال:" تعلموا سورة عمران، فإنهما الزهراوان يظلان صاحبهما يوم القيامة، كانهما غمامتان، او غيايتان، او فرقان من طير صواف، وإن القرآن يلقى صاحبه يوم القيامة حين ينشق عنه قبره كالرجل الشاحب، فيقول له: هل تعرفني؟ فيقول: ما اعرفك، فيقول: انا صاحبك القرآن الذي اظماتك في الهواجر، واسهرت ليلك، وإن كل تاجر من وراء تجارته، وإنك اليوم من وراء كل تجارة، فيعطى الملك بيمينه، والخلد بشماله، ويوضع على راسه تاج الوقار، ويكسى والداه حلتين لا يقوم لهما اهل الدنيا، فيقولان: بم كسينا هذه؟ فيقال: باخذ ولدكما القرآن، ثم يقال له: اقرا، واصعد في درجة الجنة وغرفها، فهو في صعود ما دام يقرا، هذا كان، او ترتيلا" .حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ الْمُهَاجِرِ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " تَعَلَّمُوا سُورَةَ، فَإِنَّ أَخْذَهَا برَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبطَلَةُ"، قَالَ: ثُمَّ مَكَثَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" تَعَلَّمُوا سُورَةَ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا الزَّهْرَاوَانِ يُظِلَّانِ صَاحِبهُمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ غَيَايَتَانِ، أَوْ فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ يَلْقَى صَاحِبهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يَنْشَقُّ عَنْهُ قَبرُهُ كَالرَّجُلِ الشَّاحِب، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَعْرِفُنِي؟ فَيَقُولُ: مَا أَعْرِفُكَ، فَيَقُولُ: أَنَا صَاحِبكَ الْقُرْآنُ الَّذِي أَظْمَأْتُكَ فِي الْهَوَاجِرِ، وَأَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَإِنَّ كُلَّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَتِهِ، وَإِنَّكَ الْيَوْمَ مِنْ وَرَاءِ كُلِّ تِجَارَةٍ، فَيُعْطَى الْمُلْكَ بيَمِينِهِ، وَالْخُلْدَ بشِمَالِهِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ، وَيُكْسَى وَالِدَاهُ حُلَّتَيْنِ لَا يُقَوَّمُ لَهُمَا أَهْلُ الدُّنْيَا، فَيَقُولَانِ: بمَ كُسِينَا هَذِهِ؟ فَيُقَالُ: بأَخْذِ وَلَدِكُمَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ، وَاصْعَدْ فِي دَرَجَةِ الْجَنَّةِ وَغُرَفِهَا، فَهُوَ فِي صُعُودٍ مَا دَامَ يَقْرَأُ، هَذًّا كَانَ، أَوْ تَرْتِيلًا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور غلط کار لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا سورت بقرہ اور آل عمران دونوں کو سیکھو کیونکہ یہ دونوں روشن سورتیں اپنے پڑھنے والوں پر قیامت کے دن بادلوں سائبانوں یا پرندوں کی دو ٹولیوں کی صورت میں سایہ کریں گی اور قیامت کے دن جب انسان کی قبر شق ہوگی تو قرآن اپنے پڑھنے والے سے " جو لاغر آدمی کی طرح ہوگا ملے گا اور اس سے پوچھے گا کہ کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا کہ میں تمہیں نہیں پہچانتا، قرآن کہے گا کہ میں تمہارا وہی ساتھی قرآن ہوں جس نے تمہیں سخت گرم دو پہروں میں پیاسا رکھا اور راتوں کو جگایا ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہوتا ہے آج بھی اپنی تجارت کے پیچھے ہوگے چنانچہ اس کے دائیں ہاتھ میں حکومت اور بائیں ہاتھ میں دوام دے دیا جائے گا اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھاجائے گا اور اس کے والدین کو ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جن کی قیمت ساری دنیا کے لوگ مل کر بھی ادا نہ کرسکیں گے اس کے والدین پوچھیں گے کہ ہمیں یہ لباس کس بنا پر پہنایا جا رہا ہے؟ تو جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن حاصل کرنے کی برکت سے پھر اس سے کہا جائے کا کہ قرآن پڑھنا اور جنت کے درجات اور بالاخانوں پر چڑھنا شروع کردو چنانچہ جب تک وہ پڑھتا رہے گا چڑھتا رہے گا خواہ تیزی کے ساتھ پڑھے یا ٹھہر ٹھہر کر۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير بن مهاجر ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إن امتي يسوقها قوم عراض الاوجه، صغار الاعين، كان وجوههم الحجف، ثلاث مرار حتى يلحقوهم بجزيرة العرب، اما السائقة الاولى، فينجو من هرب منهم، واما الثانية، فيهلك بعض، وينجو بعض، واما الثالثة، فيصطلون كلهم من بقي منهم"، قالوا: يا نبي الله، من هم؟ قال:" هم الترك، قال: اما والذي نفسي بيده ليربطن خيولهم إلى سواري مساجد المسلمين" ، قال: وكان بريدة لا يفارقه بعيران او ثلاثة، ومتاع السفر والاسقية، يعد ذلك للهرب مما سمع من النبي صلى الله عليه وسلم من البلاء من امراء الترك.حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ مُهَاجِرٍ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أُمَّتِي يَسُوقُهَا قَوْمٌ عِرَاضُ الْأَوْجُهِ، صِغَارُ الْأَعْيُنِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْحَجَفُ، ثَلَاثَ مِرَارٍ حَتَّى يُلْحِقُوهُمْ بجَزِيرَةِ الْعَرَب، أَمَّا السَّائقَةُ الْأُولَى، فَيَنْجُو مَنْ هَرَب مِنْهُمْ، وَأَمَّا الثَّانِيَةُ، فَيَهْلِكُ بعْضٌ، وَيَنْجُو بعْضٌ، وَأَمَّا الثَّالِثَةُ، فَيُصْطَلُونَ كُلُّهُمْ مَنْ بقِيَ مِنْهُمْ"، قَالُوا: يَا نَبيَّ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ قَالَ:" هُمْ التُّرْكُ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لَيَرْبطُنَّ خُيُولَهُمْ إِلَى سَوَارِي مَسَاجِدِ الْمُسْلِمِينَ" ، قَالَ: وَكَانَ برَيْدَةُ لَا يُفَارِقُهُ بعِيرَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ، وَمَتَاعُ السَّفَرِ وَالْأَسْقِيَةُ، يُعْدَ ذَلِكَ لِلْهَرَب مِمَّا سَمِعَ مِنَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبلَاءِ مِنْ أُمَرَاءِ التُّرْكِ.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کو چوڑے چہروں اور چھوٹی آنکھوں والی ایک قوم ہانک دے گی جس کے چہرے ڈھال کی طرح ہوں گے (تین مرتبہ فرمایا) حتیٰ کہ وہ انہیں جزیرہ عرب میں پہنچا دیں گے۔
سابقہ اولیٰ کے وقت تو جو لوگ بھاگ جائیں گے وہ بچ جائیں گے سابقہ ثانیہ کے وقت کچھ لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور کچھ بچ جائیں گے اور سابقہ ثالثہ کے وقت بچ جانے والے تمام افراد کھیت ہو رہیں گے لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی وہ کون لوگ ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ترکی کے لوگ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے وہ اپنے گھوڑوں کو مسلمانوں کی مسجدوں کے ستونوں سے ضرور باندھیں گے ترکوں کے اس آزمائشی فتنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سننے کے بعد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے ساتھ دو تین اونٹ سامان سفر اور مشکیزے تیار رکھتے تھے تاکہ فوری طور پر وہاں سے روانہ ہوسکیں۔