حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، قال: حدثنا سعيد بن سلمة يعني ابن ابي الحسام ، حدثنا عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن عمرو بن عبد الرحمن ، عن عبادة بن الصامت ، انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ليلة القدر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في رمضان، فالتمسوها في العشر الاواخر، فإنها في وتر في إحدى وعشرين، او ثلاث وعشرين، او خمس وعشرين، او سبع وعشرين، او تسع وعشرين، او في آخر ليلة، فمن قامها ابتغاءها إيمانا واحتسابا، ثم وفقت له، غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْحُسَامِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي رَمَضَانَ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَإِنَّهَا فِي وَتْرٍ فِي إِحْدَى وَعِشْرِينَ، أَوْ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ، فَمَنْ قَامَهَا ابْتِغَاءَهَا إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ثُمَّ وُفِّقَتْ لَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ماہ رمضان میں ہوتی ہے اسے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو کہ وہ اس کی طاق راتوں ٢١، ٢٣، ٣٥، ٢٧، ٢٩ ویں یا آخری رات میں ہوتی ہے اور جو شخص اس رات کو حاصل کرنے کے لئے ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اور اسے یہ رات مل بھی جائے تو اس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: وما تأخره ، وهذا إسناد ضعيف، سعيد بن سلمة لين، وقد توبع، وعبدالله ابن محمد ضعيف، وعمر بن عبدالرحمن مجهول
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی دھاگہ بھی ہو تو واپس کردو اور مال غنیمت میں خیانت سے بچو، کیونکہ یہ قیامت کے دن خائن کے لئے شرمندگی ہوگی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن الحارث
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابن الصامت ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا نزل عليه الوحي، اثر عليه كرب لذلك، وتربد وجهه عليه الصلاة والسلام، فانزل الله تبارك وتعالى ذات يوم، فلما سري عنه، قال:" خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلا، الثيب بالثيب، والبكر بالبكر، الثيب جلد مائة ورجم بالحجارة، والبكر جلد مائة ثم نفي سنة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنِ ابْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، أَثَّرَ عَلَيْهِ كَرَبَ لِذَلِكَ، وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ذَاتَ يَوْمٍ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ:" خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، الثَّيِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ وَرَجْمٌ بِالْحِجَارَةِ، وَالْبِكْرُ جَلْدُ مِائَةٍ ثُمَّ نَفْيُ سَنَةٍ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے وقت شدت کی کیفیت ہوتی تھی اور روئے انور کا رنگ بدل جاتا تھا ایک دن وحی نازل ہوئی اور وہ کیفیت دور ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر تنگی اور آسانی اور چستی وسستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے کی شرط پر بیعت کی تھی نیز یہ کہ کسی معاملے میں اس کے حقدار سے جھگڑا نہیں کریں گے جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، عن علي بن رباح ، انه سمع جنادة بن ابي امية ، يقول: سمعت عبادة بن الصامت ، يقول: إن رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، اي العمل افضل؟ قال: " الإيمان بالله، وتصديق به، وجهاد في سبيله , قال: اريد اهون من ذلك يا رسول الله , قال: السماحة والصبر , قال: اريد اهون من ذلك يا رسول الله , قال: لا تتهم الله تبارك وتعالى في شيء قضى لك به" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جُنَادَةَ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ، يَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " الْإِيمَانُ بِاللَّهِ، وَتَصْدِيقٌ بِهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ , قَالَ: أُرِيدُ أَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: السَّمَاحَةُ وَالصَّبْرُ , قَالَ: أُرِيدُ أَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: لَا تَتَّهِمِ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي شَيْءٍ قَضَى لَكَ بِهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اس کی تصدیق کرنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا سائل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اس سے نچلے درجے کے متعلق پوچھ رہاہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طبیعت کی نرمی اور صبر کرنا سائل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اس سے بھی نچلے درجے کے متعلق پوچھ رہا ہوں فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جو فیصلہ فرما لیا ہو اس میں اللہ تعالیٰ کے متعلق برا گمان نہ رکھو۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف من أجل أبن لهيعة، وقد توبع
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کے پہلو سے ایک بال توڑا اور فرمایا لوگو! خمس کو نکال کر میرے مال غنیمت میں سے اتنی مقدار بھی حلال ہے اور خمس بھی تم پر ہی لوٹا دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن عياش
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا کرو کیونکہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو غم اور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، مكحول لم يسمعه من أبى أمامة
حدثنا يحيى بن سعيد القطان ، عن يحيى بن سعيد الانصاري ، قال: " عبادة بن الصامت ابو الوليد بدري عقبي شجري وهو نقيب" . حدثنا يحيى بن سعيد القطان ، عن يحيى يعني ابن سعيد الانصاري ، قال: حدثني محمد بن يحيى بن حبان ، عن ابن محيريز ، عن رجل من بني كنانة يقال له المخدجي ، قال: كان بالشام رجل يقال له ابو محمد، قال: الوتر واجب , قال: فرحت إلى عبادة ، فقلت: إن ابا محمد يزعم ان الوتر واجب! قال: كذب ابو محمد، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خمس صلوات كتبهن الله تعالى على العباد، من اتى بهن لم يضيع منهن شيئا، جاء وله عهد عند الله ان يدخله الجنة، ومن ضيعهن استخفافا جاء ولا عهد له، إن شاء عذبه وإن شاء ادخله الجنة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: " عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ أَبُو الْوَلِيدِ بَدْرِيٌّ عَقَبِيٌّ شَجَرِيٌّ وَهُوَ نَقِيبٌ" . حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ يُقَالُ لَهُ الْمُخْدَجِيُّ ، قَالَ: كَانَ بِالشَّامِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو مُحَمَّدٍ، قَالَ: الْوَتْرُ وَاجِبٌ , قَالَ: فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَا مُحَمَّدٍ يَزْعُمُ أَنَّ الْوَتْرَ وَاجِبٌ! قَالَ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الْعِبَادِ، مَنْ أَتَى بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا، جَاءَ وَلَهُ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ ضَيَّعَهُنَّ اسْتِخْفَافًا جَاءَ وَلَا عَهْدَ لَهُ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ" .
یحییٰ بن سعد انصاری کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الولید ہے وہ بدری صحابی ہیں بیعت غقبہ اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے اور نقباء مدینہ میں شامل تھے۔ مخدجی " جن کا تعلق بنو کنانہ سے تھا کہتے ہیں کہ شام میں ایک انصاری آدمی تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ وتر واجب (فرض) ہیں وہ مخدجی ' حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد وتر کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت عبادہ نے فرمایا کہ ابو محمد سے غلطی ہوئی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں جو شخص انہیں اس طرح ادا کرے کہ ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہ کرے اور ان میں کا حق معمولی نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو انہیں اس طرح ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف فرما دے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا حميد ، عن انس ، عن عبادة بن الصامت ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يريد ان يخبرنا بليلة القدر، فتلاحى رجلان، فرفعت، فقال:" خرجت وانا اريد ان اخبركم بليلة القدر فتلاحى رجلان فرفعت، فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة" , حدثنا عبيدة ، وقال:" التمسوها في التاسعة التي تبقى".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ، فَرُفِعَتْ، فَقَالَ:" خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى رَجُلَانِ فَرُفِعَتْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ" , حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ ، وَقَالَ:" الْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ الَّتِي تَبْقَى".
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے گھر سے نکلے تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لئے نکلا تو دو آدمی آپس میں تکرار کر رہے تھے اس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو تم شب قدر کو (آخری عشرے کی) نویں ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کیا کرو۔